فقہ مصلحت

مصلحت اصطلاح فقہ اسلامی میں اس اہم چیز جو دین، جان، مال، عقل، نسب کی حفاظت کا ضامن ہو، جس میں خرابی کم اور بھلائی زیادہ ہو۔ اس کی ضد فسادہے۔الخوارزمی نے مصلحت کی تعریف یوں کی ہے کہ «مصلحت سے مراد شرعی مقاصد کا تحفظ ہے، یعنی انسانیت سے مفاسد کو دفع کرنا»۔ امام غزالی مصلحت کی تعریف اس طرح کرتے ہیں مصلحت سے مراد کسی کار آمد اور نفع بخش چیز کی تعریف کرنا یا کسی ضرر رساں چیز کو دفع کرنا ہے۔ لیکن اس سے ہمارا مقصد واضع نہیں ہوتا ہے، کیوں کہ منفعت کی تلاش اور مضرت کا دفعیہ ایسے مقاصد ہیں کہ خلقت کے لحاظ سے ان کا مقصد نیکی کا حصو ل ہے اور یہ بھلائی ہے، جس میں پانچ چیزیں شامل ہوتی ہیں، دین کا تحفظ، زندگی کا حفاظت، عقل و دانش کا تحفظ، اخلاق و مال کا تحفظ۔ جو کچھ ان پانچ اصولوں کے تحفظ کا یقین دلائے وہی مصلحت ہے اور جو ان کے تحفظ میں ناکام رہے وہ مفسد ہے اور اس کو دفع کرنا مصلحت ہے۔

اقسام

مصلحت کی تین اقسام ہيں۔

  1. جن کے اعتبار کی شریعت نے شہادت دی ہے۔
  2. جن کے غیر معتبر ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں ہے
  3. تیسرے وہ کہ شریعت نے نہ ان کے اعتبار کی شہادت دی ہے اور نہ عدم اعتبار کی عام طور پر انہی کو مصالح مرسلہ کہا جاتا ہے۔ اس لیے قدرے تفصیل کی ضرورت ہے۔

مصلحت کے سلسلے میں حسب ذیل امور پر سب کا اتفاق ہے۔

  1. شریعت اسلامیہ کے تمام احکام مصالح پر مبنی ہیں۔
  2. عبادات مثلاً وضو، تعداد صواۃ و رکعات، ایام مخصوصہ میں صوم اور حج کی فرضیت با الفاظ دیگر مقاریر شریعہ میں مصلحت مرسلہ پر بنائے احکام کی گنجائش تو قیاس تک کی گنجائش نہیں ہے۔
  3. اگر کسی کے مصلحت کی اعتبار کی شہادت شریعت کی کسی اصل خاص سے ملتی ہو تو وہ مقبول ہے اور کسی مصلحت کے عدم اعتبارکی شہادت کسی اصل خاص سے ملتی ہے تو وہ مردود ہے۔

اختلاف اس میں ہے کہ معاملات میں جو با اتفاق ائمہ اربعہ معقول ہیں، اگر کسی مصلحت کی سند اور شہادت کسی اصل خاص سے نہ ملتی ہو تو کیا اس پر بھی احکام کی بنا جائز ہوگی؟ امام مالک اور حنابلہ ایسی مصلحت کا اعتبار کرتے ہیں، امام ابوحنیفہ اور امام شافعی اعتبار نہیں کرتے ہیں، لیکن مصالح مرسلہ کے قبول و عدم قبول کا تعلق ہے ہمیں دونوں طرح کی روایتیں ملتی ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ امام مالک اور امام احمد نے مصالح سے زیادہ کام لیا ہے دوسروں نے کم۔ علی حسب اللہ نے چند ایسی مثالوں کا ذکر کیا ہے جن میں امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ نے مصالح مرسلہ سے کام لیا ہے۔ جب کہ شوکافیؒ لکھتے ہیں کہ مالکیہ کی ایک جماعت نے امام مالکؒ کی طرف ان کی قبولیت کے انتساب کو غلط کہا ہے اور قرطبیؒ لکھتے ہیں کہ امام شافعیؒ اور اکثر احناف کی طرح امام مالکؒ بھی ان پر اعتماد نہیں کرتے ہیں۔ امام شافعی کی طرح امام غزالیؒ نے بھی مصالح مرسلہ پر سخت تنقید کی ہے۔ مصالح مرسلہ کے قبول و عدم قبول کو منسوب کا یہ اختلاف دراصل مصالح مرسلہ کے مفہوم کے تعین میں اختلاف کا نتیجہ ہے۔ اگر مصالح مرسلہ ان مصالح کو کہتے ہیں جنہیں اعتبار شارع کا لحاظ کیے بغیر محض اپنی عقل سے کسی مصلحت کو سمجھ کر حکم کو دائر کیا جائے تو ایسے مصالح کو کوئی قبول نہیں کرتا ہے۔ قرطبی اور مالکیہ کی ایک جماعت نے امام مالکؒ کی طرف جو مصالح کے عدم قبول کو منسوب کیا ہے وہ اسی مفہوم کے لحاظ سے ہے۔ مصالح مرسلہ امام شافعی اور امام غزالی کی تنقیدیں اسی لحاظ سے ہیں اور اگر مصالح مرسلہ ان مصالح کو کہتے ہیں کہ جنہیں مرسل ملائم یا مناسب مرسل کہتے ہیں تو سب انھیں قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ ابن حاجبؒ لکھتے ہیں کہ مرسل ملائم کو امام مالک اور امام شافعی بھی قبول کرتے ہیں اور ابن ہمامؒ لکھتے ہیں کہ مرسل ملائم کا قبول کرنا احناف کے لیے ضروری ہے۔ صاحب مسلمہ لکھتے ہیں کہ مرسل ملائم جمہور احناف قبول کرتے ہیں۔ اگر مصالح مرسلہ ان مرسلہ کو کہتے ہیں جنہیں غریب مرسل کہتے ہیں اور ان کے اعتبار کی شہادت کسی اصل خاص سے نہیں ملتی ہو لیکن وہ شریعت کے عام مقاصد کے موافق ہو تو امام مالک کے یہاں ان کی قبولیت کے لیے تین شرائط ہیں۔

