جنگ آزادی 1857 دے لُکے پہلو

۱۸۵۷/ برصغیر ہند وپاکستان کی تاریخ کا ایک اہم سال ہے۔ جس طرح نحیف سے نحیف جسم بھی شدید بیماری کی صورت میں ایک نہ ایک مرتبہ اپنی ساری توانائیوں کو سمیٹ کر مرض کو دفع کرنے کے لئے پورا زور صرف کردیتا ہے کم و بیش ایسا ہی واقعہ ۱۸۵۷/ میں پیش آیا جب کہ ہندوپاکستان کے لوگ جو اندرونی زوال اور بیرونی تسلط کی دوہری مار سے پس چکے تھے ایک مرتبہ پھر منظم ومتحد ہوئے اورانھوں نے اجنبی اقتدار کے جوئے کو کاندھے سے اتار پھینکنے کے لئے غیرمعمولی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ افسوس ہے کہ غیرملکی غلبے کے خلاف عوام کے اس مقدس جہاد کو مخالفین نے ایک حقیر واقعہ بنانے کی کوشش کی۔ بغاوت، شورش، ہنگامہ، غدر نہ جانے اور کتنے ایسے نام ہیں جو اس واقعہ کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے بعض تو ناکافی معلومات کا نتیجہ ہوں لیکن بلاشبہ ان میں سے اکثر ذاتی یا قومی مفاد کے پیش نظر تراشے گئے ہیں۔

۱۸۵۷/ سے متعلق جو تاریخی نا انصافی ہوئی ہے اس کا بڑا سبب یہ رہا کہ بدلے ہوئے حالات میں عرصے تک جنگ آزادی کے مشارکین و مشاہدین کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ واقعات کی صحیح تصویر پیش کرتے۔ ظلم و استبداد کے خلاف جہاد میں ہار جانا تاریخ میں کوئی ان ہونی بات نہیں لیکن انگریز حاکموں نے محبانِ وطن کو ان کی ناکامی کے بعد جس ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اس کی مثال کم ملے گی۔

محبان وطن کے خلاف طرح طرح ے بہانے بنائے گئے اور اکثر پر بے بنیاد الزام لگاکر انہیں سنگینوں کا شکار بنایا۔ انگریزوں نے جس طرح سیاست میں برصغیر کے عوام پر ستم ڈھائے اسی طرح علمی طو رپر بھی عوام کے اس جہاد حریت کی وقعت کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی۔ اس کو محض غدر سے تعبیر کیاگیا گویا یہ ایک معمولی شورش تھی جوفوج سے اٹھی اور فوج ہی میں دب کر رہ گئی۔ واقعہ یہ ہے کہ آغاز تو ایسا ہی ہوا جیسا کہ اکثر بیان کیا جاتا ہے یعنی یہ کہ ہندوستانی فوجیوں کو اپنے حکام کے ساتھ متعدد شکائتیں پیدا ہوگئی تھیں جو رفتہ رفتہ عام فوجی بے چینی کا باعث بن گئیں۔ یہی وہ بے چینی اور بے اطمینانی ہے جو ۱۸۵۷/ میں جنگ کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ لیکن چونکہ یہی وہ زمانہ تھا جبکہ برصغیر کے مختلف طبقات نے جو قطع نظر جذبہٴ آزادی کے اور دوسری وجوہ کی بناء پر اجنبی تسلط سے بیزار تھے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہا۔ چنانچہ یہ واقعہ جس کا آغاز تو فوجی شورش سے ہوا بالآخر قومی جنگ کی صورت اختیار کرگیا۔ مگر حال کے جن مورخین نے مسئلہ کو اسی طرح سمجھا ہے ان کی تصانیف کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ اس میں داستان کی تکمیل اور نتائج کے اخذ کرنے میں اس رول کو ملحوظ نہیں رکھا گیا جو کہ مسلمان علماء نے اس جنگ آزادی میں ادا کیا۔

محاربہ ۱۸۵۷/ کو جنگ آزادی کہا جائے یا نہ کہا جائے اس کا انحصار بڑی حد تک اس پر ہے کہ جنگ آزادی سے آخر مراد کیا ہے۔ اگر جنگ آزادی کے لئے لازمی شرط یہ ہو کہ سارا ملک بلا استثناء اس میں شامل ہوجائے جیساکہ بعض مصنّفین کا خیال ہے تو پھر ۱۸۵۷/ کے معرکہ کو جہاد حریت سے موسوم کرنا ایک منطقی غلطی ہوگی۔ جنگ آزادی جانچنے کی کسوٹی ہمارے نزدیک رقبہ وآبادی نہیں بلکہ وہ جذبہ ہے جواس جنگ میں کار فرمارہا ہو اگر اس نقطئہ نظر سے دیکھا جائے تو ۱۸۵۷/ کی جنگ کیا بہ لحاظ واقعہ اور کیا بہ اعتبار نتائج برصغیر کی پہلی جنگ آزادی کہلائی جاسکتی ہے۔ رقبہ اور آبادی جو اس سے متاثر ہوئی وہ بھی کم نہ تھی۔

جہاں تک واقعات کا تعلق ہے یہ بھی جانتے ہیں کہ انگریز برصغیر میں تاجروں کی حیثیت سے داخل ہوئے لیکن یہاں کے سیاسی حالات بالخصوص درباری رقابتوں سے فائدہ اٹھاکر پہلے تو انھوں نے دکن میں اپنا عمل دخل بڑھایا اور کچھ عرصے بعد بنگال کے علاقے کے مالک بن بیٹھے۔ البتہ ابتداء ہی سے انگریز پیش قدمی اور توسیع اقتدار کی پالیسی پر کارفرمارہے اور نت نئے طریقوں سے بالواسطہ یا بلاواسطہ سارے برصغیر پر قابض ہوگئے۔

بیرونی غلبے کا فوری اثر یہ پڑا کہ حکمراں طبقہ اقتدار سے محروم ہوگیا اور امراء اپنا اثر و رسوخ کھوبیٹھے۔ سیاسی محرومی اپنے جلو میں معاشی ابتری بھی لئے ہوئے تھی۔ پہلی بڑی معاشی مار زمیندار طبقے پر پڑی جس سے وہ طبقہ بھی متاثرہوا جو ان سے کسی نہ کسی طرح پر وابستہ تھا۔ تاجر و صنعت کار طبقے بھی انگریزی حکومت سے خوش نہیں رہ سکتے۔ ملک کی صنعتیں اور حرفتیں ملک کے نئے حالات میں پنپ نہ سکیں۔ یہاں کی صنعتیں حکومت کی سرپرستی کے بغیر آزاد مقابلے کی تاب نہ لاسکتی تھیں۔ سیاسی و معاشی غلامی میں ظاہر ہے کہ ملکی تہذیب بیرونی اثر سے آزاد نہیں رہ سکتی، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انگریزی تہذیب رفتہ رفتہ ملک میں اثر و نفوذ کرنے لگی جو دور رس نتائج کا باعث بنی۔ ان حالات میں ایک غیور قوم کا اجنبی حکومت کو للکارنا ایک فطری امر تھا۔

ہندو اور مسلمان طویل سیاسی اور تہذیبی مقاصد میں ہمیشہ سے الگ الگ رہے ہیں لیکن بیرونی غلبے سے آزادی حاصل کرنا ایسا جذبہ تھا جس میں ہندو اور مسلمان دونوں برابر کے شریک تھے۔ اس موقعہ پر جو نقطئہ اتحاد دونوں قوموں کے لئے قابل قبول ہوسکتا تھا وہ مغل شہنشاہ کی ذات تھی مانا کہ مغل بادشاہ کا وجود اب برائے نام تھا لیکن اس کی قانونی حیثیت اب بھی مسلم تھی۔ مزید برآں عوام کی وفاداری کی دیرینہ روایات بھی مغل خاندان سے وابستہ تھیں۔ ان ہی وجوہ کی بناء پر قیادت کے لئے ہندو اور مسلمان دونوں کی نظریں مغل شہنشاہ پر پڑیں۔ لیکن ملک کی سیاسی بے چینی ابھی منظم تحریک کی پختہ صورت نہ اختیار کرپائی تھی کہ فوج میں بغاوت کی چنگاری اٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک شعلے کی شکل میں برصغیر کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس جنگ میں امیر وغریب، عالم وجاہل سب ہی شامل تھے۔ مردتو مرد عورتوں نے بھی اس موقعہ پر غیرمعمولی شجاعت کا مظاہرہ کیا۔

نتائج کے اعتبار سے بھی یہ جنگ برصغیر میں پہلی جنگ آزادی کہلانے کی مستحق ہے۔ یہ صحیح ہے کہ انگریزوں کو نکال باہر کرنے میں کامیابی نہیں ہوئی لیکن ان کی یہ ناکامی عوام کے جذبہٴ حریت کو پامال نہ کرسکی۔ بیرونی اقتدار کے خلاف جذبہ روز بروز بڑھتا رہا ہے حصول آزادی کی متواتر کوششیں مختلف سمتوں میں جاری رہیں جس کا پھل بالآخر مکمل آزادی کی صورت میں ۱۹۴۷/ میں ملا۔

تاریخ میں اختلاف رائے ایک معمولی امر ہے یہ تحقیق حق میں کسی طرح حارج نہیں تاریخی مساعی میں اختلاف رائے کا پایا جانا ایک اعتبار سے ضروری بھی ہے۔ علم تاریخ میں ایک فرد کی کوشش بالکل ناکافی ہوتی ہے کیونکہ کسی مورخ کی آنکھ میں اتنی تیزی نہیں کہ واقعہ کو اس کے پورے پس منظر میں دیکھے مختلف آنکھوں کی مدد ہی سے وہ بصیرت حاصل ہوسکتی ہے جس سے واقعہ کی ماہیت کو اچھی طرح دیکھا جاسکتا ہے۔ مختلف نقطہ ہائے نظر سے مسئلے کے سمجھنے میں الجھاؤ ضرور پیدا ہوجاتا ہے۔ لیکن دلائل کی تنقیدی جانچ سے اس الجھاؤ کو دور کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے کسی فی الحقیقت تاریخ بنیادی طور پر ایک ایسا علم ہے جس میں تنقید کے ذریعہ ہی سے حقیقت تک پہنچا جاتا ہے۔ جہاں تک ۱۸۵۷/ کا تعلق ہے اس پر اب تک جو کام ہوئے ہیں اور خاص طور پر ۱۸۵۷/ میں صدسالہ یادگار کے موقع پر جو کتابیں شائع ہوئی ہیں اپنی اپنی جگہ پر مستحسن ہیں لیکن ان کو کافی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ قطع نظر اختلاف رائے کے جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ ابھی تک کوئی ایسا مبسوط کام نہیں کیاگیا ہے جس میں مسلمان علماء کے کارناموں کو بیان کیاگیا ہو۔ ناکامی کے بعد محبان وطن پرجو جھوٹے مقدمات چلائے گئے اور ان کے خلاف بربریت اور وحشت کے جو افسانے گھڑے گئے وہ سب مورخ کی ناقدانہ جانچ کے محتاج ہیں۔ ضرورت ہے کہ مورخین اس طرف متوجہ ہوں۔



۱۸۵۷/ ہندوستان کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ قدیم وجدید کے درمیان یہی وہ منزل ہے جہاں سے ماضی کے نقوش بھی پڑھے جاسکتے ہیں اورمستقبل کے امکانات کا جائزہ بھی لیا جاسکتا ہے۔ مغلیہ سلطنت جس کے دامن میں ایک ایسی تہذیب نے پرورش پائی تھی جور نگ و نسل اور مذہب وملت کے سارے امتیازات سے بالا تر ہوکر ایک عرصہ تک ہندوستان کی سیاسی وحدت کی ضامن رہی تھی، یہاں پہنچ کر دم توڑ دیتی ہے۔اور اس کے ساتھ تاریخ کا ایک دور ختم ہوجاتاہے۔ پُرانا سماجی نظام اور پرانے نظریات وقت کے نئے تقاضوں کے سامنے سرنگوں ہوجاتے ہیں اور نئی سماجی قوتیں صرف فکر و نظر کے سانچے ہی توڑنے پراکتفا نہیں کرتیں بلکہ زندگی کے سارے محور بدل دیتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۸۵۷/ میں صرف ایک سیاسی نظام ہی کا جنازہ نہیں نکلتا بلکہ ہندی قرون وسطیٰ کا سارا تہذیبی سرمایہ بھی نیست و نابود ہوجاتا ہے۔ دہلی جو صدیوں تک علم و ہنر کا مرکز اور تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہی تھی اس طرح تباہ و برباد ہوجاتی ہے کہ دیکھنے والے بے اختیار پکار اُٹھتے ہیں۔

مٹ گئے تیرے مٹانے کے نشاں بھی اب تو

اے فلک! اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز

اس سیاسی اور تمدنی بربادی کی داستان مورخین نے مختلف نقطئہ ہائے نظر سے ترتیب دی ہے۔ بعض نے اس کا مطالعہ محض سپاہیوں کے ہنگامہ کی حیثیت سے کیاہے، بعض نے پوری تحریک میں صرف چند رجعت پسند عناصر کی سرگرمی دیکھی ہے اور کچھ مصنّفین نے اس کو ایک ڈوبتے ہوئے جاگیردارانہ نظام کے سنبھالے کی کوشش سے تعبیر کیا ہے۔ یہ اوراس طرح کی تمام تعبیریں حقیقت کے صرف ایک پہلو کو سامنے لاتی ہیں اس لیے جزوی طور پر صحیح لیکن کلی طور پر غلط ہیں۔

دنیا کی کسی تحریک کا بھی بے تعصبی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضع ہوجائے گی کہ اُس میں حصہ لینے والے سب لوگوں کے مقاصد اور مطمح ہائے نظر ایک نہیں ہوتے۔ ”فرانس“ میں جب Cahiers ذریعہ فرانسیسی باشندوں کی شکایات اور مطالبات کا پتہ لگانے کی جستجو کی گئی تو معلوم ہوا کہ جہاں کچھ لوگ مطلق العنان شخصی حکومت سے نالاں تھے، وہاں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کو صرف یہ شکایت تھی کہ اُن کے محلہ میں روشنی کا کوئی معقول انتظام نہ تھا

ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تا بکجا

تاریخ عالم شاہد ہے کہ کسی محکم سیاسی نظام کو توڑنے کے لیے جو تحریک بھی اٹھتی ہے اُسے اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے کتنی ہی پُرپیچ وادیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی وقتی جذبات اور عارضی مصالح، بنیادی مقاصد اورحقیقی نصب العین کو شکست دیتے ہوئے نظر آئے ہیں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تحریک اُن ہاتھوں میں چلی جاتی ہے جو اپنے افکار کی پستی اور کردار کی درماندگی کی بنا پر قیادت کی اہلیت نہیں رکھتے، لیکن بایں ہمہ تحریک کے مقصد و منہاج کا جو نقش معاصرین کے ذہنوں میں قائم ہوجاتا ہے وہی اس کی نوعیت کو متعین کرتاہے اور اُسی سے اُس کی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ انقلابِ فرانس کا مقصد شہنشاہیت کا استیصال اورایک ایسے نظام کی تشکیل تھا جس کی عمارت حُریت، احوت اورمساوات کی محکم بنیادوں پر قائم ہو، لیکن کیا انقلاب ”فرانس“ کی تاریخ میں صرف یہی مرکزی نقطئہ نظر ہمیشہ اورہر طبقہ کا رہا ہے؟- مورخوں نے تسلیم کیا ہے کہ انقلاب کے دوران میں بارہا ایسے عناصر برسراقتدار آئے جو تحریک کی قیادت کی اہلیت نہ رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود تحریک کا دھارا Scum white scum red, کو اپنی سطح پر لیے اپنے مقصد کی جانب بڑھتا رہا۔

۱۸۵۷/ میں سپاہیوں کی بغاوت بھی ہوئی اور رجعت پسند عناصر نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد بھی کی، لیکن مجموعی حیثیت سے تحریک کی نوعیت غیرملکی اقتدار کے خلاف قومی تحریک ہی کی رہی اور اس کا احساس ”انگلستان“ کے بعض معاصر صحافیوں اور مدبروں کو بھی تھا۔ لارڈ ”سالسبری“ نے ایوان عام میں تقریر کرتے ہوئے کہاتھا کہ یہ کیسے تسلیم کرلیا جائے کہ اتنی وسیع اور زبردست تحریک صرف کارتوسوں کی وجہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ”لندن“ کے ایک اخبار نے اسی زمانہ میں لکھا تھا:

”اگر بے اطمینانی صرف سپاہیوں تک ہی محدود ہے اور عام لوگ ہمارے ساتھ ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت ہند کیوں بار بار انگریزی فوجیں طلب کرتی ہے اور تار پر تار کیوں کھڑکاتی ہے؟ اگر لوگ حکومت کے ساتھ ہیں جیسا کہ وزیر اور کمپنی کے ڈائرکٹر بیان کرتے ہیں تو اُنھیں وہیں سے اتنے آدمی مل سکتے ہیں کہ وہ اُن سے دس فوجیں کھڑی کرلیں“

انگریز نے اپنا تسلط قائم کرلینے کے بعد جس بہیمیت اور بربریت کے ساتھ ہندوستانیوں کو سزائیں دی تھیں اورہزاروں بے گناہ انسانوں کو محض انتقامی جذبے کے ماتحت موت کے گھاٹ اُتارا تھا اُس سے ملک میں خوف اور دہشت کی ایک عام کیفیت پیدا ہوگئی۔ ہندوستانیوں میں اتنی ہمت تک نہ رہی کہ تحریک کی نوعیت کے متعلق ایک حرف بھی نوک زبان پرلاسکیں۔ انگریز نے تحریک کو ”غدر“ کہا تو وہ خود بھی اُسے ”غدر“ کہنے لگے۔

جوں جوں دلوں سے خوف کے پردے ہٹے، تحریک کی صحیح نوعیت کا احساس بھی بیدار ہونے لگا اور اُسی کے ساتھ ساتھ زاویہ نگاہ میں تبدیلی بھی پیدا ہونے لگی۔ ”غدر“ سے ”رستخیز بے جا“ ہوا، اور ”رستخیز بے جا“ سے ”ہنگامہ ۱۸۵۷/“ اورآزادی کے بعد ”آزادی کی پہلی جنگ“ یا ”قومی تحریک“۔ گو یہ سب الفاظ بدلتی ہوئی سیاسی فضا کے آئینہ دار ہیں،لیکن یہ شبہ ذہن میں پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ معاصرین ۱۸۵۷/ کے ہنگامہ کو ”قومی تحریک“ یا ”آزادی کی جدوجہد“ سے تعبیر نہیں کرتے تھے صحیح ہے کہ قومیت کا موجودہ تصور اس دور میں نہ تھا، لیکن انگریزوں کے خلاف پورے ”ہندوستان“ کے ایک ہونے کا تصور ”غدر“ سے بہت پہلے ہندوستانی ذہن میں کام کرنے لگا تھا۔ ”سیداحمد شہید“ نے ”ہندو راؤ“ کو جو خط لکھا تھا اُس میں ”بیگانوں“ کے ”ہندوستان“ پر قابض ہوجانے کی شکایت تھی! گویا وہ ایک ہی گھر کے آدمی کو مشترکہ دشمن کے خلاف اشتراک عمل کی دعوت دے رہے تھے۔ رسالہ ”اسباب بغاوت ہند“ میں گو مصلحت وقت نے بعض مقامات پر ”سرسید“ کا قلم پکڑلیاہے لیکن پھر بھی اُنھوں نے تحریک کی نوعیت کو واضح کرنے میں سرمو کوتاہی نہیں کی۔ اُن کا ایک طرف یہ لکھنا کہ:

”بہت سی باتیں ایک مدّت دراز سے لوگوں کے دل میں جمع ہوتی جاتی تھیں اور بہت بڑا میگزین جمع ہوگیا تھا صرف اس کے شتابے میںآ گ لگانی باقی تھی۔ کہ سال گزشتہ میں فوج کی بغاوت نے اس میں آگ لگادی۔“(۱)

اور دوسری طرف یہ کہنا کہ:

”سب لوگ تسلیم کرتے چلے آئے ہیں کہ واسطے اسلوبی اور خوبی اورپائداری گورنمنٹ کے مداخلت رعایا کی حکومت ملک میں واجبات میں سے ہے․․․ اور یہ بات نہیں حاصل ہوتی جب تک کہ مداخلت رعایا کی حکومتِ ملک میں نہ ہو ․․․ پس یہی ایک بات ہے جو جڑ ہے تمام ”ہندوستان“ کے فساد کی اور جتنی باتیں اور جمع ہوتی گئیں وہ سب اُس کی شاخیں ہیں۔“(۲)

صاف ظاہرکرتا ہے کہ وہ تحریک کی عوامی حیثیت کے پورے طور پر معترف تھے۔ خود انگریزوں نے اس تحریک کو دبانے کے لیے جو طریقہٴ کار اختیار کیاتھا اور جس طرح ہندوستانیوں کو سزائیں دی تھیں اُس سے بھی یہ ظاہر ہوتاہے کہ وہ اس تحریک کو ”قومی تحریک“ سمجھتے تھے۔(۳) اوراسی طرح اُنھوں نے اس کا مقابلہ بھی کیا تھا۔ ہندوستانیوں نے اس ہنگامے کو جس نگاہ سے دیکھا تھا اوراس میں شرکت کرنے والوں کو قومی تاریخ میں جو درجہ دیا تھا اس کا اندازہ منیر شکوہ آبادی کے اُن اشعار سے لگایا جاسکتا ہے جو اُنھوں نے نوابانِ ”فرخ آباد“ اورمولوی ”محمد باقر“ کی پھانسی کے سلسلے میں کہے ہیں۔ لکھتے ہیں۔

تاریخ اُن کے قتل کی کافی ہے یہ منیر

دونوں شہیدِ راہِ خدا آہ آہ ہائے


خدا کی راہمیں مقتول ہوکے آخر کار

گئے جہان سے وہ سوئے روضہٴ رضواں

کہی منیر نے یہ اُن کی مرگ کی تاریخ

شہید ومتقی و عالمِ علومِ نہاں

محض یہ حقیقت کہ ۱۸۵۷/ کے ہنگامہٴ داروگیر سے گزرنے والوں کو(۱۲۷۴ھ) ”مجاہدین فی سبیل اللہ“ اور ”شہداءِ راہ خدا“ کا درجہ دیاگیا تھا۔ ہندوستانیوں کی تحریک سے گہری وابستگی کو سمجھنے کے لیے بس کرتی ہے!

