طلحہ بن عبید اللہ: صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

طلحہ بن عبیداللہ (28ق.ھ / 36ھ) عشرہ مبشرہ صحابہ کرام رضی اللّٰہ علیہم میں شامل جلیل القدر صحابی رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہیں۔آپ کی کنیت ابو محمد قریشی ہے ، عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ، اسلام لانے والوں میں آپ سابقون الاولون میں سے ہیں۔ تمام غزوات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں شریک تھے۔ غزوہ احد میں انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی حفاظت کے لیے اپنے ہاتھوں کو بطور ڈھال پیش کر دیا۔ ہاتھوں پر 75 زخم آئے ، انگلیاں سن ہوگئیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور کی حفاظت کے لیے ڈٹے رہے۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ حسین چہرہ گندم گوں بالوں والے تھے۔ ۔ آپ کا نسب یہ تھا طلحہ بن عبید اللہ بن عثمان بن کعب بن لوی، کعب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ جنگ جمل میں شریک ہوئے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے باوجود یکہ طلحہ ان کے مخالف لشکر یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شریک تھے، جب ان کی شہادت کی خبر سنی تو اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی تر ہو گئی، مروان بن حکم نے ان کو تیر سے شہید کیا۔جنگ جمل میں بعمر 64 سال شہید ہوئے۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔

طلحہ بن عبید اللہ
طلحہ بن عبید اللہ
طلحہ بن عبید اللہ: نام و نسب, اسلام, مواخات
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 595ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 656ء (60–61 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بصرہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات لڑائی میں مارا گیا   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاتل مروان بن حکم   ویکی ڈیٹا پر (P157) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت طلحہ بن عبید اللہ: نام و نسب, اسلام, مواخات خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ حمنہ بنت جحش
ام کلثوم بنت ابو بکر
قريبہ كبرى بنت ابی اميہ   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد محمد بن طلحہ ،  موسی بن طلحہ بن عبید اللہ ،  عیسی بن طلحہ بن عبید اللہ ،  یوسف بن طلحہ ،  زکریا بن طلحہ ،  ام اسحاق بنت طلحہ ،  عائشہ بنت طلحہ   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان ،  عسکری قائد   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ احد   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسب

طلحہ نام ابو محمد کنیت،فیاض اور خیر لقب، والد کا نام عبید اللہ اور والدہ کا نام صعبہ تھا، ۔ پورا سلسلہ نسب یہ ہے،طلحہ بن عبید اللہ بن عثمان بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان، چونکہ مرہ بن کعب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اجداد میں سے ہیں اس لیے طلحہ کا نسب چھٹی ساتویں پشت میں حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مل جاتا ہے۔

اسلام

ایک دفعہ جب کہ غالباً سترہ یا اٹھارہ برس کی عمر تھی تجارتی اغراض سے بصرہ تشریف لے گئے وہاں ایک راہب نے حضرت سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کی بشارت دی، لیکن یوم ولادت سے اس وقت تک جس قسم کی آب وہوا میں پرورش پائی تھی اور گرد وپیش جس قسم کے مذہبی چرچے تھے اس کا اثر صرف ایک راہب کی پیشن گوئی سے زائل نہیں ہو سکتا تھا، بلکہ ابھی مزید تعلیم و تلقین کی ضرورت تھی،مکہ واپس آئے تو حضرت ابوبکر صدیق کی صحبت اور ان کے مخلصانہ وعظ وپند نے تمام شکوک رفع کر دیے، چنانچہ ایک روز صدیق اکبر ؓکی وساطت سے دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور خلعت ایمان سے مشرف ہوکر واپس آئے اس طرح حضرت طلحہ بن عبیداللہ ان آٹھ آدمیوں میں سے ہیں جو ابتدائے اسلام میں نجم صداقت کی پر توضیاء سے ہدایت یاب ہوئے اور آخر کار خود بھی آسمان اسلام کے روشن ستارے بن کر چمکے۔ اسلام لانے کے بعد حضرت طلحہ ؓ بھی عام مسلمانوں کی طرح کفار کے ظلم و ستم سے محفوظ نہ رہے، عثمان بن عبید اللہ نے جو نہایت سخت مزاج اور طلحہ بن عبید اللہ کا حقیقی بھائی تھا، ان کو اور ابوبکر صدیق کو ایک ہی رسی میں باندھ کر مارا کہ اس تشدد سے اپنے نئے مذہب کو ترک کر دیں،لیکن توحید کا نشہ ایسا نہ تھا جو چڑھ کر اتر جاتا۔

