حج: اسلام کے پانچ ارکان میں سے پانچواں رکن

مسلمان ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 8 سے 12 تاریخ کو سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ کی زیارت کے لیے حاضر ہو کر وہاں جو مخصوص عبادت انجام دیتے ہیں، اس مجموعہ عبادات کو اسلامی اصطلاح میں حج اور ان انجام دی جانے والی عبادات کو مناسک حج کہتے ہیں۔ دین اسلام میں حج ہر صاحب استطاعت بالغ مسلمان پر زندگی بھر میں ایک مرتبہ فرض ہے، جیسا کہ قرآن مقدس میں ہے: وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ۔ حج اسلام کے 5 ارکان میں سب سے آخری رکن ہے، جیسا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے: «اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زكوة دينا، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا۔» مناسک حج کی ابتدا ہر سال 8 ذوالحجہ سے ہوتی ہے، حاجی متعین میقات حج سے احرام باندھ کر کعبہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوتے ہیں، وہاں پہنچ کر طواف قدوم کرتے ہیں، پھر منی روانہ ہوتے ہیں اور وہاں یوم الترویہ گزار کر عرفات آتے ہیں اور یہاں ایک دن کا وقوف ہوتا ہے، اسی دن کو یوم عرفہ، یوم سعی، عید قربانی، یوم حلق و قصر وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد حجاج رمی جمار (کنکریاں پھینکنے) کے لیے جمرہ عقبہ جاتے ہیں، بعد ازاں مکہ واپس آکر طواف افاضہ کرتے ہیں اور پھر واپس منی جاکر ایام تشریق گذارتے ہیں۔ اس کے بعد حجاج دوبارہ مکہ واپس آکر طواف وداع کرتے ہیں اور یوں حج کے جملہ مناسک مکمل ہوتے ہیں۔ حج کی عبادت اسلام سے قبل بھی موجود تھی، مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ حج گذشتہ امتوں پر بھی فرض تھا، جیسے ملت حنیفیہ (حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے پیروکاروں) کے متعلق قرآن میں ذکر ہے: وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ، ۔ حضرت ابراہیم اور ان کے بعد بھی لوگ حج کیا کرتے تھے، البتہ جب جزیرہ نما عرب میں عمرو بن لحی کے ذریعہ بت پرستی کا آغاز ہوا تو لوگوں نے مناسک حج میں حذف و اضافہ کر لیا تھا۔ ہجرت کے نویں سال حج فرض ہوا، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سنہ 10ھ میں واحد حج کیا جسے حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ اس حج میں حج کے تمام مناسک کو درست طور پر کر کے دکھایا اور اعلان کیا کہ: « خذوا عني مناسككم» ترجمہ: اپنے مناسک حج مجھ سے لے لو۔ نیز اسی حج کے دوران میں اپنا مشہور خطبہ حجۃ الوداع بھی دیا اور اس میں دین اسلام کی جملہ اساسیات و قواعد اور اس کی تکمیل کا اعلان کیا۔ زندگی میں ایک بار صاحب استطاعت پر حج فرض ہے اور اس کے بعد جتنے بھی حج کیے جائیں گے ان کا شمار نفل حج میں ہوگا؛ ابو ہریرہ نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے: « لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے، چناں چہ حج ادا کرو»، صحابہ نے سوال کیا: یا رسول اللہ! کیا ہر مسلمان پر ہر سال حج فرض ہے؟ تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاموش ہو گئے، دوبارہ سہ بارہ یہی سوال کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: «اگر میں ہاں کہہ دیتا تو واقعی فرض ہوجاتا اور ایسا تم لوگ نہیں کرپاتے»، پھر کہا «جتنا میں کہوں اتنا سنو، اس سے آگے نہ پوچھو۔» فرضیت حج کی پانچ شرائط ہیں: پہلی شرط مسلمان ہونا، غیر مسلموں پر حج فرض نہیں اور نہ ہی ان کے لیے مناسک حج ادا کرنا جائز ہے۔ دوسری شرط عقل ہے، پاگل مجنون پر حج فرض نہیں۔ تیسری شرط بلوغ ہے، نابالغ بچے پر حج فرض نہیں۔ چوتھی شرط آزادی ہے، غلام و باندی پر حج فرض نہیں۔ پانچویں شرط استطاعت ہے، استطاعت کا مفہوم یہ ہے کہ حج محض ان افراد پر فرض ہے جو اس کی جسمانی و مالی استطاعت رکھتے ہوں (عورت ہے تو شرعی محرم بھی لازم ہے)۔

حج
حج: تاریخ, فضیلت و اہمیت, فرضیت
2008ء میں حج کے موقع پر مسجد الحرام میں زائرین موجود
حیثیتفعال
تکرارسالانہ
مقاممکہ مکرمہ
متناسقات21°25′22.3″N 39°49′32.6″E / 21.422861°N 39.825722°E / 21.422861; 39.825722
ملکسعودی عرب
حاضری2,489,406 (2019)
حجاج کرام طواف کرتے ہوئے
حج: تاریخ, فضیلت و اہمیت, فرضیت
طواف اورسعی کا مقام

مسلمانوں کا ایمان ہے کہ حج میں بے شمار روحانی فوائد اور برکتیں رکھی گئی ہیں۔ مختلف مسلم مکاتب فکر جیسے سنی اور شیعہ ایک ہی طریقہ پر مناسک حج ادا کرتے ہیں، تاہم اہل تشیع ائمہ معصومین (شیعی عقیدہ کے مطابق)، اہل بیت اور بعض صحابہ کرام کی قبروں کی زیارت کو بھی مستحب سمجھتے ہیں۔

جون 2020ء میں، سعودی حکومت نے حج کو کووڈ-19 کی وجہ سے 2020ء میں منسوخ کرنے کا اعلان کیا اور صرف ان حجاج کی "بہت محدود تعداد" کو حج کرنے کا اعلان ہوا، جو سعودی عرب میں اس وقت رہائش پزیر ہیں۔

