مجولی

مجولی آسام، بھارت میں دریائے برہم پتر میں واقع ایک دریائی جزیرہ ہے۔ 2016ء میں اسے ضلع بنا دیا گیا اور اس طرح مجولی دنیا کا پہلا ایسا جزیرہ بنا جسے ضلع ہونے کا شرف حاصل ہے۔ 20ویں صدی کے آغاز میں اس کا کل رقبہ 880 مربع کلومٹر تھا مگر مگر پانی کے بہاو کی وجہ سے اس کا کچھ حصہ ندی میں سما گیا اور 2014ء میں اس کا کل رقبہ 352 کلومربع میٹر (136 مربع میل) مربع کلومیٹر رہ گیا۔ جیسے جیسے ندی کا پانی زیادہ ہوتا گیا مجولی کا علاقہ کم ہوتا گیا۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں مجولی کو دنیا کا سب سے بڑا دریائی جزیرہ مانا گیا ہے۔ مجولی دریائے برہم پتر اور اس کی ذیلی ندی دریائے انا برانچ اور دریائےسوبان سیری کے درمیان میں واقع ہے۔ جورہاٹ شہر سے ناو کے ذریعے مجولی تک پہنچا جا سکتا ہے۔یہ گوہاٹی سے 300–400 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔

مجولی
مجولی
 

مقام
متناسقات 26°57′00″N 94°10′00″E / 26.95°N 94.166666666667°E / 26.95; 94.166666666667   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رقبہ (كم²)
حکومت
ملک مجولی بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کل آبادی

تاریخ

مجولی 

مجولی ایک ساتھ بہنے والی دو ندیوں (برہم پتر اور بورہی دی ہینگ) کے درمیان میں ایک طویل اور سکڑا زمین کا ٹکڑا ہے۔ برہم پتر اس کے شمال میں اور بورہی دی ہینگ جنوب میں بہتا ہے۔ کسی زمانہ میں مجولی ایک طاقتور سلطنت شوتیا سلطنت کا دار الحکومت ہوا کرتا تھا۔تاریخی متون اور علاقائی کہانیوں سے پتہ چلتا ہے کہ 1661-1696ء میں یہاں زبردست زلزلہ آیا جس کی وجہ سے یہ علاقہ 15 دنوں تک سیلاب کی زد میں رہا۔ اسی زلزلہ اور سیلاب کی وجہ سے برہم پوتر کا ایک حصہ جنوب (بورہی دی ہینگ کا ذیلی چینل) کی جانب کھسک گیا اور یوں مجولی جزیرہ بنا۔ 16ویں صدی سے ہی مجولی آسام کی تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا ہے۔ جزیرہ پر 16ویں صدی میں ہندو مت کی ایک شاخ ویشنو مت تحریک کے ایک علم بردار شنکر دیو نے یہاں ویشنو مت کی تبلیغ کی اور کئی مندر اور آشرم بنوائے۔ ان مندروں اور آشرموں کا نتیجہ ہوا کہ جزیرہ ویشنو مت کا ایک مرکز بن گیا۔ مملکت متحدہ کے ہندوستان پر تسلط کے بعد آزادی ہند تک مجولی انگریزوں کے ما تحت رہا۔ 2016ء میں مجولی دنیا کا سب سے بڑا دریائی جزیرہ بنا۔

معیشت

مجولی 
مجولی کا ایک گھر

مجولی کی معیشت کا اہم مدار زراعت پر ہے۔ چاول یہاں کی بڑی فصل ہے۔ مجولی کی خاص بات ہے کہ یہاں کی زمین بڑی زرخیز ہے۔ بنا کسی پیسٹی سائڈ اور مصنوعی کھاد کے یہاں تقریباً 100 قسم کے چاول اگائے جاتے ہیں۔ زراعت کے بعد ماہی گیری بھی کسب معاش کا اہم ذریعہ ہے۔ ناشتا کے لیے باو دھان ایک اچھی غذا ہے۔ اسے تہ آب بویا جاتا ہے اور دس ماہ بعد فصل کاٹی جاتی ہے۔ س کے علاوہ پیٹھا بھی بہت مقبول ہے۔ یہ ایک خاص قسم کے چاول اور مچھلی کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے۔ ماہی گیری، دودھ اور اس کی مصنوعات، ظروف سازی اور کپڑا سازی اور ناو سازی وہاں کی دیگر معاشی سرگرمیاں ہیں۔

یہ ایک خاص قسم کے چاول اور مچھلی کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے۔ ماہی گیری، دودھ اور اس کی مصنوعات، ظروف سازی اور کپڑا سازی اور ناو سازی وہاں کی دیگر معاشی سرگرمیاں ہیں۔

مجولی 
جینگرائی مکھ

عوام

مجولی 
مجولی کا ایک گاؤں
مجولی 
دیوری قبیلہ کی ایک عورت گموسا بنتے ہوئے
مجولی 
کمل باری
مجولی 
کمل باری سترا