۱۸۵۷/ کی تحریک میں سکھوں اور پارسیوں کے علاوہ ہر مذہب وملت کے لوگوں نے حصہ لیا تھا۔ تحریک کی ہمہ گیری کا عالم یہ تھا کہ تین ہفتوں کے اندر اندر سارے ملک میں ہنگامے شروع ہوگئے تھے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ”ہندوستان“ کے بعض علاقے تحریک سے علیحدہ رہے اور بعض نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ لیکن اس سے تحریک کی نوعیت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ کسی بھی قومی تحریک یا جنگِ آزادی میں تمام علاقوں اور تمام طبقات نے شرکت نہیں کی ہے۔ انقلاب ”فرانس“ کے وقت ملک میں ایک ایسا طبقہ موجود تھا جو شہنشاہیت کو قائم رکھنا چاہتاتھا اور اس کی موافقت میں کام کررہا تھا۔ اسی طرح ”امریکہ“ کی جنگِ آزادی میں بہت سے لوگ تاجِ برطانیہ کے مددگار رہے تھے۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ۱۸۵۷/ کی تحریک عوامی ہوتے ہوئے بھی ناکام کیوں رہی۔ اس سلسلہ میں تاریخِ انقلاب کا ایک راز فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ انقلابی جذبات کے بیدار ہونے کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ عوام کے دل میں کسی نظام کے خلاف شدید بے چینی ہو وہاں اس کی کامیابی کے لیے ازبس لازمی ہے کہ مستقبل کی تعمیر کا ایک واضح خاکہ ذہن میں ہو۔ ۱۸۵۷/ میں انگریزوں کے خلاف شدید نفرت اور برطانوی طریق کار سے سخت بیزاری ضرور نظر آتی ہے لیکن کسی ایک شخص کے ذہن میں بھی تشکیل جدید کا نقشہ نہیں ملتا! یہی نہیں؛ بلکہ اُس وقت جتنی طاقتیں بھی میدان میں سرگرم عمل تھیں اُن میں سے کوئی بھی ایک کُل ہند نظام کا بوجھ سنبھالنے کی صلاحیت نہ رکھتی تھی۔ یہ ایسی محرومی تھی جس نے ساری تحریک کی روح کو مضمحل کردیا تھا۔ اور ہر فوجی مہم کسی مقصد تک رہبری کرنے کے بجائے وقتی ہنگامہ آرائی میں ختم ہوجاتی تھی۔ جمہوریت اور خود اختیاری کے افکار ابھی سیاسی شعور میں داخل نہیں ہوئے تھے اس لیے سیاسی زندگی کی تعمیرِ نو کا سوال بے معنی تھا۔ شخصی حکومت کا تصور اس طرح رگ وریشہ میں پیوست ہوچکا تھا کہ ہر مقام پر لوگ ایک ”بہادر شاہ“، ایک ”نانا صاحب“، ایک ”رانی لکشمی بائی“، ایک ”برجیس قدر“ کی تلاش کرتے تھے۔ اور چاہتے تھے کہ ان ہی کے سہارے کوئی ایسا نظام تشکیل پاجائے جو اُن کے مصائب کا علاج اور اُن کے درد کا مداوابن سکے۔ مغل بادشاہ، ”ہندوستان“ کا تو سوال کیا، ”لال قلعہ“ کو بھی قابو میں رکھنے کی صلاحیت نہ رکھتا تھا۔(۴) ”مرہٹوں“ کی اجتماعی طاقت کا عرصہ ہوا خاتمہ ہوچکاتھا۔ ”روہیلوں“ کے چند سردار جو اس وقت مختلف مقامات پر اپنی طاقت کا استحکام کررہے تھے، مقامی طور پرمدافعت اور کاربرآری کی صلاحیت تو رکھتے تھے، لیکن ایک وسیع علاقہ پر حکومت کرنے کے لیے جس دوراندیشی، تدبر اور انتظامی صلاحیت کی ضرورت تھی اس کا دُور دُور کہیں پتہ نہ تھا۔ پھر اس شخصی عقیدت کے نازک رشتوں کو بھی توڑنے کے لیے کتنے ہی عناصر کام کررہے تھے۔ ”دہلی“ میں ”بخت خاں“ کو نہ صرف مغل شہزادوں کا تعاون حاصل نہ ہوسکا بلکہ اس کا اثر توڑنے کے لیے یہ پروپیگنڈا کیاگیا کہ ”شیرشاہ“ کی طرح اس کا اقتدار بھی مغلیہ خاندان کے لیے مہلک ثابت ہوگا۔ ”لکھنوٴ“ میں ”حضرت محل“ کے ذہن میں یہ بات بٹھائی گئی کہ اگر ”احمداللہ شاہ“ کی مدد سے اقتدار قائم ہوا تو سنیوں کا غلبہ ہوجائے گا۔ اسی طرح ”روہیلوں“ کے علاقوں میں ہندو زمینداروں کو ”روہیلہ“ سرداروں سے برگشتہ کیاگیا۔ ”لارنس“ نے سکھوں کو ”بہادر شاہ“ سے بدظن کرکے ”دہلی“ کے ساتھ سکھوں کے اشتراکِ عمل کے امکانات کو ختم کردیا۔ ان تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود اگر ۱۸۵۷/کا ہندوستان اپنی بہترین صلاحیتوں کو یکجا کردیتا تو یقینا غلامی کی زنجیریں اتنی آسانی سے نہ پہنائی جاسکتیں!

(۲)

۱۸۵۷/ کی تحریک غیرملکی اقتدارکے خلاف جنگ کی ابتداء بھی تھی اور ایک منزل بھی یہ سمجھ لیناصحیح نہ ہوگا کہ اس سے قبل انگریزوں کے خلاف نفرت کے جذبات کا اظہار نہیں ہوا تھا۔(۵) ہندوستانیوں کا ذہن غیرملکی تسلط کے خلاف پورے طور پر تیار ہوچکا تھا۔ یہ سیاسی شعور اور بیداری ”شاہ ولی اللہ“ دہلوی (م ۱۷۶۲/=۱۱۷۶ھ) اور ان کے گھرانے کی پیدا کی ہوئی تھی۔ شاہ صاحب نے اپنی تصانیف میں ملوکیت اور شہنشاہیت کے خلاف جگہ جگہ آواز اُٹھائی تھی اور سیاسی نظام کی اصلاح کے لیے صرف اعلیٰ طبقوں اور امراء و حکام ہی کو متوجہ نہیں کیاتھا، بلکہ عوام کو بھی مخاطب کیا تھا۔ اُن کی تحریک کا سب سے زیادہ ترقی پسند پہلو یہ تھا کہ وہ سیاسی نظام کا انحصار ”عوام“ پر سمجھتے تھے اوران میں یہ احساس پیداکرنا چاہتے تھے کہ اگر وہ تیارہوجائیں تو سارے مصائب کا ا علاج ممکن ہے۔ ان کے جانشینوں نے اُن کی تحریک کو آگے بڑھایا اور ان کے پیدا کیے ہوئے سیاسی شعور کی روشنی میں ملک کی رہبری کی۔ شاہ ”عبدالعزیز“ صاحب (م ۱۸۲۴/= ۱۲۳۹ھ) نے ایک فتویٰ میں کہا تھا:

”دریں شہر حکم امام المسلمین اصلاً جاری نیست و حکمِ روساء نصاریٰ بے دغدغہ جاری ست و مراد از اجراء احکام کفر اینست کہ در مقدمہ ملک داری و بندوبست رعایا و اخذ خراج و باج وعشور اموال تجارت و سیاست قطاع الطریق و سراق و فیصل خصومات و سزائے جنایات کفار بطور حاکم باشند آرے اگر بعضے احکام اسلام را مثل جمعہ، عیدین و اذان وذبح بقر تعرض نہ کنند نہ کردہ باشند، لیکن اصل اصول ایں چیزہا نزد ایشاں ہباء وہدرست زیرا کہ مساجد را بے تکلف ہدم می نمائند وہیچ مسلمان یا ذمی بغیر استیمان ایشاں دریں شہر و نواح نمی تواند آمد وبرائے منفعت خود از واردین مسافرین و تجار مخالفت نمی نمایند اعیان دیگر مثلاً ”شجاح الملک“ و ”ولایتی بیگم“ بغیر حکم ایشاں دریں بلاد داخل نمی توانند شد و ازیں شہر تا ”کلکتہ“ عمل نصاریٰ ممتداست۔ آرے درچیپ وراست مثل ”حیدرآباد“، ”لکھنوٴ“ و ”رامپور“ احکام خود جاری نہ کردہ اند بسبب مصالحت واطاعت مالکان آں“(۶)

”یہاں روساء نصاریٰ کاحکم بلا دغدغہ اور بے دھڑک جاری ہے اور ان کا حکم جاری اور نافذ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملک داری اور بندوبست رعایا، خراج و باج، مالِ تجارت پر ٹیکس، ڈاکوؤں اور چوروں کو سزائیں، مقدمات کے تصفیے، جرائم کی سزائیں وغیرہ (ان تمام معاملات میں) یہ لوگ بطور خود حاکم اور مختار مطلق ہیں۔ ہندوستانیوں کو اُن کے بارے میں کوئی دخل نہیں بیشک نماز جمعہ، عیدین، اذان، ذبیحہ گاؤ جیسے اسلام کے چند احکام میں وہ رکاوٹ نہیں ڈالتے، لیکن جو چیز ان سب کی جڑ اور بنیاد ہے وہ قطعاً بے حقیقت اور پامال ہے۔ چنانچہ بے تکلف مسجدوں کو مسمار کردیتے ہیں عوام کی شہری آزادی ختم ہوچکی ہے۔ انتہا یہ کہ کوئی مسلمان یا غیرمسلم اُن کی اجازت کے بغیر اس شہر یا اُس کے اطراف وجوانب میں نہیں آسکتا۔ عام مسافروں یا تاجروں کو شہر میں آنے جانے کی اجازت دینا بھی ملکی مفاد یا عوام کی شہری آزادی کی بنا پر نہیں بلکہ خود اپنے نفع کی خاطر ہے۔ اس کے بالمقابل خاص خاص اور ممتاز اور نمایاں حضرات مثلاً ”شجاع الملک“ اور ”ولایتی بیگم“ ان کی اجازت کے بغیر اس ملک میں داخل نہیں ہوسکتے۔ ”دہلی“ سے ”کلکتہ“ تک انہی کی عملداری ہے۔ بیشک کچھ دائیں بائیں مثلاً ”حیدرآباد“ ،”لکھنوٴ“، ”رامپور“ میں چونکہ وہاں کے فرمانرواؤں نے اطاعت قبول کرلی ہے (براہ راست) نصاریٰ کے احکام جاری نہیں ہوتے۔

شاہ ”عبدالعزیز“ صاحب نے ”ہندوستان“ کو ”دارالحرب“ قرار دے کر، غیرملکی اقتدار کے خلاف سب سے پہلا اور سب سے زیادہ موثر قدم اُٹھایا تھا(۷)۔ اس فتوے کی اہمیت کو وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جو ”دارالحرب“ کے صحیح مفہوم کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سیاست پر خاندان ولی اللّٰہی کے اثرات کا بھی صحیح علم رکھتے ہوں۔ سید احمد شہید مولانا اسمٰعیل شہید وغیرہ نے اپنے سیاسی فکر میں انگریزی اقتدار کو جو درجہ دیا تھا اُس کی بنیاد یہی فتویٰ تھا۔ سیداحمد شہید کی تحریک جس کو مصلحتاً بعض ممتاز اشخاص نے سکھوں کے خلاف تحریک کا رنگ دے دیا تھا، حقیقتاً انگریزوں ہی کے خلاف سب سے زیادہ منظم کوشش تھی۔ اُن کا مقصد اولیں یہی تھا کہ انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایسے مقام پر طاقت کا استحکام ضروری تھا جہاں سے انگریزوں کے خلاف جنگ کی تنظیم کرنے میں مدد ملے۔ اگر سرحد اورپنجاب میں وہ اپنی طاقت کے استحکام میں کامیاب ہوجاتے تو ہندوستان میں برطانوی سامراج کے قدم اتنی آسانی سے نہیں جم سکتے تھے۔ ان کی تحریک کی نوعیت اور اُن کے مقاصدکا اندازہ اس خط سے لگایاجاسکتا ہے جو انھوں نے راجہ ”ہندوراؤ“ کو لکھا تھا:

”بر رائے عالی روشن ومبرہن است کہ بیگانگاں بعید الوطن، ملوک زمین وزمن گردیدہ اند و تاجران متاع فروش بپایہٴ سلطنت رسیدہ، امراے کبار و ریاست رؤسائے عالی مقدار برباد نمودہ اند و عزت و اعتبار شاں بالکل ربودہ چوں اہل ریاست و سیاست در زاویہ خمول نشستہ اند ناچار چندے اہل فقر و مسکنت کمرہمت بستہ ایں جماعتِ ضعفاء محض بنا بر خدمت دین رب العالمین برجستند، ہرگز ہرگز از دنیا داران جاہ نیستند، محض بنا برخدمت درین رب ذوالجلال برخاستہ اند، نہ بنا برطمع مال ومنال رفتے کہ میدان ہندوستاں از بیگانگاں و دشمنان خالی گردیدہ و تیرسعی ایشاں برہدف مراد رسیدہ آئندہ مناصب ریاست و سیاست بطالبین آں مسلم باد۔“(۸)

”جناب کو خوب معلوم ہے کہ پردیسی سمندرپار کے رہنے والے دنیا جہان کے تاجدار اور یہ سودا بیچنے والے سلطنت کے مالک بن گئے ہیں۔ بڑے بڑے امیروں کی امارت اور بڑے بڑے اہل حکومت کی حکومت اور ان کی عزت و حرمت کو انھوں نے خاک میں ملادیا ہے جو حکومت و سیاست کے مرد میدان تھے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اس لیے مجبوراً چند غریب و بے سروسامان کمرہمت باندھ کر کھڑے ہوگئے اور محض اللہ کے دین کی خدمت کے لیے اپنے گھروں سے نکل آئے۔ یہ اللہ کے بندے ہرگز دنیا دار اور جاہ طلب نہیں ہیں۔ محض اللہ کے دین کی خدمت کے لیے اُٹھے ہیں، مال و دولت کی اُن کو ذرہ برابر طمع نہیں۔ جس وقت ہندوستان ان غیرملکیوں سے خالی ہوجائے گا اور ہماری کوششیں بارآور ہوگئیں حکومت کے عہدے اور منصب ان لوگوں کو ملیں گے جن کو اُن کی طلب ہوگی۔“

سید صاحب کے عزیز ترین مرید اور دست راست مولانا شاہ محمد اسمٰعیل شہید نے اُن کی سیاسی فکر کو ”منصب امامت“ میں اور زیادہ واضح طور پر پیش کیاہے اور بتایا ہے کہ ملوکیت سب سے بڑی لعنت ہے۔ سلاطین و ملوک کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”استیصال اوعین انتظام ست واہلاک اوعین اسلام و اطاعتِ ہر متسلط از احکام شرعیہ نیست۔“(۹)

”اُن کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا، عین انتظام ہے اور اُن کو فنا کردینا عین اسلام ہے۔ ہر صاحب اقتدار کی اطاعت کرنا حکم شریعت نہیں ہے۔“

مسلمانوں کی تنظیمی صلاحیت، عسکری قابلیت، معاملہ فہمی اور تدبر کاجو کچھ بچا کھچا سرمایہ رہ گیا تھا اس کو سید احمد شہید نے بہترین طریقہ پر استعمال کیا۔ وقتی طور پر اُن کو ناکامی ضرور ہوئی لیکن ان کی تحریک نے سرفروشی کاجو جذبہ پیداکردیا تھا وہ ایک عرصہ تک قلب وجگر میں شعلہ کی طرح بھڑکتا رہا۔

جلے، جل کر بجھے بھی چشمِ صورت بیں میں پروانے

فروزاں کرگئے وہ نام لیکن شمعِ سوزاں کا

حقیقت یہ ہے کہ سید احمد شہید اور اُنے رفقاءِ کار کے خون سے آزادی کا پودا ہندوستان میں سینچا گیا۔ انگریزوں نے اُن کی تحریک کی نوعیت کو خوب سمجھ لیا تھا اور وہ اس جذبہ سے بھی بے خبر نہ تھے جو جماعت مجاہدین کے قلب و جگر کو گرمائے ہوئے تھا۔ چنانچہ اُنھوں نے ایک طرف تو ”وہابی“ کا لقب دے کر اس مکتبِ خیال کے لوگوں کو ختم کیا اور دوسری طرف کوشش کرکے اس تحریک کو اس طرح پیش کیا اور کرایا جس سے متاخرین کو ایسامحسوس ہونے لگا گویا اس کا رُخ محض سکھوں کی طرف تھا۔ حد یہ ہے کہ جماعت مجاہدین کے ایک رکن مولوی ”محمدجعفر“ تھانیسری نے تواریخ عجیبہ میں اُن کے مکتوبات کو مسخ کیا اور ”نصاریٰ نکوہیدہ خصال“ کی جگہ ”سکھان نکوہیدہ خصال“ کردیا اور ”کفار فرنگ برہندوستان تسلط یافتہ“ کو ”کفار دراز مویاں کہ برملک پنجاب تسلط یافتہ“ میں تبدیل کردیا۔ مولانا ”غلام رسول مہر“ نے جس کاوش سے ان تمام لفظی اور معنوی تحریفات کو بے نقاب کیا ہے اس کو اس دور کی سب سے زیادہ قابل قدر علمی تحقیقات میں شمار کرنا چاہیے۔(۱۰)

سید احمد شہید نے بالاکوٹ سے کلکتہ تک اپنا نظام پھیلادیا تھا۔ جو شخص ایک بار بھی ان کی تحریک میں شامل ہوگیا اس کا پورا خاندان عمر بھر جہاد کی تمنا کرتا رہا۔ ہزاروں انسانوں کے دل میںآ زادی کی لگن پیدا ہوگئی۔ حد یہ ہے کہ وہ شاعر جن کی ساری عمر عشقیہ شعر و شاعری میں گزری تھی بے اختیار پکار اُٹھے:۔

الٰہی مجھے بھی شہادت نصیب یہ افضل سے افضل عبادت نصیب

الٰہی اگرچہ ہوں میں تیرہ کار پہ تیرے کرم کا ہوں اُمیدوار

تو اپنی عنایت سے توفیق دے عروجِ شہید اور صدیق دے

مومن(۱۱) کو شہادت کی یہ تمنا اس لیے تھی کہ۔

ایں عیسویاں بہ لب رساندند جان من و جان آفرینش

مگزار کہ پائمال گردیم زاں سیم سراں آفرینش

تا چند بہ خواب ناز باشی فارغ زفغاں آفرینش

مومن شدہ ہم زبان عرفی از بہر امان آفرینش

برخیز کہ شور کفر برخاست

اے فتنہ نشان آفرینش

سید صاحب کی تحریک نے مسلمانوں میں جو روح پھونک دی تھی اُس کے مظاہرے اُن کی شہادت کے بعد ایک عرصہ تک ہوتے رہے۔ جنگ بالاکوٹ کے چودہ پندرہ سال بعد سرسیداحمد خاں نے لکھا تھا:

”اس واقعہ (یعنی شہادت) کو چودہ پندرہ برس گزرتے ہیں اور یہ طریقہ آخرالزماں میں بنیاد ڈالا ہوا آنحضرت کا ہے اب تک اس سنت کی پیروی عباداللہ نے ہاتھ سے نہیں دی۔ اورہر سال مجاہدین اوطان مختلفہ سے بہ نیت جہاد اسی نواح کی طرف راہی ہوا کرتے ہیں اوراس امر نیک کا ثواب آپ کی روح مطہر کو پہنچتا رہتا ہے۔“(۱۲)

سید صاحب کی شہادت کے بعد لوگوں میں عام طور پر یہ خیال پیداہوگیا تھا کہ ”اللہ تعالیٰ“ نے ان کو موجودہ کمزور نسلوں سے اُٹھالیا ہے اور جب ہندوستان کے مسلمان یک جان ہوکر انگریز کافروں کے خلاف جہاد شروع کریں گے تو امام صاحب ظاہر ہوکر فتح کی طرف ہماری رہنمائی کریں گے۔“(۱۳) چنانچہ ۱۸۵۷/ کی تحریک میں عملاً حصہ لینے والے بہت سے افراد سید احمد شہید کے افکار ونظریات سے متاثر معلوم ہوتے ہیں۔(۱۴) بخت خاں کے متعلق ہمارا خیال ہے کہ وہ بھی جماعت مجاہدین ہی سے متعلق تھے۔ بہادر شاہ کے مقدمہ کے دوران میں اُن کو ”وہابی العقیدہ“ بتایاگیا تھا۔(۱۵) کوئی شخص بھی جس نے ”ہنٹر“ کی کتاب ”ہمارے ہندوستانی مسلمان“ پڑھی ہے اس سے انکار نہیں کرے گا کہ وہابی کا لفظ اس زمانہ میں ”سید صاحب“ اور اُن کے ہم خیال علماء کے لیے استعمال کیا جاتاتھا۔ اور بقول ہنٹر ”وہابی“ اور ”غدار“ ہم معنی الفاظ تھے۔(۱۶) ”بخت خان“ نے علماء سے جس نوع کے تعلقات رکھے، اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سید صاحب کی تحریک سے متاثر تھے۔ جس وقت وہ تحریک میں حصہ لینے کے لیے دہلی پہنچے تھے سو (۱۰۰) علماء ان کے ہمراہ تھے۔(۱۷) دوران ہنگامہ میں وہابی علماء کی ایک جماعت ٹونک سے اُن کے پاس آئی تھی۔ اس کے علاوہ جے پور، بھوپال، ہانسی حصار اور ”آگرہ“(۱۸) سے بھی کافی علماء کھچ کھچ کر اُن کے گرد جمع ہوگئے تھے۔ ان علماء پر بخت خاں کو اس قدر اعتماد تھا کہ تخلیہ کے ان مخصوص مشوروں میں جن میں سوائے اُن کے اور بادشاہ کے کوئی تیسرا شخص نہ ہوتا تھا ان علماء کو شریک کرلیا جاتا تھا۔(۱۹) مولوی ”ذکاء اللہ دہلوی“ کا بیان ہے کہ ”دہلی“ میں جہاد کے فتوے کو جو اہمیت اور چرچا حاصل ہوا وہ ”بخت خاں“ کے دہلی آنے کے بعد ہوا۔(۳)

مولانا لیاقت علی الہ آبادی(۲۰) بھی اسی مکتب خیال کے مجاہد معلوم ہوتے ہیں۔ اُن کے شائع کیے ہوئے دو اشتہارات کا مضمون ملاحظہ فرمائیے۔ ایک ایک حرف سید صاحب کے انداز فکر کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آئے گا۔ ایک اشتہار میں تو ستائیس اشعار اس جہادیہ نظم میں سے نقل کیے گئے ہیں جو سید صاحب کے مجاہدین میدان جنگ میں پڑھا کرتے تھے(۲۱)۔ مولانا عنایت علی صادق پوری جن کی کوششوں سے ”مردان“ میں رجمنٹ(۵۵) نے بغاوت کی تھی۔ سید صاحب کے خلیفہ اور جماعت مجاہدین کے سرگرم کارکن تھے۔(۲۲)

مولانا عبدالجلیل شہید علی گڈھی جنھوں نے ”علی گڑھ“ میں فرنگی قوت سے دلیرانہ مقابلہ کیا، ”سید صاحب“ کے خلفاء میں سے تھے۔ ان چیدہ شخصیتوں کے علاوہ ۱۸۵۷/ کے ہنگامہ میں حصہ لینے والے اور بہت سے اشخاص سید صاحب کی جماعت یا اُن کے مکتب خیال سے تعلق رکھتے تھے۔ اور غالباً اسی بنا پر بعض لوگوں نے ۱۸۵۷/ کے ہنگامہ کو مسلمانوں کی تحریک قرار دیا تھا۔ ہرچند کہ مجاہدین نے اس ہنگامہ میں بڑی سرگرمی دکھائی لیکن وہ اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں نہ لے سکے۔ اس کے دو سبب تھے۔ اوّل تو یہ کہ ”بالاکوٹ“ کی ناکامی نے کسی بڑے پیمانے پر تنظیم کا حوصلہ ختم کردیا تھا۔ دوسرے یہ کہ تحریک مجاہدین کی مذہبی نوعیت کے باعث ہندوستان کے تمام طبقات اور مختلف مذاہب کے لوگ اُن کی قیادت پر غالباً متفق نہیں ہوسکتے تھے۔ چنانچہ انفرادی طور پر مقامی حالات کے پیش نظر اس مکتب خیال کے لوگوں نے بہت نمایاں حصہ لیا اور غیرملکی تسلط کے خلاف جدوجہد میں کسی سے پیچھے نہیں رہے، لیکن تحریک کی قیادت اپنے ہاتھوں میں نہ لے سکے۔

(۳)

دنیا کے بیشتر انقلاب کسی اہم حادثہ یا سانحہ سے شروع نہیں ہوئے۔ عموماً یہ ہوا ہے کہ خاموش سطح کے نیچے آتشیں مادہ جمع ہوتا رہا ہے اور پھر کسی معمولی سے واقعہ نے جو بہ حالات دیگر سطح آب پر تموج بھی پیدا نہیں کرسکتا تھا، ساری فضا میں طوفان برپا کردیا ہے۔ فرانس اورامریکہ کے انقلابات کی ابتداء معمولی معمولی واقعات سے ہوئی، لیکن تھوڑی ہی مدت میں تمام بیتاب عناصر اوپر آگئے اور ساری فضا پر چھاگئے۔ یہی صورت ۱۸۵۷/ میں پیش آئی۔ کارتوسوں کا تو صرف ایک بہانہ تھا جس نے سو سال کی بے چینی کو متحرک کردیا، ورنہ انگریزوں کے خلاف ایک عرصہ سے جذبات میں شدید ہیجان برپا تھا۔

بعض مصنّفین نے ۱۸۵۷/ کے ہنگامہ کو منظم سازش کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ”کریک روفٹ ولسن“ (Crocroft Wilson) کا یہ خیال تھا کہ ہندوستان کی چھاونیوں اور فوجی مقامات پر بیک وقت بغاوت کی تیاری بہت پہلے سے تھی، لیکن تاریخی شواہد اس خیال کی تائید نہیں کرتے۔ ہنگامہ بالکل اتفاقیہ شروع ہوا، اور چونکہ بے چینی کے جراثیم پہلے سے ہرجگہ موجود تھے اس لیے جہاں بھی اس ہنگامہ کی خبر پہنچی وہاں آگ لگتی چلی گئی۔

بعض مورخین نے چپاتیوں کی تقسیم کو غیرضروری اہمیت دی ہے اوراس کو اسباب بغاوت میں شمار کیا ہے۔ تھورن ہل (Thornhill) کے اس بیان نے کہ ”ویلور“ کی بغاوت سے قبل بھی ”مدراس“ میں چپاتیاں تقسیم ہوئی تھیں۔(۲۳) اس نظریہ کو تقویت پہنچائی ہے۔ ملک بھر میں چپاتیوں کی تقسیم حیرت انگیز ضرور ہے، لیکن ۱۸۵۷/ کی تحریک کا اس سے کوئی خاص تعلق اب تک ثابت نہیں ہوسکا۔ حکیم ”احسن اللہ“ نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ چپاتیوں کی تقسیم پر قلعہ معلی میں بھی سب لوگ تعجب میں پڑگئے تھے اور کوئی اُن کا مقصد نہ سمجھ سکا تھا۔(۲۴)

پھر ایک خیال یہ بھی ظاہر کیاگیا ہے کہ بہادر شاہ اور باغی سپاہیوں نے بیرونی طاقتوں سے ساز باز کرلیا تھا۔ یہ الزام بھی ثبوت کا محتاج رہا۔ ایسا ضرور ہوا کہ ایک اعلان جو شاہ ایران کی طرف منسوب تھا جامع مسجد پرچسپاں کیاگیا تھا۔ اس کے علاوہ اور سب بیانات کی صحت مشتبہ ہے۔ مقدمہ میں کہا گیا تھا کہ بہادر شاہ نے اپنے سفیر ایران بھیجے تھے لیکن یہ ثابت نہ ہوسکا۔ ”مکندلال“ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مرزا ”سلیمان شکوہ“ کے پوتے ”مرزا حیدر“ وغیرہ ”لکھنوٴ“ سے آئے تھے اوراُنھوں نے بہادر شاہ اور شاہ ایران کے درمیان تعلقات قائم کرانے کے سلسلہ میں گفتگو کی بھی تھی۔ بعض مورخوں نے ”ایران“ میں برطانوی سفیر ”مرے“ (Murray) کا خط نقل کیا ہے جس میں اس نے ایک ایرانی عہدہ دار کا بیان نقل کیاہے کہ شمالی ہندوستان کے والیان ریاست کو بغاوت پر آمادہ کرنے کے لیے ”ایران“ سے خطوط بھیجے گئے تھے۔ ان تمام بیانات کے باوجود ۱۸۵۷/ کے ہنگامہ میں کسی بیرونی طاقت کی نمایاں مداخلت کا ثبوت نہیں ملتا۔

۱۸۵۷/ کی تحریک نہ کسی بیرونی طاقت کی مداخلت سے پیدا ہوئی، نہ اس کے پیچھے کوئی منظم سازش تھی۔ یہ بالکل قدرتی اظہار تھا اس گہری نفرت اور بے چینی کا جو انگریزوں کے خلاف ایک عرصہ سے دلوں میں جمع ہورہی تھی۔ سپاہیوں نے پیش قدمی اس لیے کی کہ وہ انگریزوں کے غیرمنصفانہ برتاؤ سے عاجز ہوچکے تھے اور فوجی قانون کے ماتحت ہوتے ہوئے وہ زیادہ عرصہ تک ان نا انصافیوں کو برداشت بھی نہیں کرسکتے تھے۔ ۱۸۰۶/ سے جب ”سرجارج بارلو“ (Sir George Barlow) نے سپاہیوں کے تلک لگانے، داڑھی رکھنے اور صافہ باندھنے پر اعتراض کیے تھے، متواتر فوج کے ساتھ ایسا برتاؤ ہورہا تھا۔ جس سے اُن کے جذبات میں اشتعال پیدا ہونا لازمی تھا۔ ہندوؤں میں بحری سفر کے خلاف مدتوں سے ایک نفرت چلی آتی تھی، انگریزوں نے نہ اُن کے جذبات کو سمجھا نہ اُن کا احترام کیا۔ ذات پات کے جذبات کو بھی اسی طرح نظر انداز کیا گیا۔ سردار بہادر ہدایت علی نے بتایا تھا کہ کابل میں ہندوسپاہی نہ اشنان کرسکتے تھے نہ اُنھیں ہندوؤں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا ملتا تھا۔(۲۵) علاوہ ازیں مختلف اوقات میں جو وعدے فوج سے کیے گئے تھے، اُن کو نہ صرف یہ کہ پورا نہیں کیاگیابلکہ اُن کے خلاف عمل کیاگیا۔ اس سے سپاہیوں میں بددلی پھیل گئی۔(۲۶) پھر ہندوستانی اورانگریز سپاہیوں کی تنخواہوں اور معیار زندگی میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اوراس فرق نے وہ احساس کمتری پیدا کردیاتھا جو نہ صرف بے چینی بلکہ ارتکابِ جرم کا ہمیشہ سب سے بڑا محرک ہوتا ہے۔

ہندوستان میں انگریزوں کی فوج ۳۱۵۵۲۰۔ اشخاص پر مشتمل تھی۔ اس پر ۹۸۰۲۲۳۵ پونڈ خرچ آتا تھا۔ اس میں سے ۵۶۶۸۱۱۰ پونڈ یورپین فوج پر خرچ ہوتا تھا اور یہ اس صورت میں جبکہ ان کی کل تعداد ۵۱۳۱۶ سے زیادہ نہ تھی۔(۲۷) ایک ہندوستانی پیادہ کو سات روپیہ ماہانہ اور سوار کو ستائیس روپیہ ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ سوار کو اپنا گھوڑا رکھنا پڑتا تھا اس قلیل تنخواہ میں سے بھی کٹ کٹا کر بعض اوقات ایک سپاہی کو ڈیڑھ روپیہ ماہانہ اور بعض صورتوں میں صرف چند آنوں سے زیادہ نہ ملتے تھے۔(۲۸) ان حالات میں فوجیوں کی بددلی اور بے چینی کا اندازہ کچھ مشکل نہیں ہے۔

علاوہ ازیں انگریزوں نے عیسائیت کو پھیلانے کے لیے جو حربے اور طریقے اختیار کیے تھے اُن سے ہندوستانیوں میں زبردست بدگمانی پھیل گئی تھی۔(۲۹) بلکہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کی بعض ایسی تجاویز جن کا مقصد مذہبی مداخلت سے زیادہ سماجی اصلاح تھا، وہ بھی ہدفِ ملامت بن گئیں۔ عیسائی مبلغ اسکولوں میں، بازاروں میں، شفاخانوں میں، جیل خانوں میں غرض جس جگہ موقع ملتا، تبلیغ کرنے لگتے تھے۔ ان کے طریقہٴ کار سے معلوم ہوتا تھا کہ حکومت کی اعانت اُن کو حاصل تھی۔ بعض اضلاع میں پادریوں کے ساتھ تھانے کے چپراسی جاتے تھے۔ اور یہ پادری ”غیرمذہب کے مقدس لوگوں کو اور مقدس مقاموں کو بہت برائی سے اور ہتک سے یاد کرتے تھے جس سے سُننے والوں کو نہایت رنج اور دلی تکلیف پہنچتی تھی۔“(۳۰) گورنمنٹ اسکولوں میں انجیل کی لازمی تعلیم دی جاتی تھی۔ جیل خانوں میں قیدیوں کو عیسائیت کی طرف راغب کیا جاتا تھا۔ سرسید احمد خاں نے لکھا ہے:

”۱۸۳۷/ کی قحط سالی میں جو یتیم لڑکے عیسائی کیے گئے وہ تمام اضلاع ممالک مغربی و شمالی میں ارادئہ گورنمنٹ کے ایک نمونہ گنے جاتے تھے کہ ”ہندوستان“ کو اس طرح پرمفلس اور محتاج کرکراپنے مذہب میں لے آئیں گے، میں سچ کہتا ہوں کہ جب سرکار آنربل ایسٹ انڈیا کمپنی کوئی ملک فتح کرتی تھی ”ہندوستان“ کی رعایا کو کمال رنج ہوتا تھا۔“(۳۱)

بعض قوانین کا صاف مقصد یہ تھا کہ عیسائیت قبول کرلینے والوں کی مدد کی جائے۔ مثلاً ۱۸۵۰ھ کے Act XXI کے مطابق مذہب تبدیل کردینے کے بعد بھی ایک شخص موروثی جائداد میں حقدار رہتا تھا۔ ان حالات میں جب پادری ”ای ایڈ منڈ“ نے وہ خط جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ”اب تمام ہندوستان میں ایک عملداری ہوگئی، تاربرقی سے سب جگہ کی خبر ایک ہوگئی، ریلوے سڑک سے سب جگہ کی آمد و رفت ایک ہوگئی، مذہب بھی ایک چاہیے، اس لیے مناسب ہے کہ تم لوگ بھی عیسائی ایک مذہب ہوجاؤ۔“ تو ہندوستانیوں میں ایک آگ سی لگ گئی۔

پھر انگریزوں نے بعض ریاستوں کے الحاق میں جس کھلی بے انصافی اور ظلم کو روا رکھا تھا اس سے اضطراب اور بے چینی کے شعلے ہر جگہ بھڑکنے لگے۔ صحیح ہے کہ بعض ریاستیں، انتظامی معاملات میں کوئی خاص صلاحیت نہیں رکھتی تھیں، اوراُن کو ختم کرکے انگریزوں نے حقیقتاً ایک ایسے نظام پر ضربِ کاری لگائی جس کی افادیت ختم ہوچکی تھی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ محلات شاہی کے ساتھ ہزاروں خانداں پرورش پاتے تھے۔ اور ہر ریاست کی اقتصادی زندگی میں نوابوں اور راجاؤں کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوگئی تھی۔ جب ان ریاستوں کا الحاق ہوا تو ہزاروں متعلقین بے سہارا رہ گئے۔ اودھ کے الحاق کے بعدانگریزوں سے نفرت جس حد کو پہنچ گئی تھی اس کے متعلق ”ٹریولیان“ کا بیان ہے کہ ”سقّوں نے انگریزوں کے لیے پانی بھرنا چھوڑ دیا، آیائیں اجازت لیے بغیر نوکری سے رخصت ہوگئیں، باورچی اور ہرکارے ’آقاؤں‘ سے گستاخی اور بدتمیزی سے پیش آنے لگے۔“

اقتصادی بدحالی اور ابتری نے انگریز کے خلاف شعلوں کی لپک کو بڑھا دیا۔ مصحفی (م۱۲۴۰ھ = ۱۸۲۴/) نے مدتوں پہلے کہا تھا۔

ہندوستاں کی دولت و حشمت جو کچھ کہ تھی

کافر فرنگیوں نے بہ تدبیر(۳۲) کھینچ لی

اس دور کے ”شہر آشوب“ دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ عام طور پر اقتصادی زبوں حالی کا ذمہ دار انگریز کو ٹھہرایا جاتا تھا۔ شاہ کمال الدین کمال انگریز کی پیدا کی ہوئی بدحالی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وہی یہ شہر ہے اور ہے وہی یہ ہندستاں کہ جسکو رشکِ جناں جانتے ہیں سب انساں

فرنگیوں کی سو کثرت سے ہوکے سب ویراں نظر پڑے ہے بس اب صورت فرنگستاں

نہیں سوار رہے یاں سوائے ترک سوار

جہاں کہ نوبت و شہنائی جھانجھ کی تھی صدا فرنگیوں کا ہے اس جاپہ ٹم ٹم اب بجتا

اسی سے سمجھو رہا سلطنت میں کیا رتبہ ہو جبکہ محل سراؤں میں گوروں کا پہرا

                            نہ شاہ ہے نہ وزیر، اب فرنگی ہیں مختار 

سرسید نے بتایا ہے کہ لوگ اس قدر نادار اور محتاج ہوچکے تھے کہ صرف آنہ ڈیڑھ آنے یومیہ پر فوج میں ملازمت کے لیے آمادہ ہوجاتے تھے۔ ایک طرف ریاستوں کے الحاق سے ہزارہا ہندوستانی بے روزگار ہوگئے، دوسری طرف ہندوستان کی صنعتوں کو تباہ و برباد کرکے صنعتی طبقہ کو پریشان اور بدحال کردیا گیا۔ انگلستان کی تیار شدہ چیزوں کے لیے ایک منڈی درکار تھی، اس کے لیے ہندوستان کی مقامی صنعتوں کو عمداً ختم کیاگیا۔ سرسید نے لکھا ہے:

”اہل حرفہ کا روزگار بسبب جاری اور رائج ہونے اشیائے تجارت ولایت کے بالکل جاتا رہا تھا۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں کوئی سونے بنانے والے اور دیا سلائی بنانے والے کو بھی نہیں پوچھتا تھا۔ ”جولاہوں“ کا تار تو بالکل ٹوٹ گیا تھا۔(۳۳)

(۴)