مواخات

مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کا بھائی چارہ کرا دیا۔

ہجرت

حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ میں نہایت خاموش زندگی بسر کی اور اپنے تجارتی مشاغل میں مصروف رہے، چنانچہ جس وقت رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لے جا رہے تھے،اس وقت وہ اپنے تجارتی قافلہ کے ساتھ شام سے واپس آ رہے تھے،راہ میں ملاقات ہوئی،انھوں نے ان دونوں کی خدمت میں کچھ شامی کپڑے پیش کیے اور عرض کیا کہ اہل مدینہ نہایت بے چینی اور اضطراب کے ساتھ انتظار کر رہے ہیں، غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہایت عجلت کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف بڑھے اور طلحہ بن عبیداللہ نے مکہ پہنچ کر اپنے تجارتی کاروبار سے فراغت حاصل کی اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اہل و عیال کو لے کر مدینہ پہنچے، اسعد بن زرارہ نے ان کو اپنا مہمان بنایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابی بن کعب انصاری سے ان کا بھائی چارہ کرادیا۔

غزوات میں شرکت

جنگ بدر کے موقع پر حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی خاص مہم پر مامور ہوکر ملک شام تشریف لے گئے تھے ، واپس آئے تو دربارِ رسالت میں حاضر ہوکر غزوۂ بدر کے مالِ غنیمت میں سے اپنے حصے ِ کی درخواست کی سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مالِ غنیمت میں حصہ دیا اور فرمایا کہ تم جہاد کے ثواب سے بھی محروم نہیں رہوگے۔بعض اہل سیر کا بیان ہے کہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے تجارتی اغراض سے شام گئے تھے؛ لیکن یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس صورت میں مالِ غنیمت میں حصہ طلب کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی، نیز ایک دوسری روایت یہ ہے کہ آنحضرت نے ان کو اور سعید بن زید ؓ کو شام کی طرف قریش کے قافلہ کی تحقیق حال کی خدمت پر مامور کرکے بھیجا تھا، اس روایت سے بھی ہمارے خیال کی تائید ہوتی ہے ، بہرحال اگرچہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ غزوۂ بدر میں شریک نہ تھے تاہم وہ اپنی اہم کار گذاریوں کے باعث اس کے اجرو ثواب سے محروم نہیں رہے۔

غزوۂ احد

میں غزوۂ احد پیش آیا ، اس جنگ میں پہلے مسلمانوں کی فتح ہوئی اور کفار بھاگ کھڑے ہوئے، لیکن مسلمان جیسے ہی اپنی اپنی جگہ سے ہٹ کر مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہوئے کفار نے پھر پلٹ کر حملہ کر دیا ، اس ناگہانی حملہ نے مسلمانوں کو ایسا بد حواس کیا کہ ان کو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کا بھی خیال نہ رہا اور جو جس طرف تھا اسی طرف سے بھاگ کھڑا ہوا میدانِ جنگ میں صرف دس بارہ آدمی ثابت قدم رہ گئے تھے، لیکن وہ سب بھی شمع ہدایت سے دور تھے اور اس وقت صرف حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ پروانہ وار فدویت وجان نثاری کے حیرت انگیز مناظر دکھا رہے تھے، کفار کا ہرطرف سے نرغہ تھا، تیروں کی بارش ہورہی تھی، خون آشام تلواریں چمک چمک کر آنکھوں کو خیرہ کررہی تھیں اور صدہا کفار صرف ایک مقدس ہستی کو فنا کر دینے کے لیے ہرطرف سے یورش کر رہے تھے اس نازک وقت میں جمال نبوت کا یہ شیدائی ہالہ بن کر خورشید نبوت کو آگے پیچھے داہنے بائیں ہر طرف سے بچا رہا تھا، تیروں کی بوچھار کو سینے پر روکتا، تلوار اور نیزہ کے سامنے خود کو سپر بناتا، پھر اسی حال میں کفار کا نرغہ زیادہ ہو جاتا تو شیر کی طرح تڑپ کر حملہ کرتا اور دشمن کو پیچھے ہٹا دیتا، تبھی ایک نابکار نے ذات قدسی پر تلوار کا وار کیا خادم جاں نثار یعنی طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ جانباز نے اپنے ہاتھ پر روک لیا اور انگلیاں شہید ہوئیں تو آہ کی بجائے زبان سے نکلا حسن"خوب ہوا، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اس لفظ کی بجائے بسم اللہ کہتے تو ملائکہ آسمانی تمھیں بھی اٹھا لے جاتے! غرض طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیر تک حیرت انگیز جانبازی اور بہادری کے ساتھ مدافعت کرتے رہے، یہاں تک کہ دوسرے صحابہ ؓ بھی مدد کے لیے آپہنچے، مشرکین کا ہلہ کسی قدر کم ہوا تو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی پشت پر سوار کرکے پہاڑی پر لے آئے اور مزید حملوں سے محفوظ کر دیا۔غزوۂ احد میں فدویت جان نثاری اور شجاعت کے جو بے مثل جوہر دکھائے یقناً تمام اقوامِ عالم کی تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے،تمام بدن زخموں سے چھلنی ہو گیا تھا، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے جسم پر ستر سے زیادہ زخم شمار کیے تھے۔ دربار رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اسی جان بازی کے صلہ میں “خیر" کا لقب مرحمت ہوا، صحابہ کو واقعہ احد میں ان کی اس غیر معمولی شجاعت اور جانبازی کا دل سے اعتراف تھا، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غزوۂ احد کا تذکرہ کرتے تو فرماتے کہ یہ طلحہ کا مخصوص دن تھا، عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان کو صاحبِِ احد فرمایا کرتے تھے خود طلحہ بن عبیداللہ کو بھی اس پر فخر کارنامہ پر بڑا ناز تھا اور ہمیشہ لطف و انبساط کے ساتھ اس کی داستان سنایا کرتے تھے۔غزوۂ احد کے دن حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نیزے، تلوار اور تیروں کے 30 سے زائد زخم آئے۔