مجولی کی آبادی قبائلی، غیر قبائلی اور درج ذات لوگوں پر مشتمل ہے۔ قبائلی لوگوں میں مسنگ، دیوری اور سونول کچاری ہیں۔ درج ذات لوگوں میں کائی ورتا اور بیریتل بنیا وغیرہ ہیں۔ غیر قبائلی لوگوں میں کوچ، کالیتا، آہوم، شوتیا، کیوت اور یوگی وغیرہ آتے ہیں۔جزیرہ پر سب سے بڑی ابادی مسنگ قبیلے کی ہے۔ کئی صدیوں قبل یہ لوگ اروناچل پردیش سے ہجرت کر کے یہاں آبسے تھے۔ یہاں کی زبان مسنگ زبان، آسامی زبان اور دیوری زبان ہیں۔ جزیرہ میں 144 گاوں ہیں جن میں 150000 لوگ رہتے ہیں۔ جزیرہ کی کل کثافت 300 نفر فی مربع کلومیٹر ہے۔ ہفتہ میں چھ چن ناو کی چلتی ہے جو مجولی کو گوہاٹی سے بواسطہ لکھیم پور جوڑتی ہے۔ گرچہ یہاں کے لوگ قدامت پسند ہیں مگر جدت کچھ حد تک مجولی میں آچکی ہے۔ جدید دواخانے کھل چکے ہیں۔ تعلیمی ادارے بھی قائم ہوئے ہیں۔ نئے مکانات بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ پہلے کے بانس اور کیچڑ کے بنے مکانات کی بجائے اور کنکریٹ کی عمارتیں مجولی میں بننے لگی ہیں۔

ثقافت

مجولی میں علی آئے لیگانگ کا تہوار بڑے دھوم دھام سے منایاجاتا ہے۔ یہ تہوار فروری کے دوسرے بدھ کو شروع ہو کر پانچ دنوں تک چلتا ہے۔ ایسے موقع پر پورنگ اپن (چاول کو کو پتوں میں لپیٹ دیا جاتا ہے)، اپونگ (چاول بیئر) جیسے پکوان پکائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خنزیر، مرغ اور مچھلی کے کئی پکوان تیار ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر ہر قبیلہ اپنا مخصوص ناچ دکھاتا ہے جس میں مسنگ قبیلہ کا ناچ کافی مشہور ہے۔ اسی دوران یہ لوگ اچھی فصل کی دعا کرتے ہیں۔ مسنگ قبیلہ کے عیسائی لوگ کرسمس مناتے ہیں۔ گذشتہ پانچ سو برسوں سے مجولی آسام کا تہذیبی مرکز اور اس کی ثقافتی راجدھانی رہا ہے۔ مجولی میں ثقافت کی کئی علامتیں محفوظ ہیں جیسے، زیور، ہتھیار، برتن اور دیگر سامان وغیرہ۔ مجولی میں کلے کو کوٹ کر برتن بنائے جاتے ہیں اور اسے آگ تپایا جاتا ہے۔ ایسا انھوں نے وادیٔ سندھ کی تہذیب سے سیکھا ہے۔ سماجی کارکنان ان فنون کو بچانے کی فکر میں ہیں۔ دنیا بھر میں یہاں کی کپڑا سازی مشہور ہے۔

سیاحت

مجولی جورہٹ سے 20 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے اور یہ دوری 3 گھنٹہ سے زیادہ وقت میں طے ہوتی ہے۔ بس، ناو اور اسٹیمر وغیرہ کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ مجولی کے شمالی کنارے پر سوبن سری ندی ہے اور جنوبی ساحل پر دریائے برہم پتر ہے۔ شمالی لکھیم پور قصبہ مجولی کے شمال میں ہے اور جنوب مغرب میں گولا گھاٹ ہے۔ جنوب مشرق میں قصبہ سیب ساگر ہے اور جنوب میں جورہٹ واقع ہے۔ مشرق میں دبرو گذھ ضلع ہے۔

مجولی 
جینگرائی مکھ

نگار خانہ

حوالہ جات

Tags:

مجولی تاریخمجولی معیشتمجولی عواممجولی ثقافتمجولی سیاحتمجولی نگار خانہمجولی حوالہ جاتمجولیآسامبھارتجورہاٹدریائے برہم پترگوہاٹی

🔥 Trending searches on Wiki اردو:

جناح کے چودہ نکاتجدول گنتیاسماء اصحاب و شہداء بدرمرثیہہند بنت عتبہآریہ سماجعاصم منیرطلاق مغلظہام سلمہدرود ابراہیمیبھارت کی ریاستیں اور یونین علاقےسلسلہ نقشبندیہتاریخ ہند6 مئیغزوہ تبوکشیعہ اثنا عشریہاردو حروف تہجینکاح متعہشعب ابی طالبایکڑسلطنت عثمانیہعراقنصرت فتح علی خانتقسیم ہندعلی ہجویریبلوچستانہجرت مدینہفعل لازم اور فعل متعدیمذکر اور مونثاسلام میں مذاہب اور شاخیںسر سید احمد خان کے نظریات و تعلیماتریاست ہائے متحدہمذہبشاہ ولی اللہاہل سنتتقویآلودگیحفیظ جالندھریتذکرہاسلام اور سیاستبنی اسرائیلاسلام میں بیوی کے حقوقپاکستان مسلم لیگ (ن)تہذیب الاخلاقانسانی حقوقحروف کی اقسامعبد الرحمن بن عوفمارکسیتسراج الدولہبائبلپریم چند کی افسانہ نگاریسورہ الاحزابمثنویجنگ پلاسیسرمایہ داری نظامپرویز مشرفالانفالیونسمیا خلیفہسید احمد بریلویشمر بن ذی الجوشنانسانی جسملفظاصحاب کہفخلافت امویہ کے زوال کے اسبابروزنامہ جنگقرآن میں اسم محمدیورپاسلام بلحاظ ملکچینجلال الدین رومیاقبال کا مرد مومنٹیپو سلطانپاکستانی عددی پیمانوں کا جدولاسم علمتاریخ یورپزبان🡆 More