بھوج پتر

بھوج پتر

بھوج پتر
Himalayan Birch
بھوج پتر
پچھان
سائنسی ناں: Betula utilis

انتہائی بلند برفانی علاقوں میں پایا جانے والا ایک خود رو اور اپنی نوعیت کا ایک عجیب، منفرد اور کار آمد جنگلی درخت ہے۔ اس کو انگریزی میں Birch ، عربی میں "بتولا" اور شنیا میں کاغذ کو "جوش" اور اس کے درخت کو "جونزی" کہتے ہیں۔ یہ درخت وادی نیلم کے بلند علاقوں خصوصاً گریس کے اونچے جنگلات میں پایا جاتا ہے۔ پھولاوئی سے آگے "سروگہ" اور "گوجر گہ" دونوں نالوں میں پایا جاتا ہے اور یہ سلسلہ ان سے ملحق استور کے سرحدی علاقوں تک چلا جاتا ہے۔ اسی طرح چلاس، گلگت اور غذر کے بالائی علاقوں اور چترال میں بھی پایا جاتا ہے۔

"بھوج پتر" کا مطلب بھوج کا کاغذ ہے۔ یہ در اصل اس درخت کی اس نرم چھال کا نام ہے جو تنے پر چڑھے سخت چھلکے کے اوپر ہوتی ہے۔ اس چھال کو سخت چھلکے تک چرکا لگا کر اتارا جاتا ہے۔ اس بارے میں چودھری محمد امجد لکھتے ہیں:

"پتھر کے دور میں استعمال ہونے والا کاغذ جو نام کے درخت کی چھال سے نکالا جاتا ہے یہ درخت دس ہزار فٹ سے لے کر سترہ ہزار فٹ کی بلندی پر ملتا ہے۔ اس کو گوجری زبان میں بہرز ، کشمیری میں اور فارسی میں توز اور ہندکو میں بھرج کہتے ہیں۔ اس درخت کی چھال اتاری جائے تو تہہ در تہہ کاغذ نکلتا ہے جو بہت عمدہ اور ملائم ہوتا ہے ۔ بدھ مت کے دور میں بھی لوگ تحریر کے لئے اسی کاغذ کو استعمال کرتے تھے ۔۔اس کاغذ کی یہ خاصیت ہے کہ پانی میں پڑا رہے تو خراب نہیں ہوتا۔ موجودہ دور میں بھی تعویز لکھنے کے لیے یہ کاغذ استعمال ہوتا ہے۔ اس پر الف کا نشان ہونے کی وجہ سے اسے متبرک سمجھا جاتا ہے".

یہ چھال تہہ بہ تہہ ہوتی ہے اور اس کی ایک ایک پرت کو الگ کرنے کے لئے ہلکی آنچ دی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر کھردرا ہو تو اسے نرم کرنے کے لئے بھی یہی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جب کاغذ عام نہیں تھا تو خط لکھنے کے لئے یہی چھال استعمال ہوتی تھی۔

اس کے علاوہ بھی اس چھال کے ہمارے ہاں کئی استعمال ہیں۔ ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ گرمیوں میں چراگاہوں میں جب دودھ بلو کر مکھن نکالا جاتا ہے تو اسے دھو کر میں رکھا جاتا ہے جہاں اس کا پانی نچڑ کر صاف ہو جاتا یے۔ اس کے بعد اسے میں ہی باندھ کر زمین میں دفن کیا جاتا ہے۔ چونکہ میں پانی نہیں جاتا اس لئے یہ گھی محفوظ رہنے کے ساتھ اپنا ذائقہ بھی بدلتا ہے جس کو ہم "کڑوا گھی" کہتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سے گھی کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ اس گھی کی خوشبو دور تک جاتی ہے اور کھانسی وغیرہ کے لئے بطور دوا بھی استعمال ہوتا ہے۔

اسی طرح جب تک پلاسٹک کا رواج نہیں ہوا تھا تو مکان کی چھت بناتے وقت لکڑی کے تختوں پر بچھا کر اوپر مٹی ڈالی جاتی تھی۔ اس سے مکان ٹپکنے اور مٹی گرنے سے محفوظ ہو جاتا تھا۔

کا ایک اور استعمال یہ ہے کہ ایک خاص قسم کی روٹی "ال ٹکی" بنا کر میں لپیٹ کر راکھ میں دبا کر پکائی جاتی ہے۔ انتہائی آتش گیر ہوتا ہے اس لئے پہلے جب ماچس کا رواج کم تھا تو اسے انگاروں سے آگ سلگانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

