سیرت یا سیرۃ، موجودہ دور میں سیرت نبویہ یا سیرت نبوی یا سیرت النبی کی اصطلاح مسلمانوں کے ہاں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سوانح کے لیے خاص ہے۔ سیرت کے لغوی معنی طریقہ کار یا چلنے کی رفتار اور انداز کے ہیں۔
مقالات بسلسلۂ محمد | |
---|---|
محمد | |
باب محمد | |
ادوار
مدنی دور
اہل بیت
|
اردو اور فارسی سیرت، عربی سیرۃ کا لفظ عربی زبان کے جس مادے اور فعل سے بنا ہے اس کے لفظی معنی ہیں چل پھرنا، راستہ لینا، رویہ یا طریقہ اختیار کرنا، روانہ ہونا، عمل پیرا ہونا وغیرہ۔ اس طرح سیرت کے معنی حالت، رویہ، طریقہ، چال، کردار، خصلت اور عادت کے ہیں۔ اس سے اردو میں تعمیر سیرت، سیرت سازی، پختگی سیرت، نیک سیرت، بد سیرت اور حسن سیرت وغیرہ کے الفاظ مستعمل ہیں۔
لفظ سیرت واحد کے طور پر اور بعض دفعہ اپنی جمع سیر کے ساتھ اہم شخصیات کی سوانح حیات اور اہم تاریخی واقعات کے بیان کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ مثلاً کتابوں کے نام سیرت عائشہ یا سیرت المتاخرین وغیرہ۔
کتب فقہ میں السیر جنگ اور قتال سے متعلق احکام کے لیے مستعمل ہے۔
چونکہ آنحضرت کی سیرت کے بیان میں غزوات کا ذکر خاص اہمیت رکھتا ہے اس لیے ابتدائی دور میں کتب سیرت کو عموماً مغازی و سیر کی کتابیں کہا جاتا تھا جبکہ لفظ مغازی مغزی کی جمع ہے جس کے معنی جنگ(غزوہ) کی جگہ یا وقت کے ہیں لیکن اب سیرت کی ترکیب ہی مستعمل ہے۔
قرآن کریم میں لفظ سیرۃ صرف ایک جگہ آیا ہے۔
سَنُعِيدُھَا سِيرَتَھَا الْاُولَیO سورۃ طہ:آیت نمبر 21
ہم اسے ابھی اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گےo ترجمہ از عرفان القرآن
اس آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا (لاٹھی) کے سانپ بن جانے کے بعد دوبارہ اصلی حالت میں آجانے کی طرف اشارہ ہے لہذا یہاں لفظ سیرۃ حالت اور کیفیت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
لفظ سیرت اب بطور اصطلاح صرف آنحضرت کی مبارک زندگی کے جملہ حالات کے بیان کے لیے مستعمل ہے جبکہ کسی اور منتخب شخصیت کے حالات کے لیے لفظ سیرت کا استعمال قریباً متروک ہو چکا ہے۔ اب اگر مطالعہ سیرت یا کتب سیرت جیسے الفاظ کے ساتھ رسول، نبی، پیغمبر یا مصطفی کے الفاط نہ بھی استعمال کیے جائیں تو ہر قاری سمجھ جاتا ہے کہ اس سے مراد آنحضرت کی سیرت ہی ہے بلکہ بعض دفعہ لفظ سیرت کو کتاب کے مصنف کی طرف مضاف کر کے بھی یہی اصطلاحی معنی مراد لیے جاتے ہیں جیسے سیرت ابن ہشام کہ اس کا مطلب ابن ہشام کے حالات زندگی نہیں بلکہ آنحضرت کے حالات ہیں جو کتاب کے مصنف ابن ہشام نے جمع کیے ہیں۔ اسی طرح موجودہ دور میں جلسہ سیرت، سیرت کانفرنس، مقالات سیرت، اخبارات و رسائل کے سیرت نمبر وغیرہ بکثرت الفاظ مستعمل ہیں۔ ان تمام تراکیب میں لفظ سیرت کے معنی ہمیشہ سیرت النبی ہی ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ ادب و احترام کے اظہار کے لیے اس لفط کے ساتھ کسی صفت کا اظہار کر دیتے ہیں جیسے سیرت طیبہ، سیرت مطہرہ اور سیرت پاک وغیرہ۔
