گولاگ

گولاگ سوویت اتحاد کے تعزیری جبری مشقت کی خیمہ گاہوں (کیمپوں) کو چلانے والا حکومتی ادارہ تھا۔ گولاگ روسی نام Главное управление исправительно-трудовых лагерей и колоний، نقل حرفی: Glavnoye upravlyeniye ispravityel'no-trudovih lagyeryey i koloniy کا سرنامیہ ہے جس کا مطلب اعلیٰ انتظامیہ برائے اصلاحی مشقتی خیمہ گاہان و نو آبادیات ہے۔

"گولاگ: ایک تاریخ" (Gulag: A History) کی مصنفہ اینی ایپلبام (Anne Applebaum) کہتی ہیں کہ "یہ قومی سلامتی کے شعبے کی ایک شاخ تھی جو جبری مشقت کی خیمہ گاہیں اور متعلقہ حراستی و عبوری خیمہ گاہوں اور قید خانوں کا انتظام چلاتی تھی۔ حالانکہ ان خیمہ گاہوں میں تمام اقسام کے مجرم ہوتے تھے، لیکن گولاگ نظام کو بنیادی طور پر سیاسی قیدیوں اور سوویت ریاست کے سیاسی مخالفین کو دبانے کے عمل کے طور پر جانا جاتا ہے۔ حالانکہ اس نظام کے تحت لاکھوں افراد کو قید کیا گیا لیکن یہ نام مغرب میں اس وقت معروف ہوا جب الیکزیندر سولژینتسن (Aleksandr Solzhenitsyn) نے 1973ء میں اپنی کتاب "مجمع الجزائر گولاگ" (انگریزی: The Gulag Archipelago) لکھی، جس میں ملک بھر میں پھیلی ان خیمہ گاہوں کو "جزائر کی زنجیر" سے تشبیہ دی گئی تھی۔

ایسی کم از کم 476 خیمہ گاہیں تھیں جن میں سینکڑوں سے ہزاروں تک قیدی رکھے جاتے تھے۔ سب سے زیادہ بدنام زمانہ وہ خیمہ گاہیں تھیں جو قطبی و نیم قطبی علاقوں میں قائم کی گئی تھیں۔ روس کے قطبی علاقوں میں نورلسک، وورکوتا، کولیما اور مگادان کے اہم صنعتی شہر انہی خیمہ گاہوں کے قیدیوں کے بنائے گئے شہر ہیں۔

1929ء سے 1953ء کے دوران ایک کروڑ 40 لاکھ سے زائد افراد اس جبری نظام میں سے گذرے جبکہ مزید 60 سے 70 لاکھ کو جبراً روس کے دور دراز علاقوں میں وطن بدر کر دیا گیا۔ سوویت اعداد و شمار کے مطابق 1934ء سے 1953ء کے دوران 10 لاکھ 53 ہزار 829 افراد گولاگ کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے،

گولاگ
سینٹ پیٹرز برگ کی گولاگ یادگار

ان میں جبری مشقت کی نو آبادیات میں اور رہائی کے فوراً بعد مرنے والے افراد شامل نہیں بلکہ یہ تعداد صرف ان افراد پر مشتمل ہے جو خیمہ گاہوں میں بد ترین سلوک کا نشانہ بنے۔ اینی ایپلبام لکھتی ہیں کہ "دستاویزات اور آپ بیتیوں دونوں ظاہر کرتی ہیں کہ کئی خیمہ گاہوں میں یہ عام عمل تھا کہ خیمہ گاہوں میں موت کے اعداد و شمار کو کم رکھنے کے لیے جاں بہ لب افراد کو رہا کر دیا جاتا تھا۔ ان خیمہ گاہوں کی کل آبادی 5 لاکھ 10 ہزار 307 (1934ء میں) سے 17 لاکھ 27 ہزار 970 (1953ء میں) کے درمیان تھی۔

گولاگ کے بیشتر مکین سیاسی قیدی نہيں تھے، البتہ سیاسی قیدیوں کی تعداد ہمیشہ خاصی رہی۔ بغیر کسی وجہ کے کام سے غیر حاضری، معمولی چوری یا حکومت مخالف لطائف جیسے معمولی جرائم پر بھی گولاگ خیمہ گاہوں میں قید کیا جا سکتا تھا۔ سیاسی قیدیوں کی نصف سے زائد تعداد کو بغیر کسی مقدمے کے گولاگ میں قید کر لیا گیا؛ سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ قید کی 26 لاکھ سے زئد سزائیں ایسی ہیں جن میں خفیہ پولیس نے، 1921ء سے 1953ء کے دوران، مقدمات کی تفتیش کی۔ 1953ء میں استالن کے مرنے کے بعد گولاگ کے حجم میں بہت تیزی سے کمی واقع ہوئی، لیکن گورباچوف کے عہد تک سوویت روس میں سیاسی قیدی بدستور موجود رہے۔

آج ہر سال 30 اکتوبر کو روس میں مظالم کا نشانہ بننے والے افراد کا یادگاری دن منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ میں قائم گولاگ یادگاروں پر لوگوں کی بڑی تعداد آتی ہے۔

حوالہ جات

بیرونی روابط

Tags:

روسی زبانسوویت اتحاد

🔥 Trending searches on Wiki اردو:

ظہیر الدین محمد بابرسلجوقی سلطنتمصعب بن عمیرنظریہکرکٹجنوبی افریقہ کرکٹ ٹیم کا دورہ ویسٹ انڈیز 2000–01ءاعبد الشکور لکھنویمير تقی میرعبد اللہ بن عباساسم مصدرعراقاردو حروف تہجیابن کثیرپیمائشمریم نوازسوداردو زبان کے مختلف ناممطلعآئین پاکستان 1956ءختم نبوتام حبیبہ رملہ بنت ابوسفیانالنساءقطب الدین ایبکائمہ اربعہمترادفواقعہ کربلاپنجاب کے اضلاع (پاکستان)مینار پاکستانلوط (اسلام)اسلام اور سیاستکلو میٹرصحابہ کی فہرستفلسطینخواجہ سراحدیث ثقلیناسرائیل-فلسطینی تنازعمہینانوٹو (فونٹ خاندان)پولیوحیا (اسلام)ہند بنت عتبہاختلاف (فقہی اصطلاح)ہندوستانی عام انتخابات 1945ءپاکستان کی آب و ہواعلم تجویدکرپس مشنسجاد حیدر یلدرمعمار بن یاسراسموہابیتفاطمہ جناححدیث کساءآیت الکرسیمحمود غزنوییعقوب (اسلام)مولابخش چانڈیواردو صحافت کی تاریخآل عمراناسم ضمیرمیراجیفارابیاموی معاشرہدبستان دہلینمازافلاطونرائل چیلنجرز بنگلورعبد اللہ بن عمرسعد الدین تفتازانیحجازفعل معروف اور فعل مجہولاسلامی قانون وراثتثقافتغزوہ بنی قینقاعہند آریائی زبانیںابو حنیفہدو قومی نظریہ🡆 More