متفرق غزوات

غزوۂ احد کے بعد فتح مکہ تک جس قدر غزوات ہوئے،حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب میں نمایاں طور پر شریک رہے، بیعتِ رضوان کے وقت بھی موجود تھے اورشرف بیعت سے مشرف ہوئے۔ فتح مکہ کے بعد غزوۂ حنین آیا،اس معرکہ میں بھی غزوۂ احد کی طرح پہلے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے، لیکن چند بہادر اور ثابت قدم مجاہدین کے استقلال و ثبات نے پھر اس کو سنبھال لیا اور اس طرح جم کر لڑے کہ غنیم کی فتح شکست سے بدل گئی اور بیشمار سامان اور مال غنیمت چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا، حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ اس جنگ میں بھی ثابت قدم اصحاب ؓ کی صف میں تھے۔ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ملی کہ قیصر روم بڑے سازو سامان کے ساتھ عرب پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو تیاری کا حکم دیا اور جنگی اسباب و سامان کے لیے مال وزر صدقہ کرنے کی ترغیب دی،حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس موقع پر ایک بیش قرار رقم پیش کی اور بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیاض کا لقب حاصل کیا۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک طرف حملہ قیصر کے مدافعانہ اہتمام میں مصروف تھے دوسری طرف منافقین جو ہمیشہ درپئے تخریب رہتے تھے، اس موقع پر بھی اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے اور مدینہ سے کچھ فاصلہ پر سویلم یہودی کے مکان میں مجتمع ہوکر ان تدابیر پر غور کرتے تھے جن سے مسلمانوں میں بددلی پیدا ہو اس مہم میں شرکت سے انحراف کریں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہ ؓ کو اس خانہ بر انداز جماعت کی تنبہہ پر مامور فرمایا، انھوں نے چند آدمیوں کو ساتھ لے کر نہایت مستعدی کے ساتھ سویلم کے مکان کا محاصرہ کر لیا اور اس میں آگ لگادی،ضحاک بن خلیفہ نے مکان کے پشت سے کود کر حملہ کیا اور اس حالت میں اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور اس کے ساتھی اس کو مسلمانوں کے پنجۂ اقتدار سے بچا کر لے بھاگے۔ غرض تیس ہزار مجاہدین نہایت جاہ و جلال کے ساتھ رومیوں کے مقابلہ کے لیے روانہ ہوئے،تبوک پہنچ کر معلوم ہوا کہ خبر غلط تھی، اس لیے وہاں چودہ دن قیام کر کے سب لوگ واپس آئے پھر 10ھ میں رسول اللہ نے آخری حج کیا، حضرت طلحہ ؓ ہمرکاب تھے ،حج سے واپس آنے کے بعد 12 ربیع الاول ، 11ھ دوشنبہ کے دن آفتاب رسالت دنیا سے غروب ہوا، حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ کو اس سانحہ کبریٰ سے جو صدمہ ہوا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے جس وقت سقیفۂ بنی ساعدہ میں سیادت و خلافت کا فیصلہ ہو رہا تھا، اس وقت یہ کسی گوشہ تنہائی میں مصروف گریہ تھے۔

