ذوالقرنین کا ذکر قرآن پاک کی سورۃ الکہف کی آیت 83 سے 98 تک میں ہے۔
ذو القرنین | |
---|---|
(عربی میں: ذو القرنين) | |
معلومات شخصیت | |
عملی زندگی | |
پیشہ | عسکری قائد |
درستی - ترمیم |
ذوالقرنین کا ذکر قرآن میں سورۃ الکہف کی کچھ آیات میں آیا ہے۔ ذیل میں اُن آیات کا ترجمہ (ترجمہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کا نقل کیا گیا ہے) دیا گیا ہے۔
اور اے محمد، یہ لوگ تم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں ان سے کہو، میں اس کا کچھ حال تم کو سناتا ہوں (83)
ہم نے اس کو زمین میں اقتدار عطا کر رکھا تھا اور اسے ہر قسم کے اسباب و وسائل بخشے تھے (84)
اس نے (پہلے مغرب کی طرف ایک مہم کا) سر و سامان کیا (85)
حتیٰ کہ جب وہ غروب آفتاب کی حَد تک پہنچ گیا تو اس نے سورج کو ایک کالے پانی میں ڈوبتے دیکھا اور وہاں اُسے ایک قوم ملی ہم نے کہا "اے ذوالقرنین، تجھے یہ مقدرت بھی حاصل ہے کہ ان کو تکلیف پہنچائے اور یہ بھی کہ اِن کے ساتھ نیک رویّہ اختیار کرے" (86)
اس نے کہا، "جو ان میں سے ظلم کرے گا ہم اس کو سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف پلٹایا جائے گا اور وہ اسے اور زیادہ سخت عذاب دے گا (87)
اور جو ان میں سے ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اُس کے لیے اچھی جزا ہے اور ہم اس کو نرم احکام دیں گے" (88)
پھر اُس نے (ایک دُوسری مہم کی) تیاری کی (89)
یہاں تک کہ طلوعِ آفتاب کی حد تک جا پہنچا وہاں اس نے دیکھا کہ سورج ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے جس کے لیے دُھوپ سے بچنے کا کوئی سامان ہم نے نہیں کیا ہے (90)
یہ حال تھا اُن کا اور ذوالقرنین کے پاس جو کچھ تھا اُسے ہم جانتے تھے (91)
پھر اس نے (ایک اور مہم کا) سامان کیا (92)
یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو اسے ان کے پاس ایک قوم ملی جو مشکل ہی سے کوئی بات سمجھتی تھی (93)
اُن لوگوں نے کہا کہ "اے ذوالقرنین، یاجوج اور ماجوج اس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں تو کیا ہم آپ کو کچھ خرچ کا بندوبست کر دیں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک بند تعمیر کر دیں؟" (94)
اس نے کہا " جو کچھ میرے رب نے مجھے دے رکھا ہے وہ بہت ہے تم بس محنت سے میری مدد کرو، میں تمھارے اور ان کے درمیان بند بنائے دیتا ہوں (95)
مجھے لوہے کی چادریں لا کر دو" آخر جب دونوں پہاڑوں کے درمیانی خلا کو اس نے پاٹ دیا تو لوگوں سے کہا کہ اب آگ دہکاؤ حتیٰ کہ جب (یہ آہنی دیوار) بالکل آگ کی طرح سُرخ ہو گئی تو اس نے کہا "لاؤ، اب میں اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیلوں گا" (96)
(یہ بند ایسا تھا کہ) یاجوج و ماجوج اس پر چڑھ کر بھی نہ آ سکتے تھے اور اس میں نقب لگانا ان کے لیے اور بھی مشکل تھا (97)
ذوالقرنین نے کہا " یہ میرے رب کی رحمت ہے مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوند خاک کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے" (98)
تاریخ کی کتابوں کے مطالعے کے بعد لوگوں نے ذوالقرنین کی شخصیت سے متعلق مختلف اندازے لگائے ہیں۔
بہت سے قدیم علما اور مفکر سکندر اعظم کو ہی ذوالقرنین مانتے ہیں۔ مگر بہت سے اس کا انکار کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سکندر اعظم نبی نہیں تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ وہ زمین کی مشرقین اور مغربین تک نہ پہنچ سکا۔
