آئین پاکستان میں آٹھویں ترمیم

آئین پاکستان میں آٹھویں ترمیم جس کو سرکاری طور پر آئین (آٹھویں ترمیم) ایکٹ، 1985ء کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسے 9 نومبر 1985ء کو نافذ العمل کیا گیا۔ اس ترمیم کی رو سے حکومت پاکستان پارلیمانی طرز حکومت سے جزوی صدارتی طرز حکومت میں تبدیل ہو گئی اور صدر پاکستان کو کئی اضافی اختیارات اور آئینی طاقت میسر آ گئی۔ یہ اختیارات جو آئین پاکستان کے ذیلی حصہ 2 (ب) کے آرٹیکل 58 میں شامل ہوئے جس کے تحت صدر پاکستان کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ پاکستان کی قومی اسمبلی کو تحلیل کر سکتے تھے، جبکہ سینٹ کو تحلیل کرنے کا کوئی اختیار نہ تھا۔ اس ترمیم کے تحت اگر صدر پاکستان کی رائے میں ملک میں ایسی صورت حال جنم لیتی ہے جس کے تحت حکومت اور ریاست کے انتظامات آئین پاکستان کے تحت نہ چلائے جا سکتے ہوں اور نئے انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہو تو وہ پاکستان کی قومی اسمبلی کو تحلیل کر سکتے ہیں۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 58 میں کی جانے والی اس ترمیم کی رو سے صدر پاکستان وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو بھی فارغ کر سکتے تھے۔

آرٹیکل 58- 2(ب)

آٹھویں ترمیم، جس کے تحت آئین میں دوسری کئی ترامیم بھی کی گئیں چیدہ بات یہ تھی کہ آئین کے آرٹیکل 58 میں مندرجہ زیل نکات کا بھی اضافہ ہوا،
آئین کے آرٹیکل 49 میں جز 2 میں بیان کردہ حالات سے علاحدہ کچھ ایسے مواقع آ جائیں تو صدر پاکستان، پاکستان کی قومی اسمبلی کو تحلیل کر سکتے ہیں، جیسے کہ،
الف۔ وزیر اعظم کے خلاف ایوان میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جائے اور ایوان کا کوئی بھی دوسرا رکن اس حیثیت میں نہ ہو کہ وہ آئین پاکستان کے تحت ایوان کا اعتماد لے سکے یا
ب۔ ملک میں کچھ ایسے حالات جنم لے لیں جب آئین پاکستان کے تحت حکومت اور ریاست کے انتظامات و معاملات چلانا ممکن نہ رہے اور اس کا حل پاکستان کے منتخب شدہ الیکٹورل کالج کے پاس بھی نہ ہو تو صدر پاکستان اپنی رائے میں اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل اٹھاون 2 بی جس کے تحت صدر پاکستان کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار حاصل تھا،جنرل ضیاءالحق نے پہلی بار 29جولائ 1988 کو یہ اختیار محمد خاں جونیجو کی حکومت کے خلاف ہی استعمال کیا جس نے یہ قانون منظور کیا تھا۔۔یہ اختیار اس کا استعمال 1990ء کی دہائی میں تین بار کیا گیا۔ یہ اختیارات استعمال ہونے والا پہلا موقع وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف صدر غلام اسحق خان نے 6 اگست 1990ء، دوسرے موقع پر وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف صدر غلام اسحق خان نے 1993ء جبکہ تیسری بار بے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف صدر فاروق احمد لغاری نے نومبر 1996ء کو معطل ہوئی۔ ان اختیارات کے استعمال ہونے کی دوسری بار نواز شریف کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے بحال کر دیا تھا لیکن اس وقت اداروں کے مابین شروع ہونے والے قضیے کے نتیجے میں صدر غلام اسحق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔ اس آرٹیکل کا جہاں بھی استعمال ہوا صدر پاکستان کی جانب سے اس کے استعمال کی وجوہات کو واضع انداز میں بیان کیا گیا اور زیادہ تر حکومتی انتظامیہ کی کرپشن کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس الزام کے بعد حکومتی ادارے عوام میں اپنا وقار اور مقبولیت کھو بیٹھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہر بار حکمران جماعت کو انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پارلیمان میں عددی برتری کسی بھی جماعت کے حصے میں نہیں آئی۔
1997ء میں آئین پاکستان میں تیرہویں ترمیم کی گئی جس کی رو سے صدر پاکستان سے وہ اختیارات واپس لے لیے گئے جس کے تحت وہ اسمبلی کو تحلیل کر سکتے تھے اس طرح صدارتی کیمپ بظاہر ربر سٹمپ بن کر رہ گیا۔
پاکستان میں نافذ جمہوریت میں کوئی بھی ایسا ذریعہ نہیں ہے کہ منتخب ہو جانے کے بعد عوام کے ذریعے اراکین پارلیمان کا احتساب کیا جا سکے۔ ادارہ جاتی احتساب پہلے ہی نہ ہونے کے برابر تھا کہ آئین میں کی جانے والی تیرہویں اور چودہویں ترمیم کے ذریعے حکومتی احتساب کی ساری راہیں بھی مسدود کر دی گئیں۔ وزیر اعظم پاکستان کو اتنا مضبوط کر دیا گیا کہ کسی صورت بھی وزیر اعظم یا ان کی انتظامیہ و کابینہ کا احتساب دوران حکومت ممکن نہ رہا۔
صدر پاکستان کے اختیارات کو سترہویں ترمیم کے ذریعے جزوی طور پر بحال کیا گیا۔ گو صدر پاکستان کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار مل گیا مگر صدر کے اس اقدام کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ کی توثیق سے مشروط کر دیا گیا۔