حضرت علی ؓ کے ہاتھ پہ بیعت

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد مصریوں نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو عنانِ خلافت سنبھالنے پر مجبور کیا اور مسجد نبوی میں لوگوں کو بیعت عام کے لیے جمع کیا، حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ گو برابر کے دعویدار تھے؛ تاہم اس شورش و ہنگامہ کے وقت چوتھے خلیفہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔

خلیفۂ وقت کے مقابلہ میں خروج اور اس کی وجہ

خلیفۂ وقت کا قتل کوئی معمولی حادثہ نہ تھا، اس سے تمام میں شورش اور بدنظمی پھیل گئی اور مفسدین کی مطلق العنانی نے خود مدینہ کو پرفتن بنا دیا، حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ کامل چار ماہ تک خاموشی کے ساتھ اس فتنہ و فساد کا تماشا دیکھتے رہے، لیکن جب دربارِ خلافت کی طرف سے اس کے انسداد کی کوئی امید نہ رہی تو خود علم اصلاح بلند کرنے کے لیے حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر مدینہ سے مکہ چلے آئے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حج کے خیال سے مکہ آئی تھیں اور مدینہ کی شورشوں کا حال سن کر اس وقت تک یہیں مقیم تھیں،اس لیے ان دونوں نے سب سے پہلے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر مدینہ کی کیفیت بیان کی اورعلم اصلاح بلند کرنے پر آمادہ کیا، تھوڑی دیر کی بحث و مباحث کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راضی ہو گئیں اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کے مطابق بصرہ جانے کی تیاری ہوئی ، کیونکہ وہاں ان کے طرفداروں کی ایک بڑی جماعت موجود تھی اور نہایت آسانی کے ساتھ اس مہم کی شرکت پر آمادہ ہو سکتی تھی۔

بصرہ پر قبضہ

غرض داعیان اصلاح کی ایک ہزار جماعت مکہ مکرمہ سے بصرہ کی طرف روانہ ہوئی بنو امیہ بھی جو مدینہ سے بھاگ کر مکہ مکرمہ میں پناہ گزین تھے جوشِ انتقام میں ساتھ ہو گئے، بصرہ کے قریب پہنچے تو عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ والی بصرہ نے مزاحمت کی، پہلے کچھ دنوں تک ان سے مصالحت کی سلسلہ جنبانی ہوتی رہی ؛لیکن جب وہ راہ پر نہ آئے تو بزور شہر پر قابض ہو گئے اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حامیوں نے جوش و خروش کے ساتھ اہل دعوت کو لبیک کہا۔

شہادت

جنگ جمل شروع ہونے سے پہلے صلح کی سلسلہ جنبانی شروع ہوئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول خدا کی ایک پیشن گوئی یاد دلائی کہ اسی وقت ان کا دل اس خانہ جنگی سے پھر گیا، حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنے زور بازو کو برداشتہ خاطر دیکھا تو ان کا ارادہ بھی متزلزل ہوا اور جنگ سے کنارہ کش ہونے کی رائے قائم کر لی، مروان بن حکم نے جو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے معاملہ میں ان سے بدظن تھا، اس موقع کو غنیمت جان کر ایک تیر مارا جو اگرچہ پاؤں میں لگا؛ لیکن ان کے لیے تیر قضا ثابت ہوا،لوگوں نے نکالنے کی کوشش کی تو فرمایا چھوڑ دو، یہ تیر نہیں بلکہ پیام خداوندی ہے۔

تجہیز و تکفین

حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باسٹھ یا چونسٹھ برس کی عمر میں ذی قار شہادت حاصل کی اور غالباً اسی میدان جنگ کے کسی گوشہ میں مدفون ہوئے۔لیکن یہ زمین نشیب میں تھی اس لیے اکثر غرقِ آب رہتی تھی،ایک شخص نے مسلسل تین دفعہ طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا کہ وہ اپنی لاش کو اس قبر سے منتقل کرنے کی ہدایت فرما رہے ہیں، عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواب کا حال سنا تو ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی کا مکان دس ہزار درہم میں خرید کر ان کی لاش کو اس میں منتقل کر دیا، دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اتنے دنوں کے بعد بھی یہ جسم خاکی اسی طرح مصئون و محفوظ تھا،یہاں تک کہ آنکھوں میں جو کافور لگایا گیا تھا وہ بھی بعینہ موجود تھا،