۱۸۵۷/ کی تحریک مختلف منزلوں سے گزری، محتلف طبقات نے اس میں حصہ لیا اورمختلف عناصر مختلف اوقات میں بروئے کار آتے رہے۔ ان میں کچھ عناصر ترقی پسند تھے اور بعض قوتیں رجعت پسند۔ روساء میں رانی لکشمی بائی، نانا صاحب، ناہرسنگھ، حضرت محل، نواب علی بہادر، نواب تفضل حسین، خان بہادر خاں، نواب محمود خاں وغیرہم وہ شخصیتیں تھیں جن کے عزم، مقصد کی سچائی اور مسلسل جدوجہد سے تحریک میں جان پیداہوئی۔ بلند حوصلگی اور انفرادی صلاحیتوں میں یہ لوگ بہت سے انگریزوں سے یقینا بدرجہا بہتر تھے۔ صحیح ہے کہ ان میں سے بعض کو انگریزوں سے ذاتی شایتیں بھی تھیں اور جاگیردارانہ نظام کو قائم رکھنا چاہتے تھے، لیکن جہاں تک تحریک میں حصہ لینے اور سرگرمی دکھانے کا تعلق تھا ان کا خلوصِ نیت کسی سے کم نہ تھا۔ ملازمت پیشہ طبقہ میں تاتیاٹوپی، عظیم اللہ خاں، بخت خاں، وزیر خاں وغیرہ آخری وقت تک انگریزوں سے لڑتے رہے۔ اُن میں جوشِ عمل بھی تھا اور انتظامی صلاحیتیں بھی تھیں۔ حالات نے جہاں تک مساعدت کی اُنھوں نے پوری دلیری کے ساتھ غیرملکی طاقتوں کا مقابلہ کیا۔ مسلمان علماء ومشایخ جن میں مولانا احمداللہ شاہ، حاجی امداد اللہ، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمدگنگوہی، مولانا فیض احمد بدایونی، مولانا لیاقت علی، مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا عبدالقادر لدھیانوی وغیرہم شامل تھے۔ اپنے خلوص اور سرفروشانہ جذبات میں یقینا بے مثال تھے۔ ان کی انگریز دشمنی میں ذاتی رنجشوں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ اُن میں حب الوطنی کا جذبہ، غیرملکی اقتدار سے نفرت اور انگریز کی مشنری کوششوں کا شدید ردّعمل کام کررہاتھا۔ اگر تحریک کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جہاں تک عوام میں بے چینی پیدا کرنے کا تعلق تھا، اس کی زیادہ تر ذمہ داری ان ہی علماء پر تھی۔ مولوی احمد اللہ شاہ کے متعلق ہا جاتا ہے کہ:

”ان کی تقریروں میں ہزاروں آدمی ہندواورمسلمان جمع ہوجاتے تھے۔ چنانچہ آگرہ کی تقریروں میں دس دس ہزار کا مجمع ہوتا تھا۔ ان کی ہر دل عزیزی کی یہ حالت تھی کہ پولیس نے (ایک موقع پر مجسٹریٹ کے حکم پر) اُنھیں گرفتار کرنے سے انکار کردیا۔“(۳۴)

ان مختلف طبقات کی کوششوں اور حالات کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ تحریک میں اُن کی شرکت کی نوعیت واضح ہوجائے۔

سب سے پہلے بہادر شاہ، شاہی خاندان اور قلعہ معلی کے حالات پر نظر ڈالیے۔ یوں تو مدت سے ”سلطنت شاہ عالم، از دہلی تا پالم“ کا نقشہ تھا اور بقول شاہ ولی اللہ دہلی کی حکومت ”لعب صبیان“ بن چکی تھی، لیکن ۱۸۰۴/ میں جب لارڈ لیک کی فوجیں دہلی میں داخل ہوگئیں تو مغل بادشاہ کی حیثیت کمپنی کے ایک ملازم سے زیادہ نہ رہی۔ انگریزوں نے بادشاہ کو ہٹانے میں عجلت سے کام نہیں لیا کیونکہ اس کے نام کے سہارے اپنا اقتدار قائم کرنے میں مدد ملتی تھی۔(۳۵) لیکن بہرنوع کوشش یہی رہی کہ بادشاہ کے اختیارات کا دائرہ اتنا محدود کردیا جائے کہ وہ لاشے محض ہوجائے۔ بہادر شاہ ۱۸۳۷/ میں تخت پر بیٹھا۔ ۱۸۵۷/ میں اس کی عمر ۸۲ سال سے متجاوز تھی۔ نامساعد حالات، پیرانہ سالی اور ذاتی مشاغل کی نوعیت نے اس کو عضو معطل بنادیا تھا۔ ممکن ہے کہ سرسید نے اس کی نااہلیت ثابت کرنے میں مبالغہ سے کام لے کر یہ لکھ دیا ہو کہ

”دلی کے معزول بادشاہ کا یہ حال تھا کہ اگراس سے کہا جاتا کہ پرستان میں جنوں کا بادشاہ آپ کا تابعدار ہے تو وہ اس کو سچ سمجھتا اور ایک چھوڑ دس فرمان لکھ دیتا، دلی کا معزول بادشاہ کہا کرتا تھا کہ میں مکھی اور مچھر بن کر اُڑجاتا ہوں اور لوگوں کی اورملکوں کی خبر لے آتا ہوں اوراس بات کو وہ اپنے خیال میں سچ سمجھتا تھا اور درباریوں سے تصدیق چاہتا تھا اور سب تصدیق کرتے تھے، ایسے مالی خولیا والے آدمی․․․“

لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بابر اوراکبر کے جانشین میں جس سیاسی بصیرت، معاملہ فہمی، تفرس اور تدبر کی ضرورت تھی، وہ اس میں نام کو نہ تھا۔ جہاں تک ذاتی کردار کا تعلق تھا وہ اپنے بعض پیشرووں سے بہتر تھا۔ لیکن ذاتی کردار کی یہ چند خوبیاں ایک سلطنت کا بوجھ نہیں سنبھال سکتی تھیں۔ مذہبی معاملات میں بہادر شاہ کو خاصی دلچسپی تھی اور دوسرے مذاہب کے ساتھ رواداری سے پیش آتا تھا۔ حالانکہ سرسید نے لکھاہے کہ ”دہلی میں ایک بڑا گروہ مولویوں اوراُن کے تابعین کا ایساتھا کہ وہ مذہب کی رو سے معزول بادشاہ دلی کو بہت بُرا اور بدعتی سمجھتے تھے۔ اُن کا یہ عقیدہ تھا کہ دلی کی جن مسجدوں میں بادشاہ کا قبض و دخل اوراہتمام ہے ان مسجدوں میں نماز درست نہیں۔ چنانچہ وہ لوگ جامع مسجد میں بھی نماز نہیں پڑھتے تھے اور غدر سے بہت قبل کے چھپے ہوئے فتوے اس معاملہ میں موجود ہیں۔“(۳۶)

بہادر شاہ کی زندگی جن حالات میں گزرتی تھی اس کا کچھ اندازہ احسن الاخبار وغیرہ سے لگایا جاسکتا ہے۔(۳۷) بادشاہ کو ایک لاکھ روپیہ ماہانہ پنشن ملتی تھی لیکن اخراجات اس سے کہیں زیادہ تھے۔ چنانچہ ہر وقت مالی پریشانیاں رہتی تھیں اور ساہوکاروں اورامرا سے روپیہ قرض لینا پڑتا تھا۔ میر حامد علی خاں، حافظ محمد داؤد خاں، لالہ زور آور چند وغیرہ سے بہادر شاہ کے روپیہ قرض لینے کا ذکر متعدد جگہ آیا ہے۔(۳۸) اور وصولی کے لیے ان لوگوں کے تقاضوں کا بھی ذکر ہے اس طرح بادشاہ کی وقعت لوگوں کی نظر میں کم ہوتی تھی اور طرح طرح کے نامناسب حالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ایک مرتبہ نواب حامد علی خاں نے عدالت دیوانی میں دعویٰ دائر کرنے کا ارادہ کیا تا اور بہادر شاہ کو اُنہیں بلاکر رقم کی ادائیگی کی طرف سے اطمینان دلانا پڑاتھا۔(۳۹) ان مالی پریشانیوں کے باعث اکثر قلعہ معلی کی ملازمتیں فروخت کی جاتی تھیں۔ نواب حامد علی خاں کو مختاری کا عہدہ اس شرط پر پیش کیاگیا تھا کہ وہ دس ہزار روپیہ نذرانہ کے طورپر پیش کریں۔(۴۰) ۲۶/جون ۱۸۴۶/ کے احسن الاخبار کی اطلاع ہے:

”سالگ رام ․․․․ کی عرضی نظرِ فیض انور سے گزری․․․ اس میں مذکور تھا کہ اگر مجھے آغا حیدر ناظر کی جگہ عہدئہ نظارت پر مقرر کردیا جائے تو میں دس ہزار روپیہ نذرانہ پیش کروں گا۔ حم ہوا کہ جب ہم آغا حیدر ناظر کا تمام روپیہ جو ہمارے ذمہ ہے ادا کردیں گے تواس کے بعد دیکھا جائے گا۔(۴۱)

۳۱/جولائی کو آغا حیدر کے داماد حسین مرزا کی عرضی کے جواب میں حکم شاہی ہوتا ہے:

”تمہیں عہدئہ نظارت سے اس وقت سرفراز کیا جاسکتا ہے جب کہ سات ہزارو روپیہ نذرانہ پیش کرو اور مرحوم آغا حیدر کے نذرانے کے دعوے سے دست برداری لکھ دو“(۴۲)

جب قلعہ معلی میں ”نذرانوں“ کے نام سے رشوتوں کا بازار گرم تھا تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جہاں جہاں بھی قلعہ کے اثرات پہنچے ہونگے وہاں بدنظمی، ابتری اور افراتفری کا کیا عالم ہوگا!

بہادر شاہ کی کثیراولاد تھی۔ اس کی تربیت میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی گئی تھی۔ شہزادے ایک دوسرے سے برسرپیکار رہتے تھے۔(۴۳) سلاطین کی کثیر تعداد(۴۴) قلعہ میں بھوکی مرتی تھی۔(۴۵) ان کی زبوں حالی کی دردناک داستانیں اخبارات میں کثرت سے درج ہیں۔ پروفیسر اسپیر نے اپنی کتاب Twilight of the Mughuls میں اُن کے حالات بہ تفصیل بیان کیے ہیں۔(۴۶) جب یہ شہزادے تنخواہ میں اضافہ کا مطالبہ کرتے تھے تو کمپنی کا حکم ہوتا تھا کہ ”اگر سلاطین کا گزارہ مقررہ تنخواہ سے نہیں ہوتا تو اوقات بسری کے لیے انہیں کہیں ملازمت کرلینی چاہیے“(۴۷) مجبور ہوکر وہ قرض لیتے تھے اوربعد کو قرض خواہ عدالتی کارروائیاں کرتے تھے۔(۴۸) بیشتر شہزادے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر بادشاہ کے مفاد کو نظر انداز کرسکتے تھے۔ اُن کو آسانی سے خریدا جاسکتا تھا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ انگریزوں کی طاقت اس قدر جلد قائم ہوجاتی اگر شہزادے اس طرح سازشوں میں گرفتار نہ ہوتے! جس خاندان میں مرزا الٰہی بخش جیسے ننگِ ملک و ننگِ خاندان افراد موجود ہوں اس کے مستقبل سے کس کواُمید ہوسکتی ہے! بخت خاں کو انہی شہزادوں کی ریشہ دوانیوں اورمسلسل سازشوں کے باعث نہایت ہی صبر آزما اور حوصلہ شکن حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ عبداللطیف کے روزنامچہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے انتہائی تحمل اور بردباری سے نامساعد حالات کا مقابلہ کیا۔ لیکن ایک موقع پر اس کا پیمانہٴ صبر چھلک گیا۔ بعض مصنّفین نے لکھا ہے کہ آخر میں اس درجہ پریشان ہوگیا تھا کہ اس نے بادشاہ سے کہہ دیا تھا کہ اگر کوئی شہزادہ کو لوٹے گا تو میں اس کی ناک کٹوادوں گا۔

۱۸۵۷/ کی تحریک میں بادشاہ اور مغلیہ خاندان کا حصہ کیا تھا؟ انھوں نے کہاں تک تحریک کو آگے بڑھانے میں مدد دی تھی؟ بہادر شاہ کے متعلق یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے ہ وہ ایک انقلابی تحریک کی رہنمائی کی قطعاً صلاحیت نہ رکھتا تھا۔ اس نے ۱۸۵۷/ کی تحریک میں جو کچھ بھی حصہ لیا وہ حالات کی مجبوری کی بنا پر تھا، کسی شورش انگیز مقصد کی بنا پر نہیں تھا۔ اس کی ملکہ زینت محل کے متعلق انگریزوں سے ساز باز کا شبہ تھا۔ شہزادے الگ سازشوں کے جال پھیلارہے تھے۔ اوران کے سازشوں ہی کی بنا پر بعد کو بہادر شاہ کی گرفتاری ہوئی۔ مغل شہزادوں کے ساتھ جو بھی ہمدردی پیدا ہوتی ہے، وہ ان کے حسرتناک انجام اور ہڈسن کے ظالمانہ برتاؤ کی وجہ سے ہے، ورنہ تحریک کے دوران میں اُن کا طرز عمل کسی طرح بھی قابل ستائش نہیں تھا۔ مغل شہزادوں میں اگر کوئی شخص تحریک کی اصل روح سے متاثر نظر آتا ہے تو وہ فیروز شاہ ہے۔ جس کی سرگرمی، جوش عمل اور استقامت نے تحریک کو وہ قوت بہم پہنچائی جس کے سہارے سخت سے سخت منزلیں طے کی جاسکتی تھیں۔

جہاں تک امراء کا تعلق ہے، ان میں بیشتر ایسے تھے جو ذاتی مفاد اور منفعت کی خاطر بڑے سے بڑے مفاد کو قربان کرسکتے تھے۔ اُن و نہ ملک سے محبت تھی، نہ بہادر شاہ سے ذاتی اقتدار کو بڑھانے کی خاطر وہ دربار سے تعلق رکھتے تھے۔ سرسید نے صحیح لکھا ہے کہ لوگ ”اُس کے منہ پر اس کی خوشامد کرتے تھے اور پیٹھ پیچھے ہنستے تھے“(۴۹) حکیم احسن اللہ خاں، نواب احمد قلی خاں وغیرہ جو دربار کے عمائدین میں سے تھے عوام کی نظر میں اس بنا پر معتبر نہ رہے تھے کہ دشمنوں سے مل جانے کا اُن پر شبہ تھا۔ جاسوسوں کے خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ بعض امراء نہایت ہی شرمناک سازشوں میں مبتلا تھے۔ دربار کی ساری خبریں انگریزوں کو انہی کے ذریعہ پہنچتی تھیں۔ بعض امراء ایسے بھی تھے جن کے پاس دولت کی فراوانی تھی؛ لیکن جب تحریک کے دوران میں روپیہ کی ضرورت پڑی تو ایک امیر بھی ایسا نہ تھا جس نے روپیہ سے مدد کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہو۔ دہلی کی فتح کے بعد جب انگریزوں نے ان امراء کے گھروں کو کھدوایا تھا تو لاکھوں روپے کے زیورات اور جواہر برآمد ہوئے تھے۔(۵۰) لیکن جب بھی بہادرشاہ یا بخت حاں وغیرہ نے مصارف جنگ کے لیے اُن سے روپیہ قرض طلب کیا تو اُنھوں نے نہ صرف اپنی بے زری کا اظہار کیابلکہ لڑنے پر آمادہ ہوگئے۔ نواب فخرالدولہ امین الدین خاں بہادر نے جس طرح ناراضگی کا اظہار کیا تھا اُس کی تفصیل عبداللطیف نے دی ہے۔ اس وقت امراء میں گواٹھارویں صدی کی سی گروہ بندی نہیں رہی تھی، لیکن ہرشخص حصولِ مقصد کے لیے خود ایک پارٹی بناہوا تھا اور دوسروں کی تذلیل و تشہیر کو اپنا فرض سمجھتا تھا۔

اس وقت سب سے زیادہ صحت مند عناصر جنھوں نے تحریک میں حصہ لیا وہ تھے جنھوں نے دہلی کی مسموم فضا میں پرورش نہیں پائی تھی اور یہاں کے اثرات سے کسی حد تک محفوظ رہے تھے۔ بخت خاں روہیلوں کی ضرب المثل تنظیمی صلاحیتوں کا مظہر تھا اس میں مقصد کا خلوص بھی تھا اور عسکری تنظیم کا جذبہ بھی۔ اس نے دہلی میں بدنظمی اور ابتری کو روکنے کی پوری کوشش کی۔ اگرمغل شہزادے اس کے ساتھ تعاون کرجاتے، یا آخر میں بہادر شاہ اس کے مشورہ پر عمل کرلیتا تو بہت سے واقعات کا رخ بدل جاتا۔

والیانِ ریاست میں رانی لکشمی بائی اور بیگم حضرت محل کی شخصیتیں خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ رانی لکشمی بائی نے مردانہ لباس پہن کر فوجوں کی قیادت کی۔ اس کی حیریت افروز شجاعت نے تحریک میں چار چاند لگادیے اور وہ آخری دم تک انگریزوں کا مقابلہ کرتی رہی۔ حضرت محل کے متعلق مولانا شرر کا بیان ہے کہ لوگ اس کی مستعدی اور نیک نفسی کی تعریف کرتے تھے۔ اودھ کی آزادی کے لیے اس نے اپنی جان کی بازی لگادی تھی آخر وقت تک قیصر باغ میں بیٹھی تحریک کی تنظیم کرتی رہی۔ جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو قیصر باغ کو چھوڑ کر نیپال کا رُخ کیا۔

روہیلہ سرداروں میں خان بہادر خاں اور نواب محمود خاں نے بھی بڑی جوانمردی سے تحریک میں حصہ لیا۔ ۱۸۵۷/ میں خان بہادر خاں کی عمر ستر سال سے زیادہ تھی۔ انھوں نے بریلی کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لیا اور انگریزوں کے خلاف اپنی طاقت کا استحکام کیا۔ محمود خاں نے ضلع بجنور میں انگریزوں کا مقابلہ کیا، اور بجنور، دھام پور، نگینہ اورآدم پور پر قبضہ کرلیا۔ بہادر شاہ نے اُن کو امیرالدولہ، ضیاء الملک مظفرجنگ کے خطابات دیے تھے۔ اور ان کی خدمات کو سراہا تھا، اول الذکر کو بریلی میں پھانسی دی گئی اور موخرالذکر کو حبس دوام بہ عبور دریائے شور کی سزا ملی، لیکن ابھی انڈیمان کو روانہ نہ ہوئے تھے کہ قید حیات ہی سے رہا ہوگئے۔

دہلی کی ایجنٹی کے ماتحت سات ریاستیں تھیں: جھجر، فرخ نگر، بلبھ گڑھ، بہادر گڑھ، دوجانہ، پاٹودی اور لوہارو۔ ان ریاستوں نے اپنے حالات اورمصلحتوں کے ماتحت تحریک میں حصہ لیا اور دہلی کی حکومت سے تعلقات قائم کرلیے۔ نواب عبدالرحمن خاں والیِ جھجر اور اسکے خُسر عبد الصمد خاں نے کافی سرگرمی دکھائی۔ عبدالصمد خاں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فیصلہ کیا تھا اور برابر انگریزوں سے لڑتا رہا۔ راجہ ناہرسنگھ والیِ بلبھ گڑھ نے بہادر شاہ کے ساتھ تعاون کیا تھا اور برابر دربار سے خط و کتابت رہتی تھی۔ ۱۸۵۷/ کے ہنگامہ کے بعد انگریزوں نے جھجر، فرخ نگر، بلبھ گڑھ کی ریاستیں ضبط کرلیں اوران کے والیوں کو پھانسی کی سزا دی ۔ غالب ایک خط میں علاؤ الدین احمدخاں علائی کو لکھتے ہیں:

”قصّہ کوتاہ قلعہ اور جھجر اور بہادر گڑھ اور بلب گڑھ اور فرخ نگر کم و بیش تیس لاکھ روپئے کی ریاستیں مٹ گئیں۔ شہر کی عمارتیں خاک میں مل گئیں۔ ہنرمند آدمی یہاں کیوں پایا جائے۔“

(۵)

