میکسم گورکی

میکسم گورکی (روسی: Макси́м Го́рькій)‏, نقل حرفی Maxim Gorky (پیدائش: 28 مارچ 1868ء - وفات: 28 جون 1936ء) روس کے مشہور انقلابی شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نویس اور صحافی ہیں جنھوں نے اپنی تحریروں سے دنیا کے بہت بڑے حصے کو متاثر کیا، انقلاب میں ایک نئی روح پھونک دی اور دنیا کے مظلوم طبقے و پسے ہوئے لوگوں میں امید کی ایک نئی لہر پیدا کردی جس کی بازگشت آج تک جاری ہے۔

میکسم گورکی
(روسی میں: Алексей Максимович Пешков ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
میکسم گورکی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 16 مارچ 1868ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نزنی نوگوروڈ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 18 جون 1936ء (68 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ماسکو   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات نمونیا   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن کریملن قبرستان   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش کیپری (1906–1913)
نزنی نوگوروڈ
سینٹ پیٹرز برگ
ماسکو   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت میکسم گورکی سلطنت روس
میکسم گورکی سوویت اتحاد   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت روسی سماجی جمہوری جماعت مزدور   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن سوویت انجمن مصنفین   ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مصنف ،  ڈراما نگار ،  ناول نگار ،  شاعر ،  عوامی صحافی ،  ڈرامائی مشیر ،  آپ بیتی نگار ،  صحافی ،  روزنامچہ نگار ،  سیاست دان ،  ناشر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان روسی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان روسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں ماں   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
میکسم گورکی آرڈر آف لینن   (1932)  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نامزدگیاں
دستخط
میکسم گورکی
 
میکسم گورکی
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
میکسم گورکی باب ادب

حالاتِ زندگی و تخلیقی دور

میکسم گورکی نیزنی نوف گورود، روسی سلطنت میں 28 مارچ 1868ء کو پیدا ہوئے۔میکسم گورکی کا اصل نام الیکسی میکسیمووچ پیشکوف تھا۔ گورکی کا باپ معمولی حیثیت سے رفتہ رفتہ جہازران کمپنیوں کا ایجنٹ ہو گیا تھا۔ گورکی چار پانچ سال کا تھا جب اس کے باپ کا انتقال ہو گیا اور اس کی ماں اسے لے کر اپنے باپ کے یہاں چلی گئی، جو نیزنی نوف گورود میں رنگریزی کا کام کرتا تھا۔ اس وقت سے جو انی تک کی سرگزشت گورکی نے دو ناولوں میں بیان کی ہے، بچپن اور منزل کی تلاش اور ایسے ناولوں کے لیے اس کی سرگزشت سے بہتر موضوع ملنا بہت مشکل ہے۔ گورکی کے نانا کی حالت اس وقت اچھی نہ تھی، افلاس کے ساتھ اس کی بد مزاجی اور طبیعت کے بہت سے عیب اُبھر آئے تھے اور جن لوگوں پر اس کا بس چلتا ان پر وہ اپنا غصہ اُتارتا تھا۔ لیکن گورکی کے لیے اس کا نواسا ہونا سراسر بدقسمتی نہ تھی کہ اگر اسے ایک طرف نانا کی ناگوار باتیں سننا اور سختیاں برداشت کرنا پڑتا تھا تو دوسری طرف نانا کی محبت میں اس کے لیے ایک ایسا ٹھکانا تھا جہاں پہنچتے ہی دل کا دکھ اور ظلم کا خوف اسی طرح دور ہو جاتا جیسے ڈراؤنے خوابوں کی وحشت سے آنکھ کُھل جانے سے۔ باپ کے یہاں تھوڑے دنوں رہنے کے بعد گورکی کی ماں نے دوسری شادی کرلی اور پھر جلد ہی دق کا شاکار ہو کر انتقال کرگئیں۔ نانا نے موقع غنیمت جانا اور گورکی کو گھر سے نکال دیا۔ پہلے گورکی کو جوتے والی دکان پر نوکری ملی، جہاں طرح طرح کے گاہک آیا کرتے تھے۔ یہاں اس نے پہلے پہل دنیا کا حال دنیا والوں کی زبانی سنا، عیاشی اور بدکاری کی داستانیں سنیں۔ دکان چھوڑنے کے بعد کئی مہینے تک ایک جہاز کے باورچی خانے میں برتن دھو کر پیٹ پالتا رہا۔ باورچی پہلا شخص تھا جس نے نوجون گورکی کی تعلیم پر توجہ کی اور یہ اسی کا احسان تھا کہ گورکی نے ذرا پڑھنا لکھنا سیکھ لیا۔ مگر برتن دھونے کا کام ایسا تھا کہ گورکی سے ہوتا نہ تھا، وہ اس کام سے پیچھا چھڑا کر کسی شہر میں ایک ایسی عورت کے پاس نوکر ہو گئے جہاں شعر و شاعری اور موسیقی کا خاصا چرچا رہتا تھا اور گورکی کو ادب سے خاص لگاؤ پیدا ہو گیا، جس نے تعلیم کے شوق کو بہت بڑھادیا۔ پندرہ برس کی عمر میں گورکی نے شہر کازان کے ایک اسکول میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر ناکام رہے اور تعلیم سے مایوس ہوکر اس نے ایک نان بائی کے یہاں ملازمت کرلی۔ جن لوگوں میں وہ یہاں رہتا تھا انھیں تو بھوک اور محنت کی زیادتی نے بے جان کر دیا تھا، لیکن گورکی کو چند ایسے طالب علموں سے ملنے کا اتفاق ہوا جنھوں نے اس کے ذہن میں انقلاب پسندی کے بیج بو دیے۔ گورکی نے نان بائی کی دکان کو خیرباد کہا اور جنوب و جنوب مشرقی روس میں دو تین سال تک بے کار پھرتا رہے۔ 1890ء میں وہ نووگورود کے ایک وکیل کا محرر ہو گیا اور وکیل کی ہمدردی اور ہمت افزائی کی بدولت اس کی علمی اور ادبی قابلیت اتنی ہو گئی کہ وہ افسانے لکھنے لگا۔ 1892ء میں اس کا پہلا افسانہ شائع ہوا۔ اگرچہ اس وقت وہ پھر آوارہ گردی کرنے لگا تھا لیکن اس نے افسانہ نویسی بھی جاری رکھی۔ تین سال کے اندر گورکی کو افسانہ نگاری سے خاصی آمدنی ہونے لگی۔ 1898ء میں اس کے افسانوں کا مجموعہ دو جلدوں میں شائع ہوا اور کچھ عرصے کے اندر وہ روس ہی میں نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ غیر ممالک میں مشہور اور ہر دل عزیز ہو گیا۔