تاریخ

حج: تاریخ, فضیلت و اہمیت, فرضیت 
ہاجرہ و اسماعیل کی ایک تخیلی تصویر۔

آغاز حج کی تاریخ بعثت محمدی سے ہزاروں سال قبل ابراہیم علیہ السلام کے دور میں ملتی ہے۔ اسلامی روایات کے مطابق، جب ابراہیم علیہ السلام صحراء شام میں آئے تو ان کے ہاں باندی ہاجرہ سے ایک لڑکا اسماعیل ہوا، یہ دیکھ کر ان کی بیوی سارہ انتہائی غمژدہ ہوگئیں، کیونکہ ان کے یہاں کوئی اولاد نرینہ موجود نہیں تھی اور سارہ حضرت ابراہیم کو ان کی باندی کے حوالہ سے تنگ کرنے لگیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ معاملہ بارگاہ الہی میں پیش کیا، وہاں سے حکم ہوا کہ ہاجرہ اور اسماعیل کو دوسرے مقام پر منتقل کر دیں، حضرت ابراہیم نے دریافت کیا: "انھیں کس جگہ لے کر جاؤں؟" ارشاد ہوا: "مکہ! میرا حرم، جسے میں نے زمین میں سب سے پہلے تخلیق کیا تھا"۔ بعد ازاں حضرت جبریل علیہ السلام براق لے کر حاضر ہوئے اور اس پر تینوں (ابراہیم، ہاجرہ و اسماعیل) کو سوار کر کے روانہ ہو گئے۔ حضرت ابراہیم جس سرسبز و شاداب خطہ سے گذرتے تو کہتے، جبریل! یہی جگہ ہے، لیکن جبریل کہتے، نہیں! ابھی اور آگے چلیں۔ مقام کعبہ پر پہنچ کر ہاجرہ اور اسماعیل کو اتار دیا وہاں اترنے کے بعد ان لوگوں کو ایک درخت نظر آیا، جس پر ہاجرہ علیہا السلام نے ایک چادر ڈال کر سائبان سا بنا لیا۔ چونکہ حضرت ابراہیم نے اپنی زوجہ سارہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ محض ان لوگوں کو چھوڑ کر واپس آجائیں گے، لہذا انھوں نے واپسی کا ارادہ کیا تو ہاجرہ نے کہا: آپ ہمیں ایسی جگہ چھوڑ کر کیوں جا رہے ہیں جہاں کوئی مونس ہے، نہ پانی اور کھیتی؟" ابراہیم علیہ السلام نے کہا: "یہ میرے رب کا حکم ہے" اور روانہ ہوتے ہوئے جب ذی طوی کے ایک پہاڑ پر پہنچے تو ان کی طرف منہ کر کے دعا کی: حج: تاریخ, فضیلت و اہمیت, فرضیت  رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ حج: تاریخ, فضیلت و اہمیت, فرضیت  حج: تاریخ, فضیلت و اہمیت, فرضیت ، ابراہیم واپس چلے گئے اور ہاجرہ و اسماعیل علیہما السلام اس بے آب و گیاہ زمین میں ٹھہر گئے۔

حج: تاریخ, فضیلت و اہمیت, فرضیت 
فتح مکہ کے بعد اہل ایمان کعبہ کا طواف کرتے ہوئے، دور عثمانی کی ایک تخیلی تصویر۔

جب دوپہر ہوئی تو اسماعیل علیہ السلام کو پیاس لگی، چناں چہ حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں نکلیں۔ اور مقام سعی پر پہنچ کر آواز لگائی: "اس وادی میں کوئی مونس ہے؟" اسی وقت اسماعیل ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئے تو وہ فوراً صفا پہاڑی پر چڑھ گئیں، تو انھیں وادی کے اندر پانی کا سراب نظر آیا، چناں چہ وہ دوڑتی ہوئی وادی میں اتریں اور مروہ تک پہنچ گئیں لیکن پانی نہیں ملا اور اسماعیل بھی ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ پھر انھیں صفا پہاڑی کی جانب سراب نظر آیا، تو پانی کی تلاش میں پھر وادی میں اتریں، لیکن جب اسماعیل نظر نہ آئے تو واپس صفا پہاڑ پر چڑھیں؛ اس طرح ہاجرہ علیہا السلام نے سات چکر لگائے، ساتویں چکر میں جب وہ مروہ پہاڑی پر تھیں تو انھیں اسماعیل کے قدموں کے نیچے پانی بہتا ہوا نظر آیا، وہ واپس ہوئیں اور چشمہ آب کے ارد گرد مٹی جمع کر کے بہتے پانی کو روکا، اسی لیے اس پانی کا نام زمزم پڑ گیا۔ اس وقت قبیلہ جرہم ذو المجاز اور عرفات میں فروکش تھا، مکہ میں پانی نکلنے کے بعد یہاں چرند پرند آنے جانے لگے، چناں چہ جرہم نے ان پرندوں کا تعاقب کیا اور بالآخر وہ ایک عورت اور بچے کے پاس پہنچے جو ایک درخت کے نیچے فروکش تھے اور پانی ان کے پاس سے بہہ رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر قبیلہ جرہم کے سردار نے کہا: "تم کون ہو؟ اور یہاں اس بچے کے ساتھ کیا کر رہی ہو؟"، حضرت ہاجرہ نے کہا کہ "میں ابراہیم خلیل اللہ کے فرزند کی ماں ہوں، یہ انہی کا بیٹا ہے اور اللہ نے ہمیں یہاں ٹھہرنے کا حکم دیا ہے"۔ ان لوگوں نے پوچھا کہ" کیا ہم لوگ آپ کے قریب یہاں پڑاؤ کر سکتے ہیں؟" انھوں نے کہا: "میں ابراہیم سے پوچھ لیتی ہوں"۔ تیسرے دن جب ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے تو ہاجرہ نے واقعہ سنایا، حضرت ابراہیم نے قبیلہ جرہم کو یہاں ٹھہرنے کی اجازت مرحمت فرمادی۔ چناں چہ پورا قبیلہ یہیں فروکش ہو گیا، ہاجرہ اور اسماعیل ان لوگوں سے خوب مانوس ہو گئے۔ جب ابراہیم دوسری بار آئے اور اتنے سارے افراد کو دیکھا تو انتہائی خوش ہوئے۔
حضرات ہاجرہ و اسماعیل علیہما السلام قبیلہ جرہم کے ساتھ ہی گذر بسر کرتے رہے، جب اسماعیل سن شعور کو پہنچ گئے تو اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو کعبہ کی تعمیر کا حکم دیا، کعبہ کی تعمیر اسی جگہ کرنا تھا جہاں آدم علیہ السلام پر قبہ نازل ہوا تھا، لیکن حضرت ابراہیم کو یہ علم نہیں تھا کہ کعبہ کس جگہ تعمیر کرنا ہے، کیونکہ مذکورہ قبہ طوفان نوح کے وقت اللہ نے اٹھا لیا تھا۔ لہذا اللہ تعالی نے جبریل کو بھیجا، وہ آئے اور حضرت ابراہیم کو مطلوبہ جگہ کی نشان دہی کی۔ بنیادیں جنت سے اتاری گئیں اور ان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ تعمیر کیا، تعمیر کے لیے حضرت اسماعیل ذی طوی سے پتھر لاتے تھے۔ اس کے بعد مقام حجر اسود کی نشان دہی کی گئی، چناں چہ وہاں سے حجر اسود کو نکال کر اسے اصل جگہ پر رکھا، اس تعمیر میں کعبہ کے دو دروازے رکھے گئے، ایک مشرق کی سمت اور دوسرا مغرب کی جانب، اس مغربی دروازہ کا نام مستجار رکھا۔ پھر اس پر اذخر کی پتیاں وغیرہ ڈالیں اور ہاجرہ علیہا السلام نے کعبہ کے دروازہ پر ایک چادر لٹکا دی۔ کعبہ کی تعمیر سے فراغت پر حضرات ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے حج کیا، آٹھ ذو الحجہ یوم الترویہ کو جبریل ان کے پاس آئے اور کہا: "ابراہیم! پانی یہاں سے بھر لو"، چونکہ منٰی اور عرفات میں پانی نہیں تھا اس لیے پانی یہیں سے لے جاتے تھے اور اسی وجہ سے اس دن کا نام یوم الترویہ پڑ گیا۔ جب ابراہیم علیہ السلام کعبہ کی تعمیر سے مکمل فارغ ہو گئے تو دعا کی: ﴿اے اللہ! اس شہر کو پرامن بنادے اور یہاں کے باشندگان میں سے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائیں، انھیں پھلوں سے روزی دے﴾۔
چناں چہ ابراہیم و اسماعیل اور دیگر انبیا علیہم السلام کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اہل ایمان ہر سال کعبہ کا حج کرتے تھے اور حج کی یہ عبادت اس وقت تک جاری رہی جب تک اہل عرب میں بت پرستی نہیں پھیلی تھی۔ پھر سردار مکہ عمرو بن لحی خزاعی کے زمانے میں جب بت پرستی کا رواج ہونے لگا، تو مناسک حج میں حذف و اضافہ ہونے لگا اور عبادت حج حنیفی طرز پر نہیں رہی۔ بعد ازاں عرب معاشرہ میں بت پرستی کے اثرات گہرے ہونے لگے تو وہ لوگ کعبہ کے اردگرد خودتراشیدہ بتوں اور اپنے معبودوں کے مجسمے نصب کرنے لگے اور مکہ کے بعض قبائل موسم حج میں تجارت بھی کرنے لگے، نیز بلا لحاظ مسلک و مذہب تمام قبائل کو حج بیت اللہ کی پوری اجازت دے دی گئی۔ تاہم بت پرستی پھیل جانے کے بعد بھی بعض افراد دین حنیف اور مسیحیت پر قائم تھے، ایسے افراد بھی حج کے لیے آیا کرتے تھے، پھر بعثت محمدی کے 9 یا 10 سال بعد مسلمانوں پر بھی حج فرض ہو گیا، جیسا کہ سورہ آل عمران میں ارشاد ہے: ﴿اور جنھیں استطاعت میسر ہے، ان پر اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے۔﴾ تاہم مسلمانوں نے 631ء تک حج نہیں کیا، 631ء میں جب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ فتح کیا تو مسجد حرام میں موجود تمام بتوں اور مجسموں کو ہٹا دیا اور اس کے بعد تمام مسلمانوں نے حج کے جملہ مناسک ادا کیے، اس دن سے حج کی یہ عبادت مستقل جاری ہے۔