۱۸۵۷/ کی تحریک کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ ہندو اورمسلمان دونوں نے دوش بدوش یہ جنگ لڑی تھی۔ اور ہندومسلم سوال کسی نوعیت اور کسی شکل میں بھی لوگوں کے سامنے نہیں تھا۔ محض یہ واقعہ کہ تحریک کے آغاز میں ہی ہندو اور مسلمان سب کی نظریں بہادر شاہ کی طرف اُٹھ گئی تھیں۔ تحریک کی ہمہ گیر نوعیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بہادر شاہ کی ذاتی نااہلیت تسلیم لیکن اس کی حیثیت ایک علامت اورایک نشانی کی تھی۔ وہ ڈوبتا ہوا سورج سہی لیکن وہ ایک ایسی صبح کی شام تھا جس میں ہندوستان نے اپنے سیاسی وقار اور تمدنی عظمت کے نادر جلوے دیکھے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ تمام وہ طاقتیں تک جو کچھ عرصہ سے سلطنت مغلیہ کے مدمقابل آگئی تھیں، بہادر شاہ کے گرد جمع ہوگئیں۔مرہٹے ایک مدت سے مغلوں سے برسرپیکار تھے، لیکن ۱۸۵۷/ میں پیشوا نے بہادر شاہ کو تسلیم کرنے میں مطلقاً کوئی عذر نہیں کیا۔ نانا صاحب کے خاص مشیروں میں عظیم اللہ خاں رہا۔ رانی جھانسی نے مسلمان توپچی ملازم رکھے۔ احمد اللہ شاہ نے ہندو اور مسلمان دونوں کے مشترکہ اجتماعات میں تقریریں کیں۔ بہادر شاہ نے بعض نہایت اہم کام مثلاً ٹکسال کی نگرانی، پولیس کا کام ہندوؤں کے سپرد کیا اورانھوں نے بادشاہ کے ساتھ پورا تعاون کیا۔

ہندوؤں اورمسلمانوں کے اس اتحاد عمل سے انگریزوں کو بڑی تشویش پیداہوگئی تھی انہیں اپنی ناکامی کے آثار اگر کسی چیز میں نظر آتے تھے تو وہ صرف ہندوستان کے مختلف طبقوں اور مذاہب کے لوگوں میں اشتراک عمل اوراتحاد میں۔ غیرمتحد ہندوستان تو ریتے کی دیوار کی طرح گرایاجاسکتا تھا، لیکن متحدہ ہندوستان انگریزوں کے لیے کوہ گراں کی مانند تھا۔ چنانچہ تحریک کے دوران میں پوری کوشش کی گئی کہ کسی طرح اس اتحاد کو ختم کیا جائے۔ تحریک کے بعد تو انگریز کی حکمت عملی کی ساری عمارت اسی پر تعمیر ہوئی تھی کہ ”لڑاؤ اورحکومت کرو“ ہنگامہ کے دوران میں بقرعید آئی(۵۱) اور انگریزوں نے اس موقع کو ہندوؤں اورمسلمانوں کو لڑانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ تعجب کی بات ہے کہ اس سازش کے جال اس طرح پھیلائے گئے کہ مولانا احمد سعید مجددی جو بڑے نیک دل، عالی حوصلہ اور مرنجاں مرنج شیخ وقت تھے، اس سازش سے غیرمحسوس طریقہ پر متاثر ہوگئے بہادر شاہ نے جب اُن کو مفتی صدرالدین آزردہ کے ذریعہ صورت حال سے آگاہ کیا تو فوراً اپنی ضمنی تحریک سے دست کش ہوگئے۔ بریلی میں خان بہادر خاں اور وہاں کے ہندو زمینداروں میں نفاق ڈالنے کے لیے بھی یہی تدابیر اختیار کی گئی لین کامیاب نہ ہوسکی۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل خط مطالعہ کے قابل ہے:


”من جانب جارج کوپر صاحب سیکریٹری چیف کمشنر اودھ بخدمت جی ایف

ایڈمنسٹن صاحب سیکرٹری حکومت ہند 
                                                    لکھنوٴ، یکم دسمبر ۱۸۵۷/ 

جناب عالی!

بہ سلسلہ مکتوب چیف کمشنر بنام گورنرجنرل بہادر مورخہ ۱۴/ستمبر جس میں انھوں نے پچاس ہزار روپے کی رقم بریلی کی ہندو آبادی کو مسلمان باغیوں کے خلاف آمادئہ پیکار کرنے پر صرف کرنے کی اجازت دی ہے۔ مجھے کپتان گوں کے خط مورخہ ۱۴/ کا اقتباس پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جس سے حضور والا کو یہ علم ہوگا کہ یہ کوشش ناکام رہی اوراس کو ترک کردیاگیا اوراس پر کوئی رقم صرف نہیں ہوئی۔

                                                                                                            آپ کا خادم 
                                                                                                            جارج کوپر 
                                                                                    سیکرٹری چیف کمشنر۔ عالم باغ کیمپ یکم دسمبر ۱۸۵۷/ 

پھر سکھوں کو بہادر شاہ سے بدظن کرنے کے لیے لارنس نے پنجاب میں یہ شہرت دی کہ بہادر شاہ کی طرف سے اعلان کرایاگیا ہے کہ جو شخص بھی ایک سکھ کا سرکاٹ کر لائے گا اس کو پانچ روپیہ انعام دیا جائے گا۔ عبداللطیف نے بتایا ہے کہ سکھوں کا ایک وفد اس سلسلہ میں بہادر شاہ سے آکر ملا اور اس بات کی شکایت کی۔ بہادر شاہ نے جواب دیا۔

”از ما جز مہربانی نیاید ونظر عاطفت براہل ہر کیش باید“

۱۸۵۷/ کے ہنگامہ کے بعد انگریزوں نے ہندوؤں اورمسلمانوں کے تعلقات خراب کرانے کے لیے منظم کوششیں شروع کردیں۔ اور سیاست، سماج، زبان اور ادب کا کوئی گوشہ ایسا نہیں چھوڑا جہاں یہ زہر نہ پھیلایاگیاہو۔ سرہنری ایلیٹ نے (جس کی تاریخ ہند کی آٹھ جلدیں گزشتہ پچھتّر سال سے ہماری ساری چھوٹی بڑی تاریخوں کا ماخذ رہی ہیں) حکومت کو لکھا کہ اگراس کی مرتب کی ہوئی تاریخ ہند شائع کردی گئی تو ہندوستان میں ساری قومی تحریکیں خود بخود سرد پڑجائیں گی۔ چنانچہ ہندومسلم اختلافات کو تاحد طوفان پہنچانے کے لیے یہ کتاب شائع کردی گئی۔


۱۰/مئی۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کےکچھ بھلادئیے گئے حقائق ترتیب: ڈاکٹر اجمل فاروقی ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون


۱۸۵۷مولوی احمد اللہ شہید فیض آبادی

مدراس کے رہنے والے مولانا عرصے سے فیض آباد میں رہتے تھے۔ بڑے جاگیردار تھے۔ ان کی جائیداد ضبط کرکے پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ عوام نے ودروہ کرکے انہیں جیل سے نکال لیا۔ بریلی، شاہ جہاں پور میں انگریزوں سے لڑے۔ انھوں نے دوبار سرکولن کیمبل کو نیچا دکھایا۔ انگریزوں نے راجا پون سے غداری کراکر انھیں راجا کے ہاتھوں شہید کروایا۔ ہومس نے لکھا کہ ”اگر اس وقت ہندوستان میں کوئی ماہر شاسک تھا تو وہ مولوی صاحب تھے۔ اگر وہ بادشاہ بنتے تو یہ ان کا حق تھا۔ پنڈت سندرلال نے کہا دنیا میں آزادی کے شہیدوں میں ان کا نام ہمیشہ عزت سے لیا جائے گا۔ ان کے علاوہ مولانا امداد اللہ مہاجر مکی، حافظ ضامن شہید، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا عبدالجلیل امام جامع مسجد علی گڑھ، مولوی لیاقت علی الٰہ آبادی، مولانا جعفر تھانیسری، مولانا محمد یحییٰ علی، مولانا شفیع مبالوی، مولانا مملوک علی، مولانا پیر محمد، مولانا سرفراز علی بھی لاکھوں ہندوستانیوں کی اگوائی کررہے تھے جو دیش کی عزت آزادی اور فخر کے لیے جان و مال کی قربانی دے رہے تھے۔

انگریزوں کا ظلم

ڈاکٹر ولیم نے باقی انگریز شاسکوں کی طرح مسلمانوں کو غدر کا ذمہ دار ٹھہراکر انہیں ظلم اور لوٹ پاٹ و تباہی کا نشانا بنایا۔ ۱۵/دنوں میں ۲ لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔ داڑھی، لمبا کرتا باغی کی پہچان تھی۔ باغی کا دوسرا نام مسلمان بتایاگیا۔ کل ۵۱ہزار علماء کو شہید کیاگیا۔ (Thomson) تھومسن نے یہ تعداد تین سالوں میں ۱۴ہزار بتائی ہے۔ چاندنی چوک سے خیبرتک کوئی پیڑ ایسا نہ تھا کہ عالم کی لاش نہ لٹکی ہو۔

بادشاہ ظفر کے شہزادوں : مرزا خضر سلطان، مرزا مغل، مرزا ابوبکر اور مرزا عبداللہ کو (Hudson) ہڈسن نے خود گولی ماری اور خون پیا۔ علماء کو بڑے پیمانے پر کالا پانی کی سزا دی گئی۔ جامع مسجد دہلی کو فوج کا اصطبل بنادیا۔ ہزاروں عورتوں نے کنوؤں اور باولیوں میں کود کر عزت بچائی۔ ۱۸۵۷/ سے ۱۸۶۱/ تک تین لاکھ قرآن جلائے گئے تاکہ مسلمانوں میں سے جہاد کا خیال نکالا جاسکے۔ الٰہ آباد، فتح پور، بریلی جہاں بھی انگریزوں نے جیت حاصل کی بستیوں کو جلادیا۔ عورتوں، بچوں، بوڑھوں سب کو مار دیا۔ گھروں کو تباہ کرنا ان کی خاص سزا تھی۔ دہلی میں آج بھی جمنا پل کے پاس سوتنترا سینانی اسمارک میں وہ بوڑھا برگد موجود ہے جس پر ۱۴۰۰ مسلمانوں کو پھانسی دی گئی تھی۔ اسی پیڑ کے پاس کنوؤں میں اندھیری کوٹھریاں موجود ہیں جس میں مسلمان قیدیوں کو رکھا جاتا تھا۔ منشی ذکاء اللہ نے لکھا ہے کہ ۱۸۵۷/ کے بعد ایک انگریز افسر لوگوں کو پوچھتا تھا کہ وہ ہندو ہے کہ مسلمان اور جواب میں مسلمان سنتے ہی گولی ماردیتا تھا۔ لارڈ رابرٹ (Lord Robert) نے اپنی کتاب (41-Years in India) میں لکھا کہ دہلی کی فتح کے بعد انگریزوں نے قتل عام کی منادی کرادی اور سات دنوں تک دہلی جلتی لٹتی رہی۔ ۲۷۰۰۰ مسلمانوں کو عدالتوں نے پھانسی دی اور قتل عام میں جو مارے گئے ان کا کوئی حساب نہیں۔ رڑکی میں سنہرا گاؤں میں برگد کا پیڑ آج بھی موجود ہے جہاں ۲۵۰ ہندوستانیوں کو پھانسی دی گئی تھی۔ نوح میں نیم کے درخت پر ۵۲ میواتیوں کو اور فیروز پور جھرکا میں املی کے پیڑ پر سیکڑوں متوالوں کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔ مرادآباد کے نواب مجو خان شہید کی لاش کو ہاتھی کے پیر سے باندھ کر شہر میں گھسیٹا گیا۔ بعد میں چونے کے پانی میں ڈال کر جلایا گیا۔ The other side of the Medal میں Lt.Robertson نے لکھا: ”ہم لوگ پیشاور سے جہلم تک پیدل سفر کرتے ہوئے پہنچے راستے میں کچھ ضروری کام کرتے آئے۔ باغیوں سے اسلحہ چھینا؛ انہیں پھانسی پر لٹکایا۔ تو پ سے اڑانے کا جو طریقہ ہم نے استعمال کیا اس سے ہمارا ڈر لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گیا۔ فوجی عدالت کے حکم سے باغیوں کے سرقلم کردئیے گئے اوریہی پالیسی اس وقت تمام چھاونیوں میں عمل میں لائی جارہی ہے۔“ جھجھر کے نواب عبدالرحمن شہید کو پھانسی دی گئی کیونکہ وہ باغیوں کی مدد کرتے تھے۔ اکبر آبادی مسجد میں شاہ ولی اللہ کا مدرسہ برباد کردیا گیا۔ صرف دہلی میں ایک لاکھ گھر اور مسجدیں زمین سے ملادیں۔

اردو اور آزادی کا سفر

آزادی کی جنگ میں انقلابیوں کے دہلی میں جمع ہونے کے بعد سے وہاں سے تمام ملک کی چھاونیوں اور شہروں کو اردو میں خط لکھ کر ابھارا گیا۔ نانا صاحب، خان بہادر خان، بیگم حضرت محل سب نے اردو میں خط بھیج کر جہاد کے لیے لوگوں کو اکسایا۔ اردو کے اخباروں طلسم لکھنوٴ، صادق الاخبار ، دہلی گزٹ، اردو اخبار دہلی، سراج الاخبار دہلی، اردو معلی دہلی، حبیب الاخبار بدایوں اردو کے لئے فخر کی بات ہے کہ ”دہلی اردو اخبار“ کے ایڈیٹر محمد باقر کو گولی ماری گئی۔ بہادر شاہ ظفر کے نواسے مرزا بیدار بخت نے ”پیامِ آزادی“ کے نام سے رسالہ میں آزادی کا Manifesto چھاپا۔ مرزا بیدار بخت کو انگریزوں نے ان کے جسم پر سور کی چربی مل کر شہید کیا۔ اس اخبار کے ایڈیٹر عظیم اللہ خان تھے۔ انہیں پھانسی دی گئی۔


۱۸۵۷/ کا انقلاب حریت اور علماء اسلام از: مولانا اختر امام عادل قاسمی‏، جامعہ ربانی منوروا شریف، سمستی پور بہار


               ہندوستان پر مسلمانوں نے صدیوں حکومت کی، اوراس کو اپنی حسن نیت، خلوص و محنت، اور حکمت و تدبر سے جنتِ نظیر بنادیا، یہ پورا وسیع خطہٴ ارضی سونے کی چڑیا کہلانے لگا، ساری دنیا کے اہل کمال اور اصحاب علم وفن اس ملک کی طرف کھینچ کھینچ کر آنے لگے، انگریز بھی اس ملک کی ترقیات اور خوشحالی سے متاثر ہوئے اور ہندوستان کی اسلامی حکومت سے اجازت لے کر تجارت کی غرض سے اس ملک میں داخل ہوئے، اور پھر رفتہ رفتہ انھوں نے اپنے بال وپر پھیلانے شروع کئے اور کاروبار وسیاست میں حصہ لینے لگے، ۱۷۵۷/ میں پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ کو شکست دینے کے بعد عملاً پورے ملک میں ان کی دھاک بیٹھ گئی، پھر رفتہ رفتہ دہلی کی بساطِ سیاست پر وہ چھاگئے، پورے ملک کی بساط پہلے ہی پلٹ دی تھی، اب دہلی کا سلطان بھی ان کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا تھا، نقارہ کی چوٹ پر اعلان کیاجاتا تھا: 
               ”خلقت خداکی، ملک بادشاہ کا، حکم سرکار کمپنی بہادر کا“ 
               یہ سیاسی تبدیلیاں ہندوستانیوں کے لئے یقینا خلاف توقع تھیں، جس ملک پر اب تک انھوں نے تقریباً تین سو سال سے خاندان تیمور کو حکومت کرتے دیکھا تھا، اور پورے ہندوستان میں اس خاندان کے زندہ و تابندہ نقوش پھیلے ہوئے تھے، اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اس خاندان نے اہم رول ادا کیا تھا، ہر شخص اس کا ممنون کرم اور دل سے ان کی خدمت کا قدرداں تھا، آج اس ملک پر ایک بدیسی قوم حکومت کررہی تھی، جس کے پاس نہ کوئی ضابطہٴ اخلاق تھا اور نہ کوئی تہذیبی نظام، اس کے پاس دماغ تو تھا مگر دل کی طاقت اور روح کی بالیدگی سے محروم تھی، جو رنگ و نسل اور زبان کسی لحاظ سے ہندوستانی اقوام سے میل نہیں کھاتی تھی۔ 
               دوسری طرف انگریزوں کی آمد سے ملک جس افراتفری کا شکار ہوگیاتھا اس کی کوئی مثال ہندوستان کی پچھلی تاریخ میں نہیں ملتی، ملی، تہذیبی، تمدنی، اقتصادی اوراخلاقی تمام قدریں متزلزل ہوکر رہ گئیں، ۱۸۵۷/ کا عہد اس زوال پذیر دور کا نقطئہ عروج تھا۔ 

معاشی بدحالی

               اس دور کے حالات کے ذاتی مشاہد، انگریزوں کے وفادار، مگر ملک وملت کے غمگسار سرسید احمد مرحوم کی شہادت شاید اس سلسلے میں سب سے زیادہ معتبر مانی جائے، وہ اپنی مشہور کتاب ”اسباب بغاوت ہند“ میں اقتصادی تبدیلیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
               ”میں نہیں بیان کرسکتا کہ ہندوستانیوں کو کس قدر ناراضگی اور دلی رنج اور ہماری گورنمنٹ کی بدخواہی اور نیز کتنی مصیبت اور تنگیٴ معاش اس سبب سے ان کو تھی کہ بہت سی معافیات صدہا سال سے چلی آتی تھیں، جو ادنی ادنی حیلہ پر ضبط ہوگئیں، ہندوستانی خیال کرتے تھے کہ سرکار نے خود تو ہماری پرورش نہیں کی، بلکہ جو جاگیر ہم کو اور ہمارے بزرگوں کو ان کے بادشاہوں نے دی تھی وہ بھی گورنمنٹ نے چھین لی، پھر ہم کو اور کیا توقع گورنمنٹ سے ہے۔“ (اسباب بغاوت ہند:۲۶) 
               ”ابتداء عملداری سے آج تک شاید کوئی گاؤں ایساہوگا جس میں تھوڑا بہت انتقال (ردوبدل) نہ ہوا، ابتداء میں ان نیلاموں نے ایسی بے ترتیبی سے کثرت پکڑی کہ تمام ملک الٹ پلٹ ہوگیا۔“ (حوالہٴ بالا:۲۸) 
               ”اہل حرفہ کاروزگار بسبب جاری اور رائج ہونے ایشاء تجارت ولایت کے بالکل جاتا رہا، یہاں تک کہ ہندوستان میں کوئی سوئی بنانے والااور دیا سلائی بنانے والے کو بھی نہیں پوچھتا تھا، پارچہ بافوں کا تار توبالکل ٹوٹ گیاتھا۔“(حوالہٴ بالا: ۳۶) 
               حضرت مولانا سید محمدمیاں صاحب دیوبندی اپنی مشہور کتاب ”علماء ہند کا شاندار ماضی“ میں رقم طراز ہیں: 
               ”پس یہ حقیقت ہے کہ ۱۸۵۷/ کا یہ خونیں حادثہ ․․․ مٹی ہوئی جاگیر شاہی کی انگڑائی نہیں بلکہ ایک قوم کی بڑھتی ہوئی جاگیر شاہی کے مقابلے میں دوسری قوم کی حرکت مذبوحانہ تھی۔“# 

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

               یہ بحث طویل ہے، اس کا ہر ایک گوشہ ایک داستان رکھتا ہے، تنخواہوں کا تفاوت، مال گزاری کا اضافہ، وصولی مال گزاری کیلئے جائدادوں کا نیلام، نیلام کے دل آزار توہین آمیز طریقے، سود اور سود درسود کا رواج وغیرہ، غرض ہر ایک باب داستانِ الم ہے“ (علماء ہند کا شاندار ماضی: ۴/۲۷) 
               سرسیّد مرحوم نہایت جوش سے لکھتے ہیں: 
               ”غرض کہ ملک ہر طرح سے مفلس ہوگیاتھا، ان کے خاندان جن کو ہزاروں کا مقصدور تھا، معاش سے بھی تنگ آگئے تھے۔“ (اسباب بغاوت ہند: ۳۶) 
               شیخ محمد اکرام نے ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب ”آورانڈین مسلمانز“ کے حوالے سے لکھا ہے: 
               ”اگر کوئی سیاست داں دارالعلوم میں سنسنی پیداکرنا چاہے تو اس کے لئے کافی ہے کہ وہ بنگال کے مسلمان خاندانوں کے سچے سچے حالات بیان کردے، یہی لوگ کسی زمانے میں محلوں میں رہتے تھے، گھوڑے گاڑیاں نوکر چاکر موجود تھے، اب یہ حالت ہے کہ ان کے گھروں میں جوان بیٹے، پوتے اور پوتیاں، اور بھتیجے اور بھتیجیاں بھرے پڑے ہیں اور ان بھوکوں کے لئے ان میں سے کسی ایک کو زندگی میں کچھ کرنے کاموقع نہیں، وہ منہدم اور حرمت شدہ مکانوں اور خستہ برآمدوں میں قابل رحم زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں، اور روز بروز قرض کی دلدل میں زیادہ دھنستے جاتے ہیں، حتی کہ کوئی ہمسایہ ہندو قرض خواہ ان پر نالش کرتا ہے، اور مکان اور زمینیں جو باقی تھیں ان کے قبضے سے نکل جاتی ہیں، اور یہ قدیمی مسلمان خاندان ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتا ہے۔“(موج کوثر:۷۵) 

