میر انیس ؔ – میر ببر علی انیسؔ ( پیدائش: 1800– وفات: 10 دسمبر 1874ء) اردو زبان کے ممتاز ترین مرثیہ نگار، ، مرثیہ خواں شاعرتھے۔ میر انیس کی وجہ ٔ شہرت مرثیہ نگاری ہے جس میں آج تک اُن کے مقامِ سخن کو اُردو کا کوئی شاعر نہیں پہنچ سکا۔ انیسویں صدی میں مرثیے کو عروج تک لے جانے اور اُس کے مقامات کو نظم کرنے میں انیس کا کردار بہت زیادہ ہے۔انیس کا شمار دبستان لکھنؤ کے عظیم ترین شعرا میں ہوتا ہے۔
میر انیس | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1800ء فیض آباد |
وفات | 10 دسمبر 1874ء (73–74 سال) لکھنؤ |
رہائش | لکھنؤ فیض آباد |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
درستی - ترمیم |
انیس کا قد میانہ مائل بہ درازی تھا۔ ورزش کا شوق تھا جس کی وجہ سے بدن ٹھوس اور اعضاء چست و متناسب تھے۔ چھریرا بدن‘ چوڑا سینہ ‘ صراحی دار گردن‘ خوبصورت کتابی چہرہ‘ بڑی بڑی آنکھیں اور گیہواں رنگ تھا۔ مونچھیں ذرا بڑی رکھتے تھے اور داڑھی اِتنی باریک کترواتے تھے کہ دور سے مُنڈی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔
میر انیس اپنی وضع اور اپنے اوقات کے بہت پابند تھے۔چوگوشیا ٹوپی، نیچا گھیر دار کُرتا، ڈھیلی مہری کا پائجامہ‘ درگھتیلا جوتا بالعموم پہنتے تھے۔ انیس کے زمانے میں ذی علیم اور ثِقَّہ ، شرفاء اور صلحاء کا یہی لباس ہوتا تھا۔ ہاتھ میں چھڑی اور رومال بھی ضرور ہوتا تھا۔
میر انیس کا آبائی اور خاندانی مذہب مذہبِ شیعہ تھا۔اِسی لحاظ سے انیس کی شہرت مرثیہ نگاری کی وجہ سے ہوئی کیونکہ اثناعشری عقائد کے مطابق شیعی پیروکار علی ابن ابی طالب اور حسین ابن علی سے زیادہ عقیدت رکھتے ہیں۔ اِسی بابت میر انیس کی حسین ابن علی کی شہادت سے متاثر ہوتے ہوئے مرثیہ نگاری کی ابتدا کی تھی۔
مولوی حیدر علی اور مفتی حیدر عباس سے عربی، فارسی پڑھی۔ فنونِ سپہ گری کی تعلیم بھی حاصل کی۔ فنِ شہسواری سے بخوبی واقف تھے۔
شعر میں اپنے والد سے اصلاح لیتے تھے۔ پہلے حزیں تخلص تھا۔ شیخ امام بخش ناسخ کے کہنے پر انیسؔ اختیار کیا۔ ابتدا میں غزل کہتے تھے۔ مگر والد کی نصیحت پر مرثیہ کہنے لگے اور پھر کبھی غزل کی طرف توجہ نہیں کی۔ اس خاندان میں شاعری کئی پشتوں سے چلی آتی تھی۔ آپ کے مورثِ اعلیٰ میر امامی شاہ جہاں کے عہد میں ایران سے ہند میں آئے تھے اور اپنے علم و فضل کی بنا پر اعلیٰ منصب پر متمکن تھے۔ ان کی زبان فارسی تھی لیکن ہندوستانی اثرات کے سبب دو نسلوں کے بعد ان کی اولاد فصیح اردو زبان بولنے لگی۔ میر انیس کے پردادا اور میر حسن کے والد میر غلام حسین ضاحک اردو کے صاحبِ دیوان اور غزل گوشاعر تھے۔ گویا میر انیس کے گھر انے کی اردو شاعری کا معیار تین نسلوں سے متقاضی تھا کہ وہاں میر انیس جیسا صاحب سخن پروان چڑھے اور تا قیامت اہلِ ادب اُسے خدائے سخن کے نام سے پکارتے رہیں۔
میر انیس ابتدا میں غزل کہتے تھے مگر والد کی نصیحت پر صرف سلام اور مرثیہ کہنے لگے اور پھر ایسے منہمک ہوئے کہ کبھی غزل کہنے پر توجہ ہی نہیں دی۔ محمد حسین آزاد نے کیا خوبصورت تبصرہ فرمایا ہے کہ
