اسلام میں چوری کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے۔ عربی زبان میں چور کے لیے سارق کا لفظ وارد ہوا ہے اور ایسے شخص کے لیے کافی وعید آئی ہے۔ آخرت میں سخت عذاب کے علاوہ دنیا میں بھی کافی سخت سزا سنائی گئی ہے۔
چوری کے متعلق شرعی مسائل یہ ہیں:
چوری گناہِ کبیرہ ہے اور چور کے لیے شریعت میں سخت وعیدیں ہیں، چنانچہ
اسلامی سزاؤں کا مقصد ظلم وجور سے روک کر صحیح راہ پر ڈال دینا اور ایسی سزا دینا جس سے نفسیاتی طور پر دوسرے انسان متاثر ہوں اور ان کو اس طرح کے بُرے کاموں کی جرات و ہمت نہ ہونے پائے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہر جرم میں قطع اعضاء سے یہ منشا پورا نہیں ہو سکتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ آخر چور کا ہاتھ کیوں کاٹا جاتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ چور چھپ چھپا کر چوری کرتا ہے اور پھر بھاگتا ہے، گویا اس کی آرزو یہ رہتی ہے کہ دوسروں کا مال بھی لے کر بھاگے اور کسی پر اس کا راز ظاہر بھی ہونے نہ پائے۔ خدا جل شانہ نے اس وجہ سے اس کی سزا ایسی تجویز فرمائی کہ اس کے چھپانے کے جذبات کا رد عمل سامنے آئے اور ساری دنیا کو معلوم ہو جائے کہ یہ شخص چور تھا۔ دوسرے بھاگنے میں اس کو پوری قوت نہ ہو۔ اسی وجہ سے دوسری مرتبہ چوری پر پاؤں کاٹنے کا حکم ہے تاکہ بھاگ نہ سکے۔ لیکن چونکہ اسے بیکار محض بنانا نہیں ہے، اس لیے ہاتھ اور پیر مخالف سمت سے کاٹا جاتا ہے، پھر ہاتھ بغل سے نہیں کاٹا جاتا بلکہ صرف کلائی کاٹی جاتی ہے اور پاؤں رانوں سے نہیں کاٹا جاتا، بلکہ صرف ٹخنے سے، تیسری مرتبہ چوری پر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے، اس کا کوئی اور عضو نہیں کاٹا جاتا۔ یہ ساری سزاؤں کا دینا صرف اسلامی عدالت کر سکتی ہے، عامۃ المسلمین اس میں مجاز نہیں رکھتا۔
This article uses material from the Wikipedia اردو article اسلام میں چوری, which is released under the Creative Commons Attribution-ShareAlike 3.0 license ("CC BY-SA 3.0"); additional terms may apply (view authors). تمام مواد CC BY-SA 4.0 کے تحت میسر ہے، جب تک اس کی مخالفت مذکور نہ ہو۔ Images, videos and audio are available under their respective licenses.
®Wikipedia is a registered trademark of the Wiki Foundation, Inc. Wiki اردو (DUHOCTRUNGQUOC.VN) is an independent company and has no affiliation with Wiki Foundation.