تاریخی بیان کے لیے صرف اتنا ذکر کافی ہے کہ خورس (کورش) ایک ایرانی فرمانروا تھا جس کا عروج 549 ق۔ م۔ کے قریب زمانے میں شروع ہوا۔ اس نے چند سال کے عرصے میں میڈیا (الجبال) اور لیڈیا (ایشیائے کوچک) کی سلطنتوں کو مسخر کرنے کے بعد 539 ق، م، میں بابل کو بھی فتح کر لیا جس کے بعد کوئی طاقت اس کے راستہ میں مزاحم نہیں رہی۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ سندھ اور صُغد (موجودہ ترکستان) سے لے کر ایک طرف مصر اور لیبیا تک اور دوسری طرف تھریس اور مقدونیہ تک وسیع ہو گیا اور شمال میں اس کی سلطنت قفقاز (کاکیشیا) اور خوارزم تک پھیل گئی۔ عملاً اس وقت کی پوری مہذب دنیا اس کی تابع فرمان تھی۔
جدید زمانے کے کچھ مفسر و مفکر جن میں مولانا مودودی اور غلام احمد پرویز شامل ہیں ذوالقرنین کو سائرس کا دوسرا نام قرار دیتے ہیں۔ مولانا مودودی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں۔ یہ مسئلہ قدیم زمانے سے اب تک مختلف فیہ رہا ہے کہ یہ ’’ ذوالقرنین‘‘ جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے، کون تھا۔ قدیم زمانے میں بالعموم مفسرین کا میلان سکندر کی طرف تھا، لیکن قرآن میں اس کی جو صفات و خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ مشکل ہی سے سکندر پر چسپاں ہوتی ہیں۔ جدید زمانے میں تاریخی معلومات کی بنا پر مفسرین کا میلان زیادہ تر ایران کے فرماں روا خورس (کورش یا خسرو یا سائرس) کی طرف ہے اور یہ نسبۃً زیادہ قرین قیاس ہے، مگر بہر حال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
قرآن مجید جس طرح اس کا ذکر کرتا ہے اس سے ہم کو چار باتیں وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہیں :
ان میں سے پہلی علامت آسانی کے ساتھ خورس (کورش) پر چسپاں کی جا سکتی ہے، کیونکہ بائبل کے صحیفہ دانی ایک میں دانیال نبی کا جو خواب بیان کیا گیا ہے اس میں وہ یونانیوں کے عروج سے قبل میڈیا اور فارس کی متحدہ سلطنت کو ایک مینڈھے کی شکل میں دکھتے ہیں جس کے دو سینگ تھے۔ یہودیوں میں اس ’’دو سینگوں والے‘‘ کا بڑا چرچا تھا کیونکہ اسی کی ٹکر نے آخر کار بابل کی سلطنت کو پاش پاش کیا اور بنی اسرائیل کو اسیری سے نجات دلائی تاہم وہ خود بعد ازاں یونان کے سکندر مقدونی کے ہاتھوں تاراج ہوا۔
یہودیوں کے بابل کے اسیری کے زمانے میں حضرت دانیال کا ظہور ہوا- جو اپنے علم و حکمت کی بنا پر شاہان بابل کے دربار میں مقرب ہو گئے تھے-جبکہ اگر تورات کی تعلیمات تسلیم کی جائیں تو سائرس سے لے کر آرٹازرکیسز(ارتخششت)اول تک تمام شہنشاہان پارس بنی اسرائیل سے عقیدت رکھتے تھے-شاہ بابل کے تیسرے برس انھوں نے خواب دیکھا جو کتاب دانیال میں ہے "میں دیکھتا ہوں کہ ندی کے کنارے مینڈھا کھڑا ہے- جس کے دو سینگ اونچے ہیں-لیکن ایک دوسرے سے زیادہ اونچا تھااور بڑا دوسرے کے پیچھے تھا- میں نے دیکھا کہ پچھم اترا اوردکھن کی طرف سینگ مارتا ہے -یہاں تک کہ کوئی جانور اس کے سامنے کھڑا نہ رہ سکا-اور وہ بہت بڑا ہو گیا- یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہپچھم کی طرف سے ایک بکرا آکر تمام روئے زمین پر پھر گیا-اس بکرے کے آگے عجیب طرح کا سینگ تھا-وہ دو سینگوں والے مینڈھے پر خوب بھڑکااسکے دونوں سینگ توڑ ڈالے اور اس کی ہمت نہ تھی کہ مقابلہ کرے" پھر اس کے بعد ہے کہ جبریل آئے اوربتایا