اخلاق و عادات

حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اخلاقی پایہ نہایت ارفع و اعلی تھا، خشیت الہی اور رسول اللہ کی محبت سے ان کا پیمانہ لبریز تھا، معرکہ احد اور دوسرے غزوات میں جس جوش و فداکاری کے ساتھ پیش پیش رہے وہ اسی جذبہ کا اثر تھا اس راہ میں ان کو جان کے ساتھ مال کی قربانی سے بھی دریغ نہ تھا۔ چنانچہ انھوں نے نذر مانی تھی کہ غزوات کے مصارف کے لیے اپنا مال راہِ خدا میں دیا کریں گے،اس نذر کو انھوں نے اس پابندی کے ساتھ پوری کرنے کی کوشش کی کہ خاص قرآن پاک میں ان کی مدح میں یہ آیت نازل ہوئی۔ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَیْہِoفَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى یعنی کچھ آدمی ایسے ہیں جنھوں نے خدا سے جو کچھ عہد کیا اس کو سچا کر دکھایا، چنانچہ بعض ان میں سے وہ ہیں جنھوں نے اپنی مدد پوری کی۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے تو ارشاد ہوا،"طلحہ ؓ تم بھی ان لوگوں میں ہو جنھوں نے اپنی نذر پوری کی" حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ اقلیم سخاوت کے بادشاہ تھے، فقراء ومساکین کے لیے ان کا دروازہ کھلا رہتا تھا ، قیس ابن ابی حازم کا بیان ہے کہ میں نے طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ کسی کو بے طلب کی بخشش میں پیش پیش نہ دیکھا ۔ غزوۂ ذی القرد میں آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مجاہدین کے ساتھ پانی کے ایک چشمہ پر گذرے جس کا نام بیسان مالح تھا، حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے اس کو خرید کر وقف کر دیا،اسی طرح غزوۂ ذی العسرہ میں تمام مجاہدین کی دعوت کی ، غزوۂ تبوک کے موقع پر جب کہ عموما تمام مسلمان افلاس وناداری کی مصیبت میں مبتلا تھے، انھوں نے مصارفِ جنگ کے لیے ایک گرا نقدر رقم پیش کی اور دربارِ رسالت سے فیاض کا خطاب حاصل کیا۔ ایک دفعہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اپنی جائداد سات لاکھ درہم میں فروخت کی اور سب راہِ خدا میں صرف کر دیا ، آپ کی بیوی سعدی بنت عوف کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں نے انھیں غمگین دیکھا، پوچھا آپ اس قدر اداس کیوں ہیں مجھ سے کوئی خطا تو سرزد نہیں ہوئی؟ بولے نہیں تم نہایت اچھی بیوی ہو، تمھاری کوئی بات نہیں ہے،اصل قصہ یہ ہے کہ میرے پاس ایک بہت بڑی رقم جمع ہو گئی ہے، اس وقت اسی کی فکر میں تھا کیا کروں، میں نے کہا اس کو تقسیم کرا دیجئے، یہ سن کر انھوں نے اسی وقت لونڈی کو بلایا اور چار لاکھ کی رقم اپنی قوم میں تقسیم کرادی۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنو تمیم کے تمام محتاج و تنگدست خاندانوں کی کفالت کرتے تھے، لڑکیوں اور بیوہ عورتوں کی شادی کر دیتے تھے، جو لوگ مقروض تھے ان کا قرض ادا کر دیتے تھے چنانچہ صبیحہ تیمی پر تیس ہزار درہم قرض تھا ، وہ سب انھوں نے اپنے پاس سے ادا کر دیا ، ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی خاص عقیدت تھی اور ہر سال دس ہزار درہم پیش خدمت کرتے تھے۔ مہمان نوازی طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کا خاص شیوہ تھا ، ایک دفعہ بنی عذرہ کے تین آدمی مدینہ آکر مشرف بہ اسلام ہوئے، آنحضرت نے فرمایا کون ان کی کفالت کا ذمہ لیتا ہے؟حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ نے کھڑے ہوکر عرض کیا"میں یا رسول اللہ!" اور وہ تینوں نو مسلم مہمانوں کو خوشی خوشی گھر لے آئے ان میں سے دو نے یکے بعد دیگرے مختلف غزوات میں شہادت حاصل کی اور تیسرے نے بھی ایک مدت کے بعد حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ کے مکان میں وفات پائی ان کو اپنے مہمانوں سے جو انس پیدا ہو گیا تھا اس کا اثر یہ تھا کہ ہر وقت ان کی یاد تازہ رہتی تھی اور رات کے وقت خواب میں بھی ان ہی کا جلوہ نظر آتا تھا، ایک روز خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے تینوں مہمانوں کے ساتھ جنت کے دروازہ پر کھڑے ہیں،لیکن جو سب سے پیچھے مرا تھا وہ سب سے آگے ہے اور جو سب سے پہلے شہید ہوا تھا وہ سب سے پیچھے ہے، طلحہ بن عبیداللہ ؓ کو اس تقدم و تاخر پر سخت تعجب ہوا، صبح کے وقت سرور کائنات سے خواب کا واقعہ بیان کیا تو ارشاد ہوا،اس میں تعجب کی کیا بات ہے، جو زیادہ دنوں تک زندہ رہا اس کو عبادت و نیکو کاری کا زیادہ موقع ملا، اس لیے وہ جنت کے داخلہ میں اپنے ساتھیوں سے پیش تھا۔ احباب کی مسرت وشادمانی ان کے لیے بھی سامانِ انبساط بن جاتی تھی، حضرت کعب بن مالک ؓ غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہونے کے باعث معتوب بارگاہ تھے ،ایک مدت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی خطا معاف کردی اور وہ خوش خوش دربارِ رسالت میں حاضر ہوئے تو طلحہ بن عبیداللہ ؓ نے دوڑ کر ان سے مصافحہ کیا اور مبارک باد دی، حضرت کعب بن مالک ؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے اس اخلاق کو کبھی نہ بھولوں گا؛ کیونکہ مہاجرین میں سے کسی نے ایسی گرمجوشی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کو دوستوں کی خدمت گزاری سے بھی دریغ نہ تھا، ایک دفعہ ایک اعرابی مہمان ہوا اور اس نے درخواست کی کہ بازار میں میرا اونٹ فروخت کرا دیجئے،حضرت طلحہ ؓ نے فرمایا گورسول اللہ نے منع فرمایا ہے کہ کوئی شہری، دیہاتی کا معاملہ نہ چکائے تاہم میں تمھارے ساتھ چلوں گااور اس کے ساتھ جاکر مناسب قیمت پر اس کا اونٹ فروخت کرا دیا، اعرابی نے اس کے بعد خواہش ظاہر کی کہ دربارِ رسالت سے زکوٰۃ کی وصولی کا ایک مفصل ہدایت نامہ دلواد یجئے تاکہ عمال کو اسی کے مطابق دیا کروں حضرت طلحہ ؓ نے اپنے مخصوص تقرب کے باعث اس کی یہ خواہش بھی پوری کردی۔ رسول خدا کے اسوۂ حسنہ کو طرز عمل بنانا ہر مسلمان کی سب سے بڑی سعادت ہے، طلحہ بن عبیداللہ ؓ نے اس سعادت کے حصول کو اپنے فرائض میں شامل کر لیا تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی مختلف صحبتوں میں جو کچھ دیکھتے یا سنتے اس کو ہمیشہ یاد رکھتے اور اگر اتفاق سے کبھی کوئی بات بھول جاتے تو سخت مغموم و رنجیدہ نظر آتے ایک دفعہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان کو مغموم دیکھ کر پوچھا، تمھارا حال کیسا ہے؟ کسی سے کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا؟ کہنے لگے"مجھے اس وقت وہ کلمہ معلوم تھا، لیکن اب یاد نہیں آتا،حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا کیا تم اس کلمہ سے بھی زیادہ باعظمت و پر اثر کلمہ جانتے ہو جس کا رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا یعنی لا الہ الاّ اللہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ سن کا اچھل پڑے فرمایا"ہاں! خدا کی قسم یہی کلمہ ہے"

