سونے کی منڈی (گولڈ مارکیٹ) سے مراد وہ بازار ہے جہاں بڑے پیمانے پر ایسے سونے کی خرید و فروخت ہوتی ہے جو زیور کی شکل میں نہیں ہوتا (اسے کچا یا پٹھور یا پاسہ سونا بھی کہتے ہیں)۔ یوں تو ہر شہر میں سونے کی منڈی ہوتی ہے لیکن دنیا میں پانچ ایسے شہر ہیں جہاں عالمی پیمانے پر سونا خریدا اور بیچا جاتا ہے کیونکہ یہاں بڑے گولڈ ایکسچینج قائم ہیں۔ مالیاتی لحاظ سے چاندی اور سونے میں لگ بھگ وہی فرق ہوتا ہے جو دس روپے اور ہزار روپے کے بینک نوٹ میں ہوتا ہے۔ مالیات کی دنیا میں سونے کو outside money کہتے ہیں جبکہ کاغذی کرنسی اور کاغذی اثاثوں کو inside money کہتے ہیں۔
امریکی سکے گولڈ ایگل کی سالانہ فروخت۔ اونس میں | |
---|---|
2007 | 198,500 |
2008 | 865,500 |
2009 | 1,435,000 |
2010 | 1,220,500 |
2011 | 1,000,000 |
2012 | 753,000 |
2013 | 856,500 |
2014 | 524,500 |
2015 | 801,500 |
امریکا کی یہ مارکیٹ 1970ء کی دہائی میں قائم کی گئی تھی جب بریٹن اوڈز کا معاہدہ ٹوٹنے کے بعد کاغذی ڈالر کا سونے سے ربط ختم ہو چکا تھا۔ اگست 2008ء سے یہ سی ایم ای گروپ آف شکاگو کی ملکیت میں ہے۔
نیویارک میں واقع کومکس (comex) دنیا کی سب سے بڑی سونے کی مارکیٹ ہے اور پوری دنیا میں سونے کی قیمت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ لیکن یہاں خرید و فروخت ہونے والا 99.999 فیصد سونا اصلی نہیں بلکہ کاغذی ہوتا ہے۔۔ اصلی سونا فزیکل گولڈ (حقیقی سونا) یا load out gold کہلاتا ہے جبکہ گولڈ فیوچر، گولڈ آپشن، گولڈ فنڈز، مِنی آپشن وغیرہ کاغذی سونے کی چند مثالیں ہیں ایک فیوچر کونٹریکٹ کا مطلب 100 اونس (3110 گرام) سونا ہوتا ہے۔ (جبکہ چاندی کا ایک فیوچر کونٹریکٹ 5,000 اونس کا ہوتا ہے) فیوچر کونٹریکٹ کی میعاد پوری ہونے پر حقیقی سونے چاندی کی وصولیابی ایک پیچیدہ اور مہنگا سودا ہے جبکہ "کیش سیٹلمنٹ" بہت آسان اور منافع بخش رہتا ہے اس لیے بیشتر گاہک کیش سیٹلمنٹ کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور کبھی اپنا اصلی سونا طلب نہیں کرتے۔ اس طرح سونے کا ایک ہی ٹکڑا کئی گاہکوں کو بیچا جاتا ہے۔ ہر گاہک کے پاس صرف سونے کے کلیم کی کاغذی رسید ہوتی ہے۔ جس طرح بینک پیسے کے معاملات میں فریکشنل ریزرو بینکنگ کرتے ہیں اسی طرح کومکس اور لندن بلین مارکیٹ سونے چاندی کے معاملے میں فریکشنل ریزرو مارکٹنگ کرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ کومکس میں لیوریج دو سو گنا سے بھی زیادہ بڑھ چکا ہے۔ یعنی ہر اونس حقیقی سونے کو دو سو سے زیادہ گاہکوں کو بیچا جا چکا ہے۔
OPEN INTEREST ON THE COMEX | |||
---|---|---|---|
DATE | GOLD PRICE | TOTAL OPEN INTEREST | TOTAL "COMMERCIAL" GROSS SHORT POSITION |
01/26/16 | $1121 | 385,350 | 175,176 contracts or 545 metric tonnes of paper gold |