ائن 1973 میں جس ترمیم سے اراکین اسمبلی کے فلور کراسنگ پر پابندی لگائی گئی ہے

عام طور آٹھویں ترمیم کو اس کے آرٹیکل اٹھاون دو ب کے تحت ہی یاد کیا جاتا ہے جس کی رو سے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیارات حاصل ہوئے۔ لیکن، آٹھویں ترمیم دراصل غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب شدہ پارلیمان اور اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق کے مابین ایک مفاہمت یا سودا تھا۔ 1985ء کے ان انتخابات سے پہلے تقریباً چھ سال تک جنرل ضیاء آئین پاکستان میں کئی ترامیم کر چکے تھے جو آئینی ترمیمی احکامات کے ذریعے کیے گئے تھے، ان میں سب سے مشہور آئین پاکستان 1973ء (صدارتی حکم نمبر 14، سال 1985ء) تھا۔ اس صدارتی حکم کے تحت ہی دراصل صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار حاصل ہوا۔
اس بارے جو ابہام پایا جاتا ہے کہ منتخب شدہ اسمبلی نے ایسی متنازع ترمیم کو منظور کیسے کیاِ؟ اس بارے یہ جاننا ضروری ہے کہ دراصل اس وقت صدر ضیاء نے چھ سالوں میں صدراتی دفتر کو جتنے بھی اختیارات صدارتی حکم ناموں کے ذریعے منتقل کیے تھے ان میں سے بیشتر کے عوض ہی ایوان سے یہ ترمیم منظور کروائی تھی۔ اس ضمن میں آئینی ماہرین دراصل آٹھویں ترمیم کو ایک مفاہمتی سودے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

مزید دیکھیے

Tags:

1985ء9 نومبرآئین پاکستانایوانِ بالاحکومت پاکستانصدر پاکستانپاکستان

🔥 Trending searches on Wiki اردو:

غزالیغلام علی ہمدانی مصحفیہندی زبانن م راشدبنو قریظہمعراجماتریدیحکیم لقمانرفع الیدینمیا خلیفہدرس نظامیگاندھی جناح مذاکرات 1944سورہ کہفسلیمان (اسلام)وحید الدین خاںبشر بن حکمتقسیم بنگالمیاں محمد بخشاشاعت اسلامخالد بن ولیدپریم چند کی افسانہ نگاریعمران خانبنو امیہروح اللہ خمینیاردو زبان کے مختلف نامبیعت الرضوانزرتشتیتبابا فرید الدین گنج شکراقسام حدیثایمان بالرسالتاندلسسلسلہ نقشبندیہہندوستان میں تصوفکوسقرآن میں مذکور خواتینقرآن میں انبیاءسطح مرتفع پوٹھوہارعائشہ بنت ابی بکرyl4p1محمد بن عبد الوہاباصناف ادبتشبیہمتواتر (اصطلاح حدیث)عمران خان کے اہل و عیالجنگ یرموکالانفالبہادر شاہ ظفرابو ذر غفاریاخوت فاؤنڈیشناسرائیلمہیناچاندعدتکراچیمسجد اقصٰیاختلاف (فقہی اصطلاح)جنت البقیعارکان نماز - واجبات اور سنتیںعید الفطرابو ایوب انصاریقلعہ لاہورمحبتتعویذسیکولرازمنور الدین زنگیحسان بن ثابتنیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان 2022–23ء (اپریل 2023ء)معاشرہاحمد سرہندیسنتراحت فتح علی خاناسماء اصحاب و شہداء بدرسورہ فاتحہقرآن میں ذکر کردہ ناموں کی فہرستمرثیہہجرت حبشہسنن ابی داؤددبستان دہلی🡆 More