مشت زنی (عربی: استمناء باليد) کے حکم کے سلسلہ میں اہل سنت کے فقہا کا اختلاف ہے جبکہ اہل تشیع کے یہاں یہ بالاتفاق حرام ہے۔ سنی فقہا کی بڑی تعداد اس عمل کو حرام قرار دیتی ہے۔ نیز ان کے نزدیک مشت زنی سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن کفارہ واجب نہیں ہوتا۔ تاہم اس کی حرمت پر قرآن و سنت میں کوئی صریح دلیل نہیں ملتی۔ چنانچہ ابن حزم، جابر بن زید، شوکانی، صنعانی اور البانی نے اسے مکارم اخلاق کے منافی اور محض مکروہ بتایا ہے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ بلا ضرورت مشت زنی حرام ہے، البتہ جب شہوت کا غلبہ ہو اور زنا، مرض یا کسی فتنہ میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو تو یہ عمل جائز ہے۔ یہ بعض حنابلہ اور حنفیہ کا قول ہے۔ مذکورہ تمام آرا مرد و خواتین دونوں پر منطبق ہوتی ہیں۔ ذیل میں مشت زنی کے متعلق فقہا کے مختلف نظریات کی تفصیل درج ہے۔
سنی مالکی اور شافعی فقہ کے مطابق یہ فعل حرام (ممنوع) ہے۔
یہ عملاہل تشیع کے نزدیک بھی حرام سمجھا جاتا ہے۔
’’مشت زنی فعل نا پاک حرام و ناجائز ہے حدیث شریف میں ہے:جلق لگانے والا(یعنی مشت زنی کرنے والا)پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے(امالی ابن بشران ،حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ) صفحہ 244 پر فرماتے ہیں:حشر میں ایسوں کی ہتھیلیاں گابھن(یعنی حاملہ)اٹھیں گی جس سے مجمع اعظم میں ان کی رسوائی ہوگی‘‘۔
امام اعظم امام ابو حنیفہ( نعمان بن ثابت ) کے نزدیک گناہ سے بچنے کے لیے بوقت ضرورت کی جا سکتی ہے اور خدا معاف فرمادے گا۔
This article uses material from the Wikipedia اردو article مشت زنی اور اسلام, which is released under the Creative Commons Attribution-ShareAlike 3.0 license ("CC BY-SA 3.0"); additional terms may apply (view authors). تمام مواد CC BY-SA 4.0 کے تحت میسر ہے، جب تک اس کی مخالفت مذکور نہ ہو۔ Images, videos and audio are available under their respective licenses.
®Wikipedia is a registered trademark of the Wiki Foundation, Inc. Wiki اردو (DUHOCTRUNGQUOC.VN) is an independent company and has no affiliation with Wiki Foundation.