02/16/16 | $1209 | 428,912 | 259,784 contracts or 808 mts of paper gold |
8/3/2016 | $1264 | 499,110 | 311,865 contracts or 971 mts of paper gold |
12/4/2016 | $1261 | 504,523 | 353,968 contracts or 1,101 mts of paper gold |
04/26/16 | $1243 | 497,994 | 356,553 contracts or 1,109 mts of paper gold |
3/5/2016 | $1292 | 565,774 | 410,000 contracts or 1,275 mts of paper gold |
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2001ءسے 2017ء کے دوران سونے کی قیمت گرانے کے لیے امریکا کو اپنے سونے میں سے 2340 ٹن سونا ایکسپورٹ کرنا پڑا۔ اسی مدت میں 3490 ٹن سونا برطانیہ سے سوئزرلینڈ ایکسپورٹ ہوا جہاں سے وہ ایشیائی ممالک چلا گیا۔
سن عیسوی | سونا واپس لینے والا ملک | سونے کی مقدار |
---|---|---|
2012ء | وینیزویلا کا سینٹرل بینک | 160 ٹن |
2014ء | ڈچ سینٹرل بینک | 122.5 ٹن |
2017ء | جرمنی کا سینٹرل بینک (Bundesbank) | 700 ٹن (50 فیصد) |
2018ء | آسٹریا کا سینٹرل بینک | 50 فیصد |
2019ء | پولینڈ کا سینٹرل بینک | 100 ٹن |
2019ء | ہنگری کا سینٹرل بینک (Magyar Nemzeti Bank) | 31.5 ٹن |
2020ء | روس کا سینٹرل بینک | پچھلے 12 سال سے سونا خرید رہا ہے۔ |
سن عیسوی | ڈیلیوری (ہزار اونس میں) |
---|---|
2006ء | 8963 |
2007ء | 9658 |
2008ء | 9035 |
2009ء | 6091 |
2010ء | 7448 |
2011ء | 6503 |
2012ء | 3949 |
2013ء | 5923 |
2014ء | 2653 |
2015ء | 1622 |
2016ء | 7138 |
2017ء | 3191 |
2018ء | 2585 |
2019ء | 6381 |
2020ء | 25156 |
ڈالر پر گرتے ہوئے اعتماد کی وجہ سے 2020ء میں صرف تین مہینوں (23 مارچ سے 17 جون) کے دوران کومکس نیویارک سے گاہکوں نے لگ بھگ 314 ٹن سونا وصول کر لیا۔ یہ مقدار اس سے پہلے کے تین مہینوں سے 7 گنا زیادہ ہے۔ گولڈ رن سے بچنے کے لیے کومکس نے لگ بھگ 694 ٹن سونا دوسرے ممالک سے نیویارک منتقل کر لیا ہے جس میں سے 262 ٹن سونا سوئیزرلینڈ نے تین مہینوں میں بھیجا۔
لندن کی گولڈ مارکیٹ کو لندن بلین مارکیٹ بھی کہتے ہیں۔ 1804ء سے پہلے ایمسٹرڈیم دنیا کی سب سے بڑی گولڈ مارکیٹ تھی جو لندن سے لگ بھگ 500 کلومیٹر کے سمندری فاصلے پر نیدرلینڈ میں واقع تھی۔ 1795ء میں جب فرانس نے نیدرلینڈ (ڈچ) فتح کر لیا تو نیدر لینڈ کے بڑے بینکار (Hope) اور تاجر لندن منتقل ہو گئے اور اس طرح مالیاتی مرکز ایمسٹرڈم سے لندن منتقل ہو گیا۔ دنیا کی سب سے بڑی گولڈ مارکیٹ کی جگہ بھی لندن کو مل گئی۔ 1919ء میں لندن بلین مارکیٹ کو سرکاری درجہ دے دیا گیا جہاں دن میں دو دفعہ سونے کی قیمت فکس کی جاتی تھی۔ جنوری 1980ء میں سونے کی قیمت اچانک تیزی سے بڑھنے لگی تھی جسے بڑی مشکل سے قابو کیا گیا ورنہ کاغذی کرنسی اور بینکنگ کا سارا نظام زمین بوس ہو جاتا۔ اپریل 1982ء سے لندن بلین مارکیٹ میں کاغذی سونے (گولڈ فیوچر کونٹریکٹ) کی خرید و فروخت شروع کی گئی جس سے سونے کی قیمت گرانا آسان ہو گیا۔