فضیلت و اہمیت

حج کی فضیلیت میں سے پہلے اسے اسلام کے پانچ ستونوں (ارکان) میں سے ایک قرار دینا ہے، نیز محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حج کی فضیلت و اہمیت پر بہت سی احادیث مروی ہیں، جن میں مناسک حج ادا کرنے کے فضائل اور حاجی کو ملنے والے ثواب و انعام کا ذکر کیا گیا ہے۔ بخاری میں ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ تو کہا: «اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا»، پھر دریافت کیا گیا کہ: اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ تو کہا: «اللہ کی راہ میں جہاد کرنا»، پھر دریافت کیا گیا کہ: اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ تو کہا: «مقبول حج»۔ بخاری، مسلم، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ میں ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جس نے حج کیا اور فسق اور فحش کلام سے بچا تو وہ ایسا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔ صحیح مسلم میں ابن خزیمہ اور عمرو بن العاص سے روایات ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ حج ان گناہوں کو دفع کر دیتا ہے جو اس سے قبل ہو چکے ہوں۔ صحیح بخاری میں ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: «عمرہ کرنا دوسرے عمرہ تک گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور مقبول حج کا بدلہ سوائے جنت کے کچھ نہیں»۔ سنن نسائی میں ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: «بوڑھوں، کمزوروں اور عورتوں کا جہاد حج اور عمرہ ہے۔» عائشہ بنت ابی بکر سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حج کو عوروتوں کے لیے جہاد کا متبادل قرار دیا۔ صحیح مسلم میں عائشہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: « اللہ کے یہاں یوم عرفہ سے زیادہ کسی دن جہنم سے بندے آزاد نہیں کیے جاتے»۔

فرضیت

اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن حج بھی ہے، ان ارکان کو اسلام کے پانچ ستون بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن و سنت اور تاریخ اور مسلمانوں کا ہمیشہ سے حج پر عمل کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ نماز، روزہ اور زکوۃ کے جیسی اہم عبادت ہے۔ قرآن میں وَ لِلهِ عَلَي الناسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطاعَ إِلَيْهِ سَبيلاً (قرآن: سورۃ آل عمران:97)
ترجمہ: خدا کے لیے لوگوں پر حج بیت اللہ ہے جو شخص اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے: اسلام كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، يقينا محمد صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم اللہ كے رسول ہيں، نماز كى پابندى كرنا، زکوۃ ادا كرنا، رمضان كے روزے ركھنا اور بيت اللہ كا حج كرنا۔ ابو ہریرہ سے مروی ہے: میں نے پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اللہ و رسول پر ایمان لانا، عرض کی پھر کون سا؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد، پھر عرض کی تو فرمایا حج مبرور نبى كريم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا فرمان ہے: "يقينا اللہ تعالى نے تم پر حج فرض كيا ہے اس ليے تم حج كرو"۔

