2021ء میانمار مسلح بغاوت (انگریزی: 2021 Myanmar coup d'état) میانمار میں مسلح بغاوت 1 فروری 2021ء کی صبح اس وقت ہوا جب ریاستی کونسلر آنگ سان سو چی، صدر وین مائنٹ اور حکمران جماعت کے دیگر رہنماؤں کو میانمار کی فوج، تاتماڈو نے گرفتار کر کے حراست میں لیا۔ تاتماڈو نے ایک سال کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کیا اور اعلان کیا کہ اقتدار کو مسلح افواج کے کمانڈر انچیف مین آنگ ہلاینگ کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ نومبر 2020ء کے عام انتخابات میں منتخب ہونے والے ممبروں کی میانمار کی پارلیمنٹ میں حلف اٹھانے سے ایک دن قبل ہی بغاوت کی گئی۔ بغاوت کے فورا بعد ہی ، فوج نے آنگ سان سو چی کو غیر قانونی طور پر سیرتکلمہ درآمدی کے الزام عائد کرکے ان کی نظربندی کو باضابطہ طور پر جائز قرار دیا۔
2021ء میانمار مسلح بغاوت | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
سلسلہ میانمار میں داخلی تنازع اور سیاسی بحران | |||||||
میانمار کی معزول ریاستی کونسلر آنگ سان سو چی (بائیں) اور بغاوت کے رہنما مین آنگ ہلاینگ (دائیں) | |||||||
| |||||||
حکومت | |||||||
حکومت میانمار | ٹاٹمادو | ||||||
کمان دار اور رہنما | |||||||
آنگ سان سو چی (میانمار ریاستی کونسلر) وین مائنٹ (میانمار کے صدر) | مین آنگ ہلاینگ (تاتماڈو کے چیف آف کمانڈر) مائنٹ سوی (جنرل) (میانمار کے پہلے نائب صدر) | ||||||
شریک دستے | |||||||
نامعلوم | میانمار مسلح افواج | ||||||
ہلاکتیں اور نقصانات | |||||||
کوئی اطلاع نہیں |
3 فروری کو، وین مائنٹ پر میانمار کے قانون کی دفعہ 25 کے تحت کورونا وائرس کی پابندی کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ اس سے پہلے آنگ سان سو چی کو غیر قانونی طور پر سیرتکلمہ درآمدی کے الزام عائد کرکے ان کو حراست میں لیا گیا تھا۔ سیرتکلمہ پر میانمار میں پابندی ہے اور اس کو حاصل کرنے سے قبل فوج سے وابستہ ایجنسیوں سے منظوری لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وین مائنٹ اور آنگ سان سو چی کو دو ہفتوں کے لیے حراست میں لیا گیا۔
میانمار (سابقہ برما) 1948ء میں برطانیہ سے آزادی کے اعلان کے بعد سے ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ 1958ء اور 1960ء کے درمیان، فوج نے ملک میں جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم یو نو کے کہنے پر ایک عارضی نگران حکومت تشکیل دی تاکہ سیاسی تنازعات کو حل کیا جاسکے۔ 1960ء کے برمی عام انتخابات کے بعد فوج نے رضاکارانہ طور پر عوامی حکومت کو بحال کیا۔ دو سال سے بھی کم عرصے بعد، فوج نے 1962ء کی بغاوت میں اقتدار پر قبضہ کر لیا، جس کی قیادت جنرل نی ون کر رہے تھے، اس کے بعد نی وین نے 26 سال تک فوجی حکومت کی۔
1988ء میں، ملک بھر میں ملک بھر میں مظاہرے ہوئے۔ جس کو 8888 کی بغاوت کا نام دیا گیا، معاشی بدحالی کی وجہ سے بے امنی پورے میانمار میں پھیل گئی اور اس کے بعد نی وین کو اقتدار چھوڑ پڑا۔ ستمبر 1988ء میں، فوج کے اعلی رہنماؤں نے اسٹیٹ لا اینڈ آرڈر بحالی کونسل (ایس ایل او آر سی) تشکیل کی، پھر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ملک کی جدید بانی آنگ سان کی بیٹی آنگ سان سو چی، اس عرصے میں قابل ذکر جمہوریت پسند کارکن بن گئیں۔ 1990ء میں، فوج نے آزادانہ انتخابات کی اجازت اس کی وجہ سے فوج کو عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ آخر کار، انتخابات کے نتیجے میں سوچی کی پارٹی، نیشنل لیگ برائے جمہوریہ کو زبردست فتح حاصل ہوئی۔ لیکن، فوج نے اقتدار چھوڑنے سے انکار کر دیا اور سوچی کو نظربند کر دیا۔