کومکس کے برخلاف لندن بُلین مارکیٹ ایک ایکسچینج نہیں ہے بلکہ سونے کے بڑے بڑے ڈیلروں اور بینکوں کا ایک گروپ ہے جو آپس میں تجارت کرتا ہے یا اپنے گاہکوں کی طرف سے خرید و فروخت کرتا ہے۔ یہاں ہر کاروباری دن میں لگ بھگ 1000 ٹن سونا خریدا اور بیچا جاتا ہے جو کومکس کے مقابلے میں سات یا آٹھ گنا زیادہ ہے۔ اس ہزار ٹن سونے کا 99 فیصد کاغذی سونا ہوتا ہے اور ایک فیصد یعنی دس ٹن حقیقی سونا ہوتا ہے۔ کومکس میں کم سے کم تین کلو سونے کا کاروبار ہوتا ہے جبکہ لندن بلین مارکیٹ میں بڑے خریدار سونا ٹنوں میں خریدتے بیچتے ہیں۔
خالصیت کے لحاظ سے یہاں تین طرح کا سونا بیچا جاتا ہے جو 995، 9995 اور 9999 ہوتا ہے۔
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ لندن کی مارکیٹ سونے کی قیمت ملکی کرنسی پاونڈ اسٹرلنگ کی بجائے غیر ملکی کرنسی (امریکی ڈالر) میں طے کرتی ہے۔
سوئیزرلینڈ میں واقع یہ مارکیٹ دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہوئی۔
لندن بلین مارکیٹ کے برخلاف زیورخ کی گولڈ مارکیٹ میں سونے کی قیمت فکس نہیں کی جاتی بلکہ ہر سودا طلب و رسد کے لحاظ سے طے کیا جاتا ہے۔ سونے کی قیمت سارا دن اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔
دنیا کی بڑی بڑی سونے کی ریفائنریاں سوئیزرلینڈ میں واقع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی کانوں سے نکلنے والا زیادہ تر سونا سوئیزرلینڈ پہنچتا ہے اور یہاں سے گولڈ بار اور سونے کی اینٹوں کی شکل پا کر دوسری منڈیوں میں جاتا ہے۔ یہاں سونا ذخیرہ کرنے کے لیے نجی سہولیات بھی میسر ہیں۔
سوئیزرلینڈ کی سونے کی ریفائنریاں | ||
---|---|---|
نام | پیداواری صلاحیت (سالانہ) | دنیا بھر میں درجہ |
Valcambi | 1400 ٹن | 1 |
Metalor | 650 ٹن | 2 |
PAMP | 450 ٹن | 5 |
Argor Heraeus | 400 ٹن | 7 |
Johnson | 250 ٹن | 9 |
ہانگ کانگ کی گولڈ مارکیٹ ایشیا کی بڑی اہم سونے کی منڈی ہے جہاں حقیقی اور کاغذی دونوں طرح کے سونے کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ مغربی ممالک میں عرصہ دراز سے معیشت دان لوگوں کو یہ پڑھانے میں مصروف رہے ہیں کہ بچت محفوظ رکھنے کے لیے سونا بالکل مناسب نہیں ہے کیونکہ اس پر سود نہیں ملتا۔ اس لیے مغربی ممالک میں لوگ کاغذی سونے پر اعتبار کر لیتے ہیں۔ لیکن مشرقی ممالک کے لوگ کاغذی سونے پر بہت کم اعتبار رکھتے ہیں اور حقیقی سونا خریدتے ہیں۔
ہانگ کانگ ایکسچینج نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ سرمائیہ دار عنقریب سونے کے کونٹریکٹ کی خرید و فروخت ڈالر کی بجائے چین کی کرنسی یوان میں کر سکیں گے۔ اگر واقعی ایسا ہو جاتا ہے تو یہ ڈالر کے لیے بڑا دھچکا ہو گا۔