ناصر لکھنوی نے خوش معرکہء زیبا (مرتّبہ مشفق خواجہ کراچی ) میں لکھا ہے کہ غزلیں انھوں نے دانستہ ضاِئع کر دی تھیں مگر پندرہ سولہ غزلیں جو محققین کو دستیاب ہوئی ہیں وہ انیس کی غزل گوئی پر فنی قدرت کی واضح ترین دلیل ہیں۔ چند شعر دیکھیے
یہ اشعار بھی دیکھیے
………
اپنے بیٹے میر نفیس کی ولادت کے بعد پہلے 1859ء میں مرثیہ پڑھنے عظیم آباد گئے۔ اور پھر 1871ء میں نواب تہور جنگ کے اصرار پر حیدر آباد دکن کا سفر کیا۔
میر انیس کا اِنتقال 29 شوال المکرم 1291 ھ مطابق بروز جمعرات10 دسمبر 1874ء کو دِن غروبِ آفتاب سے کچھ پہلے ہوا۔ رات کو غسل دیا گیا اور صبح سے کچھ پہلے (شبِ جمعہ) کو دفن کیے گئے۔
مرثیہ کی میراث انیس کو اجداد سے منتقل ہوئی تھی مگر ان کی طبعِ رواں ذاتی لیاقت کربلا سے ایمانی وابستگی اور شاہانِ اودھ کے عہد حکومت میں لکھنؤ کے اندرعزاداری کے لیے مثالی ماحول کی دستیابی نے انیس کو مرثیہ نویسی اور مرثیہ خوانی کے فن میں طاقِ روزگار بنا دیا اور کچھ ہی عرصہ میں انیس نے سلاستِ زبان، ادائیگی اور حسنِ بیان میں اپنے عہد کے راسخ البیان مرثیہ گو استادجناب میرزا سلامت علی دبیر اور دیگر اساتذہ ٔفن کو بھی مقبولیت میں قدرے پیچھے چھوڑ دیا۔ انیس کا معمول تھا کہ شب بھر جاگتے اور مطالعہ و تصنیف میں مصروف رہتے تھے۔ ان کے پاس دوہزار سے زائد قیمتی اور نایاب کتب کا ذخیرہ موجود تھا۔ نمازِ صبح پڑھ کر کچھ گھنٹے آرام کرتے تھے۔ بعدِ دوپہر بیٹوں اور شاگردوں کے کلام کی اصلاح کرتے تھے۔ محفلِ احباب میں عقائد اور علوم وعرفانیات پر گفتگو کرتے تھے۔
میر ببر علی انیس کو دشت کربلا کا عظیم ترین سیّاح قرار دیا گیا ہے۔ اُن کے مرثیوں کی تعدا د بارہ سو (1200) کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے۔ مجلّہ نقوش انیس نمبر میں بہ تحقیقِ عمیق میر انیس کے 26 نایاب اور غیر مطبوعہ مراثی طبع کیے گئے ہیں۔ محققین کے مطابق ان کے کئی مرثیے ابھی تک غیر مطبوعہ حالت میں مختلف بیاضوں کے اندر موجود ہیں۔ میر انیس نے روایتی مرثیہ کے علاوہ سلام، قصائد، نوحہ اور رباعیات کا بھی کثیر ذخیرہ چھوڑا ہے۔ رباعیاتِ انیس کی تعداد محققین کے مطابق چھ سو(600) کے برابر ہے۔ میر انیس کے کئی مراثی میں معجزاتی کرشمہ کاری کا عنصر ملتا ہے۔ آپ کے ایک نواسے میر عارف کی تحریری یادداشت سے پتہ چلتا ہے کہ 1857ء کے اواخر میں میر انیس نے ایک سو ستاون (157) بند یعنی ایک ہزار ایک سو بیاسی (1182) مصرعوں کا یہ شاہکار مرثیہ جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے ایک ہی شب میں لکھا اوراپنے خاندان کے عشرۂ مجالس میں پڑھا۔ میر انیس کے تین فرزندان تھے میر نفیس، میر جلیس اور میر سلیس اور یہ تینوں منجھے ہوئے شاعر و مرثیہ نگار تھے۔ والد کے بعد میر نفیس کا مرثیہ اعلٰی پائے کی مرثیہ نگاری میں شمار ہوا ہے۔