فرضیت کی شرائط

حج: تاریخ, فضیلت و اہمیت, فرضیت 
بیت اللہ اور مسجد حرام

حج فرض ہونے كى آٹھ شرطيں ہيں جب تک وہ سب نا پائی جائیں حج فرض نہیں ہوتا۔

  1. اسلام: حج صرف مسلمان ہی کر سکتا ہے، اگر استطاعت تھی مگر مسلمان نے حج نا کیا، پھر فقیر ہو گيا، تب بھی اس پر حج کا فرض باقی رہے گا۔
  2. دار الحرب: اگر دارالحرب میں ہو اور باقی شرائط پوری ہوں اور اسے اس بات کا علم ہو کہ حج اسلام میں ایک فرض ہے، تو اس پر تب ہی حج فرض ہو گا، اگر اس تک اسلام کی یہ تعلیم نا پہنچ سکی تھی، تو حج فرض نہیں۔
  3. بلوغت: حج صرف بالغ پر فرض ہوتا ہے، نابالغ اگر صاحب مال ہے تب بھی بالغ ہونے پر ہی حج فرض ہو گا، اگر بلوغت سے قبل حج كر بھى ليا تو اس كا حج صحيح ہے مگر یہ نفلى حج گنا جائے گا، ليكن بالغ ہونے كے بعد اسے فرض حج ادا كرنا ہوتا ہے۔
  4. عقل: صرف عاقل پر ہی حج فرض ہوتا ہے، مجنون پر نہیں۔
  5. آزاد: غلام یا باندی پر حج فرض نہيں اور اگر وہ حج كرے تو اے نفلی حج گنا جائے گا، اگر مالک نے آزاد کر دیا اب اگر اس کے پاس حج کی جملہ شرائط پائی جائیں تو اس پر حج فرض ہو جائے گا (کیونکہ اب وہ آزاد ہے)۔
  6. بدنی استطاعت: بدن سلامت ہو، نابینا، اپاہج، فالج زدہ یا ایسا بوڑھا جو خود سے چل نا سکتا ہو، سواری پر خود سے بیٹھ نا سکتا ہو، اس پر حج فرض نہیں۔ اگر تندرستی کی حالت میں حج فرض تھا، مکر ادا نا کیا، بعد میں بدنی استطاعت ختم ہوئی، تب بھی حج کا فرض باقی ہے، اب اس کی طرف سے حج بدل کیا جائے گا۔
  7. مالی استطاعت:ذاتی طور پر اتنا مال دار ہو کہ آنے اور جانے کے اخراجات پورے کر سکے اور یہ مال اس کی عام ضرورت سے زائد ہو۔
  8. وقت: اوپر مندرج شرائط حج کے مہینوں میں پوری ہوں تب ہی حج فرض ہو گا۔ اگر حج کے مہینے شروع ہونے سے پہلے غریب ہو گيا، مر گیا، اپاہج ہو گیا تو اس پر حج فرض نا رہا۔
  • اگر مرنے سے پہلے مرتد ہوا، پھر اسلام قبول کیا، تو شرائط پوری ہونے پر حج فرض ہو جائے گا، دوران میں حج ایسی غلطی کی، جس سے حج فاسد ہو گیا، تو اب بھی حج فرض ہے۔ دوبارہ درست طریقہ سے ادا کرنا ہو گا۔

اقسام

حج کی تین اقسام ہیں: حج تمتع، حج قران اور حج افراد۔

  • حج قران: حج قِران (قاف کے نیچے زیر) میں "لبیک بحج و عمرۃ" کہہ کر عمرہ اور حج کا احرام ایک ساتھ باندھا جاتا ہے پھر مکہ پہنچ کر طواف قدوم کرتے ہیں، لیکن اس کے بعد حلق یا قصر نہیں کیا جا سکتا، بلکہ حجاج کو بدستور احرام ہی میں رہنا ہو گا، پھر دسویں، گیارہویں یا بارہویں ذو الحجہ کو قربانی کرنے کے بعد حلق یا قصر کر کے احرام کھول سکتے ہیں۔ نیز حج قِران کرنے والے حجاج عمرہ کے لیے دوبارہ طواف و سعی نہیں کریں گے بلکہ حج کا طواف وسعی کافی ہوگی، جیسا کہ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عائشہ بنت ابی بکر سے کہا: «تمھارا کعبہ کا طواف اور صفا و مروہ کے درمیان میں سعی حج و عمرہ دونوں کے لیے کافی ہے»۔ احناف کے نزدیک حج قِران سب سے افضل حج ہے۔ قران کرنے والا حاجی قارِن کہلاتا ہے۔
  • حج تمتع: یہ حج محض آفاقی (حدود میقات سے باہر رہنے والے) ادا کر سکتے ہیں۔ اس میں حجاج ماہ ذو الحجہ کے پہلے دس دنوں میں عمرہ کی نیت کرتے ہیں، پھر میقات سے "لبیک بعمرہ" کہہ کر احرام باندھ لیتے ہیں اور مکہ روانہ ہوجاتے ہیں۔ فقہ جعفری کے مطابق، اس سفر میں عازمین حج (مرد) مکہ پہنچنے تک آسمان کے سایہ کے علاوہ کسی سایہ دار چیز مثلاً چھت یا گاڑیوں کی چھت کے نیچے نہیں بیٹھ سکتے، اگر کسی مجبوری کے بغیر کوئی حاجی (مرد) بیٹھ جائے تو اس پر کفارہ واجب ہوگا۔ مکہ پہنچنے کے بعد عمرہ ادا کرنے اور حلق و قصر کے بعد احرام کھول سکتے ہیں۔ پھر ایام حج یعنی 8 ذو الحجہ (یا اس سے قبل) احرام پہنتے ہیں، پھر حج کے تمام مناسک وقوف عرفہ، طواف افاضہ اور سعی وغیرہ مکمل کرتے ہیں۔ جو یہ حج کرے وہ حاجی متمتع کہلاتا ہے۔ حج تمتع حنابلہ اور شیعہ کے نزدیک سب سے افضل حج ہے، حج تمتع درست ہونے کی شرط یہ ہے کہ ایک ہی سال کے ماہ حج نیز ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج ادا کرے۔
  • حج افراد: اس حج میں عمرہ شامل نہیں ہے، عازمین حج اس میں "لبیک بحج" کہہ کر صرف حج کا احرام باندھتے ہیں، پھر مکہ پہنچ کر طواف قدوم کیا جاتا ہے اور حج کے وقت تک حجاج حالت اِحرام ہی میں رہتے ہیں، پھر وہ حج کے جملہ مناسک مکمل کرنے کے بعد ہی احرام کھولتے ہیں۔ اہل مکہ اور حل یعنی میقات اور حدود حرم کے درمیان میں رہنے والے باشندے (حلی) عموماً حج اِفراد کرتے ہیں (دوسرے ملک سے آنے والے عازمین (آفاقی) بھی حج افراد کر سکتے ہیں)۔ حج افراد شافعیہ اور مالکیہ کے یہاں سب سے افضل حج شمار کیا جاتا ہے، کیونکہ ان کے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج اِفراد ہی کیا تھا۔ حج افراد کرنے والے حاجی کو مُفرِد کہتے ہیں۔

مناسک

مواقیت

حج: تاریخ, فضیلت و اہمیت, فرضیت 
ميقات قرن المنازل۔
حج: تاریخ, فضیلت و اہمیت, فرضیت 
ميقات اہل مدینہ منورہ، مسجد ذوالحلیفہ

مواقیت حج کی دو اقسام ہیں: زمانی اور مکانی، زمانی میں حج کے مہینے شامل ہیں، حج کے مہینے یہ ہیں؛ شوال، ذو القعدہ اور ذوالحجہ، مناسک حج ذو الحجہ کی 8 سے 12 تاریخوں تک ہی ادا کیے جاتے ہیں۔

مواقیت مکانی جنہیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج و عمرہ کرنے والوں کو احرام پہننے کے لیے متعین کیا ہے، مندرجہ ذیل ہیں:

  • ذوالحلیفہ: مدینہ سے آنے والوں حاجیوں کے لیے، یہ اب بئر علی یا آبار علی کہلاتا ہے۔ یہ میقات مکہ مکرمہ سے سب سے زیادہ دور واقع ہے۔
  • جحفہ: شام، مصر اور افریقہ کوچک سے آنے والوں کے لیے۔ آج کل یہ مقام ختم ہو چکا ہے، چناں چہ اس مقام سے قریب شہر رابغ واقع ہے اور اب یہی شہر اس میقات کا متبادل ہے۔
  • قرن المنازل: نجد اور خلیج فارس کے ممالک سے آنے والوں کے لیے۔ یہ مکہ سے تقریباً 74 کلومیٹر دور ہے۔
حج: تاریخ, فضیلت و اہمیت, فرضیت 
مسجد میقات يلملم (سعدیہ)
  • یلملم: یمن سے آنے والوں کے لیے، ا س میقات کا نام تہامہ میں واقع یلملم نامی پہاڑ کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔
  • ذات عرق: عراق سے آنے والوں کے لیے۔ اس میقات کی تعیین دور نبوی کی بجائے عمر بن خطاب کے دور خلافت میں ہوئی۔
  • میقات اہل مکہ: اہل مکہ اپنے گھر یا مسجد حرام ہی سے احرام باندھ سکتے ہیں، البتہ عمرہ کا احرام باندھنے کے لیے انھیں حدود حرم سے باہر تنعیم یا عرفہ جانا ہوگا۔
  • وادی محرم: وہ میقات جہاں سے ان حجاج یا معتمرین کو احرام باندھنا ہوتا ہے جو طائف اور ہدا کے مشرق سے گذرتے ہیں۔ یہ عموماً اہل نجد ہوتے ہیں جو جبل کرا سے مکہ مکرمہ آتے ہیں۔
  • تنعیم: مکہ کی ایک مسجد جو اہل مکہ کے لیے میقات سمجھی جاتی ہے۔
  • مسجد جعرانہ: مکہ کی ایک مسجد جو جعرانہ میں واقع ہے، یہاں سے اہل مکہ عمرہ کرتے ہیں۔ مکہ مکرمہ کے شمال مشرقی جانب سے یہ حرم مکی کی حد ہے۔
  • ابراہیم مرسیا: بھارت و پاکستان وغیرہ سے سمندری راستے سے آنے والوں کے لیے۔

احرام

حج: تاریخ, فضیلت و اہمیت, فرضیت 
ایک حاجی، احرام کی حالت میں

احرام (الف کے نیچے زیر) ارکان حج میں سب سے پہلا رکن ہے، حج یا عمرہ کی نیت سے حدود میقات میں داخل ہونے سے قبل یا مقام میقات پر صرف دو چادروں سے جسم کو ڈھانپ لینا احرام اور احرام باندھنے والے افراد مُحرِم کہلاتے ہیں۔ احرام کے بغیر میقات کی حد پار کرنے پر دم واجب ہو جاتا ہے۔ دم سے مراد ایک بکری ذبح کرنا، یا تین دن کے روزے رکھنا یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ مقام میقات پر احرام پہننے سے قبل ناخن تراشنا، زیر ناف بال کاٹنا اور غسل کرنا مستحب ہے۔ خواتین کے لیے عام شرعی لباس ہی احرام ہوگا، البتہ وہ دستانے اور نقاب نہیں استعمال کر سکتیں، مرد و عورت دونوں پر دوران میں حج چہرہ کھلا رکھنا واجب ہے۔ احرام باندھ لینے کے بعد دو رکعت نماز ادا کی جاتی ہے۔ اس کے بعد حج و عمرہ کی نیت کی جاتی ہے۔

    ممنوعات احرام

احرام باندھ لینے کے بعد مُحرم پر کئی پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں، جیسے سلا ہوا کپڑا (مرد) نہیں پہن سکتا، سر پر ٹوپی، عمامہ یا رومال نہیں رکھ سکتا، خوشبو نہیں لگا سکتا۔ اپنی بیوی کو بوسہ دینا یا جماع کرنا، جنگلی جانور کا شکار کرنا، اس میں مدد کرنا یا جنگلی جانور کا گوشت یا انڈے خرید کر کھانا۔ اپنے یا کسی دوسرے کے ناخن یا سر کے بال کاٹنا، اپنے زیر ناف بال کاٹنا، مہندی یا خضاب لگانا وغیرہ، یہ سارے کام محرم پر حرام ہو جاتے ہیں۔

    جائز کام

مِسواک کرنا، انگوٹھی پہننا، بے خوشبو اور سُرمہ لگانا اور بغیر میل چُھڑائے غسل کرنا یا کپڑے دھونا، ٹوٹے ہوئے ناخُن جُدا کرنا، حجامہ، ختنہ، موذی جانور کو مارنا، سر یا منہ کے علاوہ دوسرے کسی زخمی حصہ پر پٹی باندھنا، پالتو جانور ذبح کرنا یا پکا کر کھانا جائز ہے۔

حج: تاریخ, فضیلت و اہمیت, فرضیت 
خیموں کا شہر منی
حج: تاریخ, فضیلت و اہمیت, فرضیت 
جبل عرفات

یوم الترویہ

یوم الترویہ یعنی 8 ذو الحجہ کی ظہر سے لے کر 9 ذو الحجہ کی فجر تک پانچوں نمازیں حاجی کو منیٰ میں ادا کرنا ہوتی ہیں کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسا ہی کیا ہے۔ حاجى 8 ذو الحجہ كو مكہ يا حرم كے قريب سے احرام باندھتے ہیں اور حج كا احرام باندھنے سے پہلے غسل كرنا اور خوشبو لگانا سنت ہے۔ احرام باندھنے کے بعد حاجی تلبیہ پڑھتے ہیں۔

یوم عرفہ

یوم عرفہ یعنی 9 ذو الحجہ كا سورج طلوع ہونے كے بعد حاجی عرفات كى طرف روانہ ہوتے ہیں، وہاں ظہر اور عصر كى نمازيں جمع تقديم ( يعنى ظہر كے وقت ميں) اور قصر كر كے ادا كرتے ہیں، مگر اس کی بعض شرائط ہیں۔ اس کی بھی اجازت ہے کہ حجاج اپنے اپنے خیموں میں ظہر کے وقت میں ظہر اور عصر کے وقت میں عصر کی نماز با جماعت ادا کریں۔ پھر غروب آفتاب تک ذکر اللہ اور دعا و استغفار كرنے كى زيادہ سے زيادہ كوشش کی جاتی ہے۔ اس دن عرفات کے میدان میں ٹھہرنے کو وقوف عرفات کہا جاتا ہے اور اصل حج کا دن یہی ہوتا ہے، یعنی جو شخص وقوف عرفات کے علاوہ تمام مناسک ادا کر لے تب بھی اس کا حج ادا نہیں ہوگا۔