سن 2002ء سے پہلے چین میں صرف پیپلز بینک آف چائنا کو سونے چاندی کی تجارت پر اجارہ داری حاصل تھی۔ لوگوں کو صرف سونے کے زیورات خریدنے کی اجازت تھی۔ 2002ء میں شنگھائی گولڈ ایکسچینج کا افتتاح ہوا اور 2004ءسے عام لوگوں کو سونے میں سرمائیہ کاری کی اجازت مل گئی۔
دس سال بعد ستمبر 2014ء میں شنگھائی انٹرنیشنل گولڈ ایکسچینج کا بھی افتتاح کر دیا گیا۔
دورانیہ (ء) | شنگھائی گولڈ ایکسچینج سے سونے کی ادائیگی |
---|---|
2007ء | 363.2 ٹن |
2008ء | 543.2 ٹن |
2010ء | 837.2 ٹن |
2013ء | 2181 ٹن |
2014ء | 2102 ٹن |
2015ء | 2596 ٹن |
چین میں واقع شنگھائی گولڈ ایکسچینج (SGE) دنیا کی سب سے بڑی حقیقی سونے کی مارکیٹ ہے جسے سرکاری حیثیت بھی حاصل ہے۔چین پچھلے دس گیارہ سالوں سے نہ صرف سرکاری سطح پر سونا خرید رہا ہے بلکہ چینی حکومت عوام کو بھی سونا خریدنے کی ترغیب دے رہی ہے۔ چین کے اکثر شہروں میں بینک بھی سونے کے سکہ کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ہندوستان میں حکومت نے بینکوں پر سونے کا سکہ بیچنے کی پابندی لگا رکھی ہے۔
2014ء میں شنگھائی گولڈ ایکسچینج میں 9,243 ٹن سونے کی خرید و فروخت ہوئی جبکہ 2015ء میں یہ 84 فیصد اضافے کے ساتھ 17,033 ٹن تک پہنچ گئی۔ اس میں سے 2582 ٹن سونا وصول کر لیا گیا۔ چین کے عوام کاغذی سونے کو اہمیت نہیں دیتے۔
چین میں سونے کی ایک کلو کی اینٹ (Bar) زیادہ مقبول ہے۔
2013 میں شنگھائی گولڈ ایکسچینج نے 2181 ٹن حقیقی سونا ادا کیا۔ 2014ء میں یہ مقدار 2102 ٹن تھی۔ 2009 ءسے جون 2015ء تک چین کے عوام 8370 ٹن سونا شنگھائی گولڈ ایکسچینج سے وصول کر چکے ہیں۔
2014 میں سونے کی فروخت | |
---|---|
بیچنے والے کا نام | کتنا سونا بیچا (ٹن میں) |
امریکی ٹکسال (گولڈ ایگل) | 16 |
کومکس گولڈ ڈیلیوری | 84 |
جی ایل ڈی | 777 |
شنگھائی گولڈ ایکسچینج | 2016 |
19 اپریل 2016ء سے شنگھائی گولڈ ایکسچینج نے سونے کی قیمت ڈالر کی بجائے اپنی کرنسی یوان میں فکس کرنا شروع کر دی ہے۔ یہ ڈالر کی شان میں وہ گستاخی ہے جس کی جرات لندن بلین مارکیٹ بھی کبھی نہ کر سکی تھی۔
26 مارچ 2018ء سے چین نے تیل کی فیوچر قیمتیں ڈالر کی بجائے اپنی کرنسی یوان میں فکس کرنا شروع کر دی ہے اور پہلے ہی دن 65 ارب یوان کا کاروبار ہوا۔ 1971ء میں امریکا نے پیٹروڈالر سسٹم شروع کیا تھا اور اب پہلی دفعہ کسی کرنسی نے اسے للکارہ ہے۔
1971 میں امریکی صدر نکسن نے بریٹن وڈز کا معاہدہ توڑ کر "gold window" بند کر دی تھی۔ شنگھائی گولڈ ایکسچینج نے 4 دہائیوں کے بعد یہ دوبارہ ممکن بنا دیا ہے کہ تیل بیچنے والے ممالک تیل کی قیمت سونے میں وصول کریں جسے کوئی چھاپ نہیں سکتا۔ اسی وجہ سے تیل کی قیمت گر گئی ہے۔ اگر قیمت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا میں ہر سال جتنا سونا نکلتا ہے اس کا دس گنا تیل نکلتا ہے۔