عدل اور انصاف کی صورت حال:

               عدل وانصاف کی صورت حال کے بارے میں سرسیّد لکھتے ہیں: 
               ”اور پھر اس پر اضافہ یہ ہوا کہ بادوجود ہندوستانیوں کی مفلسی کے عدالت کی چارہ جوئی پر اسٹامپ لگادیاگیا جو ناقابل برداشت تھا۔“ (موج کوثر:۷۵) 
               تعصبات، تنگ نظری اورنا انصافی کے احوال ڈاکٹر ہنٹر کی زبانی سنئے: 
               ”مسلمانوں کی بدقسمتی کا صحیح نقشہ ان محکموں میں دیکھا جاسکتا ہے، جن میں ملازمتوں کی تقسیم پر لوگوں کی اتنی نظر نہیں ہوتی، ۱۸۶۹/ میں ان محکموں کا یہ حال تھا کہ اسسٹنٹ انجینئروں کے تین درجنوں میں چودہ ہندو اور مسلمان صفر، امیدواروں میں چار ہندو، دو انگریز اور مسلمان صفر، سب انجینئروں اور سپروائزروں میں چوبیس ہندو اور ایک مسلمان اوورسیروں میں تریسٹھ ہندو اور دو مسلمان، اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ میں پچاس ہندو اور مسلمان معدوم، وغیرہ۔“ 
               سرکاری ملازمتوں کے علاوہ ہائی کورٹ کے دکیلوں کی فہرست بڑی عبرت آموز تھی، ایک زمانہ تھا کہ یہ پیشہ بالکل مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا، اس کے بعد بھی ۱۸۵۱/ تک مسلمانوں کی حالت اچھی رہی اورمسلمان وکلاء کی تعداد ہندوؤں اورانگریزوں کی مجموعی تعداد سے کم نہ تھی، لیکن ۱۸۵۱/ سے تبدیلی شروع ہوئی، اب نئی طرز کے آدمی آنے شروع ہوئے اور امتحانات کا طریقہ بھی بدل دیاگیا، ۱۸۵۲/ سے ۱۸۶۸/ تک جن ہندوستانیوں کو وکالت کے لائسنس ملے ان میں ۲۳۹ہندو تھے اور ایک مسلمان۔ 
               انھوں نے کلکتہ کے ایک اخبار کی شکایت نقل کی کہ: اب یہ حالت ہے کہ حکومت سرکاری گزٹ میں مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں سے علیحدہ رکھنے کا کھلم کھلا اعلان کرتی ہے، چند دن ہوئے کمشنر صاحب نے تصریح کردی کہ یہ ملازمتیں ہندوؤں کے سوا کسی کو نہ ملیں گی۔“ (موج کوثر:۷۶) 

سماجی حیثیت کی پامالی:

               مسلمانوں کی عزت و شرافت کا حال کتنا ابتر تھا، اس کے بارے میں سرسیّد لکھتے ہیں: 
               ”کیا ہماری گورنمنٹ کو نہیں معلوم ہے کہ بڑے سے بڑا ذی عزت ہندوستانی حکام سے لرزاں اور بے عزتی کے خوف سے ترساں نہ تھااور کیا یہ بات چھپی ہوئی ہے کہ ایک اشراف اہل کار صاحب کے سامنے مثل پڑھ رہا ہے اور ہاتھ جوڑ جوڑ کر باتیں کررہا ہے اور صاحب کی بدمزاجی اور سخت کلامی بلکہ دشنام دہی سے دل میں روتا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہائے افسوس روٹی اور کہیں نہیں ملتی، اس نوکری سے تو گھانس کھودنی بہتر ہے۔ 
               بلاشبہ تمام رعایا ہندوستان کی اس بات کی شاکی ہے کہ ہماری گورنمنٹ نے ان کو نہایت بے قدر اور بے وقار کردیا ہے، ہندوستان کے اشراف آدمی کی ایک چھوٹے سے یورپین کے سامنے ایسی بھی قدر نہیں ہے، جیسی ایک چھوٹے یورپین کی۔“ (اسباب بغاوت ہند:۴۲) 

مذہبی وتہذیبی اقدار کو خطرہ:

               سب سے بڑا خطرہ مذہبی اور ملی تشخصات اور تہذیبی اقدار اور روایات کو تھا، سرسیّد اس وقت کے عام احساسات کے بارے میں رقم طراز ہیں: 
               ”کچھ شبہ نہیں کہ تمام لوگ جاہل وقابل، اعلیٰ اورادنیٰ یقین جانتے تھے کہ ہماری گورنمنٹ کا دلی ارادہ ہے کہ مذہب اور رسم ورواج میں مداخلت کرے اور سب کو کیا ہندو کیا مسلمان، عیسائی مذہب اور اپنے ملک کے رسم ورواج پر لاڈالے․․․ سب کو یقین تھا کہ ہماری گورنمنٹ اعلانیہ جبر مذہب بدلنے پر نہیں کرے گی، بلکہ خفیہ تدبیریں کرکے مثل نابود کردینے علم عربی وسنسکرت کے اور مفلس و محتاج کردینے ملک کے اور لوگوں کو جوان کا مذہب ہے، اس کے مسائل سے ناواقف کرکے اوراپنے دین و مذہب کی کتابیں اور مسائل اور وعظ کو پھیلاکر نوکریوں کا لالچ دے کر لوگوں کو بے دین کردیں گے․․․ ہندوستان میں وعظ اور کتھا کا دستور یہ ہے کہ اپنے اپنے معبد یا مکان پربیٹھ کر کہتے ہیں، جس کا دل چاہے اورجس کو رغبت ہو وہاں جاکر سنے، پادری صاحبوں کا طریقہ اس کے برخلاف تھا، وہ خود غیرمذہب کے مجمع یا تیرتھ اور میلہ میں جاکر وعظ کہتے تھے اور کوئی شخص حکام وغیرہ کے ڈر سے مانع نہ ہوتا تھا، بعض ضلعوں میں یہ رواج نکلا کہ پادری صاحب کے ساتھ تھانہ کا چپراسی جانے لگا، پادری صاحب وعظ میں صرف انجیل مقدس ہی کے بیان پر اکتفا نہیں کرتے تھے، بلکہ غیرمذہب کے مقدس لوگوں کو اور مقدس مقاموں کو بہت برائی اورہتک سے یاد کرتے تھے، جس سے سننے والوں کو نہایت رنج اور دلی تکلیف پہنچتی تھی․․․ دیہاتی مکتبوں کے مقرر ہونے سے سب یقین سمجھتے تھے کہ صرف عیسائی بنانے کو یہ مکتب جاری ہوئے ہیں․․․ جس گاؤں میں پرگنہ وزیر یا ڈپٹی انسپکٹر پہنچا اور گنواروں میں چرچا ہوا کہ ”کالاپادری“ آیا، عوام الناس یوں خیال کرتے تھے کہ یہ عیسائی مکتب ہیں اور کرسٹان بنانے کو بٹھاتے ہیں۔ 
               یہ سب خرابیاں لوگوں کے دلوں میں پیدا ہورہی تھیں کہ دفعتاً ۱۸۵۵/ میں پادری اے ایڈمنڈ نے دارالامارت کلکتہ سے عموماً اور خصوصاً سرکاری معزز نوکروں کے پاس چٹھیاں بھیجیں، جن کا مطلب یہ تھا کہ: 
               اب تمام ہندوستان میں ایک عملداری ہوگئی، تاربرقی سے سب جگہ کی خبر ایک ہوگئی، ریلوے سڑک سے سب جگہ کی آمد ورفت ایک ہوگئی، مذہب بھی ایک چاہئے،اس لئے مناسب ہے کہ تم لوگ بھی عیسائی ایک مذہب ہوجاؤ۔ 
               میں سچ کہتا ہوں کہ ان چٹھیات کے آنے کے بعد خوف کے مارے سب کی آنکھوں میں اندھیرا آگیا، پاؤں تلے کی مٹی نکل گئی، سب کو یقین ہوگیا کہ ہندوستانی جس وقت کے منتظر تھے وہ وقت اب آگیا اب جتنے سرکاری نوکر ہیں اوّل ان کو کرسٹان ہونا پڑے گا اور پھر تمام رعیت کو، سب لوگ بیشک سمجھتے تھے کہ یہ چٹھیاں گورنمنٹ کے حکم سے آئی ہیں۔ (اسباب بغاوت ہند:۱۷-۲۳) 

خوفناک سناٹا:

               خصوصاً اس وقت جب کہ حضرت سیّد احمد شہید کی تحریک کے بعد پورے ملک میں بالعموم موت کا سناٹا چھاچکا تھا، مشہور مبصر مولانا محمد میاں صاحب کے بقول: 
               اس دور کے متعلق یہ تو نہیں کہاجاسکتا کہ لوگوں نے انگریزوں کو پہچاننا چھوڑ دیا تھا، البتہ یہ درست ہے کہ وہ خود اپنے آپ سے غافل ہوگئے تھے، اورانھوں نے اپنے مستقبل کو پہچاننا چھوڑ دیا تھا، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ انگریزوں کو پہچان لینے کے باوجودوہ نہیں کیا یا نہیں کرسکے جو کرنا چاہئے تھا، خود پرستی نے خود غرضی اور ذاتی مفاد کی ہوسناکی جو قومی عظمت و وقار اور حیات اجتماعی کے لئے سرطان اور پلیگ سے بھی زیادہ مہلک امراض ہیں، اور جن کی بنا پر طوائف الملوکی عروج پاتی ہے، انہیں امراض نے ارباب اقتدار کی چشم کونابینا اور گوش سخن نیوش کو اصم اور مدہوش بنادیا تھا۔ 
                فانہا لاتعمی الأبصار ولکن تعمی القلوب التي في الصدور: یہ عجیب فلسفہ ہے کہ انسان جتنا زیادہ اپنی پرستش میں مشغول ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ خود فراموش ہوجاتا ہے، ذاتی مفاد اور خود پرستی کے شوالے جودکن، بنگال اوراودھ میں تعمیر کئے گئے تھے، ان کی خصوصیت یہ تھی کہ ان کے پجاری انگریزوں کو پہچاننے، سمجھنے اور بوجھنے کے باوجود اس پر مجبور تھے کہ سنی کو ان سنی اور دیدہ کو نادیدہ بنادیں، کیوں کہ وہ اغراض جن کے آب وگل سے یہ شوالے تعمیرہوئے تھے ان کا تقاضا ہی یہ تھا ورنہ یہ شوالے مسمار ہورہے تھے: 

درد ہے جاں کے عوض ہر رگ و پے میں ساری

چارہ گر ہم نہیں ہونے کے جو درماں ہوگا

۱۸۵۷/ کے حالات:

               یہ حالات تو وہ ہیں جو ایک اجنبی حکومت کے ناجائز امتداد اور ان کے منصوبہ بند پروگراموں نے پیدا کئے تھے، ۱۸۵۷/ میں کچھ نئے حالات پیدا ہوئے، اور ان کی وجہ سے عوامی بے چینی نے جنم لیا، امن وامان کی صورت حال بگڑی اور پورے ملک کی فضا خراب ہوگئی، اس عہد کی لکھی گئی اکثر کتابوں میں ان حالات و مسائل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جن کی بنا پر ۱۸۵۷/ کی مسلح تحریک آزادی رونما ہوئی، ہم منشی ذکاء اللہ کی مشہور کتاب ”تاریخ عروج انگلش“ اور حضرت مولانا سیدمحمد میاں صاحب کی شاہکار کتاب ”علماء ہند کا شاندار ماضی“ سے اس وقت درپیش بعض اہم حالات پیش کرتے ہیں۔ 
               * الحاق کا مسئلہ اس وقت کا انتہائی حساس ترین مسئلہ تھا، اس کا مطلب یہ بیان کیاجاتا ہے کہ کسی صوبہ کا ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے ساتھ الحاق دراصل شہریوں کو عیسائی بنانے کی مہم کاحصہ ہے، کہ اس طرح لالچ یاڈر کے ذریعہ لوگوں کا عیسائی بناناآسان ہوجاتا۔ 
               * لاخراجی زمینیں ضبط کرلی جاتی تھیں، ان کی تشریح ملک کے مذہبی اوقاف کے خاتمہ سے کی جاتی تھی۔ 
               * سرکاری قانون اس طرح کا جاری کیاگیا کہ ہندو اور مسلمان دونوں کے مذہبی تشخیصات فنا ہوجائیں۔ 
               * جیل خانوں میں تمام قیدیوں کے لئے ایک قسم کا کھانا دیا جانے لگا، جو ہندو مذہب کے لحاظ سے انتہائی غلط بات تھی۔ 
               * اسی زمانے میں خوراک میں آمیزش کی کہانی بھی بڑی تیزی کے ساتھ مشتہر ہوئی کہ برٹش گورنمنٹ کے حکم سے پسی ہوئی ہڈیاں،آٹے اور نمک میں ملادی گئی ہیں، اور وہ بازار میں فروخت ہورہی ہیں، گھی میں جانوروں کی چربی ملادی گئی ہے، شکر کو جلی ہوئی ہڈیوں سے صاف کیاجاتا ہے، کنوؤں میں سور اور گائے کا گوشت ڈالوادیاگیا ہے، ان افواہوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ بازاروں میں آٹا اوراس سے پکی ہوئی روٹیوں کی فروخت موقوف ہوگئی، خاص طور پر میرٹھ کے علاقے میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور تمام فوجی چھاؤنیاں اس افواہ کی لپیٹ میں آگئیں۔ 
               * انہی دنوں مختلف علاقوں میں روٹیوں کی خفیہ تقسیم کا قضیہ بھی سامنے آیا، کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز بنارس سے ہوا، گوالیار اوراندور میں بھی اسی طرح روٹیوں کی تقسیم کی گئی، یہ روٹیاں خاموشی کے ساتھ گاؤں گاؤں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی جاتی تھیں،اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ روٹیاں کہاں سے آئی ہیں اور ان کے پیچھے کیا مقاصد کار فرما ہیں، لوگوں نے اپنے طور پر مختلف قیاس آرائیاں کیں، کہ یہ متحدہ بغاوت کی دعوت ہے، بیماریوں اور بلاؤں کی تقسیم کی علامت ہے، کسی نے اس کی تشریح کی کہ ان کی خوراک کے وسائل چھین لئے جائیں گے، ایک خیال یہ تھا کہ ان کے اندر فتنہ انگیز خطوط چھپے رہتے تھے۔ (تاریخ عروج عہد انگلشیہ: ۳۴۲-۳۴۵) 
               حضرت مولانا میاں صاحب لکھتے ہیں: 
               ”چپاتیاں بٹنے کا واقعہ ہندوستان میں نیا نہیں تھا، سنتھالیوں کی بغاوت سے پہلے سال کے درخت کی ٹہنیاں گاؤں گاؤں بھیجی گئی تھیں، مرہٹوں نے جب شمالی علاقے پر حملے کئے تواس سے پہلے روٹی پر جوار کی ٹہنی رکھ کر بانٹی گئی تھی․․․ بعض جگہ ان پر بکری کے گوشت کی بوٹیاں بھی رکھ دیتے تھے، کہاجاتاہے کہ ہندوؤں کے محاورات میں چپاتیاں بٹنا اور کچے گوشت کا اس پر رکھا ہونا، قلع قمع کردینے کچا چباڈالنے اور کلی طورپر استیصال کی علامت مانی جاتی ہے۔“ 
               ساورکر کا خیال یہی ہے کہ مختلف طبقات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے یہ صورت اختیار کی گئی تھی، بنگال میں یہ طریقہ اختیار کیاگیا کہ ایک خاص قاصد ہر ایک چھاؤنی میں جاتا، سب سے بڑے ہندوستانی افسر سے ملتا اور اسے سرخ کنول کا پھول دکھاتا، افسر وہ پھول پاس کے سپاہی کو دے دیتا، اور اسی طرح پھول ایک ایک سپاہی کے ہاتھ میں پہنچتا یہ پھول نشان تھا صفائی، پاکیزگی، فتح اور شادابی کا۔ (علماء ہند کا شاندار ماضی: ج۴، ص:۸۱-۸۲) 
               * ایک بڑی شکایت فوجیوں میں یہ پیداہوئی کہ ان فیلڈ رائفلوں کے لئے جو کارتوس بنائے جاتے ہیں، ان میں گائے اور سور کی چربی ہے، ظاہر ہے کہ یہ ایک ناقابل برداشت بات تھی۔ 
               جب کسی قوم سے نفرت پیدا ہوتی ہے تو کسی بھی غلط بات پر لوگ یقین کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ 
               ظاہر ہے کہ یہ تمام باتیں جن کا ذکر اوپر کیاگیا وہ سب کی سب من و عن درست نہیں تھیں، ان میں کچھ افواہوں کا عنصر بھی ضرور شامل تھا، مگر برٹش حکومت کی طرف سے ہندوستانیوں کے خلاف مختلف محاذوں پر جو بدترین مظالم کا سلسلہ جاری تھا ان کے پیش نظر ان افواہ آمیز خبروں کو حقیقت سمجھنا کچھ مشکل نہ تھا، بالخصوص انگریزوں کے غرور آمیز لب و لہجہ اور ہندوستانیوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک نے لوگوں کو ایسا متنفر کریا تھا کہ وہ اس طرح کی ہر بات کو قرین قیاس سمجھنے میں حق بجانب تھے، دوسری طرف انگریزوں کو اپنی طاقت پر اتنا غرور تھا کہ وہ اس طرح کی شکایات کو سننے کے لئے تیار نہ تھے، انفرادی طور پر مختلف حلقوں سے حکومت کو اس قسم کے مظالم اور شکایات سے بارہا آگاہ کیاگیا، مگر قوت کے جنون میں انھوں نے ان کو نظر انداز کیا۔ 

انگریز کے خلاف بے چینی کا آغاز:

               بالآخر وہی ہواجو اس قسم کے حالات میں ہمیشہ ہوتا آیا ہے، عوامی بے چینی پیدا ہوئی اور پورے ملک میں ایک زلزلہ برپا ہوگیا۔ 
               کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اس بے چینی نے ۲۲/جنوری ۱۸۵۷/ کو دم دم (کلکتہ) میں عملی شکل اختیار کی، دم دم میں مقیم دیسی سپاہیوں نے اپنے انگریز سے کارتوس کے قصے کی شکایت کی، مگر حکومت کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی کہ کارتوسوں میں کوئی ناجائز چیزاستعمال نہیں کی جارہی ہے، حکومت مطمئن تھی کہ بے چینی ختم ہوگئی، مگر ایسا نہیں ہوا، کلکتہ سے ۱۶/میل دور بارک پور کے فوجیوں کے بہرام پور (بارک پور سے ۱۰۰ / میل دور) کی انیسویں رجمنٹ میں بے چینی کا بیج بودیا، ۱۹/ فروری کی رات اس رجمنٹ نے مظاہرہ شروع کردیا، کرنل مجل نے فوجیوں سے اس مظاہرہ کا سبب دریافت کیاتو فوجیوں نے کہا کہ: 
               ”سرکار ہمارا دین بگاڑ رہی ہے، کرنل نے فوجیوں کے سامنے تقریر کی اور سمجھ لیا کہ بات ختم ہوگئی، مگر یہ سلسلہ اندر اندر چلتا رہا، ایک دن بارک پور کی چونتیسویں رجمنٹ کے ایک فوجی نے پریڈ کے وقت ”دین دین“ کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو فرنگیوں کے خلاف جنگ پر اکسایا، سارجنٹ میجر موقع پر پہنچ گیا،اس فوجی نے اس پر گولی چلادی وہ بال بال بچ گیا، بغاوت کے آثار پاکر جنرل ہرسی موقع پر پہنچ گیا، حالات پر قابوپالیاگیا۔ 
               ”یہ دین دین“ کا نعرہ لگانے والا ایک برہمن تھا، ”منگل پانڈے“ ۶/اپریل کو منگل پانڈے پر مقدمہ شروع ہوا، ۷/کو پھانسی کی سزا تجویز کی گئی اور ۸/کو اسے پھانسی پر لٹکادیاگیا، ۲۱/اپریل کو اس کے ایک ساتھی ایشوری پانڈے کو پھانسی دے دی گئی، اس کا جرم یہ تھا کہ منگل پانڈے جب فائر کی تیاری کررہا تھا اور ایشوری سے کہا گیا تھا کہ منگل پانڈے کو گرفتار کرلے تو ایشوری نے تعمیل میں لاپرواہی برتی تھی، جب دوبارہ اس کو حکم دیاگیا تو کہہ دیا، منگل پانڈے تو پاگل ہوگیا ہے۔ 
               بارک پور کی خبریں کسی قدر مبالغہ کے ساتھ شمال ہند تک پہنچیں، اپریل ۱۸۵۷/ کے آخری ہفتہ میں میرٹھ میں ہندوستانی سپاہیوں نے بے چینی کا مظاہرہ کیا، میرٹھ میں انگریزی سپاہیوں کی ایک پوری رجمنٹ موجود تھی،اور یہاں کا توپ خانہ پورے ملک میں سب سے بہتر توپ خانہ تھا، اس لئے یہاں کے فوجی حکام مطمئن تھے، کہ یہاں کسی کو پرمارنے کی مجال نہ ہوگی، ۲۳/اپریل کو پریڈ کاحکم نافذ کیاگیا، ۲۴/ کو دیسی فوج نے پریڈ کی، پریڈ کے بعد حوالدار میجر اوراس کے اردی نے ان کارتوسوں کو چلایا جن کے متعلق خیال تھا کہ ان کے چلاتے وقت دانتوں سے کاٹنا پڑتا ہے، پریڈ ختم ہوئی، دیسی سپاہی اپنی بارکوں میں چلے گئے،اسی رات اردی کے خیمہ کے خیمہ کو آگ لگادی گئی، اگلے دن دیسی سپاہیوں نے کارتوس لینے سے انکار کردیا، مگر انگیز افسروں کی طرف سے فہمائش کے بعد بظاہر ہر بات دب گئی مگر اندر اندر سلگتی رہی، ۶/مئی کو میرٹھ چھاؤنی میں پریڈ کرائی گئی، ہر ایک فوج سے پندرہ پندرہ آدمی منتخب کئے گئے، کل نوے آدمی پریڈ میں موجود تھے، کارتوسوں کی تقسیم کاحکم دیاگیا، پانچ کے سوا سب نے انکارکردیا، جن میں انچاس ۴۹ مسلمان تھے، اور ۳۶ غیرمسلم․․․ ۹/مئی کو ان باغیوں کے خلاف بلند آواز سے دس دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی اور پھر فوراً ہی فوجی نشان چھین لئے گئے، ان کی وردیاں پشت کی طرف سے پھاڑ دی گئیں،اور ان کو ہتھکڑیوں میں جکڑدیاگیا، اور ان پچاسی جوانوں کو پاپیادہ شہر کے جیل خانہ میں پہنچادیاگیا، مظلوموں کے اس جلوس نے بغاوت کے شعلوں کو ہوادی، اور اس کی چنگاری دور دور تک پہنچ گئی اوراس طرح دیکھتے دیکھتے ملک کے مختلف حصوں میں بالخصوص شمالی ہندوستان میں ہر طرف بغاوت کے شعلے بھڑکنے لگے، قصہ طویل ہے، خلاصہ یہ ہے کہ ہر طرف سے ایک آواز آئی تھی کہ دہلی چلو، اور ”خاندان تیموریہ“ کے ظل ہمایونی میں ایک منظم تحریک بنانے کا آغاز کرو، تاکہ غیرملکی سامراج سے ملک وملت کو آزادی دلائی جاسکے، ۳۱/مئی کی تاریخ متحدہ بغاوت کے لئے مقرر کی گئی، مگر کوئی مضبوط اور تجربہ کار سرپرست نہ ہونے کے سبب وقت سے قبل ہی مختلف علاقوں میں الگ الگ بغاوت کی آگ بھڑکنے لگی، اس طرح جو کام ایک وقت میں مکمل اجتماعی قوت کے ساتھ کرنے کا تھا وہ الگ الگ اور غیرمربوط طور پر سامنے آنے لگا، اور یہی سبب بنا تحریک آزادی کی ناکامی کا، انگریزوں کو سنبھلنے کا موقعہ ملا اور انھوں نے اپنی پوری فوجی طاقت اس بغاوت کو فرو کرنے کے لئے جھونک دی۔ 

دہلی میں انقلابیوں کی آمد:

               غرض ۱۰/مئی ہی سے بغاوت کا آغاز ہوگیا، ہر طرف سے مجاہدوں نے طے کیاکہ جلد سے جلد دہلی پہنچیں حالانکہ دہلی میں فوج کی اتنی بڑی جمعیت تھی کہ باغیوں پر دہلی کے دروازے بند کرسکتی تھی، لیکن میرٹھ سے اطلاع ان کو دیر سے دی گئی، اور دہلی تار پہنچا تو دہلی کا ریزیڈنٹ سائمن فریٹررینڈ پانشہ میں ایسا بے خود تھا کہ تار کو بغیر پڑھے جیب میں رکھ کر سوگیا، مجاہدین کو کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی اور وہ بآسانی دہلی پہنچ گئے۔ 
               حضرت مولانا محمد میاں صاحب نے دہلی میں انقلابی افواج کی آمد کی منظر کشی اس طرح کی ہے: 
               ”۱۱/مئی ۱۸۵۷/ مطابق ۱۶/رمضان ۱۲۷۴ھ دو شنبہ کے دن صبح کے سہانے وقت جمنا کے ایک کنارے لال قلعہ سرخ و سپید پر جہاں، اور ان کے سنہرے کلس آفتابی کی کرنوں سے شوخیاں کررہے تھے، اور دوسرے کنارہ پر جوش و خروش سے دلرفتہ انقلابی فوج بے چینی سے گزرگاہ تلاش کررہی تھی۔“ 
               اسی کنارہ پر پرمٹ کی چوکی تھی، باغی فوج نے اس میںآ گ لگائی کلکٹر کو مارا، پھر کشیوں کے پل پر پہنچے، محکمہ تار کا انگریز افسر جس کا نام ٹاڈ تھا، سامنے آیا،اس کو قتل کیا، کلکتہ دروازہ جو کشتیوں کے پل کے قریب تھا، (موجودہ ریلوے لائن سے شمال کی طرف) اس نے ان سرفروش انقلابیوں کے استقبال میں تامل کیا، تو سامنے راج گھاٹ کے کھلے دروازے نے اپنی طرف اشارہ کرکے داخلہ کی اجازت دے دی، پیادہ اور سواروں کی بھیڑ قلعہ معلی کے جھروکوں کے نیچے سے گزرتی ہوئی آگے بڑھی اور راج گھاٹ کے دروازے سے شہر میں داخل ہوئی، اب داخل ہونے والی فوج کے داہنے جانب قلعہ تھا، اور بائیں جانب کسی قدر فاصلہ سے دریاگنج، جہاں کچھ انگریزوں کے بنگلے تھے، فوج قلعہ کی طرف بڑھی، پھاٹک پر سنتری موجود تھے، مگر اشاروں ہی اشاروں میں ایسی باتیں ہوئیں کہ انقلابی فوج بلا مزاحمت قلعہ میں داخل ہوکر بادشاہ کے حضور میں پہنچ گئی۔ (علماء ہند کا شاندار ماضی۴/۹۱) 

انقلاب کے لئے بادشاہ کی شخصیت کا استعمال

               بادشاہ کی حیثیت اس دور میں بظاہر برٹش گورنمنٹ کے ایک وظیفہ خوار سے زیادہ نہ تھی، اس کے پاس کوئی اختیار نہ تھا، لیکن بے معنی ہی سہی عوام میں اس کو جو اعتماد و وقار حاصل تھا وہ شاید پورے ملک میں کسی ایک شخص کو حاصل نہیں تھا، ہزار کمزوریوں کے باوجود بلاتفریق مذہب وملت لوگوں کوایک نقطہ پرمتحد کرنے کے لئے مغل بادشاہ کے نام کا سکہ جس طرح چل سکتا تھا پورے ہندوستان میں کوئی دوسرا ادارہ یا فرد اس شان کا موجود نہیں تھا، اس لئے مجاہدین نے بجا طور پر یہ فیصلہ کیاکہ اس تحریک کی سرپرستی کے لئے بادشاہ سے درخواست کی جائے، بادشاہ شروع میں گھبرایا، لیکن آخر اس کی رگوں میں خاندانِ تیمور کا خون گردش کررہاتھا، اس کے خاندان نے صدیوں اس ملک کی خدمت کی تھی،اوریہاں کے عوام کے ہر درد و غم کو اپنا درد و غم سمجھا تھا، بادشاہ نے مجاہدین کی درخواست پر تھوڑے دنوں کے بعد تحریک آزادی کی سرپرستی قبول کرلی۔ 
               بادشاہ کی طرف سے مجاہدین کی حوصلہ افزائی کے بعد تحریک جہاد کو کافی فروغ ملا،اور ملک کے تمام حصوں میں یہ تحریک پوری قوت کے ساتھ پھیل گئی، ہر علاقے کے ہندو مسلمان انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے،یوپی اور بہار سے تلنگوں کی جماعت اس تحریک میں سب سے پیش پیش تھی، میرٹھ، مظفرنگر، سہارنپور، پنجاب، بنگال ہر طرف اس تحریک کے شعلے آسمان کو چھونے لگے،اور انگریزوں کے خلاف پورے ملک کی فضا ایسی خراب ہوگئی کہ ان کے لئے بظاہر اس ملک کی سرزمین تنگ ہوگئی، اگر اس تحریک کو مضبوط اور منظم قیادت مل جاتی اور اس عوامی تحریکی قوت کو انگریزوں کے خلاف سلیقہ کے ساتھ استعمال کیا جاتا تو ۱۸۵۷/ ہی میں اس ملک سے انگریزوں کا خاتمہ ہوجاتا، لیکن افسوس ایک تو بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی عمر کافی ہوچکی تھی، جس کی وجہ سے اس کی خوداعتمادی اور قوت فیصلہ کمزور ہوچکی تھی، دوسرے اس کے ارد گرد ایسے نااہل، عافیت پسند اور بعض منافقین کی ایسی جماعت اکٹھی ہوگئی تھی، جو ایسی عظیم تحریک کی قیادت نہیں کرسکتے تھے، چنانچہ چارماہ کی طاقتور جدوجہد کے بعداس تحریک میں کمزوری کے آثار پیدا ہوئے، انگریزوں کا دفاع منظم اور منصوبہ بند تھا، وہ تو ․․․ خرید وفروخت کے اصول پر گامزن تھے، کتنے ہی ہندوستانی چند مفادات کے لئے انگریزوں کے وفادار ہوگئے، اچھے اچھے لوگوں سے اچھے مستقبل کی امید میں اس تحریک کے بجائے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ 
               بالآخر تحریک اس وقت بکھر کر رہ گئی اور ملک کی آزادی قریب ایک صدی کیلئے پیچھے ہوگئی۔ 

جہاد کافتویٰ:

               اس تحریک آزادی میں علماء اور مذہبی قائدین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، بلکہ سچ یہ ہے کہ علماء کے فتویٴ جہاد ہی کی بناپر اس تحریک کو قوت ملی، اگر مذہبی جوش اور جہاد کا پاک جذبہ شامل نہ ہوتا تو انگریزوں کی مضبوط حکومت سے ٹکرلینے کی جسارت آسان بات نہ تھی، اس لئے اس تحریک کو تمام تر غذا علماء کے طبقہ سے ملی،اور عوام اور مجاہدین نے اس کو بڑھایا اور پھیلایا۔ 
               سب سے پہلا فتویٰ جہاد ۱۸۵۷/ کی تحریک آزادی سے پچاس سال قبل حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے دیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ : 
               اس اطراف میں اور یہاں سے لے کرکلکتہ تک نصاریٰ کا حکم جاری ہے، وہ بلاروک ٹوک جو کچھ چاہتے ہیں کرتے ہیں، عبادت گاہوں تک مسمار کرڈالتے ہیں، مذہب کا کوئی احترام ان کی نظر میں نہیں ہے۔ (فتاویٰ عزیزیہ، شاندار ماضی: ۴/۱۶۴) 
               اسی فتوی پر عمل کرتے ہوئے آپ کے مرید خاص اور اس تحریک کے سب سے بڑے علمبردار حضرت سید احمد شہید نے مہاراجہ گوالیار سے امداد کی اپیل کی تھی اور شکوہ کیاتھا کہ: 
               ”بیگانگان بعیدالوطن ملوک زمین وزماں گردیدہ و تاجران متاع فروش بپایہٴ سلطنت رسیدہ“ یعنی سات سمندر پار کے اجنبی، زمین وزماں کے مالک بن گئے ہیں اور بیچنے والے سوداگر منصب حکومت تک پہنچ گئے ہیں۔ (علماء ہند کا شاندار ماضی: ۴/۱۶۵) 
               حضرت شاہ عبدالعزیز کا یہ فتویٰ پورے ملک میں مشہور اور متفق علیہ تھا۔ 
               اسی لئے انگریزوں کی غلط حکمت عملی، توہین آمیز سلوک اور ملک کی مجموعی ابتری کے وقت جب تحریک جہاد شروع ہوئی تو کسی حلقے سے یہ سوال نہیں اٹھایاگیا کہ انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا جائز ہے یا نہیں، ابھی تیس سال قبل ہی تو سید احمد شہید کی تحریک جہاد کا سلسلہ بالاکوٹ کی گھاٹیوں میں ختم ہوا تھا اورابھی ان پہاڑوں کی چٹانوں سے ان شہدا کے خون کے نشانات مٹے بھی نہ تھے کہ ۱۸۵۷/ کی تحریک جہاد شروع ہوگئی، اس لئے بالاتفاق ہر طرف اس آواز کو قبولیت حاصل ہوئی، اور ملک کے ہر حصے میں جہاد کے علمبردار کھڑے ہوگئے، البتہ انگریزوں کے دوسرے بہت سے جنگی حربوں کی طرح جھوٹے فتوؤں کا حربہ بھی استعمال کیا اور عوام میں اس کے بالمقابل ایک دوسرے جھوٹے فتوے کا پروپیگنڈہ کیاگیا کہ: 
               ”انگریز حاکمِ وقت ہے، مسلمان اس کی پناہ میں ہیں (مستامن ہیں)پس اطاعت واجب ہے اور غدر حرام“ (شاندار ماضی: ۱۶۵) 
               حالانکہ یہ بالکل غلط بات تھی، انگریز نہ جائز حکمراں تھے اورنہ مسلمانوں نے کبھی ان کی حکومت کو بجان و دل قبول کیا تھا، وہ غاصب اور ظالم تھے، اور طاقت کی بدولت مسلمانوں کی حکومت چھین لی تھی، غاصبانہ حکومت کو جائز حکومت کبھی نہیں قرار دیا جاسکتا تھا،اور نہ ایسی حکومت کی حفاظت کے لئے کوشش کرنا درست تھا، مگر انگریزوں کا پروپیگنڈہ اتنا طاقتور تھا اور ان کے ذرائع ابلاغ اتنے وسیع اور مضبوط تھے کہ بہت سے مسلمان اور ہندوستانی لوگ اس دام میں آگئے۔ 
               دوسری طرف انگریزوں کی جنگی طاقت کا رعب لوگوں پر اتنا زیادہ تھا اور ان کے مقابلے میں مسلمانوں کے وسائل حرب بہت محدود تھے، کہ جہاد ایک طرح سے احمقانہ خودکشی معلوم پڑتی تھی۔ 
               تیسری طرف مسلمانوں میں قیادت کا ایسا زبردست خلا تھا، اور جو تھا اس میں اتنا انتشار تھا کہ شرائط جہاد کی تکمیل کا مسئلہ کھڑاہوگیا تھا، کہ بغیر کسی امیر کے جہاد درست ہے یا نہیں؟ 

دہلی میں علماء کا اجتماع:

               یہی وہ حالات تھے جن کی بنا پر ضرورت پڑی کہ دوبارہ علماء کا اجتماع بلایا جائے، اور اس مسئلہ کو پھر سے منقح کرلیا جائے کہ فی زمانہ جہاد کی شرعی اہمیت کیا ہے؟ مسلمانوں کے لئے انگریزوں کے خلاف جہاد کے لئے اٹھ کھڑا ہونا درست ہے یا نہیں؟ اور شرائط جہاد کی تکمیل ہورہی ہے یا نہیں؟ 
               یہ نیک کام اللہ پاک نے جنرل بخت خاں کی آمد کے ذریعہ کرایا، جو سلطان پور لکھنوٴ کا رہنے والا تھا،اور اودھ کے شاہی خاندان سے رشتہ داری رکھتا تھا، اس کے پیرورمشد مولانا سرفراز علی خاں حضرت سید احمد شہید سے وابستہ تھے، بادشاہ سے جب اس کی ملاقات ہوئی اور بادشاہ کو اس کی صلاحیت کا اندازہ ہوا، تو بادشاہ نے اس کو تمام افواج کا سپہ سالارِ اعظم بنادیا، اوراس طرح حسن انتظام اور حسن عقیدہ کا جو خلا لال قلعہ میں پایا جاتا تھا، پُرہوگیا، اب سوال صرف یہ رہ گیا کہ کیا ہمارے پاس دشمن سے مقابلہ کی طاقت ہے یا نہیں؟ بہت سے علماء کو اس باب میں شبہ تھا، دہلی میں مولانا محبوب علی صاحب اور تھانہ بھون میں شیخ محمد تھانوی وغیرہ کئی علماء اسی قسم کے تذبذب میں مبتلا تھے، جامع مسجد میں علماء کا ایک بڑا اجتماع بلایاگیا اور استفتا پیش کیاگیا، جس کی عبارت یہ تھی: 

فتویٴ جہاد کی تجدید:

               سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین؟ اس امر میں کہ اب جوانگریز دلی پر چڑھ آئے اوراہل اسلام کی جان ومال کا ارادہ رکھتے ہیں، اس صورت میں اب شہر والوں پر جہاد فرض ہے یا نہیں؟ اور اگر فرض ہے تو وہ فرض عین ہے یا نہیں؟ اور لوگ جو اور شہروں اور بستیوں والے ہیں ان کو بھی جہاد چاہئے یا نہیں؟ بیان کرو، اللہ تم کو جزائے خیر دے۔ 
               جواب: درصورت مرقومہ فرض عین ہے، اور اوپر تمام اس شہر کے لوگوں کے اوراستطاعت ضرور ہے، اس کی فرضیت کے واسطے چنانچہ اب اس شہر والوں کو طاقت مقابلہ اور لڑائی کی ہے بسبب کثرت اجتماع افواج کے اور مہیا اور موجود ہونے آلات حرب کے تو فرض عین ہونے میں کیا شک رہا اور اطراف واحوال کے لوگوں پر جو دورہیں باوجود خبر کے فرض کفایہ ہیں، ہاں اگر اس شہر کے لوگ باہر ہوجائیں مقابلے سے یا سستی کریں اور مقابلہ نہ کریں تو اس صورت میں ان پر بھی فرض ہوجاویگا اور اسی طرح اور اسی ترتیب سے سارے اہل زمین پر شرقاً اور غرباً فرض عین ہوگا،اور جو عدو اور بستیوں پر ہجوم اور قتل وغارت کا ارادہ کریں تو اس بستی والوں پر بھی فرض عین ہوجائے گا بشرط ان کی طاقت کے۔                                                                (العبد المجیب احقر،نور جمال عفی عنہ) 
               اس فتویٰ پر درج ذیل علماء نے دستخط کئے اور مہریں لگائیں: 
               (۱) سید محمد نذیرحسین (۲) رحمت اللہ (۳) مفتی محمد صدرالدین (۴) مفتی اکرام الدین معروف سید رحمت علی (۵) محمد ضیاء الدین (۶) عبدالقادر (۷) فقیر احمد سعید احمدی (۸) محمد میر خاں (پامیر محمد پامیرخان محمد) (۹) محمد عبدالکریم (۱۰) فقیر سکندر علی (۱۱) محمد کریم اللہ (۱۲) مولوی عبدالغنی (۱۳) خادم العلماء محمد عبدالغنی (۱۴) فریدالدین (۱۵) محمد سرفراز علی (۱۶) سید محبوب علی جعفری (۱۷) ابواحمد محمد حامی الدین (۱۸) سید احمد علی (۱۹) الٰہی بخش (۲۰) محمد مصطفی خاں ولد حیدر شاہ نقشبندی (۲۱) محمد انصار علی (۲۲) مولوی سعید الدین (۲۳) حفیظ اللہ خان (۲۴) محمد نورالحق عفی عنہ (۲۵) سراج العلماء ضیاء الفقہاء مفتی عدالت عالیہ محمد رحمت علی خاں (۲۶) واللہ الغنی وانتم الفقراء (۲۷) حیدر علی (۲۸) سیف الرحمن (۲۹) سید عبدالحمید عفی اللہ عنہ (۳۰) یاسید حافظ (۳۲) محمد امداد علی عفی عنہ (۳۳) خادم شریف رسول الیقین قاضی القضاة محمد علی حسین۔ اس فتویٰ کا عکس جو سوتنتر دہلی اور نوائے آزادی میں شائع ہوا ہے۔ (علماء ہند کا شاندار ماضی: ۴/۱۷۸-۱۷۹) 
               سوال وجواب کے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ علماء کے سامنے اصل مسئلہ یہ نہیں تھا کہ انگریزوں سے جہاد جائز ہے یا نہیں، بلکہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ اسلام نے مشروعیت جہاد کی جو شرطیں مقرر کی ہیں وہ پوری ہورہی ہیں یا نہیں؟ 