این ایل ڈی کے ترجمان میو نیونٹ نے کہا ہے کہ صبح کی چھاپے میں آنگ سان سو چی، ون مِینٹ، ہان تھا مِینٹ اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کو "حراست میں لیا گیا" تھا۔ میو نیونٹ نے مزید کہا کہ انھیں توقع ہے کہ انھیں بھی جلد ہی حراست میں لے لیا جائے گا۔
2 فروری 2021ء کو قومی دار الحکومت، نیپیداو سمیت ملک بھر میں ڈاکٹر اور سرکاری ملازمین نے بغاوت کی مخالفت میں ایک مہم چلائی۔ "سول نافرمانی کی تحریک" نامی فیس بک مہم کے ایک گروپ نے 2 فروری کو اپنے ابتدائی آغاز کے بعد سے اب تک 100،000 سے زیادہ لوگوں نے فالو کیا ہے۔ سرکاری سطح پر چلنے والے درجنوں سرکاری اسپتالوں اور اداروں کے ڈاکٹر اور کارکنوں نے 3 فروری سے ہڑتال شروع کرنے کا وعدہ کیا۔ یانگون کے تجارتی دار الحکومت کے رہائشیوں نے بغاوت کی مخالفت میں احتجاج کیا۔ کچھ یانگونیوں نے 2 فروری کی شام 8 بجے 15 منٹ پر ایک مختصر احتجاجی ریلی نکالی، جس میں تاناشاہی کو ختم کرنے اور آنگ سان سو چی کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
تھائی لینڈ کے سب سے بڑی اسٹیٹ ڈویلپر ، اماتا نے یانگون میں ایک بلین ڈالر کے صنعتی زون کے ترقیاتی منصوبے کو روک دیا ہے یہ کام دسمبر 2020ء میں شروع کیا گیا تھا ۔ میانمار کی سب سے بڑی کار ساز کمپنی سوزوکی موٹر اور متعدد صنعت کاروں نے بغاوت کے نتیجے میں کام روک دیا۔ یانگون اسٹاک ایکسچینج نے 1 فروری سے تجارت کو بھی معطل کر دیا ہے۔
بنگلہ دیش، چین، بھارت، انڈونیشیا، جاپان، ملائیشیا، پاکستان، جنوبی کوریا، سنگاپور اور متعدد ممالک نے بغاوت کے رد عمل میں تشویش کا اظہار کیا۔ جن میں سے زیادہ تر نے حکومت اور فوج کے مابین اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بات چیت کرنے کو کہا۔ آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، جاپان، نیوزی لینڈ، ہسپانیہ، سویڈن، ترکی، مملکت متحدہ اور ریاست ہائے متحدہ نے بغاوت کی مذمت کی ہے اور حراست میں لیے گئے عہدیداروں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ وہائٹ ہاؤس نے بھی بغاوت کرنے والوں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی۔ کمبوڈیا، تھائی لینڈ اور ویت نام نے بغاوت کو داخلی معاملہ قرار دیتے ہوئے کسی ایک کی حمایت کرنے سے واضح طور پر انکار کر دیا۔
تھائی لینڈ کے شہر بینکاک میں ساٹھھن نویا روڈ پر واقع برمی سفارت خانے کے پاس ایک گروپ نے بغاوت کے خلاف احتجاج کیا۔ یہ گروپ تقریباً 200 برمی تارکین وطن اور کچھ تھائی جمہوریت پسند کارکنوں پر مشتمل تھا، جن میں پیریٹ چیوارک اور پنوسایا سیتھیجیراوتاناکول بھی شامل تھے۔احتجاج پولیس کے لاٹھی چارج کے ساتھ ختم ہوا۔ دو مظاہرین زخمی ہوئے تھے جن کو اسپتال میں داخل کرایا گیا اور دو دیگر کو گرفتار کر لیا گیا۔ جاپان کے شہر توکیو میں برمی شہریوں نے اقوام متحدہ کی یونیورسٹی کے سامنے بھی جمع ہوئے اور بغاوت کے خلاف احتجاج کیا۔ 3 فروری کو 150 سے زائد برمی امریکی نے واشنگٹن ڈی سی میں میانمار کے سفارت خانے کے سامنے احتجاج کیا۔ لائن آسٹریلیا کی بنیادی کمپنی کیرن نے بغاوت کے تناظر میں تاتماڈو سے تمام تعلقات ختم کر دیے۔
سنگاپور پولیس فورس نے سنگاپور میں غیر ملکی لوگوں کے خلاف انتباہ جاری کیا ہے جو بغاوت مخالف مظاہروں میں حصہ لینے والے تھے۔
This article uses material from the Wikipedia اردو article میانمار فوجی تاخت، 2021ء, which is released under the Creative Commons Attribution-ShareAlike 3.0 license ("CC BY-SA 3.0"); additional terms may apply (view authors). تمام مواد CC BY-SA 4.0 کے تحت میسر ہے، جب تک اس کی مخالفت مذکور نہ ہو۔ Images, videos and audio are available under their respective licenses.
®Wikipedia is a registered trademark of the Wiki Foundation, Inc. Wiki اردو (DUHOCTRUNGQUOC.VN) is an independent company and has no affiliation with Wiki Foundation.