نُوّاب اَربَعہ، شیعہ اصطلاح میں غیبت صغری کے زمانے میں امام زمانہ(عج) کے ان چار نمائندوں اور نائبین خاص کو کہا جاتا ہے جو آپ(ع) اور شیعیان اہل بیت(ع) کے درمیان رابطے کا کام سر انجام دیتے رہے ہیں۔ ان کو نواب خاص بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے نام بالترتیب یہ ہیں: عثمان بن سعید، محمد بن عثمان، حسین بن روح اور علی بن محمد سمری۔ نواب اربعہ، ائمہ معصومین(ع) کے با اعتماد اصحاص میں سے تھے جو یکے بعد دیگرے خود امام زمانہ(ع) یا پہلے نائب خاص کی طرف سے منتخب کیے جاتے تھے۔ یہ چار افراد تقریبا ستر سال تک امام زمانہ(ع) کے نائب خاص کے عنوان سے خدمات سر انجام دیتے رہے اور دور و دراز علاقوں میں اپنی جانب سے وکلا کو تعیین کرنے کے ذریعے شیعوں کی درخواستیں اور پیغامات امام زمانہ(ع) تک پھر امام علیہ السلام کی طرف سے ان کے جوابات کو لوگوں تک پہنجاتے تھے۔ ان نائبین خاص کی دیگر زمہ داریوں میں امام زمانہ(ع) کے بارے میں ایجاد ہونے والے شکوک و شبہات کا ازالہ اور آپ(ع) کی محل زندگی اور مشخصات کو مخفی رکھنا، شامل ہیں۔
نیابت خاصہ سے مراد امام(ع) کی طرف سے کسی خاص شخص کو لوگوں کے ساتھ رابطے کے لیے اپنا نمائندہ مقرر کرنا ہے جس وقت خود امام براہ راست لوگوں کے ساتھ رابطہ برقرار نہ کر سکتا ہو۔ اس صورت میں امام(ع) بعض مشخص افراد میں سے پہلے شخص کو خود اپنا نمائنده مقرر فرماتا ہے پھر آگے چل کر نئے نائب کو پرانا نائب اپنی زندگی میں ہی مقرر کر کے چلا جاتا ہے۔
امام زمانہ کے نائبین خاص کی فعالیت غیبت صغری کے دور یعنی سنہ 260 سے 329 ہجری قمری (تقریباً 70 سال) تک جاری رہی۔ اس عرصے میں شیعہ علما میں سے چار اشخاص کہ ان میں سے بعض دسویں اور گیارہویں امام کے اصحاب اور شناختہ شدہ افراد میں سے تھے۔ جنھوں نے امام زمانہ(ع) کی نیابت اور امام زمانہ اور شیعوں کے درمیان رابطے کے فرائض انجام دئے۔ ان کے علاوہ تقریبا تمام اسلامی شہروں میں ان کے وکلا موجود تھے۔
تمام نواب اربعہ کے سارے اقدامات اور فعالیتیں امام زمانہ(ع) کے حکم سے انجام پاتے تھے۔ ان فعالیتوں کو چند گروہ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
مام حسن عسکری(ع) کی شہادت اور بارہویں امام(ع) کی غیبت کے دوران صرف نواب اربعہ شیعوں کے مسائل کو حل و فصل کرتے تھے۔ عباسی حکومت کی کڑی نگرانی کے باعث مخفیانہ فعالیتوں کی انجام دہی اور تقیہ کرنا بطور خاص دوسرے، تنسرے اور چوتھے نائب خاص کے زمانے میں اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ یہاں تک کہ حسین بن روح کچھ مدت کے لیے روپوش ہو گئے اور آخر کار پانچ سال تک قید و بن کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑا۔ تقیہ اور مخفیانہ طور پر فعالیتوں کی انجام دہی کا فائدہ یہ ہوا کہ شیعہ اثنا عشری بنی عباسی کے سخت ترین دور میں حتی ان کے دار الخلافہ میں بھی موجود رہ کر اپنی حفاظت اور باقاعدہ ایک اقلیت کے عنوان سے عباسی حکومت اور ان کے با اثر اور افراطی سنی درباریوں سامنے اپنا اظہار وجود کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