غروب آفتاب کے بعد حجاج مزدلفہ كى طرف روانہ ہوتے ہیں اور مغرب اور عشاء كى نمازيں مزدلفہ پہنچ كر ایک ساتھ ادا كرتے ہیں، پھر نماز فجر تک وہيں رات بسر كرتے اور طلوع آفتاب تک ذکر اللہ اور دعاؤں میں مشغول رہتے ہيں۔ حاجی کو نماز مغرب میدان عرفات میں نہیں پڑھنی ہوتی بلکہ عشاء کے وقت میں، مزدلفہ میں مغرب و عشاء ملا کر پڑھی جاتی ہیں۔ مغرب کا وقت ہوتے ہی حاجی کو مزدلفہ کی طرف جانا ہوتا ہے، جہاں وہ ایک ہی اذان اور ایک اقامت کے ساتھ مغرب و عشاء کی نماز ادا کرتے ہیں۔ حجاج کے لیے مزدلفہ میں رات گزارنا سنت موکدہ اور وقوف کرنا واجب ہے۔ وقوف کا وقت صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک ہے اس کے درمیان میں اگر ایک لمحہ بھی مزدلفہ میں گزار لیا تو واجب ادا ہو جاتا ہے۔

حج: تاریخ, فضیلت و اہمیت, فرضیت 
مزدلفہ

عید الاضحی

عید الاضحی یعنی 10 ذو الحجہ کو جمرہ عقبہ یعنی بڑے شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں، ہر كنكرى مارتے وقت اللہ اكبر کہا جاتا ہے اور يہ كنكرى تقريبا كھجور كى گھٹلى كے برابر ہوتی ہے۔

حج: تاریخ, فضیلت و اہمیت, فرضیت 
جمرہ عقبہ کا پرانا ستون، نچلی منزل سے
حج: تاریخ, فضیلت و اہمیت, فرضیت 
جمرہ عقبہ کا جدید ستون، نچلی منزل سے

اس کے بعد حاجی قربان گاہ جا کر قربانی کرتے ہیں۔ قربانی حج کے شکرانے میں قارن اور متمتع پر واجب ہے چاہے وہ فقیر ہی کیوں نہ ہوں۔ مفرد کے لیے یہ قربانی مستحب ہے، چاہے وہ غنی ہو، قربانی سے فارغ ہو کر حلق و قصر کروایا جاتا ہے۔

حاجی کو ان تین اُمور میں ترتیب قائم رکھنا واجب ہے۔

  1. سب سے پہلے رمی
  2. اس کے بعد قربانی
  3. پھر حلق یا قصر

مفرد پر قربانی واجب نہیں لہٰذا یہ رمی کے بعد حلق یا قصر کروا سکتا ہے۔

11، 12 ذو الحجہ

پھر منى ميں گيارہ اور بارہ ذو الحجہ كى راتيں بسر کی جاتی ہیں اور دونوں دن زوال شمس كے بعد تينوں جمرات پر شیطانوں كو كنكرياں ماری جاتی ہیں، ہر جمرہ پر شیطان كو سات كنكرياں مارتے ہیں اور چھوٹے شیطان سے كنكریاں مارنى شروع کی جاتی ہیں جو مكہ سے دور ہے، پھر درميانے كو مارتے ہیں جس کے بعد دعا کی جاتی ہے، آخر میں جمرہ عقبہ پر بڑے شیطان كو كنكرياں ماری جاتی ہیں مگر دعا نہیں مانگی جاتی۔

حاجی اگر 12 تاريخ كى كنكرياں مار لے اور وہ جلدى كرنا چاہے تو غروب آفتاب سے قبل منى سے نكل جائے اور اگر چاہے تو اس ميں تاخير كرتے ہوئے 13 تاريخ كى رات منى ميں بسر کرے اور زوال كے بعد تينوں جمرات كى رمى كرے، تيرہ تاريخ تک تاخير كرنا افضل ہے، واجب نہيں۔ اگر بارہ تاريخ كا سورج غروب ہو جائے اور وہ منى سے نہ نكل سكے تو اس صورت ميں اسے تيرہ تاريخ كى رات بھى منى ہی میں بسر كرنا ہو گا اور نزول كے بعد رمى جمرات كر كے منى سے آنا ہو گا۔ اس کے بعد حجاج پر طواف وداع لازم ہے، تاہم کسی عورت کو حیض یا نفاس ہو تو اس پر واجب نہیں۔

مناسک حج شیعی تناظر میں

حج: تاریخ, فضیلت و اہمیت, فرضیت 
مسجد امام علی نجف جہاں مشہور روایت کے مطابق حضرت علی ابن طالب دفن ہیں۔ اہل تشیع کے یہاں یہ ان اہم ترین مزاروں میں شمار کی جاتی ہے۔
حج: تاریخ, فضیلت و اہمیت, فرضیت 
مسجد حسین بن علی بن ابی طالب کربلا میں۔

اہل تشیع کے یہاں بھی حج کی تین اقسام ہیں، ان کے نزدیک بھی تمتع، قِران یا اِفراد میں سے کسی ایک طریقہ پر ہی حج ادا کیا جا سکتا ہے۔ حج قران کے متعلق محمد بن حسن سے مروی ہے: قران میں قربانی کا کرنا جانور لانا ضروری ہے، نیز مقرن پر کعبہ کا طواف، مقام ابراہیم کے پاس دوگانہ نفل کی ادائیگی، صفا و مروہ کی سعی اور حج کے بعد طواف ضروری ہے۔ اور حج تمتع کی نیت رکھنے والا شخص کعبہ کا تین طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرے گا۔ تاہم اہل تشیع کے نزدیک تمتع افضل ہے۔ چناں چہ حج تمتع کرنے والے افراد جب مکہ میں داخل ہوں گے تو کعبہ کا طواف، مقام ابراہیم کے پاس دوگانہ نفل اور صفا و مروہ کی سعی کریں گے، پھر قصر کر کے عمرہ کا احرام اتار دیں گے۔ نیز حج تمتع میں حجاج کے ذمہ دو طواف اور صفا و مروہ کی سعی ہے اور ہر طواف کے بعد مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت ادا کرنا ہے۔ حج افراد کی نیت رکھنے والے افراد ایک طواف، صفا و مروہ کی سعی اور طواف نساء کریں گے، ان پر قربانی واجب نہیں۔ البتہ مواقیت حج اہل تشیع کے یہاں بھی وہی ہیں جو اہل سنت و الجماعت کے نزدیک ہیں۔ اہل تشیع کے نزدیک مناسک حج ادا کرنے کے ساتھ مدینہ منورہ کی زیارت حج کی تکمیل سمجھی جاتی ہے، بلکہ یہ تقریباً واجب کے درجہ میں ہے۔ اہل تشیع محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کے ساتھ حضرت فاطمہ زہراء کے قبر کی زیارت کو بھی ضروری سمجھتے ہیں، تاہم چونکہ فاطمہ زہراء کی قبر نامعلوم مقام پر واقع ہے، اس لیے تخمیناً مختلف جگہوں کی زیارت کرتے ہیں۔ نیز جنت البقیع کی زیارت بھی کرتے ہیں، جہاں چار ائمہ شیعہ اور دیگر محترم شخصیات مدفون ہیں۔