حسن معاشرت

حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے حسن معاشرت کے باعث بیوی بچوں میں نہایت محبوب تھے، وہ اپنے کنبہ میں جس لطف ومحبت کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے اس کا اندازہ صرف اس سے ہو سکتا ہے کہ عتبہ بن ربیعہ کی لڑکی ام ابان سے اگرچہ بہت سے معزز اشخاص نے شادی کی درخواست کی،لیکن انھوں نے طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سب پر ترجیح دی، لوگوں نے وجہ پوچھی تو کہا میں ان کے اوصاف حمیدہ سے واقف ہوں، وہ گھر آتے ہیں تو ہنستے ہوئے ،باہر جاتے ہیں تو مسکراتے ہوئے ،کچھ مانگو تو بخل نہیں کرتے اور خاموش رہو تو مانگنے کا انتظار نہیں کرتے، اگر کوئی کام کر دو شکر گزار ہوتے ہیں اور خطا ہو جائے تو معاف کر دیتے ہیں۔

ذریعہ معاش

طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے معاش کا اصلی ذریعہ تجارت تھا،چنانچہ نیر اسلام کے طلوع ہونے کی بشارت بھی اسی تجارتی سفر میں ملی تھی،جب مدینہ منورہ پہنچے تو زراعت کا شغل بھی شروع کیا اور رفتہ رفتہ اس کو نہایت وسیع پیمانہ پر پھیلا دیا، خیبر کی جاگیر کے علاوہ عراق عرب میں متعدد علاقے حاصل کیے، ان میں سے قناۃ اور سراۃ نہایت مشہور ہیں، ان دونوں مقامات میں کاشتکاری کا نہایت وسیع اہتمام تھا، صرف قناۃ کے کھیتوں پر بیس اونٹ سیرابی کا کام کرتے تھے ،ان علاقوں کی پیداوار کا صرف اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کی روزانہ آمدنی کا اوسط ایک ہزار دینا ر تھا۔

تمول

غرض تجارت و زراعت نے ان کو غیر معمولی دولت وثروت کا مالک بنادیا تھا،چنانچہ لاکھوں دینا و درہم راہ خدا میں لٹا دینے کے بعد بھی اہل و عیال کے لیے ایک عظیم الشان دولت چھوڑ گئے، ایک دفعہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے موسیٰ بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تمھارے والد نے کسی قدر دولت چھوڑی تو انھوں نے کہا بائیس لاکھ درہم اور دو لاکھ دینار، اس کے علاوہ نہایت کثیر مقدار میں سونا اور چاندی ،یہ نقدی کی تفصیل تھی،جائداد غیر منقولہ اس کے علاوہ تھی جس کی کل قیمت کا اندازہ تین کروڑ درہم تھا۔

غذا و لباس

طرز معاش نہایت سادہ تھا ، کپڑے اکثر رنگین پہنتے تھے، ایک دفعہ حضرت عمرؓ بن خطاب نے حالت احرام میں رنگین لباس زیب حسم دیکھا بولے"طلحہ ؓ یہ کیا ہے؟ عرض کیا امیرالمومنین یہ گیروارنگ ہے" فرمایا آپ لوگ ائمہ دین ہیں عوام آپ کا اتباع کرتے ہیں، کوئی جاہل دیکھ لے گا تو وہ بھی رنگین کپڑے استعمال کرے گا اور دلیل پیش کرے گا کہ میں نے طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حالتِ احرام میں پہنے ہوئے دیکھا تھا۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں ایک سونے کی انگوٹھی تھی جس میں نفیس سرخ یاقوت کا رنگ جڑا ہوا تھا، لیکن بعد کو یاقوت نکال کر معمولی پتھر سے مرصع کرایا تھا،دسترخوان بھی وسیع تھا ، لیکن پر تکلف نہ تھا۔  :

حلیہ

حلیہ یہ تھا ، قد میانہ بلکہ ایک حد تک پست ، چہرہ کا رنگ سرخ و سفید ، بدن خوب گٹھا ہوا سینہ چوڑا ، پاؤں نہایت پر گوشت اور ہاتھ کی انگلیاں غزوۂ احد میں شل ہو گئی تھیں۔

اولاد وازواج

حضرت طلحہ بن عبید اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چوہرے ہم ذلف تھے۔ان کی چار بیویاں چار امہات المؤمنین کی بہنیں تھیں۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بہن ام کلثوم بنت ابى بكر رضی اللہ عنہا۔ ام المؤمنين زينب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی بہن حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا۔ ام المؤمنين ام حبيبہ رضی اللہ عنہا کی بہن فارعہ بنت ابى سفيان رضی اللہ عنہا اور ام المؤمنين ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بہن رقيہ بنت ابي امیہ رضی اللہ عنہا ۔ طلحہ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کی تھیں بیویوں کے نام یہ ہیں حمنہ بنت جحش،ام کلثوم بنت ابوبکر الصدیق، سعدی بنت عوف ،ام ابان بنت عتبہ بن ربیعہ، خولہ بنت القعقاع، ان میں سے ہر ایک کے بطن سے متعدد اولاد ہوئی تھی، لڑکوں کے نام یہ ہیں۔ محمد، عمران، عیسیٰ، یحییٰ، اسمعیل، اسحاق، زکریا، یعقوب، موسی ، یوسف ، ان کے علاوہ چار صاحبزادیاں بھی تھیں، ان کے نام یہ ہیں۔ ام اسحاق، عائشہ،صعبہ، مریم۔