اس دور میں بعض شیعہ شخصیات، بطور خاص امام زمانہ(ع) کے نائبین خاص جن حکمت عملیوں پر عمل پیرا ہوتے تھے اور جسے امام معصوم کی جمایت اور تائید بھی حاصل تھی، وہ حکومت وقت کے دربار تک رسائی اور اگر ممکن ہوا تو کسی خاص عہدے اور وزارت تک پہنچنا تھا۔ حسین بن روح نوبختی اپنی نیابت کے ابتدائی دور میں بنی عباسی کے مقتدر حکمران کے دربار تک رسائی رکھتا تھا۔ خاندان نوبختی اور خاندان ابن فرات جو شیعوں کے حامی تھے، عباسی حکومت کے مختلف عہدوں پر فائز ہونے کی وجہ سے ان کے دربار میں نہایت اثر و رسوخ کے حامل تھے۔
ائمہ معصومین کے حوالے سے غُلوّ کا مسئلہ نواب اربعہ کے دور کے اہم مسائل میں سے ایک تھا یہاں تک کہ ائمہ معصومین(ع) کے بعض اولاد جیسے امام ہادی کے بیٹے جعفر جو بعد میں جعفر کذاب کے نام سے مشہور ہوا، اسی طرح بعض شیعہ شخصیات بھی غالیوں کے ساتھ تھے اور ان کی حمایت کرتے تھے۔ غیبت صغری کے دوران نواب اربعہ کے وظائف میں سے ایک ان چھوٹے دعویداروں کو رسوا کرنا اور امام زمانہ(ع) کی طرف سے ان کے بارے میں لعن و تبری کو لوگوں تک پہنچانا تھا۔ نمونے کے طور پر ایک دو مورد کا ذکر کرتے ہیں: محمد بن نصیر جو فرقہ نُصَیریہ کے مؤسس ہیں، غالی تھا اور ائمہ اثنا عشریہ کی ربوبیت کا اعتقاد رکھتا تھا اور محارم کے ساتھ نکاح کے جواز کو معاشرے میں رائج کرنا چاہتا تھا۔ محمد بن عثمان نے ان پر لعن اور نفرین کی اور ان سے بیزاری اختیار کی۔
شلمغانی امام زمانہ(ع) کے تیسرے نائب خاص حسین بن روح کے دور میں امام(ع) کے وکلا میں سے تھا لیکن اپنی جاہ طلبی اور دوسری وجوہات کی بنا پر اپنے مقام اور منصب سے سوء استفادہ کرتے ہوئے غلوّ کے منزل تک پہنچ گیا۔ حسین بن روح نے ان کو اپنے سے دور کیا امام زمانہ نے بھی ایک توقیع کے ذریعے ان پر لعن فرمایا۔
شیخ طوسی کے مطابق ابن ابی غانم قزوینی اور بعض شیعہ حضرات کے درمیان امام حسن عسکری کے صاحب فرزند ہونے اور نہ ہونے پر بحث چھڑ گئی اس بنا پر شیعوں کی طرف سے امام مہدی کے نام ایک تحریر ارسال کی گئی اور ان سے یہ اس اختلاف کے حل و فصل کی درخواست کی گئی تھی۔ امام مہدی(ع) نے ان کے اس خط کے جواب میں اس بات کی تاکید فرمائی کہ خداوندعالم نے گیارہویں امام کے بعد اپنے پسندیدہ دین کو ختم نہیں فرمایا اور اپنے اور اپنی مخلوقات کے درمیان رابطے کو ختم نہیں فرمایا ہے اور قیامت ایسا نہیں کیا جائے گا۔