    1. مصلحت میں اور مقاصد شرع میں ملائمت ہو اور شریعت کی کسی اصل اور کسی دلیل کے معارض نہ ہو۔
    2. معقول ہو کہ جب اہل عقول کے سامنے آئے تو وہ اسے قبول کر لیں۔
    3. مصلحت ضروریات اور حاجیات سے متعلق ہو، تحسنیات سے متعلق نہ ہو۔

اگر مصالح ضروریات کے متعلق ہیں تو سب انھیں قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ ابن ہمام لکھتے ہیں کہ مناسب اگر ضروریات خمس میں سے کسی کی حفاظت سے متعلق ہے تو احناف و شوافع سب کے نزدیک اس پر عمل لازم ہے اور اگر وہ مصالح حاجیات سے متعلق ہیں تو امام مالکؒ انھیں قبول کرتے ہیں۔ لیکن احناف اور شوافع انھیں قبول نہیں کرتے ہیں۔ امام غزالی ایسے مصالح کو قبول کرنے کے لیے تین شرائط عائد کرتے ہیں کہ وہ ضروری، قطعی اور کلی ہوں۔ لیکن قرطبی کہتے ہیں ان شرائط کے ساتھ کسی کا اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔ ضروری سے مراد ضروریات خمس میں سے ہو، یعنی حفظ دین، حفظ نفس، حفظ عقل، حفظ مال اور حفظ نسب ہے اور قطعی سے مراد اس مصلحت حصول یقینی ہو اور کلی سے مراد ہے اس کا فائدہ تمام مسلمانوں کے لیے عام ہو۔ لیکن یہ مصلحت کلی ضروری نہیں ہوئی تو معتبر نہ ہو گی۔ اس طرح یہ مصلحت کلی نہ ہو تب بھی معتبر نہ ہوگی اوراگر یہ مصلحت قطعی نہ ہوئی تب بھی یہ معتبر نہ ہو گی۔ گو مصالح کے مرسلہ کے سلسلے میں اگر اختلاف ہے تو ان مصالح کے بارے میں جو حسب ذیل تین قیود کے ساتھ ہوں۔

    1. ان کے اعتبار کی سند شریعت کی کسی اصل کے ساتھ نہیں ملتی ہو۔
    2. وہ مصالح شریعت کی کسی خاص اصل سے نہیں ملتی ہو۔
    3. ان مصالح کا تعلق حاجیات سے ہو۔

اس کے علاوہ جتنی صورتیں ہو سکتی ہیں وہ متفق علیہ ہیں یا ان کے رد پر سب کا اتفاق ہے۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

Tags:

🔥 Trending searches on Wiki اردو:

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچابانگ دراواقعہ کربلاایمان بالرسالتبیت الحکمتاسلامی قانون وراثتخدیجہ بنت خویلدمتواتر (اصطلاح حدیث)فضل الرحمٰن (سیاست دان)ہندوستاناردو زبان کے شعرا کی فہرستتدوین حدیثآخرتابو جہلسرمایہ داری نظامنسخ (قرآن)منیر احمد مغلزکریا علیہ السلامکتب سیرت کی فہرستقیاساسم ضمیرعبد الرحمن بن عوفمسجد نبویاولاد محمداسلام میں بیوی کے حقوقفارسی زبانکوسجناح-ماؤنٹ بیٹن مذاکراتفلسطیناذاندرود ابراہیمیحرب الفجاربہادر شاہ ظفرمولابخش چانڈیوحنظلہ بن ابی عامراحمدیہلعل شہباز قلندرپاکستان قومی کرکٹ ٹیم کے کپتانوں کی فہرستمرزا فرحت اللہ بیگصفحۂ اولسجاد حیدر یلدرمحواریعلم بدیعمذہبروزہ (اسلام)سجدہ تلاوتدرودشبلی نعمانیخدا کے نامعبد اللہ بن ابییروشلموراثت کا اسلامی تصورکرکٹکلمہ کی اقسامعراقآپریشن طوفان الاقصیٰرائل چیلنجرز بنگلورسعادت حسن منٹواسم مصدراسلامی عقیدہلینن امن انعامحد قذفمعاشرہصحیح مسلمحروف مقطعاتطنز و مزاحسعد بن ابی وقاصغزوہ حنینیزید بن معاویہآیت الکرسیجماعت اسلامی پاکستانامیر خسروقطب الدین ایبکموسیٰانسانی جسمداستان امیر حمزہچی گویراالانعام🡆 More