کسی علم خصوصاً جس کا تعلق تاریخ سے ہو، اس کے مآخذ سے مراد وہ کتابیں، روایات اور آثار وغیرہ ہیں جن میں اس علم کے متعلق سب سے پہلے بات کی گئی ہو یا جن میں اس علم کے متعلق معلومات سب سے پہلے جمع کی گئی ہوں۔ کسی تاریخی شخصیت کے بارے میں معلومات کا اہم مآخذ وہ کتاب یا کتابیں ہوں گی جو اس کی زندگی میں اِرقام کی گئی ہوں یا اس کے بعد قریب ترین زمانے میں اِرقام کی گئی ہوں اور جن میں زیادہ سے زیادہ مواد یکجا جمع کیا گیا ہو یا اس مواد کے جمع کرنے میں علمی تگ و دو اور تحقیقی چھان بین سے کام لیا گیا ہو۔ اس لحاظ سے سیرت طیبہ کے اہم بنیادی مآخذ حسب ذیل بنتے ہیں۔
سیرت طیبہ کا اصل اور سب سے زیادہ صحیح اور مستند مآخذ قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید دو طرح سے سیرت کے مآخذ کا کام دیتا ہی۔ الف۔ اس میں آنحضرت کی مبارک زندگی کے متعدد واقعات، غزوات اور بعض دیگر پیش آمدہ حالات کا ذکر ہے۔ کہیں تفصیل اور کہیں اجمالی اشارات موجود ہیں۔ بعض لوگوں نے صرف قرآن کریم میں صراحتہً یا کنایتہً بیان کردہ واقعات سیرت کی ترتیب و جمع سے سیرت پر کتابیں تالیف کی ہیں۔ مثلاً محمد عزت دروازہ کی کتاب [[سیرۃ الرسول (صورۃ مقتبسہ من القرآن) جو دو جلدوں میں ہے۔
ب۔ قرآن کریم میں وہ تمام تعلیمات ہیں جن کو آحضرت نے عملاً نافذ کیا۔ اسی طرح معاصر کفار کے بعض اعتراضات اور ان کے جوابات مذکور ہیں۔ قرآن کریم کی اس قسم کی آیات کی تفصیل اور زمانہ یا موضع نزول کے بارے میں سیرت طیبہ کے واقعات کی طرف رجوع کرنا ضروری ہو جاتا ہی۔ گویا قرآن کریم سیرت طیبہ کے بارے میں کچھ تفصیلی معلومات بھی دیتا ہے اور اجمالی اشارات کے ذریعے سے واقعات سیرت کی اصل کی نشان دہی کر کے اس کی تفصیلات جاننے پر آمادہ بھی کرتا ہے۔
قرآن کریم کو رسول اللہ نے کس طرح سمجھا اور اسے کس طرح نافذ کیا، اس کی تفصیلات ہی کتب حدیث کا اصل موضوع ہے ۔ حدیث پاک کے مجموعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے احکام، تعلیمات، خطبات، مواعظ اور قضایا یعنی قانونی فیصلے وغیرہ ہی بیان نہیں ہوئے بلکہ بعض نہایت اہم واقعات سیرت بھی بیان ہوئے ہیں۔ چونکہ حدیث کی روایت و نقل میں عام کتب تاریخ کی نسبت زیادہ تحقیق و چھان بین سے کام لیا جاتا ہے، اس لیے کتب حدیث میں بیان کردہ واقعات سیرت قرآن کے بعد باقی تمام مآخذ سیرت سے زیادہ مستند اور زیادہ قابل اعتماد ہیں۔
حرمین سے مراد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہے۔ اسلام میں ان دونوں شہروں کو جو اہمیت حاصل ہے اس کی بنا پر بعض علما نے خاص ان شہروں کی تاریخ اور ان کے اہم تاریخی مقامات سے متعلق معلومات کو مستقل تالیفات کا موضوع بنایا ہی۔ اس قسم کی کتابوں میں بعض مقامات کے ذکر کی مناسبت سے سیرت طیبہ کے بعض اہم واقعات بھی ملتے ہیں بلکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے تواریخ حرمین پر اِرقام کی گئی کتابوں میں سیرت نبوی سے متعلق ایسی معلومات بھی مل جاتی ہیں جو عام کتب تاریخ و سیرت میں مذکور نہیں ہوتیں۔