ادبی حیثیت بڑھی تو گورکی پیٹرز برگ میں آکر رہنے لگے۔ یہاں اس کے انقلاب پسندوں سے تعلقات ہو گئے۔ وہ خود کارل مارکس اور اشتراکیت کی تعلیم کا معتقد ہو گیا اور اس کی آمدنی کا بیشتر حصہ سیاسی کاموں اور انقلاب انگیز خیالات کی اشاعت میں صرف ہونے لگا۔ 1900ء میں شہر بدر کرکے نووگورود بھیج دیا گیا، مگر اس سزا کا اس کے طرزِعمل پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ 1902ء میں شاہی اکادمی کا رکن منتخب ہوا اور سرکار کے حکم سے انتخاب منسوخ کر دیا گیا تو چیخوف کو جو خود کچھ عرصہ پہلے منتخب ہوا تھا، اتنا غصہ آیا کی اس نے رکنیت سے استعفا دے دیا۔ تین سال بعد، جب 1905ء میں پہلے انقلاب روس کی تحریک اُٹھ رہی تھی تو گورکی قید کر دیا گیا، لیکن اس پر یورپ بھر میں ایسی نارضگی کا اظہار کیا گیا کہ حکومت کو مجبوراً اسے چھوڑنا پڑا اور اس نے انقلابی کارروائیوں میں پوری طرح شرکت کی۔ انقلاب کا خاتمہ کر دیا گیا تو گورکی فنستان ہوتے ہوئے امریکا چلا گیا۔ امریکا میں اس کا بڑی دھوم دھام سے استقبال کیا گیا اور وہاں بھی کچھ عرصے تک اس کی بڑی قدر رہی، لیکن جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ بیوی جو گورکی کے ساتھ آئی ہے بیوی نہیں صرف دوست ہے تو سب اس سے خفا ہو گئے۔ گورکی کو اپنی طرف یہ قدامت پرستی اتنی بُری لگی کی اس نے امریکا والوں کے خلاف ایک کتاب لکھ ماری۔ امریکا سے گورکی روس واپس نہیں گیا بلکہ چند سال اٹلی کے مشہور جزیرے کیپری میں صحت کے خیال سے رہائش پزیر رہا۔