کی لکڑی خشک ہونے کے بعد بہت سخت ہو جاتی ہے اور اس میں ذائقہ بھی نہیں رہتا۔ اس لئے بڑی لکڑی چیرنے کے لئے دس پندرہ کلو کا ہتھوڑا (جس کو ہم لوگ "موگری" کہتے ہیں) اور فانےاسی سے بنائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہل کی لمبی لکڑی بھی عام طور پر اسی کی ہوتی ہے۔ اس کی تازہ شاخوں میں لچک ہوتی ہے اور ان کو گھاس کے گٹھے باندھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور خشک شاخیں کچھ وقت پانی میں رکھنے سے دوبارہ قابل استعمال ہو جاتی ہیں۔

گرمیوں میں بھیڑ بکریاں اس کے پتے بڑے شوق سے کھاتی ہیں اور موسم سرما کے آخر یعنی وسط مارچ میں اگر مویشیوں کے لئے چارے کی کمی ہو جائے تو لوگ کی نوخیز شاخیں کاٹ کر لاتے اور جانوروں کو کھلاتے ہیں۔

تصاویر میں میں نے دیکھا ہے کہ جرمنی اور بعض دیگر یورپی ممالک کے پہاڑوں پر بھی یہ درخت پایا جاتا ہے۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھی اس کے جنگلات ہیں۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ چترال کے علاقے گبور اور لٹکوہ میں اب اس کو باقاعدہ کاشت کیا جا رہا ہے۔ اس کی لکڑی سے برتن بھی بنائے جاتے ہیں۔

نوٹ: کچھ تصاویر "سروگہ" نالے کی ہیں جو میں نے خود بنائی تھیں۔ کاغذ کے تصاویر محمد امجد چوہدرMuhammad Amjid نے فراہم کی ہیں جبکہ گبور میں خود کاشتہ کی تصاویر اور ویڈیو ہمارے دوست مولانا محمد ایوب Ayub Chitrali Ashbely نے کراچی سے بھیجی ہیں۔ ان دونوں حضرات کا بہت بہت شکریہ۔ (ھمدردیات) ایک پہاڑی درخت ہے جو تقریباً 9000 ہائیٹ سے اوپر پایا جاتا ہے اور اسکا چھلکا سفید رنگ کاتہہ در تہہ ہوتا ہےجس کے اوپر الف لکھا ہوا ہوتا ہے جس کو بدھ مت اور اسلام میں کافی اہمیت حاصل ہے پرانے وقتوں میں اس کے اور تحریر کی جاتی تھی

پاکستان چ ہون والا اک رکھ اے۔ سنسکرت دیاں پرانیاں لکھتاں ایدی کھل تے لکھیاں گیاں نیں۔

بارلے جوڑ

Tags:

🔥 Trending searches on Wiki شاہ مکھی پنجابی (Shāhmukhī Pañjābī):

جمی ویلزمیثاق لکھنؤپورن بھگتواشنگٹن ڈی سیامام جعفر صادقعلی ابن حسینعبد اللہ ابن زبیرکوئلISO 3166-1لوکراج کانگواشرف سہیلاقبالنواب وقار الملکنظمدار العلوم ندوۃ العلماءاکامام علی رضااورخان اولاحمد بن حنبلنشاط گروپبلیپچھمی پنجابیمثنویسلجوقی سلطنتوائس چانسلر1406اکبر1989قازانایوب خانسید دلدار علی نقویآتش فشاںکھرڑویکی اقتباسسٹالنزمہندوستانی رسماںماسکوزفر بن ہذیلعبدالملک بن مروانکلیسائے یسوع مسیح برائے مقدسین آخری ایاموزارت داخلہ (پاکستان)سپارٹاامریکاپاکستان۲۰۲۴ءعباس بن علیجٹ کہاوتاں تے محاورے1977واحد جمعاتلیجامنیعبرانی بائبلجعفر ابن ابی طالباسٹریلیاپنجابی شاعری دیاں صنفاںسعد بن ابی وقاصاردو ہندی تنازعانیس ناگیوکیپیڈیاحسین واعظ کاشفیشیخ سعدیویکیوم کلینرتابعیندبھسویت یونینال نینوکعبہگاندھی جناح مذاکرات 1944ءایکسپو 2020لوہڑیاڈمنڈ برکاٹ سٹغلام علی ہمدانی مصحفی🡆 More