چین اجازت نہیں دیتا کہ سونا اس کے ملک سے باہر جائے لیکن شنگھائی انٹرنیشنل گولڈ ایکسچینج "شنگھائی فری ٹریڈ زون" (SFTZ) میں واقع ہے اور یہاں سے سونا ملک سے باہر لے جانے کی اجازت ہے۔
Now that the Chinese have pricing power in gold, they quite literally have the ability to completely screw and hammer the Comex and London Banks.
انگریزی کہاوت ہے کہ جو کوئی بھی سونے کی قیمت اپنی کرنسی میں کنٹرول کرتا ہے وہ سونے کی قیمت باقی کرنسیوں میں بھی کنٹرول کر لیتا ہے۔
Whoever controls the price of gold against their own currency controls the price of gold against any other currency
شنگھائی فیوچر ایکسچینج میں چاندی کی تجارت کا حجم اتنی تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ امکان ہے کہ اب جے پی مورگن کی چاندی پر اجارہ داری ختم ہونے والی ہے۔ مغربی ممالک کا شنگھائی گولڈ ایکسچینج سے نفرت کا یہ عالم ہے کہ انگریزی ویکیپیڈیا پر شنگھائی گولڈ ایکسچینج کے عنوان سے کوئی مضمون نہیں ہے۔ اسی طرح چین کے سونے کے سکوں کی بھی کوئی تصویر ویکیپیڈیا پر دستیاب نہیں۔
2013ء سے بھارت کی حکومت تجارتی خسارہ کم کرنے کے بہانے ملک میں سونے کی درآمد کم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ حکومت کی ان کوششوں کے پیچھے ریزرو بینک آف انڈیا کا ہاتھ ہے جو برائے نام حکومتی بینک ہے لیکن اسے آئی ایم ایف کنٹرول کرتا ہے۔
2015ء میں بھارت میں سونے کے زیورات کی تجارت کا حجم 25 ارب امریکی ڈالر کی مالیت کے برابر تھا۔ اس کے برعکس اسی سال پوری دنیا کے چاندی کے زیورات کی تجارت کا حجم صرف ساڑھے تین ارب ڈالر تھا۔
مورار جی دیسائی نے ہمیشہ ہندوستان میں سونے کی آمد کو روکنے کی کوشش کی۔
ہندوستان میں سونے کی امپورٹ | |
---|---|
دورانیہ | کتنا سونا امپورٹ ہوا |
2010ء | 941 ٹن |
2011ء | 1079 ٹن |
2012ء | 980 ٹن |
2013ء | 828 ٹن |
2014ء | 779 ٹن |
2015ء | 900 ٹن |
پچھلے چند سالوں میں انڈیا نے اپنے ریزرو سونے کی مقدار 600 ٹن سے بڑھا کر 748 ٹن کر لی ہے۔
2017ء سے انڈیا نے بھی خام سونے کی ایکسپورٹ پر پابندیاں عائید کر دی ہیں۔
سال | سونے کی درآمد |
---|---|
1999 | 352 |
2000 | 445 |
2001 | 550 |
2002 | 368 |
2003 | 469 |
2004 | 674 |
2005 | 838 |
2006 | 690 |
2007 | 787 |
2008 | 814 |
2009 | 791 |
2010 | 981 |
2011 | 1,079 |
2012 | 980 |
2013 | 828 |
2014 | 779 |
2015 | 947 |
2016 | 582 |
2017 | 901 |
2018 | 782 |
2019 | 661 |
2014ء میں جاپان نے سونے کی مانگ کم کرنے کی خاطر سونے کی درآمد پر ٹیکس 5 فیصد سے بڑھا کر 8 فیصد کر دیا۔
2017ء میں 1,347 افراد جاپان میں سونا اسمگل کرتے ہوئے پکڑے گئے اور ان کا 6,236 کلوگرام سونا حکومت نے ضبط کر لیا۔
روس کے سینٹرل بینک نے اکتوبر 2016ء میں 48 ٹن سونا خریدا۔ پچھلے 18 سالوں میں روس کی سونے کی یہ سب سے بڑی ماہانہ خریداری ہے۔