وفات

طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنگ جمل میں مروان بن حکم الاموی نے گھٹنے پر تیر مارا تھا (جس سے) آپ شہید ہو گئے۔

حدیث میں ذکر

ان 10 صحابہ کرام کا ذکر عبدالرحمن بن عوف کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ: عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنتی ہیں۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سعید بن زید اور ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم، سب کے سب) جنت میں ہیں۔ ابومصعب، عبد العزیز بن محمد سے وہ عبد الرحمن بن حمید سے وہ اپنے والد سے وہ سیدنا سعید بن زیدرضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی کی مانند نقل کرتے ہیں۔ اس سند میں سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر نہیں اور یہ حدیث عبد الرحمن بن عبید بھی اپنے والد سے وہ سیدنا سعید بن زیدرضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی کی مانند نقل کرتے ہیں۔ یہ حدیث پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ ۔

حوالہ جات


Tags:

طلحہ بن عبید اللہ نام و نسبطلحہ بن عبید اللہ اسلامطلحہ بن عبید اللہ مواخاتطلحہ بن عبید اللہ ہجرتطلحہ بن عبید اللہ غزوات میں شرکتطلحہ بن عبید اللہ حضرت علی ؓ کے ہاتھ پہ بیعتطلحہ بن عبید اللہ خلیفۂ وقت کے مقابلہ میں خروج اور اس کی وجہطلحہ بن عبید اللہ بصرہ پر قبضہطلحہ بن عبید اللہ شہادتطلحہ بن عبید اللہ تجہیز و تکفینطلحہ بن عبید اللہ اخلاق و عاداتطلحہ بن عبید اللہ ذریعہ معاشطلحہ بن عبید اللہ تمولطلحہ بن عبید اللہ غذا و لباسطلحہ بن عبید اللہ حلیہطلحہ بن عبید اللہ وفاتطلحہ بن عبید اللہ حدیث میں ذکرطلحہ بن عبید اللہ حوالہ جاتطلحہ بن عبید اللہ36ھاسلامجنگ جملصحابیصل اللہ علیہ وآلہ وسلمعائشہ بنت ابی بکرعشرہ مبشرہعلی ابن ابی طالبغزوات نبویغزوہ احدقبل ہجریمحمد بن عبد اللہمروان بن حکمکعب بن لوی

🔥 Trending searches on Wiki اردو:

خودی (اقبال)فتح اندلسرامتاتاریمالک بن انسفتح قسطنطنیہپہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شمولیتمحفوظمقدمہ شعروشاعریمشرقی پاکستاناسماعیلیام حبیبہ رملہ بنت ابوسفیانایشیا اور اوقیانوسیہ کی خود مختار ریاستوں کی فہرست بلحاظ انسانی ترقیاتی اشاریہعید الفطرفقیہسلطنت دہلیخضر راہقیام پاکستان کے وقت پیش آنے والی ابتدائی مشکلاتاسلام میں مذاہب اور شاخیںبدھ متقومی اسمبلی پاکستانالیٹا اوشنغار ثوراردو نظمبینظیر انکم سپورٹ پروگرامزراعتیونسابن تیمیہخواب کی تعبیرغزہ شہرایمان بالقدرحلالہ فقہ حنفیہ کی روشنی میںصوفی برکت علیتمغائے امتیازہسپانوی خانہ جنگیایسٹرباغ و بہار (کتاب)عمر بن عبد العزیزمعراجآخرتکمپیوٹربلوچستانکوپا امریکایمندریائے سندھمختار ثقفیادارہ فروغ قومی زبانکوہ سیناءمطلعمشکوۃ المصابیحجمع (قواعد)اسلام بلحاظ ملکاصطلاحات حدیثسورہ الحججغرافیہ پاکستانہم قافیہمثنویاہل بیتعام الفیلنورالدین جہانگیرامریکی ڈالراسمایمان بالملائکہانڈین نیشنل کانگریسحکیم لقمانكاتبين وحیعبادت (اسلام)پاکستانی ثقافتامیر خسروبنی اسرائیلقرارداد مقاصدعیسی ابن مریماسلام میں انبیاء اور رسولصدقہتحریک ختم نبوت 1974ءاردو ناول نگاروں کی فہرستسرعت انزال🡆 More