ہرچند کہ اس قسم کی کتابیں اب بھی اِرقام کی جا رہی ہیں تاہم اس فن کی اہم بنیادی کتابیں حسب ذیل ہیں۔
مسلمانوں نے فن تاریخ نویسی کو بڑی ترقی دی اور عالمی تاریخ کو عموماً اور تاریخ اسلام کو خصوصاً بڑی بڑی ضخیم کتابوں میں جمع کیا۔ اس قسم کی کتابوں میں سیرت طیبہ کا مذکور ہونا لازمی تھا۔ اس قسم کی چند نمایاں اور بنیادی کتابیں، جو سیرت طیبہ کے لیے بھی اہم مآخذ و مصدر ہیں، درج ذیل ہیں۔
عام اور مسلسل تاریخ اسلام (سن وار) اِرقام کرنے کے علاوہ بعض مسلمان اہل علم نے مشہور شخصیتوں کی اقسام الگ الگ کر کے ہر گروہ یا طبقے کے مشاہیر کے حالات الگ الگ کتابوں میں جمع کیے مثلاً صحابہ، حفاظ و قراء، شعراء، علمائے لغت و نحو، اطباء وغیرہ۔ اس قسم کی کتابیں عموماً طبقات کے نام سے اِرقام کی گئی ہیں مثلاً طبقات ابن سعد، طبقات القراء، طبقات الاطباء وغیرہ۔ اس قسم کی کتابوں، جن کا تعلق بالخصوص صحابہ کرام سے ہے، ان میں سیرت طیبہ پر بھی بہت کچھ مواد ملتا ہے۔
اولین کتب سیرت جو یا تو آنحضرت کے قریب ترین دور میں اِرقام کی گئیں اور آنے والوں کے لیے مآخذ و مصادر بنیں یا اِن اولین کتب سیرت کی بنیاد پر تالیف کی جانے والی اولین ضخیم اور جامع کتب سیرت جن میں شامل مواد متعدد کتب سے جمع کیا گیا۔ ان میں سے بہت سی کتب سیرت ناپید ہو چکی ہیں تاہم ان کا ذکر اور ان سے اخذ کردہ مواد کے حوالے بعد کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ اسی طرح بہت سی ایسی ابتدائی کتب سیرت ہیں کہ جن کے قلمی نسخے بعض بڑے کتب خانوں میں ملتے ہیں لیکن تاحال وہ شائع نہیں ہو سکیں۔
ایسی اولین کتب سیرت جو زمانے کی دست برد سے محفوظ ہیں اور چھپی ہوئی مل جاتی ہیں یا چھپ ضرور چکی ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:
مسلم و غیر مسلم ہر اس شخص کے لیے سیرت نبوی کا مطالعہ از حد ضروری ہے جو دین اسلام کو جاننے، سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا خواہش مند ہے۔
اہل اسلام کے حوالے سے مطالعہ سیرت کی ضرورت و اہمیت کے نکات حسب ذیل ہیں:
مسلمانوں کے لیے سیرت کا مطالعہ محض ایک علمی مشغلہ ہی نہیں بلکہ اہم دینی ضرورت ہے جبکہ غیر مسلموں کے لیے سیرت کے مطالعہ کی نوعیت اس سے کچھ مختلف ہو سکتی ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات، آپ کی تعلیمات اور آپ کی حیات طیبہ کی جملہ معلومات آپ کے اصحاب، آپ کی ازواج اور دیگر اہل بیت کے پاس منتشر صورت میں موجود تھیں۔ چونکہ آپ بطور رسول اللہ ان سب کی توجہ کا مرکز تھے اس لیے یہ تمام اصحاب باہمی میل ملاپ اور گفت و شنید سے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی سے متعلقہ مختلف قسم کی معلومات کا تبادلہ بھی کرتے جیسے کسی تازہ ترین وحی، کسی واقعہ یا کسی فرمان کا باہمی تبادلہ وغیرہ۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال فرمانے کے بعد آپ کے پیروکاروں کے دل میں اپنے ہادی و پیشوا کی ذاتِ مبارک، آپ کے اخلاق و عادات اور آپ کی زندگی سے متعلق باتیں دریافت کرنے کا شوق بڑھتا چلا گیا۔ اس شوق و جستجو سے رفتہ رفتہ روایات کا ایک وسیع ذخیرہ ہونا شروع ہو گیا۔ صحابہ کے بعد تابعین کے دور نہ صرف روایات جمع کرنے کا کام ہوا بلکہ ان روایات کو مختلف طریقوں سے منظم کرنے کا کام بھی شروع ہو گیا مثلاً ایک تابعی مختلف صحابہ کرام سے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وعظ، تقریر اور نصائح کے حوالے سے عام روایات کو یاد کرتا یا اِرقام کر لیتا تو دوسرا تابعی اپنے ملنے والے صحابہ کرام سے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے غزوات اور دیگر واقعات دریافت کر کے اِرقام کر لیتا۔ اس طرح ایک ایک تابعی کے پاس دس بیس یا پچاس صحابہ کرام کے ذریعے سے حاصل ہونے والی معلومات جمع ہوتی گئیں۔ فتوحات کے نتیجہ میں جب صحابہ کرام ایران، عراق، شام اور مصر وغیرہ میں پھیلے تو ان سے معلومات جمع کرنے کا کام ان علاقوں میں بھی جاری رہا۔
تابعین کے بعد تبع تابعین کے دور میں صحابہ کرام اور تابعین سے جمع شدہ روایات اور بیسیوں چھوٹی چھوٹی کتابوں میں ذخیرہ شدہ معلومات کو مناسب تقسیم اور ترتیب دے کر بڑی اور جامع کتب مرتب ہوئیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اسی نسل کے زمانے میں قرآن، حدیث اور فقہ کے بنیادی علوم کے ماتحت ان کے ذیلی علوم اور ان علوم میں مہارت کے حامل مخصوص افراد سامنے آئے۔ ان افراد نے جب تفسیر، حدیث، تاریخ، مغازی و سیرت کے بڑے بڑے مجموعات مرتب کیے تو ان کی مقبولیت کے باعث ماقبل کے چھوٹے چھوٹے مجموعے متروک ہوتے چلے گئے تاہم ان چھوٹے مجموعوں کے حوالے بڑے مجموعوں اور جامع کتب میں بکثرت ملتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان جامع کتب کی تدوین کے زمانے تک یہ چھوٹے، مختصر مگر اصل مآخذ موجود تھے اور پڑھے پڑھائے جاتے تھے۔
تابعین اور تبع تابعین میں سے جن لوگوں نے سیرت و مغازی پر مواد جمع کیا اور ابتدائی کتابیں اِرقام کیے جن کا ذکر بعد کی اِرقام کی ہوئی کتابوں میں ملتا ہے، ان میں سے مشہور لوگوں کے نام سنین وفات کی ترتیب سے پیش کیے جا رہے ہیں تا کہ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے کہ کس طرح سیرت نگاری کا عمل ایک تسلسل سے جاری رہا اور تفسیر، حدیث اور تاریخ کی طرح تیسری صدی ہجری کے آخر تک مکمل ہوا۔
نام | مؤلف | سنہ وفات | کیفیت |
---|---|---|---|
صحف | عروہ بن زبیر | 92ھ | لاپتہ |
صحف | ابان بن عثمان | 105ھ | لاپتہ |
السیرۃ | ابن شہاب زہری | 120ھ | لاپتہ |
مغازي | موسیٰ بن عقبہ | 141ھ | |
سیرت ابن اسحاق | ابن اسحاق | 151ھ | ابن ہشام نے جمع کی |
سیرت ابن ہشام | ابن ہشام | 218ھ | سیرت ابن اسحاق کا مواد |
مغازی | الواقدی | 208ھ | |
تاریخ الرسل والملوک | محمد بن جریر طبری | 310ھ | |
مروج الذہب و معادن الجوہر | مسعودی | 346ھ | |
السيرة النبويہ واخبار الخلفاء | محمد ابن حبان التمیمی | 354ھ | |
اسماء رسول الله اور ان کے معانی | احمد بن فارس | 395ھ | |
الدرر فی اختصار المغازی والسير | ابن عبد البر | 463ھ | |
جوامع السيرة | ابن حزم اندلسی | 456ھ | |
الروض الانف | امام سہیلی | 581ھ |