کعبہ کی زیارت کے علاوہ، اہل تشیع ائمہ شیعہ کی قبروں پر بھی حاضر ہوتے ہیں، جن میں عراق میں موجود علی بن ابی طالب اور ان کے فرزند حسین بن علی کے مزارات بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ زیارت قبور ائمہ کے استحباب کے ضمن میں محمد بن یعقوب سے مروی ہے، وہ ابو علی اشعری سے، وہ حسن بن علی الکوفی سے، وہ علی بن مہزیار سے اور وہ موسی بن قاسم سے روایت کرتے ہیں:

میں نے ابو جعفر ثانی سے کہا: میں آپ اور آپ کے والد کی جانب سے طواف کرنا چاہتا ہوں، تو مجھے سے کہا گیا کہ اوصیاء کی جانب سے طواف نہیں کیا جاتا۔ اس پر انھوں نے کہا: کیوں نہیں، جتنا کر سکتے ہو اتنا طواف کرو، یہ بالکل جائز ہے۔ پھر تین سال بعد میں نے ان سے کہا: میں نے آپ سے آپ اور آپ کے والد کی جانب سے طواف کرنے کی اجازت طلب کی تھی اور آپ نے مجھے اجازت مرحمت فرما دی تھی۔ چناں چہ جتنا اللہ نے چاہا اتنا میں نے طواف کیا، پھر دل میں ایک خیال آیا تو میں نے اس پر عمل کر لیا۔ انہوں نے دریافت کیا: وہ کیا ہے؟ میں نے کہا: ایک دن میں نے رسول اللہ کی طرف سے طواف کیا (یہ سن کر انھوں نے تین مرتبہ صلی اللہ علی رسول اللہ کہا)، پھر دوسرے دن امیر المومنین کی جانب سے، تیسرے دن حسن بن علی، چوتھے دن حسین بن علی، پانچویں دن علی بن حسین، چھٹے دن ابو جعفر محمد بن علی، ساتویں دن جعفر بن محمد، آٹھویں دن آپ کے والد موسی، نویں دن آپ کے والد علی اور دسویں دن آپ کی جانب سے طواف کیے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی ولایت کی بنیاد پر میں نے اللہ کو قرض دیا ہے، تو انھوں نے کہا: تب تو تم نے اللہ کو ایسا قرض دیا ہے جس کے علاوہ وہ اپنے بندوں کی جانب سے کوئی قرض قبول نہیں کرتا۔ پھر میں نے کہا: آپ کی والدہ فاطمہ کی جانب سے کبھی کرتا ہوں اور کبھی نہیں کرتا، تو انھوں نے کہا: اسے خوب کیا کرو، یہ تمھارا بہترین عمل ہے ان شاء اللہ۔

اعداد و شمار

عیسوی سال ہجری سال مقامی حجاج غیر ملکی حجاج کل
1920ء 1338ھ 58,584
1921ء 1339ھ 57,255
1922ء 1340ھ 56,319
1950ء 1369ھ 100,000 (تخمیناً)
1950ء کی دہائی 150,000 (تخمیناً)
1960ء کی دہائی 300,000 (تخمیناً)
1970ء کی دہائی 700,000 (تخمیناً)
1980ء کی دہائی 900,000 (تخمیناً)
1989ء 1409ھ 774,600
1990ء 1410ھ 827,200
1991ء 1411ھ 720,100
1992ء 1412ھ 1,015,700
1993ء 1413ھ 992,800
1994ء 1414ھ 997,400
1995ء 1415ھ 1,046,307
1996ء 1416ھ 784,769 1,080,465 1,865,234
1997ء 1417ھ 774,260 1,168,591 1,942,851
1998ء 1418ھ 699,770 1,132,344 1,832,114
1999ء 1419ھ 775,268 1,056,730 1,831,998
2000ء 1420ھ 466,430 1,267,355 1,733,785
2001ء 1421ھ 440,808 1,363,992 1,804,800
2002ء 1422ھ 590,576 1,354,184 1,944,760
2003ء 1423ھ 493,230 1,431,012 1,924,242
2004ء 1424ھ 473,004 1,419,706 1,892,710
2005ء 1425ھ 1,030,000 (تخمیناً) 1,534,769 2,560,000 (تخمیناً)
2006ء 1426ھ 573,147 1,557,447 2,130,594
2006ء 1427ھ 724,229 1,654,407 2,378,636
2007ء 1428ھ 746,511 1,707,814 2,454,325
2008ء 1429ھ 1,729,841
2009ء 1430ھ 154,000 1,613,000 2,521,000
2010ء 1431ھ 989,798 1,799,601 2,854,345
2011ء 1432ھ 1,099,522 1,828,195 2,927,717
2012ء 1433ھ 1,408,641 1,752,932 3,161,573
2013ء 1434ھ 700,000 (تخمیناً) 1,379,531 2,061,573 (تخمیناً)
2014ء 1435ھ 700,000 (تخمیناً) 1,389,053 2,089,053 (تخمیناً)
2015ء 1436ھ 615,059 (تخمیناً) 1,384,941 2,000,000 (تخمیناً)
2016ء 1437ھ 537,537 1,325,372 1,862,909
2017ء 1438ھ 600,108 1,752,014 2,352,122
2018ء 1439ھ 612,953 1,758,722 2,371,675
2019ء 1440ھ 634,379 1,855,027 2,489,406

اثرات

حج مختلف عبادات کا مجموعہ ہے، قبل از اسلام عبادت حج عرب معاشرے میں روحانی آسودگی کے ساتھ ساتھ امن اور معاشی لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل تھی۔ حج کے مہینوں اور اشہر حرم میں جنگ و جدل کرنا سخت ممنوع تھا، نیز حج کے موقع پر دیگر علاقوں سے لوگ آتے تو اپنے مال تجارت بھی لاتے اور یہاں سے واپسی پر خریداری بھی کرتے۔ عرفات کے قریب عکاظ نامی میلہ بھی لگتا تھا جو عرب کی سب سے بڑی تجارتی منڈی تھی۔ یہ منڈی ذو القعدہ کے نصف سے آخر ماہ تک جاری رہتی۔