میکسم گورکی 

1914ء میں جنگ عظیم شروع ہوئی۔ اس وقت گورکی کا رویہ وہی تھا جو اکثر تعلیم یافتہ روسیوں کا، یعنی وہ کشت و خون پر افسوس کرتا تھا، دونوں فریق میں سے کسی کے ساتھ اسے اخلاقی ہمدردی نہ تھی اور لڑائی کے انجام سے کوئی سروکار نہ تھا۔ البتہ جب 1917ء میں انقلاب کے آثار نظر آئے تو گورکی جاگ اُٹھا اور انقلاب کو کامیاب بنانے کی کوشش میں لگ گیا۔ لیکن انقلاب کے فلسفے کا وہ اتنا شیدائی نہ تھا اور انقلابیوں کی سیاست سے اس کو ایسا اتفاق نہ تھا کہ وہ اس تحریک میں اپنی شخصیت کو محو کر دے اور اس کی حیثیت ایک اعلیٰ مرتبہ سرپرست اور نکتہ بین ہمدرد کی سی رہی۔ انقلاب کے رہبروں کو یہ بات پسند نہ تھی اور وہ اس پر اکثر اُلجھتے تھے لیکن اس نے روسی ادب اور تہذیب کی آبرو رکھ لی اور ترجمے کے ان اداروں نے جو گورکی نے اپنا اثر ڈال کر قائم کرائے، بہت سے انشا پردازوں کو فاقے سے بچا لیا۔ تصنیف کے لیے تو ظاہر ہے یہ زمانہ موزوں نہ تھا، گورکی نے صرف تین کتابیں اور لکھیں جن میں سے ایک میں تالستائی،کورولینکو، چیخوف اورآندریئف وغیرہ سے اس کی جو ملاقاتیں ہوئیں، ان کے کچھ حالات ہیں، دوسری کتاب زندگی کی شاہراہ پر اور تیسری روزنامچہ ہے۔ ان میں جگہ جگہ پر افسانے اور ناول کا رنگ دکھائی دیتا ہے، لیکن وہ متفرق مضامین، جن میں کمال دکھایا گیا ہے تو بڑھاپے کے آثار بھی بہت صاف نظر آتے ہیں۔

گورکی کے ابتدائی افسانے روس کے جاہل اور غریب طبقے کا حال اسی طرح بتاتے ہیں جیسے دریا کی تہ سے مٹی اور گھونگھے جو جال کے ساتھ نکل آتے ہیں۔ چلکاش (1895ءہم سفر (1896ء) اور مالوا (1897ء) گورکی کے پہلے افسانوں کے مجموعے ہیں اور یہ زیادہ تر اس آوارہ گردی کی یادگار ہیں جو گورکی نے اوڈیسہ اور جنوبی روس میں کی تھی۔ گورکی کا ناول ماں (1907ء) ایک زمانے میں انقلابی حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔

سوویت ادیبوں کی انجمن

1934ء میں میکسم گورکی سوویت ادیبوں کی انجمن کے پہلے چیئرمین منتخب ہوئے اور اپنی وفات (1936ء) تک اس عہدہ پر فائز رہے۔

تخلیقات

  • ماں
  • انسان کی پیدائش
  • اطالوی کہانیاں
  • تین راہی
  • بچپن
  • زندگی کی شاہراہ پر
  • منزل کی تلاش

وفات

دنیائے ادب کے عظیم ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نویس اور صحافی میکسم گورکی ماسکو اوبلاست، سویت یونین میں 68 سال کی عمر میں 28 جون 1936ء میں کروڑوں انسانوں کو سوگوار چھوڑ کر دارِفانی سے کوچ کر گئے ۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

Tags:

میکسم گورکی حالاتِ زندگی و تخلیقی دورمیکسم گورکی سوویت ادیبوں کی انجمنمیکسم گورکی تخلیقاتمیکسم گورکی وفاتمیکسم گورکی مزید دیکھیےمیکسم گورکی حوالہ جاتمیکسم گورکی1868ء1936ء28 جون28 مارچانقلاب روسروسروسی رومن سازیروسی زبانشاعرصحافیڈراما نویس

🔥 Trending searches on Wiki اردو:

عمار بن یاسرتشبیہحسین بن علیجادوعثمان بن عفانامیر خسرووالدین کے حقوقعمرانیاتنوٹو (فونٹ خاندان)نسب محمد بن عبد اللہسمتحدیثسورہ محمدحیاتیاتمہرگرو نانکمسجد ضراربیعت الرضوانمعاشرہرومانوی تحریک26 اپریلصحابہ کی فہرستپیمائشلاہورسچل سرمستمیر امناہل حدیثفاطمہ جناحعمرو ابن عاصبرطانوی ایسٹ انڈیا کمپنیسورہ یٰساستعارہحجازکیمیاخدیجہ بنت خویلدشمس تبریزیپاکستان کے عام انتخابات، 2024ءسورہ کہفحکومت پاکستانارکان نماز - واجبات اور سنتیںجزاک اللہسلطنت عثمانیہ کے سلاطین کی فہرستنماز استسقاءظہیر الدین محمد بابرموسی ابن عمرانخود مختار ریاستوں کی فہرستمشت زنیفارسی زباناذانالانعامتشہدوحیوحید الدین خاںسید احمد بریلویشافعیناولاصحاب صفہسرمایہ داری نظامسی آر فارمولامال فےابو جہلخیبر پختونخوامرزا محمد ہادی رسوابریلوی مکتب فکرحمزہ بن عبد المطلبكتب اربعہرومی سلطنتپاکستان کے رموز ڈاکپاکستان مسلم لیگ (ن)اشاعت اسلامراجندر سنگھ بیدیقومی ترانہ (پاکستان)شعیبابو ایوب انصاریہجرت مدینہ🡆 More