امام مہدی(ع) کی ایک اور توقیع کے بارے میں روایات ملتی ہیں۔ یہ توقیع اس وقت صادر ہوئی جب جعفر کذاب نے امام حسن عسکری کے جانشین ہونے کا دعوی کیا۔ امام(ع) نے اس توقیع میں ائمہ معصومین(ع) کی امامت اور عصمت کو ثابت کرتے ہوئے جعفر کے حلال و حرام سے عدم آشنائی اور حق و باطل میں تشخیص نہ دے سکنے کی طرف اشارہ فرمایا اور یہ سوال مطرح فرمایا کہ آیا ایک ایسا شخص جو خود حلاف و حرام اور حق و باطل کی تشخیص نہیں دے سکتا لوگوں کا امام ہونے کا دعویدار ہے۔؟
محمد بن ابراہیم بن مہزیار جن کا والد خود امام حسن عسکری(ع) کے وکلا میں سے تھا کو بھی بارہویں امام کے بارے میں بعض شکوک و شبہات تھی جو امام زمانہ(عج) کی طرف سے بعض توقیعات کے دریافت ہونے کے بعد برطرف ہوا۔ اسی طرح امام مہدی(ع) کی ایک اور توقیع کے بارے میں احادیث میں نقل ہوئی ہے جس میں امام(ع) شکاکوں کے مقابلے میں اپنے وجود کو ثابت کرتے ہوئے بعض فقہی مسائل کا جواب دیتے ہیں۔
دور دراز مناطق میں شیعوں کے ساتھ رابطہ اور ان کے امور کو بطور احسن انجام دینے کی خاطر وکلا کو معین کرنا تقریبا امام کاظم(ع) کے زمانے سے ایک معمول بن گیا تھا۔ امام زمانہ(ع) کی غیبت کے بعد ان وکلا کا براہ راست رابطہ آپ(ع) سے منقطع ہو گیا اور امام مہدی(ع) کا اپنے چاہنے والوں کے ساتھ رابطے کا واحد ذریعہ نواب اربعہ تھے جنہیں خود امام تعیین فرماتے تھے۔ وكلاء مختلف مناطق میں لوگوں سے جمع شدہ وجوہات شرعی کسی نہ کسی طرح بغداد میں امام زمانہ(ع) کے نائب خاص تک پہنچاتے تھے اور وہ ان اموال کو امام(ع) کے حکم کے مطابق مختلف امور میں صرف کرتے تھے۔
اہواز، سامرا، مصر، حجاز، یمن اور ایران کے مختلف شہروں جیسے خراسان، ری اور قم وغیرہ میں ایسے وکلا کے موجود ہونے کی خبر کم و بیش احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔
امام زمانہ(ع) اور آپ کی نشانیوں کو مخفی رکھنا نواب اربعہ کے وظائف میں سے ایک تھا۔ و مشخصات وی، یکی از وظایف اساسی نایبان خاص بودہ است. تاریخ و حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام زمانہ(عج) عراق، مکہ اور مدینہ میں رہتے تھے اور نائبین خاص کسی وقت آپ(عج) سے ملاقات کرسکتے تھے۔ حسین بن روح نوبختی کی نیابت خاصہ کے دور میں ان کے مقام و منزلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ابو سہل اسمعیل بن علی نوبختی کہتے ہیں: اگر محھے امام زمانہ کے بارے میں اتنا علم ہوتا جتنا حسین بن روح کو ہے تو شاید دشمن کے ساتھ مناظرے کے دوران ضرورت پڑنے پر میں دشمن کے لیے امام کا پتہ بتا دیتا حالنکہ حسین بن روح اگر امام کو اپنے دامن کے نیچے چھپا رکھا ہو اور امام کی تلاش میں ان کے بدن کو قیچی سے کاٹ کر ٹکڑوں میں تبدیل کر دیا جائے تو بھی وہ امام کے بارے میں کسی کو نہیں بتائے گا۔ نوّاب خاص اگرچہ امام زمانہ(ع) کے وجود کو ثابت کرنے کے درپے ہوتے تھے لیکن اس کے باوجود شیعوں سے درخواست کرتے تھے کہ وہ امام(ع) کی نشانی جاننے کی کوشش نہ کریں اور یہ کام امام(ع) کی حفاظت کی خاطر تھا۔