انیس نے مرثیے کو ترقی کے اعلیٰ درجے پر پہنچایا۔ اردو میں رزمیہ شاعری کی کمی پوری کی۔ انسانی جذبات و مناظر قدرت کی مصوری کے ذریعے زبان میں وسعت نکالی۔ سلام اور رباعیوں کا شمار نہیں۔ مرثیوں کی پانچ جلدیں طبع ہو چکی ہیں۔
جنابِ انیس کے رقم کردہ مرثیے اب تک کروڑوں آنکھوں، زبانوں اور سماعتوں کو اپنے ملکوتی خصائل کا گواہ بنا چکے ہیں۔ انیس کے کہے ہوئے مرثیوں میں آیات و روایات، تاریخ، تخیئل، ماحول، سراپا، رَجَز، مظلومیت، آہ و بکا، مکالمات، اعداد و شمار، منطق و فلسفہ، علومِ جہانی اور اصول و عقائد کے مفاہیم کی ایسی متوازن آمیزش ملتی ہے کہ انیس کے علم و فضل کی وسعتیں بیکراں محسوس ہونے لگتی ہیں۔ انیس نے دبیر کے مقابلہ میں سلیس زبان استعمال کی۔ اس کے باوجود اردو ادب کے محققین کے مطابق طولِ تاریخ میں تراکیب و فرہنگ کا سب سے عظیم ذخیرۂ الفاظ میر انیس کے کلام میں ملتا ہے۔ عروض و قوافی، صرف و نحو، تراکیب، صنائع و بدائع ،محاکات، محاورات اور بندشیں ان کے یہاں دست بستہ نظر آتے ہیں۔ مرثیہ بیانیہ شاعری کا نام ہے۔ انیس نے اس میں ایک ناظر کی حیثیت سے خارجی اندازِ ملاحظہ اور مرثیے کے کرداروں کی اپنی داخلی کیفیات کو بیک وقت یک جا کر کے واقعہ نگاری کو معجزاتی انداز تک متحرّک اور بے نظیر بنا دیا ہے۔ میر انیس کا اجتماعی کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مرثیہ نگاری کو ایک سماجی رسم کے درجہ سے اٹھا کے نفیس ترین ادبی صنف اور مرثیہ گوئی کو فنِّ لطیف میں بدل دیا ہے۔
میر انیس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ ان کے مرثیے ایک خاص تاریخی واقعے سے تعلق رکھتے ہیں اور چونکہ اس تاریخی واقعے کاتعلق مذہبی جذبات سے ہے اس لیے انھوں نے اپنے مراثی میں فنکارانہ اصولوں کی پابندی سے زیادہ اپنے جذبات کو جگہ دی ہے اس طرح یہ جذباتیت ان کی واقعہ نگاری کوعمودی(Vertical) طور پر پرُاثر توضرور بنا دیتی ہے مگر افقی (Horizontal) طور پر شاعرانہ حسن کو فوت کر دیتی ہے. مگرڈاکٹرفرحت نادر رضوی نے اپنی کتاب "میر انیس اور قصہ گوئی کا فن" میں جو ان کی اس تحقیقی کاوش کا ثمرہ ہے جو انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی میں اپنی ڈاکٹریٹ کی ریسرچ کے درمیان انجام دی اور جس کی اشاعت لکھنؤ ایجوکیشنل اینڈ ڈیویلپمنٹ ٹرسٹ نے کی ہے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میر انیس کے مرثیے اپنے اندر وہ تمام صفات بدرجہ اتم رکھتے ہیں جو کسی واقعے کے بیان کو ایک کامیاب قصے کے درجے پر فایض کرنے کے لیے ضروری ہیں اور وہ اجزا ہیں: اسرار، تجسّس، خلش، تصادم اور منتہائے بیان۔ یہ تمام اجزا نہ صرف یہ کہ انیس کے مرثیوں میں موجود ہیں بلکہ احسن طریقے پر موجود ہیں اور کہیں کہیں تو میر انیس بیانِ قصہ میں داستان اور مثنوی سے بھی بہت آگے نکل گئے ہیں درآں حالیکہ مرثیوں میں پیش کیا جانے والا قصہ ایک حقیقی تاریخی واقعہ ہے اور اس اعتبار سے میر انیس بڑی مجبوریوں کے اسیر ہیں کہ تاریخی واقعات سے پرے وہ تخیل کی وہ دنیا آراستہ نہیں کر سکتے جس کے ذریعہ داستان گویوں اور مثنوی نگاروں نے اپنی تخلیقات کو معرکتہ الا را اثرانگیزی بخشی ہے۔ ‘‘ بقول پروفیسر شبیر حسن رضوی: "مثلاً شیکسپیئر کو تعمیر واقعات وتخلیق اشخاص میں جو آزادی تھی وہ انیس کو نہ تھی انیس کا موضوع تاریخی واقعات میں محدودتھا ۔۔۔ شیکسپیئرکا کمال یہ تھا کہ فرضی واقعات اور موہوم کرداروں کی ایسی پیچیدہ تعمیرو تخلیق کی جو واقعی صورت حال اور حقیقی شخصیتوں سے متوقع ہے ۔۔۔ انیس کا کمال یہ ہے کہ تاریخ کے متحجرواقعات اور سوانح و سیر کے سادہ خاکوں میں زندگی کا رنگ بھر کراس طرح نگاہوں کے سامنے پیش کر دیا کہ نہ صرف سامع و قاری کے توقعات بدرجۂ اتم پورے ہوں بلکہ انھیں اُن واقعات وشخصیات کو بچشمِ خود دیکھنے کا احساس ہونے لگے ۔۔۔ اس وقت شیکسپئر کے ڈراموں ۔۔۔ وغیرہ سے اردو مرثیوں کا موازنہ مقصود نہیں ہے بلکہ صرف اتنا کہنا چاہتاہوں کہ عالمی ادب کے ان کارناموں کے مقابل اردو میں اگر کوئی چیز ہے تو میر انیس کے مرثیے ہیں۔"
میر انیس ایک اعلیٰ سخنور ہونے کے علاوہ نہایت خوش آواز بھی تھے۔ نقوش کے میر انیس نمبر میں روایت نقل ہے کہ لکھنؤ کے ایک بزرگ سید محمد جعفر مرثیہ خوان تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ
منبر پہ مرثیہ تحت اللفظ میں پڑھنے میں بھی میر انیس کی مثل کوئی دوسرا نہ بن سکا۔ انیس پر لکھی گِئی کتب میں اس شانِ ادائیگی کا تذکرہ کئی راویوں کی زبان سے نقل ہوا ہے۔ کتاب واقعاتِ انیس میں علی مرزا پٹنے کا بیان ہے کہ وہ انیس کے متواتر سننے والوں میں سے تھے اور انیس بہ کمالِ توجّہ منبر سے انھیں مخاطب بھی کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں:
مولانا محمد حسین آزاد نے انیس کو لکھنؤ میں خود دیکھا تھا۔ آبِ حیات میں انھوں نے انیس کے لیے لکھا ہے:
مولوی عبد الحلیم شرر گزشتہء لکھنؤ میں لکھتے ہیں کہ:
بیسویں صدی کے مرثیہ نگار شاعرجوش ملیح آبادی نے میر انیس کے لیے کہا:
تیری ہر موجِ نفَس روح الامیں کی جان ہے
تُو مِری اردو زباں کا بولتا قرآن ہے
لکھنؤ میں انتقال کیا۔ اور اپنے سکونتی مکان واقع محلہ سبزی منڈی میں دفن ہوئے۔
شاعر ضیاء الحسن رضوی نے میر انیسؔ کے ایک مشہور سلام کے مقطعے کے دوسرے مصرعے سے میر انیسؔ کا مصرعۂ تاریخِ وفات نکالا جو 1874 عیسوی ہے۔
اپنے بارے میں حسنؔ فرما گئے ہیں جو انیسؔ
اُس سے بہتر سالِ رحلت اور ہو سکتا نہیں
اک صدی کے بعد بھی تاریخ دیتی ہے صدا
’’جوہری بھی اس طرح موتی پرو سکتا نہیں‘‘ (1874)
This article uses material from the Wikipedia اردو article میر انیس, which is released under the Creative Commons Attribution-ShareAlike 3.0 license ("CC BY-SA 3.0"); additional terms may apply (view authors). تمام مواد CC BY-SA 4.0 کے تحت میسر ہے، جب تک اس کی مخالفت مذکور نہ ہو۔ Images, videos and audio are available under their respective licenses.
®Wikipedia is a registered trademark of the Wiki Foundation, Inc. Wiki اردو (DUHOCTRUNGQUOC.VN) is an independent company and has no affiliation with Wiki Foundation.