روس کے سینٹرل بینک کی سونے کی خریداری | |
---|---|
دورانیہ | کتنا سونا خریدا |
2014ء | 172 ٹن |
2015ء | 208 ٹن |
2003ء میں دبئی نے 6 ارب امریکی ڈالر کا سونا بیچا تھا۔2012ء تک یہ مقدار 70 ارب ڈالر تک پہنچ گئی اور 2013ء میں 75 ارب ڈالر ہو گئی جو دنیا بھر کے حقیقی سونے کی فروخت کا 40 فیصد بنتی ہے۔ ان اعداد و شمار سے پریشان ہو کر یہودی بینکار اس کوشش میں مصروف ہیں کہ اسلامی ممالک میں بھی کاغذی سونے کو متعارف کیا جائے۔
ترکی میں 2011ء سے سونا بینکنگ سسٹم سے منسلک کر دیا گیا ہے اور وہاں سونے کے سکے اکثر ادائیگیوں کے لیے دیے جاتے ہیں۔ ترکی کی حکومتی ٹکسالیں صرف ایک فیصد اجرت کے عوض عوام کے سونے کو سکوں میں تبدیل کر دیتی ہیں۔
2019ء میں ترکی نے 37 ٹن سونے کے سکے جاری کیے جبکہ اسی سال متحدہ امریکا نے صرف 7 ٹن سکے جاری کیے حالانکہ امریکی معیشت ترکی کی معیشت سے 26 گنا بڑی ہے۔ آسٹریلیا کی پرتھ کی ٹکسال نے 2019ء میں 12 ٹن سونے کے سکے بنائے۔ مئی 2020ء میں ترکی کے سینٹرل بینک نے 36.8 ٹن سونا خریدا۔ اب اس کے پاس 561 ٹن سونا ہے۔
سن عیسوی | کتنا سونا خریدا |
---|---|
2018ء | 656.2 ٹن (پچھلے 50 سالوں میں سب سے بڑی خریداری) |
2019ء | 650.3 ٹن |
مندرجہ بالا شہروں کے علاوہ ٹوکیو، سڈنی، سنگاپور، ممبئی اور ریو ڈی جنیرو میں بھی سونے کی بڑی مارکیٹیں موجود ہیں۔ امکان ہے کہ بھارت بھی 2016ء میں حقیقی سونے کا ایکسچینج قائم کر لے گا۔ اطلاعات ہیں کہ چین گوادر (پاکستان) میں دس تولے سونے کے بسکٹ کی خرید و فروخت میں دلچسپی رکھتا ہے۔
کاغذی سونا (گولڈ فیوچر) خریدنا دراصل سونے کے شیئر (اسٹاک) خریدنا ہے اور جس طرح اسٹاک مارکیٹ میں نفع نقصان ہو سکتا ہے اسی طرح کاغذی سونے میں بھی ہو سکتا ہے۔ کاغذی سونے کا خریدار اس وہم میں مبتلا رہتا ہے کہ وہ اپنے خریدے ہوئے سونے کا مالک ہے جو میعاد پوری ہونے پر اسے مل جائے گا۔ ورلڈ گولڈ کونسل کا کہنا ہے کہ اگر معاہدے کی میعاد ایک ہی دن میں مکمل ہو جائے تو سونے پر سٹہ لگانا غیر اسلامی نہیں ہے۔ لیکن اکثر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ حقیقی سونے کی ملکیت حاصل کیے بغیر صرف رسیدوں یا قول پر نفع نقصان شریعت میں جائز نہیں۔
سونے کی قیمت گرانے میں کاغذی سونے کا بڑا اہم کردار ہے۔
کاغذی سونا بیچنے کی چند بڑی کمپنی یہ ہیں۔
کاغذی سونے کی کمپنی کا نام | سونے کی ملکیت |
---|---|
GLD (SPDR) | 900 ٹن |
ETF Securities products | 300 ٹن |
iShares gold ETFs | 275 ٹن |
Xetra-Gold | 110 ٹن |
دورانیہ | کاغذی سونے کی عالمی مقدار |
---|---|
1975ء | آٹھ کروڑ 40 لاکھ اونس (2,612 ٹن) |
1977ء | 19 کروڑ اونس (5,909 ٹن) |
1979ء | ایک ارب دو کروڑ 70 لاکھ اونس (31,940 ٹن) |