نواب اربعہ شیعوں کو درپیش مسائل شرعیہ کو امام مہدی(ع) کی خدمت میں بیان کرتے تھے اور امام(ع) کی طرف سے دئے گئے جوابات کو لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ یہ کام صرف فقہی مسائل تک محدود نہیں تھا بلکہ نائبین خاص لوگوں کی علمی اور اعتقادی مسائل نیز عوام الناس کی رہنمائی کے لیے مختلف علمی مباحث اور مناظرات میں بھی شرکت کرتے تھے۔ اسحاق بن یعقوب اور محمد بن جعفر اسدی کے نام لکھے گئے توقیعات جو اہم شرعی مسائل پر مشتمل ہیں نیز حسین بن روح کا علمی اور اعتقادی مناظروں میں شرکت کرنا ان موارد میں نواب اربعہ کی فعالیتوں کی نشان دہی کرتا ہے۔
سید بن طاووس نے کتاب مصباح الزائر میں ایک زیارتنامہ نقل کیا ہے جو امام زمانہ(ع) کے چاروں نائبین خاص کے لیے پڑھ سکتے ہیں۔ آپ اس زیارتنامے کے متن کو حسین بن روح نوبختی کے والد سے منسوب کرتے ہیں۔ اس زیارت نامے کا متن یہ ہے: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ (نواب اربعہ میں سے کسی ایک کا نام) أَشْهَدُ أَنَّكَ بَابُ الْوَلِيِّ أَدَّيْتَ عَنْهُ وَ أَدَّيْتَ إِلَيْهِ مَا خَالَفْتَهُ وَ لَا خَالَفْتَ عَلَيْهِ...(بقیہ متن کو حاشیے میں ملاحضہ فرمائیں)
علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں عثمان بن سعید کے لیے ایک زیارت نامہ نقل کرتے ہوئے تصریح کرتے ہیں کہ انھوں نے اس زیارت نامے کو ایک شیعہ عالم دین کے کسی پرانے نسخے میں پایا ہے۔ اس زیارت نامے کا متن کچھ یوں ہے: "السَّلَامُ عَلَیک أَیهَا الْعَبْدُ الصَّالِحُ النَّاصِحُ لِلَّهِ وَ لِرَسُولِهِ وَ لِأَوْلِیائِهِ الْمُجِدُّ فِی خِدْمَةِ مُلُوک الْخَلَائِقِ أُمَنَاءِ اللَّهِ وَ أَصْفِیائِهِ... (زیارت کا بقیہ حصہ حاشیے میں ملاحضہ فرمائیں)
قال بعض علما الحديث مثل أبو القاسم محبوب الله الجسري ، والدكتور أبو حيان عادل سعيد أن كل رواية عن مهدي, الفتن, کساء , الحديث مثل المتعة واللحوم والحبر والحديث والورق وكلها مزيفة ومزخرفة ، وقال إن البخاري والمسلم أخذوا آلاف المزيفة. ، أحاديث مفبركة في مجموعاتهم.
This article uses material from the Wikipedia اردو article نواب اربعہ, which is released under the Creative Commons Attribution-ShareAlike 3.0 license ("CC BY-SA 3.0"); additional terms may apply (view authors). تمام مواد CC BY-SA 4.0 کے تحت میسر ہے، جب تک اس کی مخالفت مذکور نہ ہو۔ Images, videos and audio are available under their respective licenses.
®Wikipedia is a registered trademark of the Wiki Foundation, Inc. Wiki اردو (DUHOCTRUNGQUOC.VN) is an independent company and has no affiliation with Wiki Foundation.