اسلام کے بعد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مشرکوں اور کافروں (غیر مسلموں) کو حج کرنے اور مسجد الحرام میں آنے سے روک دیا۔ حج مسلمانوں کے مابین عالمگیر اخوت کا شاندار مظاہرہ ہے۔ نسل، زبان، جائے پیدائش اور طبقاتی امتیاز کو قطع نظر کر کے حج کو ایک فرض سمجھ کر وہاں جاتے ہیں اور ایک دوسرے میں برادرانہ مساوات کے جذبہ کے تحت گھل مل جاتے ہیں۔ ایک ساتھ سارے اعمال بجا لاتے، ایک ہی زبان میں میں تلبیہ پڑھتے اور ایک ہی رنگ کا لباس زیب تن کرتے ہیں۔

حادثات

دوران میں حج قدرتی و اتفاقی حادثات سے کئی بار جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ متفرق مواقع پر بھگدڑ، آتشزدگی، بارش، تشدد، وبائیں، بیماریاں اور مہلک حادثات وغیرہ سے حجاج کی اموات ہوئيں ہیں، 1990ء سے 2006ء تک 7 بار بھگدڑ سے تقریباً ڈھائی ہزار افراد جاں بحق ہوئے، نیز 1975ء اور 1997ء میں آتشزدگی سے پانچ سو سے زائد حاجی جاں بحق ہوئے۔ 1987ء میں ایرانی شیعہ مظاہرین (جو آمریکا اور اسلام دشمنوں کے خلاف اعلان برائت کا جلوس تھا) کے خلاف کارروائی میں چار سو حاجی مارے گئے، 2006ء میں الغزہ ہوٹل کی عمارت گرنے سے بھی 243 عازمین حج جاں بحق ہوئے۔ 24 ستمبر 2015ء کو حج کے دوران میں بھگدڑ مچنے سے 700 سے زائد حجاج شہید، جبکہ 800 کے قریب زخمی ہوئے۔

ادب میں حج

شاعری

شاعری میں حج کا ذکر کافی عام رہا ہے، عام طور پر حج کا ذکر حاجی کے ذیل میں آتا رہا ہے، جس میں اکثر مواقع پر صرف حج کر لینے اور تائب نا ہونے کی مذمت پائی جاتی ہے، میر تقی میر کا شعر ہے

حج سے جو کوئی آدمی ہو تو سارا عالم حج ہی کرے مکے سے آئے شیخ جی لیکن وے تو وہی ہیں خر کے خر

مرزا غالب کا مشہور شعر ہے۔

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب شرم پر تم کو نہیں آتی

سعادت حسن منٹو کے افسانے، چند مکالمے میں ایک حاجی کا قصہ ہے۔

حمد و نعت میں حج

حمد کے موضوعات میں سے ایک موضوع حج اور کعبہ بھی ہے، کئی اہم نعت گویاں اور حمد نگاروں نے اپنی تخلیقات میں حج، کعبہ، طواف، قربانی، رمی جمار، سعی وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے، صبیح الدین رحمانی کی حمد جو حالیہ برسوں میں مشہور ہوئی۔

کعبے کی رونق، کعبے کا منظر اللہ اکبر، اللہ اکبر

احمد رضا خان کی نعت،

حاجیوں آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو کعبہ تو دیکھ چکے، کعبے کا کعبہ دیکھو

اس کے علاوہ کئی مصرعے زبان زد عام ہوئے ہیں، جیسے

    دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا

سفر نامے

سفر حج سے واپسی پر متعدد معروف اور غیر معروف شخصیات نے حج کے سفر نامے یا حج نامے لکھے ہیں حن میں اردو کا سفرنامہ لبیک اور کئی انگریز غیر مسلموں کے سفر حج کی سرگزشتیں بہت مشہور ہوئيں جنھوں نے مسلمان کا بھیس بدل کر حج کا حال دیکھا اور اسے شائع کیا۔ نواب صديق حسن خان کا سفرنامہ "رحلۃ الصديق الی بيت العقيق" جو 1867ء کے سفر حج کے واقعات کی روداد ہے اردو زبان و ادب کا پہلا حج نامہ تسليم کیا جاتا ہے۔ ارو میں حج نامہ کی روایت فارسی سے آئی، اردو سے پہلے برصغیر میں کئی اہم علما نے حج کا سفر نامہ لکھا جن میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی کا سفرنامہ حج "جذب القلوب الی ديار المحجوب" 1589ء، شاہ ولی اللہ کا "فيوض الحرمين" 1748ء اور "سوانح الحرمين" رفيع الدين فاروقی 1787ء، یہ سفرنامے برصغير ميں فارسی زبان کے سفرناموں کی ايک کڑی ہے۔

اردو کے چند معروف سفر نامے:

مزید دیکھیے

نگارخانہ

مسجد الحرام، حج کے دوران میں ایک پرکیف روحانی منظر، 2007)۔

بیرونی روابط

    بصری مواد
    کتابیات

حوالہ جات

Tags:

حج تاریخحج فضیلت و اہمیتحج فرضیتحج اقسامحج مناسکحج اعداد و شمارحج اثراتحج حادثاتحج ادب میں حج مزید دیکھیےحج نگارخانہحج بیرونی روابطحج حوالہ جاتحج

🔥 Trending searches on Wiki اردو:

ڈراماقریشمیا خلیفہربوہالحادسلطنت عثمانیہپاکستانی پاسپورٹصدور پاکستان کی فہرستشاہ حسینپاکستانی ثقافتسورہ الرحمٰناشرف علی تھانویقانون اسلامی کے مآخذمغلیہ سلطنت کے حکمرانوں کی فہرستممتاز قادریشمس تبریزیجمہوریتامیر خسروقومی ترانہ (پاکستان)سرعت انزالردیفاسماء اصحاب و شہداء بدرسعد بن ابی وقاصجناح کے چودہ نکاتنفسیاتپاک بھارت جنگ 1971ءاستشراقجنگ پلاسیابن تیمیہمریم بنت عمرانموہن داس گاندھیتشہدبکرمی تقویمبلال ابن رباحکتاباسماعیلیبہادر شاہ ظفرکشمیرزید بن حارثہتعلیمموبائل فوندر فشاں سلیمجغرافیہ پاکستاننوح (اسلام)جند کوررومی سلطنتلعل شہباز قلندرمحمد رابع حسنی ندویعدتاقوام متحدہدار العلوم دیوبندغزوہ تبوککتب احادیث کی فہرستایل جی بی ٹیعائشہ بنت ابی بکرابو سفیان بن حربحکیم لقمانخاکہ نگاریبابا فرید الدین گنج شکربیت المقدسایوان بالا پاکستانفاطمہ جناحرقیہ بنت محمدبرہان الدین مرغینانیموسم بہار ( بچوں کے لیے مضمون )سورجابو داؤدوادیٔ سندھ کی تہذیبتوانائیاویس قرنیکاربن ڈائی آکسائڈحیاتیاتسماجی مسائلبی بی پاکدامنرفع الیدینابو طالب بن عبد المطلبسرمایہ داری نظام🡆 More