المستنصر باللہ خلافت عباسیہ کا چھتیسواں خلیفہ تھا جو 1226ء میں تخت نشیں ہوا اور 1242ء تک خلیفہ رہا۔ وہ خلافت عباسیہ کے عہد زوال میں دوسرا آخری خلیفہ تھا۔
ابو جعفر المستنصر باللہ المنصور بن الظاہر | |
---|---|
خلیفۃ الاسلام، خلافت عباسیہ، بغداد | |
خلافت عباسیہ کا چھتیسواں خلیفہ | |
10 جولائی 1226ء – 5 دسمبر 1242ء (16 سال 4 ماہ 25 دن شمسی) | |
پیشرو | ظاہر باللہ بن ناصر الدین |
جانشین | مستعصم باللہ |
ملکہ | شاہان |
نسل | مستعصم باللہ |
والد | ظاہر باللہ بن ناصر الدین |
پیدائش | پیر یکم صفر 588ھ/17 فروری 1192ء بمقام بغداد، خلافت عباسیہ موجودہ عراق |
وفات | جمعہ 10 جمادی الثانی 640ھ/ 5 دسمبر 1242ء (عمر 50 سال) بغداد، خلافت عباسیہ موجودہ عراق |
تدفین | بمقام بغداد، خلافت عباسیہ موجودہ عراق |
مذہب | سنی اسلام |
مستنصر باللہ کی ولادت بغداد میں بروز پیر یکم صفر 588ھ مطابق 17 فروری 1192ء میں ہوئی ۔ مستنصر کی والدہ کا نام ترکیہ تھا جبکہ والد ظاہر باللہ بن ناصر الدین تھے۔
خلیفہ ظاہر باللہ بن ناصر الدین کی وفات کے بعد بروز جمعہ 13 رجب المرجب 623ھ مطابق 10 جولائی 1226ء کو خلیفہ المستنصر باللہ کے لیے بیعت عامہ لی گئی۔ اِسی روز اُس کے سر پر تاج شاہی رکھا گیا اور اہل حِل و عقد میں عوام و خواص نے اُس کی بیعت کرلی۔ روز تختِ نشینی خلیفہ المستنصر باللہ کی عمر 35 سال 5 ماہ 11 دن تھی۔ مستنصر باللہ کے والد ظاہر باللہ بن ناصر الدین کے زمانہ خلافت میں جو لوگ امیر تھے، وہی مستنصر باللہ کے عہد خلافت میں بھی امیر ہی رہے۔
مستنصر باللہ کے عہد خلافت کے ابتدائی واقعات کو مورخ اسلام امام ابن کثیر الدمشقی نے اپنی تصنیف البدایۃ والنہایۃ المعروف التاریخ ابن کثیر میں تفصیلی بیان کیا ہے جن میں چند واقعات یوں ہیں :
بروز جمعہ 17 رجب 623ھ مطابق 17 جولائی 1226ء کو منبروں پر امام امیر المومنین المستنصر باللہ بن ظاہر باللہ بن ناصر الدین کے نام کا خطبہ پڑھا گیا اور اُس کا نام اور ذِکر آنے پر سونا اور چاندی نچھاور کیا گیا۔ شعرا نے اُس دِن اُس کے مدائح اور مراثی پڑھے، اِس کے بدلے میں انھیں خلعت اور اِنعاماتا دیے گئے۔ ماہِ شعبان المعظم 623ھ مطابق اگست 1226ء میں شاہِ موصل کی طرف سے وزیر ضیاء الدین ابو الفتح نصر اللہ بن الاثیر کی طرف سے ایک ایلچی بغداد آیا اور جس کے پاس ایک خط تھا جس میں فصیح و بلیغ عبارت میں تہنیت برائے تخت نشینی اور تعزیت خلیفہ سابق مرحوم کی پیش کی گئی تھی۔
مستنصر باللہ عہد عباسیہ کے آخری خلفاء میں سے ایک تھا جس نے 1226ء سے 1242ء تک خود مختار ریاست پر حکومت کی۔ وہ آخری دور کے عباسی خلفاء میں سب سے زيادہ نیک نام اور مشہور ہے۔ اس نے اپنے باپ الظاہر بامر اللہ کے بعد حکومت سنبھالی اور کل 17 سال حکومت کی اور اس کا دورِ حکومت عباسیوں کے آخری دور کا عہدِ زریں ہے۔ اس کے عہد میں بکثرت مساجد، خانقاہیں، مسافر خانے، سرائے اور شفا خانے تعمیر کیے گئے۔ اس نے بغداد میں ایک ایسا مدرسہ بنایا جس کے آگے نظام الملک طوسی کا مدرسہ نظامیہ بھی ماند پڑ گیا۔ اس مدرسے کا نام خلیفہ کے نام پر مدرسہ مستنصریہ تھا۔ اس مدرسے کی عمارت سات سال میں مکمل ہوئی۔ مدرسے کا کتب خانہ اتنا بڑا تھا کہ اس کے لیے 60 اونٹوں پر کتابیں لد کر آئیں۔ جب یہ مدرسہ کھلا تو اس میں ڈھائی سو طالب علم داخل ہوئے۔ مدرسے کی خاص بات یہاں تمام اشیاء اور ہر طالبعلم کو ماہانہ وظیفے کی فراہمی تھی۔ مدرسہ میں ایک شفا خانہ اور ایک عمدہ حمام بھی تھا۔ اس مدرسے کی عمارت شکستہ حالت میں آج بھی بغداد میں موجود ہے۔ مستنصر نے رفاہ عام کے ان کاموں کے علاوہ سلطنت کو بھی بڑا مضبوط کیا۔ اس کا زمانہ بڑا نازک تھا۔ چنگیز خان کی تاتاری افواج ایران اور ماوراء النہر کو تباہ کر چکی تھیں اور اس کی سرحد عباسی خلافت سے مل گئی تھی۔ مستنصر نے اس خطرے کی روک تھام کے لیے ایک لاکھ سوار فوج تیار کی۔ پیادہ فوج اس کے علاوہ تھے۔ اس کے بعد مستعصم باللہ نے حکومت سنبھالی جو عباسی خلافت کا آخری فرمانروا تھا۔
مستنصر باللہ شریعت اِسلامیہ کو اُس کے اصل رنگ میں دوبارہ نافذ العمل کرنا چاہتا تھا جس کے لیے اُس نے کافی کا رہائے نمایاں سر انجام دیے۔ دین کے حوالہ سے وہ خود سخت تھا اور کوئی گستاخی سننا پسند نہیں کرتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک شاعر وجیہ قیروانی نے اُس کی مدح میں کچھ اشعار قصیدہ کی شکل میں نظم کیے جس میں یہ شعر تھا کہ :
"اگر تو سقیفہ کے روز ہوتا تو تجھے ہی پ رہی زگاروں کا پیشرو اور مقدم سمجھتے۔"
(اُس کا اشارہ اُس دن کی جانب تھا جس روز حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے تھے) یہ شعر ایک شخص نے سنا تو کہا: تو نے سخت غلطی کھائی، سقیفہ کے دِن امیر المومنین مستنصر باللہ کے جد اعلیٰ حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے اور اِس کے باوجود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پیشوا اور پیشرو تسلیم کیا گیا۔ یہ سن کر مستنصر باللہ نے اُس شخص کی تائید کی اور کہا: " تمھارا یہ شعر گستاخی پر مبنی ہے۔" اُسے خلعت و انعام کچھ نہیں دیا گیا اور اُس کو شہر بدر کر دیا گیا۔ وجیہ قیروانی یہ سن کر مصر چلا گیا۔ جہاں وہ تا دم آخر مقیم رہا۔
مستنصر باللہ نے اپنے عہد خلافت میں خلافت عباسیہ کو دوبارہ عروج پر قائم کرنے کی کوشش کی اور اِس سعی کی خاطر کئی بہترین بندوسبت کروائے جس سے خلافت عباسیہ کی رونق ہارون الرشید کے زمانہ جیسی دکھائی دینے لگی تھی۔ مستنصر باللہ نے عوام میں انصاف کی فراہمی آسان کی، رعایا میں عدل پھیلا دیا۔ مقدمات میں فوری اِنصاف رائج العام کیا۔ اہل علم و دِین کو مقرب بنایا۔ بے شمار مساجد تعمیر کروائیں۔ شاہی سرائیں تعمیر کروائی گئیں تاکہ عوام دوران سفر پریشان نہ ہوں۔ شفاء خانے اور بیمارستان تعمیر ہوئے۔ اسلام کے دشمنوں کو غارت کیا۔ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوط کیا اور علما کو سنت نبوی کی ترویج کے لیے زور دیا۔ لوگوں کو سنت نبوی پر چلنے کی ہدایت کی۔ جہاد کا انتظام بہت اچھا کر دیا گیا۔ مددِ اسلام کی خاطر افواج جمع کی گئیں۔ عباسی سرحدوں کا بندوبست کیا گیا اور انھیں دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے افواج کی کثیر تعداد سرحدوں پر مقرر کی گئی۔ بیشتر قلعے فتح ہوئے۔ 632ھ مطابق 1235ء میں مستنصر باللہ نے حکم جاری کیا کہ چاندی کے درہم تیار کیے جائیں تاکہ وہ اُن سونے کے چھوٹے ٹکڑوں کا بدل ہو جائیں جو اُس وقت رائج تھے۔ چنانچہ چمڑے کے دستر خوان پر درہم پھیلا دیے گئے تاکہ خلیفہ بغور ملاحظہ فرماسکے۔ عباسی وزیر نے حکام، تاجروں اور صرافوں کو بلا کر کہا: امیر المومنین نے تمھارے لیے یہ چاندی کے درہم تیار کروائے ہیں تاکہ سونے کے چھوٹے ٹکڑوں کی وجہ سے تم کو جو تکلیف پہنچتی ہے وہ رفع ہو جائے اور اُن کی وجہ سے جو تم حرام کے مرتکب ہوتے تھے، اُس سے بچ سکو۔ یہ سن کر لوگوں نے مستنصر باللہ کو دعائیں دیں کیونکہ درہم کے باعث انھیں آسانی پیدا ہو گئی تھی۔
مورخ اسلام امام ذہبی بیان کرتے ہیں کہ مدرسہ مستنصریہ کے وقف کا میزان ہی صرف 70 ہزار مثقال سے زائد تھا۔ اِس مدرسہ کی بنیاد 625ھ مطابق 1228ء میں رکھی گئی اور یہ عمارت 631ھ مطابق 1234ء میں مکمل ہوئی۔ تعمیر پر سات سال صرف ہوئے۔ اِس مدرسہ میں ایک کتب خانہ قائم کیا گیا تھا جس میں 160 اونٹوں پر کتب لاد کر لائی گئی تھیں جو نہایت نفیس و عمدہ تھیں۔ 248 فقہا چاروں مذاہب کے اِس مدرسہ میں طالب علم تھے اور اِس میں 4 مدرس تھے۔ حدیث، نحو اور طب، فرائض کے علاحدہ علاحدہ اُساتذہ مقرر تھے۔ اِن سب کے طعام و قیام اورخوراک اعلیٰ کا بندوبست کا پورا پورا اِنتظام کیا جاتا تھا۔ 300 یتیم بچے اِس مدرسہ میں تعلیم حاصل کیا کرتے تھے اور اُن کی پرورش و تعلیم کی خاطر بے اِنتہاء مال وقف کیا جاتا تھا۔ امام ذہبی نے اُن گاؤں اور زمینوں کی فہرست بھی دی ہے جن کی آمدن صرف اِس مدرسہ کے لیے وقف تھی۔
المستنصر باللہ نے بروز جمعہ 10 جمادی الثانی 640ھ مطابق 5 دسمبر 1242ء کو 52 سال قمری اور 50 سال شمسی کی عمر میں وفات پائی۔
چھوٹی شاخ بنو ہاشم پیدائش: 17 فروری 1192ء وفات: 5 دسمبر 1242ء | ||
مناصب سنت | ||
---|---|---|
ماقبل | خلیفہ اسلام 10 جولائی 1226ء – 5 دسمبر 1242ء | مابعد |
This article uses material from the Wikipedia اردو article المستنصر باللہ, which is released under the Creative Commons Attribution-ShareAlike 3.0 license ("CC BY-SA 3.0"); additional terms may apply (view authors). تمام مواد CC BY-SA 4.0 کے تحت میسر ہے، جب تک اس کی مخالفت مذکور نہ ہو۔ Images, videos and audio are available under their respective licenses.
®Wikipedia is a registered trademark of the Wiki Foundation, Inc. Wiki اردو (DUHOCTRUNGQUOC.VN) is an independent company and has no affiliation with Wiki Foundation.