اس کے بعد سے تاحال سیرت کے انہی بنیادی مآخذ و مصادر اور دیگر علوم کی کتب سے استفادہ کرکے زیادہ بڑی، مفصل اور جامع کتب اِرقام کرنے کا کام مسلسل جاری و ساری ہے۔ نئی تالیفات اِرقام کرنے کے ساتھ ساتھ نایاب قلمی نسخوں کی اشاعت، سیرت کی بنیادی کتب یا مشہور کتب کے دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم، اہم ترین کتب سیرت کی شروحات یا خلاصے اِرقام کرنے کے حوالے سے بھی کام ہو رہا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مارگو لیوتھ (S. Margoluth) نے 1905ء میں آنحضور کے حالات پر مبنی ایک کتاب Muhammad and The First Rise of Islam میں اعتراف کیا کہ
” | حضرت محمد کے سیرت نگاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کو ختم کرنا ناممکن ہے لیکن اس میں جگہ پانا باعث شرف ہے۔ | “ |
اقوام متحدہ کے ثقافت و تہذیب اور تعلیم و تمدن سے متعلق ایک ذیلی ادارے یونیسکو UNESCO کے چند سال پہلے کی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق:
” | جس قدر کتب نبی اسلام کے بارے میں اِرقام کی گئی ہیں اس کا عشرِ عشیر بھی کسی ایک شخصیت کے بارے میں نہیں اِرقام کیا گیا۔ | “ |
1963ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں کتب سیرت کی ایک نمائش منعقد ہوئی جس میں پیش کردہ کتب کی فہرست کالج نے شائع کی تھی۔ اس میں دنیا کی گیارہ زبانوں کی آٹھ سو سے زائد کتابیں مذکور ہیں۔
سال 1974ء-1975ء میں حکومت پاکستان نے اسلام آباد میں سیرت کانفرنس کے موقع پر ایک نمائش کتب سیرت منعقد کرائی جس میں موجود کتابوں کی تعداد تین ہزار سے متجاوز تھی۔
ایک اور بین الاقوامی نمائش کتب سیرت میں صرف چودھویں صدی ہجری میں اِرقام کی جانے والی کتب سیرت رکھی گئی تھیں جن کی تعداد چار ہزار سے متجاوز تھی۔
بہائو الدین زکریا یونیورسٹی ملتان نے ارمغان حق کے نام سے دو جلدوں میں کتب سیرت کی ایک فہرست شائع کی تھی جس میں پندرہ زبانوں کی دو ہزار سے زائد کتابیں مذکور ہیں۔
سیرت پر ہونیوالا یہ کام نظم اور نثر دونوں میں دستیاب ہے۔ اگرچہ زیادہ کتب سیرت نثر میں ہی ہیں تاہم مختلف زبانوں میں منظوم کتب سیرت بھی اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں اور اگر صرف نعت کی کتابوں کو ہی لیا جائے تو ان کی فہرست پر بھی ایک رسالہ یا کتابچہ تیار ہو سکتا ہے۔
سیرت نگار سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے سیرت کے موضوع پر اِرقام کیا ہے۔
This article uses material from the Wikipedia اردو article سیرت نبوی, which is released under the Creative Commons Attribution-ShareAlike 3.0 license ("CC BY-SA 3.0"); additional terms may apply (view authors). تمام مواد CC BY-SA 4.0 کے تحت میسر ہے، جب تک اس کی مخالفت مذکور نہ ہو۔ Images, videos and audio are available under their respective licenses.
®Wikipedia is a registered trademark of the Wiki Foundation, Inc. Wiki اردو (DUHOCTRUNGQUOC.VN) is an independent company and has no affiliation with Wiki Foundation.