کہ دو سینگوں والا مینڈھا فارس کی بادشاہت ہے اور بکرا یونان کی اس کا سینگ اس کا پہلا بادشاہ ہے- چنانچہ یہ بادشاہ بعد میں سکندر مقدونی ٹھرا-جبکہ دو سینگ میڈیا اور فارس کی سلطنتیں تھیں-چنانچہ یہودیوں کے یہاں فارس کے بادشاہ کے لیے ذوالقرنین کا تصورپیدا ہو گیا تھا-یہ صرف یہودی تخیل نہ تھا بلکہ خود فارس کے بادشاہ کا مجوزہ اور پسندیدہ نام ذوالقرنین تھا-یہ سائرس کا سنگی تمثال ہے جو پاسارگاد (تخت سلیمان-ایران) کے کھنڈروں میں ١٨٣٨ء کے انکشاف کے بعد دستیاب ہوا-
دوسری علامت بڑی حد تک اس پر چسپاں ہوتی ہے، مگر پوری طرح نہیں۔ اس کی فتوحات بلاشبہ مغرب میں ایشیائے کوچک اور شام کے سواحل تک اور مشرق میں باختر (بلخ) تک وسیع ہوئیں، مگر شمال یا جنوب میں اس کی کسی بڑی مہم کا سراغ ابھی تک تاریخ سے نہیں ملا ہے، حالانکہ قرآن صراحت کے ساتھ ایک تیسری مہم کا بھی ذکر کرتا ہے، تاہم اس مہم کا پیش آنا بعید از قیاس نہیں ہے، کیونکہ تاریخ کی رو سے خورس (کورش) کی سلطنت شمال میں کاکیشیا (قفقاز) تک وسیع تھی۔ تیسری علامت کے بارے میں یہ تو قریب قریب متحقق ہے کہ یاجوج و ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو تاتاری منگولی، ھُن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے حملوں سے بچنے کے لیے قفقاز کے جنوبی علاقے میں دربند اور دار بال کے استحکامات تعمیر کیے گئے تھے۔ لیکن یہ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ خورس (کورش) ہی نے یہ استحکامات تعمیر کیے تھے۔ آخری علامت قدیم زمانے کے معروف فاتحوں میں اگر کسی پر چسپاں کی جا سکتی ہے تو وہ خورس (کورش) ہی ہے۔ کیونکہ اس کے دشمنوں تک نے اس کے عدل کی تعریف کی ہے اور بائبل کی کتاب عزْرا اس بات پر شاہد ہے کہ وہ ضرور ایک خدا پرست اور خدا ترس بادشاہ تھا جس نے بنی اسرائیل کو ان کی خدا پرستی ہی کی بنا پر بابل کی اسیری سے رہا کیا اور اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کے لیے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا حکم دیا۔ اس بنا پر ہم یہ تو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ نزول قرآن سے پہلے جتنے مشہور فاتحین عالم گذرے ہیں ان میں سے خورس (کورش) ہی کے اندر ’’ذو القرنین‘‘ کی علامات زیادہ پائی جاتی ہیں، لیکن تعین کے ساتھ اسی کو ذو القرنین قرار دے دینے کے لیے ابھی مزید شہادتوں کی ضرورت ہے۔ تا ہم دوسرا کوئی فاتح قرآن کی بتائی ہوئی علامات کا اتنا بھی مصداق نہیں ہے جتنا خورس (کورش) ہے۔
صرف ایک ہی اسلامی محقق محمد اکبر صاحب نے ذوالقرنین کو سلیمان علیہ السلام کا دوسرا نام کہا ہے ۔ اپنے جو دلائل ذوالقرنین کے سلیمان علیہ السلام ہونے کے بارے میں دیے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں۔
This article uses material from the Wikipedia اردو article ذو القرنین, which is released under the Creative Commons Attribution-ShareAlike 3.0 license ("CC BY-SA 3.0"); additional terms may apply (view authors). تمام مواد CC BY-SA 4.0 کے تحت میسر ہے، جب تک اس کی مخالفت مذکور نہ ہو۔ Images, videos and audio are available under their respective licenses.
®Wikipedia is a registered trademark of the Wiki Foundation, Inc. Wiki اردو (DUHOCTRUNGQUOC.VN) is an independent company and has no affiliation with Wiki Foundation.