ورلڈ گولڈ کونسل (World Gold Council) دنیا کی بڑی بڑی سونے کی کان کن کمپنیوں کی ایک تنظیم ہے جس کا صدر دفتر برطانیہ میں ہے۔ اس کے 18 ممبر ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یہ سونے کی مانگ اور فراہمی کو بڑھانے کی کوشش کرتی ہے جبکہ ناقدین کے خیال میں یہ اس کے عین برعکس کام کرتی ہے۔ اگرچہ یہ بڑی تفصیل سے دنیا بھر میں سونے کی پیداوار اور کھپت کے اعداد و شمار پیش کرتی ہے لیکن اس کے بیان کردہ اعداد و شمار میں بے شمار عیب ہوتے ہیں اور یہ بر وقت میسر بھی نہیں ہوتے۔ سونے کے اعداد و شمار میں "ڈبل کاونٹنگ" (double counting) ایک عام سی بات ہے جس کا جواب دہ کوئی نہیں۔
"Gold is a barometer of U.S.، and world, economic health. Down is good, up is bad. Way up is terrible. Thus the gold price is suppressed over and over again thanks to the elitist/establishment world."
the gold price is essentially the reciprocal of confidence in global central bankers.
there is no fever like gold fever.....Human beings are momentum chasers by nature
“Confidence will be lost very quickly,” he said. And like a coiled spring, “You will have your inflation—all at once.”.....So my advice to people interested in gold is—get it now while you still can. What are you waiting for? James G. Rickards
The UK is a net importer on a rising price and net exporters on declining price.۔.۔ Effectively, GFMS is hiding the most important part of global physical gold flows.
What you need to know is that most of this is just a massive scam. Rarely is any actual, physical metal exchanged. Instead, the bi-monthly Comex delivery process is primarily a shuffle of paper warehouse receipts and warrants. Additionally, the parties to these exchanges of paper are usuallly The Banks themselves, acting in one seemingly endless circle jerk where one month Scotia "delivers" to HSBC and, the next month, HSBC turns around and "delivers" metals back to Scotia. It's been this way for years and it continues to this day.
This article uses material from the Wikipedia اردو article سونے کی منڈیاں, which is released under the Creative Commons Attribution-ShareAlike 3.0 license ("CC BY-SA 3.0"); additional terms may apply (view authors). تمام مواد CC BY-SA 4.0 کے تحت میسر ہے، جب تک اس کی مخالفت مذکور نہ ہو۔ Images, videos and audio are available under their respective licenses.
®Wikipedia is a registered trademark of the Wiki Foundation, Inc. Wiki اردو (DUHOCTRUNGQUOC.VN) is an independent company and has no affiliation with Wiki Foundation.