غلط بیانی:

               بہت ہی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ سرسیّد احمد خان اور منشی ذکاء اللہ نے اس فتویٰ اوراس کے پس منظر کی غلط ترجمانی کی ہے، علماء کے موقف کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے اور تحریک جہاد اور مجاہدین کی خلافِ واقعہ تصویر پیش کی ہے، سرسیّد صاحب کی مشہور کتاب ”اسباب بغاوت ہند“ سے دو اقتباسات پیش ہیں: 
               ”اوریہ جوہر ضلع میں پاجی اور جاہلوں کی طرف سے جہاد کا نام ہوا، اگر ہم اس کو جہاد ہی فرض کریں تو بھی اس کی سازش اصلاح قبل دسویں مئی ۱۸۵۷/ مطلق نہ تھی، غور کرنا چاہئے کہ اس زمانہ میں جن لوگوں نے جھنڈا جہاد کا بلند کیا، ایسے خراب اور بدرویہ اور بد اطوار آدمی تھے کہ بجز شراب خوری اور تماش بینی اور ناچ و رنگ دیکھنے کے کچھ وظیفہ ان کا نہ تھا، بھلا یہ کیوں کر پیشوا اور مقتدا جہاد کے گنے جاسکتے تھے،اس ہنگامے میں کوئی بات بھی مذہب کے مطابق نہیں ہوگی۔ 
               دہلی میں جو فتویٰ جہاد کا چھپا وہ ایک عمدہ دلیل جہاد کی سمجھی جاتی ہے، مگر میں نے تحقیق سے سنا ہے اوراس کے اثبات پر بہت دلیلیں ہیں، کہ وہ محض بے اصل ہے، میں نے سنا ہے کہ جب فوج نمک حرام میرٹھ سے دہلی میں گئی، تو کسی نے جہاد کے باب میں فتویٰ چاہا، سب نے فتویٰ دیا کہ جہاد نہیں ہوسکتا، اگرچہ اس سے پہلے فتویٰ کی میں نے نقل نہیں دیکھی ہے، مگر جب کہ وہ اصل فتویٰ معدوم ہے، تو میں اس نقل کو نہیں کہہ سکتا کہ وہ کہاں تک لائق اعتماد کے ہے، مگر جب بریلی کی فوج دہلی میں پہنچی اور دوبارہ فتویٰ ہوا، جو مشہور ہے اور جس میں جہاد کرنا واجب لکھا ہے، بلاشبہ اصل نہیں، چھاپنے والے اس فتویٰ کے نے جو ایک مفسد اور نہایت قدیمی بدذات آدمی تھا، جاہلوں کے بہکانے اور ورغلانے کو لوگوں کے نام لکھ کر اور چھاپ کر اس کو رونق دی تھی، بلکہ ایک آدھ مہر ایسے شخص کی چھاپ دی تھی جو قبل غدر مرچکا تھا، مگر مشہور ہے کہ چند آدمیوں نے فوج باغی بریلی اوراس کے مفسد ہمراہیوں کے جبراور ظلم سے مہریں بھی کی تھیں۔“ (اسباب بغاوت ہند:۷-۱۰) 
               منشی ذکاؤ اللہ لکھتے ہیں: 
               ”جب تک دہلی میں بخت خاں نہیں آیا، جہاد کے فتویٰ کا چرچا شہر میں بہت کم تھا، مساجد میں ممبروں پر جہاد کا وعظ کمتر ہوتاتھا، دلی کے مولوی اوراکثر مسلمان خاندان تیموریہ کو ایسا خولہ خبطہ جانتے تھے کہ وہ ناممکن سمجھتے تھے کہ اس خاندان کی بادشاہی ہندوستان میں ہو مگر اس کے ساتھ جاہل مسلمانوں کو یہ یقین تھا کہ انگریزی سلطنت کے بدن میں یہ ایسا پھوڑا نکلاکہ وہ جانبر نہیں ہوگی۔“ 
               یہ کام لچے شہدے مسلمانوں کاتھا کہ وہ جہاد جہاد پکارتے پھرتے تھے، مگر جب بخت خاں، جس کا نام اہل شہر نے کم بخت خاں، رکھا تھا، دلی میں آیا تو اس نے یہ فتویٰ لکھایا کہ مسلمانوں پر جہاداس لئے فرض ہے کہ اگر کافروں کی فتح ہوگی تو وہ ان کے بیوی بچوں کو قتل کرڈالیں گے، اس نے جامع مسجد میں مولویوں کو جمع کرکے جہاد کے فتوے پر دستخط ومہریں ان کی کرالیں اورمفتی صدرالدین نے بھی ان کے جبر سے اپنی جعلی مہر کردی لیکن مولوی مجبوب علی اور خواجہ ضیاء الدین نے فتویٰ پر مہریں نہیں کیں،اور بے باکانہ کہہ دیاتھاکہ شرائط جہاد موافق مذہب اہل اسلام موجود نہیں۔ 
               اس فتویٰ کا اثر یہ تھا کہ جاہل مسلمانوں کا جوش مذہبی زیادہ ہوگیا، جن مولویوں نے فتویٰ پر مہریں کی تھیں، وہ کبھی پہاڑی پر انگریزوں سے لڑنے نہیں گئے، مولانا نذیر حسین جو وہابیوں کے مقتدا اور پیشوا تھے، ان کے گھر میں ایک میم چھپی بیٹھی تھی اس فتویٰ پر کچھ مہریں اصلی اور کچھ جعلی تھیں، ایک مولوی کی مہر تھی جو غدر سے پہلے قبر میں سوچکا تھا۔(تاریخ عروج عہد انگلشیہ: ۶۷۵) 
               سرسید مرحوم اور مفتی ذکاء اللہ دونوں کے درج بالا بیانات غلط اور خلاف واقعہ ہیں، اصل واقعہ وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا، حضرت مولانا محمد میاں صاحب نے ان دونوں حضرات کے بیانات کا احتساب کرکے ان کو غلط ثابت کیاہے۔ (ملاحظہ ہو علماء ہند کا شاندار ماضی: ۴/۱۶۴-۱۷۵) 
               ”ایک طرف علماء کے فتویٰ سے مسلمانوں میں جذبہٴ حریت پیدا ہوا، تو دوسری طرف پنڈتوں نے بھی ہندوؤں میں انگریزوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنایا، منشی ذکاء اللہ خان کا بیان ہے: 
               ہندوؤں کے پنڈت، مسلمانوں کے مولویوں کی نسبت انگریزوں سے عداوت کرنے میں کچھ کم نہیں تھے، کئی دفعہ انھوں نے پتروں کو دیکھ بھال کر لڑنے کی شبھ مہورت نکال کر تلنگوں کو بتلائے اوران کو یقین دلایاکہ ان میں اگر لڑنے جاؤگے تو فتح پاؤگے، ایک عجیب تماشا چاندی چوک اور بازاروں میں یہ دیکھنے میں آتا تھا کہ پنڈتوں کے ہاتھ میں پوتھیاں ہیں اور وہ ہندوؤں کو دھرم شاستروں کے احکام سنارہے ہیں کہ انگریز ملکشوں سے لڑنا چاہئے، جب لڑائیوں میں تلنگوں کی لاشیں چارپائیوں پر ان کے سامنے آئیں تو وہ ہندوؤں کو اپدیش دیتے کہ ان سرگ باشیوں کی طرح سرگ میں چلے جاؤ، جن کے لئے نہ ارتھی کی ضرورت تھی نہ کرم کریا کی۔ (تاریخ عروج عہد انگلشیہ: ۶۷۶) 
               مگراس جنگ میں ہندوؤں کی تعداد مسلمانوں سے کم تھی، جب کہ ملک میں ان کی تعداد زیادہ تھی، مگر یہ جنگ مسلمان لڑرہے تھے، ملک ان کے ہاتھوں سے چھینا گیا تھا، اس لئے قدرتی طور پر ان میں زیادہ طبقہ تھا، ہندو تو پہلے بھی عام شہری تھے اوراب بھی تھے، ان کا کچھ زیادہ نقصان نہیں تھا۔ 
               اس موقع پر مسلم شعراء نے بھی جہاد کی اسپرٹ پیدا کرنے میں نمایاں حصہ لیا، اس دور میں حضرت مولانا لیاقت علی صاحب کی یہ چھوٹی سی نظم کا فی مشہور ہوئی تھی: 

واسطے دین کے لڑنا نہ پئے طبع بلاد

اہل اسلام اسے شرع میں کہتے ہیں جہاد

مال و اولاد اور گھر کی محبت چھوڑو

راہِ مولیٰ میں خوشی ہو کے شتابی دوڑو

گر پھرے جیتے تو گھر بار میں پھر آؤ گے

اور گئے مارے تو جنت کو چلے جاؤ گے

(تاریخ بغاوت ہند: ۳۰۰/ بحوالہ شاندار ماضی: ۴/۱۹۷)

               غرض تمام اسلامی جنگوں کی طرح مسلمانوں نے اور بالخصوص علماء نے اس جنگ میں سب سے زیادہ نمایاں حصہ لیا ہے۔ 
               اب ان چند علماء کا تذکرہ کیاجارہا ہے، جو ۱۸۵۷/ کی جنگ آزادی میں صف اوّل میں نظر آتے ہیں، یوں گمنام مجاہدین اور شہدا کی تعداد ہزاروں اور لاکھوں سے متجاوز ہوگی، جن کا علم رب العالمین کے سوا دنیا میں کسی کو نہیں ہے، اورجن کو شایان شان اجر مالک یوم الدین کے سوا کوئی نہیں دے سکتا ہے۔ 

حضرت مولانا مفتی صدرالدین خاں کشمیری آزردہؔ

               والد ماجد کا نام مولانا لطف اللہ کشمیری ہے، حدیث کی اجازت شاہ محمداشحاق دہلوی سے ملی، علوم عقلیہ مولوی فضل امام خیرآبادی سے پڑھے، تمام علوم وفنون میں یگانہٴ روزگار تھے، ایام جنگ میںآ پ دہلی میں صدرالصدور کے عہدہ پر فائز تھے، آپ ان مخصوص علماء وزعماء میں ہیں جنھوں نے جامع مسجد میں ہونے والے فقہی اجتماع کے فتویٰٴ جہاد پر دستخط کئے تھے، آپ کے مکان پر بادشاہ کے علاوہ تمام اکابر واعیان اور علماء و شعراء حاضری دیتے تھے، ہر وقت دربار کا سماں رہتا تھا، فصاحت وبلاغت اور اخلاق واحسان میں بے نظیر تھے، ۱۸۵۷/ کی جنگ میںآ پ کی آنکھ سخت زخمی ہوگئی، روزگار جاتارہا، املاک وجائداد جوتیس سال کی ملازمت سے حاصل کی تھی ضبط کرلی گئی، کئی ماہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے، رہائی ملی، تو لاہور چلے گئے، پھر دہلی میں اپنی جائداد کی واپسی کی کوشش کی تو جائداد غیرمنقولہ واپس مل سکی، بستی حضرت نظام الدین میں کچھ دن رہے، پھر اپنی حویلی میں خلوت نشیں ہوگئے۔ 
               شروع میں مفتی صاحب کے انگریزی حکومت سے بڑے اچھے تعلقات تھے، اسی لئے برے اونچے مناصب پر فائز رہے، لیکن جب یہ تحریک جہاد شروع ہوئی تواس کے بھی بنیادی رکن قرار پائے۔ 
               انقلاب ۵۷/ کے بعد مفتی صاحب کا ایک اہم کارنامہ قابل ذکر ہے، کہ انقلاب کے موقعہ پر دہلی کی جامع مسجد پر انگریزوں نے قبضہ کرلیا تھا، دوسال تک ان کا قبضہ برقرار رہا، اور یہ عظیم الشان مسجد سجدوں سے محروم رہی، مفتی صاحب نے شاہی خاندان کے ایک فرد مسند الٰہی بخش اور دیگر علماء دین شہر کے ساتھ مسجد کی واگزاشت کی کوشش کی، چنانچہ گورنمنٹ نے یہ مسجد مسلمانوں کے حوالہ کی، اوراکابر شہر کی ایک مختصر سی انتظامیہ کمیٹی بنادی گئی، اس کمیٹی میں مفتی صاحب اور مولانا اکرام اللہ خان بھی شامل تھے۔ (غدر کے چند علماء، از مفتی انتظام اللہ شہابی:۸۳) 
               آخر عمر میں ایک دوسال فالج میں مبتلا رہے، اکیاسی(۸۱) سال کی عمر میں یوم پنجشنبہ ۲۴/ربیع الاوّل ۱۲۸۵ھ میں انتقال فرمایا۔ (حدائق الحنفیہ:۴۸۲) 

نواب مصطفی خان شیفتہ

               والد کانام نوب مرتضیٰ خان بہادر، دہلی میں ۱۸۰۶/ میں پیداہوئے، عظیم الدولہ، اور ”سرفراز ملک“ آپ کے خطابات تھے، ”شیفتہ“ تخلص کرتے تھے، بقول سرسید ”علمی قابلیت میں بدرمنیر، اور ماہ تاباں، تقوی، طہارت اور خداپرستی میں زاہد شب زندہ دار تھے“ دہلی کے کامل فن اساتذہ سے عربی اور فارسی کی تکمیل کی، مولانا حاجی نور محمد صاحب دہلوی سے حدیث وقرأت کی کتابیں پڑھیں۔ شعر و شاعری میں مومن خاں مومنؔ کے شاگرد ہیں۔ 
               مجددی نقشبندی سلسلہ میں بیعت تھے، بڑے پابند شرع اور منکرات سے بچنے والے، آپ کے زمانہ میں نواب اور رئیس تو کیا مشائخ کے یہاں بھی سماع اور قوالی کا رواج تھا، مگر آپ کی احتیاط کا عالم یہ تھاکہ ترنم کے ساتھ اشعار سننا بھی پسند نہیں کرتے تھے، خود آپ کا قول ہے: 

ڈر ہے کہ نہ ہو شوق مزامیر شیفتہؔ

ورنہ کبھی سماعِ مجرد سنا کروں

               ۱۸۵۷/ کے انقلاب میں آپ پیش پیش تھے، اس سلسلے میں نواب ولی داد خاں رئیس مالاگڈھ سے وابستہ تھے، بادشاہ سے خط وکتابت کا کام آپ ہی کے سپرد تھا، تحریک ناکام ہوئی تو آپ گرفتار کرلئے گئے، مگر رعایت یہ ہوئی کہ سات سال قید کی سزا ہوئی، پھرنواب صدیق حسن خاں والی بھوپال کی جان توڑ کوششوں کے نتیجے میں قید سے رہائی ملی، لیکن وظائف سرکاری بند اور ذاتی جائداد کا نصف حصہ بھی ضبط کرلیاگیا۔ 
               ذیابیطس کا عارضہ تھا، آخر میں سرطان میں بھی مبتلا ہوگئے تھے، بڑی تکلیفیں جھیلنے کے بعد ترسٹھ سال کی عمر میں ۱۸۶۹/ میں انتقال فرمایا، اور درگاہ حضرت نظام الدین میں مدفون ہوئے۔ (شاندار ماضی: ۴/۲۳۲-۲۳۵) 

مولانا امام بخش صہبائی شہید

               والد کانام مولانا محمد بخش تھانیسری تھا، سلسلہٴ نسب والد کی طرف سے حضرت فاروق اعظم سے اور والدہ کی طرف سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی سے ملتا ہے، دلی کالج میں فارسی کے مدرس تھے، خطاطی میں یدطولیٰ رکھتے تھے، ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے حرف سونے چاندی کے عوض خریدے جاتے تھے، وہ بھکاری فقیروں کو ایک حرف لکھ کر دے دیتے تھے جو ایک روپیہ کے نوٹ کی طرح ہر جگہ ایک روپیہ کا بکتا تھا۔ دلی کے کوچہٴ چیلان میں قیام تھا، اسی محلہ میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا گھرانا بھی آباد تھا، سرسید خان کا گھر بھی اسی محلہ میں تھا،مولانا مملوک علی نانوتوی نے بھی اسی محلہ میں مکان لیا تھا، مولانا قاسم نانوتوی کا قیام دہلی بھی اسی محلہ میں تھا، بعد کے دور میں مولانا مفتی کفایت اللہ اورسحبان الہند مولانا احمدسعید دہلوی بھی اسی محلہ میں رہتے تھے، غرض یہ ایک تاریخی محلہ تھا، اسی لئے دہلی میں سب سے زیادہ مصیبت اسی محلہ کے باشیوں پر آئی، پورے محلہ کے تمام مردوں کو قتل کردیاگیا یا گرفتار کرکے حاکم کے حکم سے دریا کے کنارے ان کو گولیوں سے بھون دیاگیا، مولانا صہبائی انہی گرفتار شدہ شہیدوں میں ہیں، جن کا خون دریا کی ریت میں جذب ہوگیا، مولانا کے خاندان کے اکیس افراد اس دن شہید کئے گئے، مولانا صہبائی کی شہادت کوئی معمولی بات نہیں تھی، جب یہ خبر آپ کے ہم عصر مفتی صدرالدین آزردہ کو ملی تو بے ساختہ ان کی زبان سے یہ شعر نکلا 

کیوں کر آزردہؔ نکل جائے نہ سودائی ہو

قتل اس طرح سے بے جرم جو صہبائی ہو

               دہلی کے اتنے علماء اور اہل کمال شہید ہوئے کہ علامہ حالی نے اس کو ”دہلی مرحوم“ کا نام دے دیاتھا، حالی نے ایک پورا مرثیہ ہی دہلی کا لکھ ڈالا، چنداشعار پیش ہیں: 

تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوس نہ چھیڑ

نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز

کبھی اے علم و ہنر گھر تھا تمہارا دلی

ہم کو بھولے ہو تو گھر بھول نہ جانا ہرگز

چپہ چپہ پہ ہیں یہاں گوہر یکتا تہ خاک

دفن ہوگا کہیں اتنا نہ خزانہ ہرگز

غالبؔ و شیفتہؔ نیرؔ و آزردہؔ و ذوقؔ

اب دکھائے گا یہ شکلیں نہ زمانہ ہرگز

مومنؔ و علویؔ و صہباؔئی وممنونؔ کے بعد

شعر کا نام نہ لے گا کوئی دانا ہرگز

بزم ماتم تو نہیں ، بزم سخن ہے حالیؔ

ہاں مناسب نہیں رو رو کے رلانا ہرگز

               اور یہ معاملہ صرف دہلی تک ہی محدود نہ تھا، پورا ملک اس جذبہ آزادی سے سرشار تھا، اور ہر علاقہ کے مسلمان اہل علم اور اصحاب کمال بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتے تھے۔ 

مولانا رحمت اللّٰہ کیرانوی

               والد ماجد کا نام مولانا نجیب اللہ ہے، والد صاحب میرٹھ میں میرمنشی کا کام کرتے تھے، اجداد کا اصل وطن پانی پت تھا، ۱۲۳۳ھ مطابق ۱۸۱۸/ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کیرانہ میں حاصل کی، پھر دہلی گئے، لال قلعہ کے پاس مولانا محمد حیات کے مدرسہ میں داخل ہوئے، اور تعلیم کی تکمیل کی، ۲۴/رمضان ۱۳۰۸ھ مطابق ۲/مئی ۱۸۹۱/ کو مدینہ منورہ میں وفات پائی،اور وہیں مدفون ہوئے۔ 
               مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے بارے میں منشی ذکاء اللہ نے لکھا ہے: 
               سب سے اول مولوی رحمت اللہ کیرانہ سے اس ٹوہ میں آئے کہ دہلی میں جہاد کی کیا صورت ہے؟ وہ بڑے عالم فاضل تھے، عیسائی مذہب کے رد میں صاحب تصنیف تھے، وہ قلعہ کے پاس مولوی محمد حیات کی مسجد میں اترے، اس دانش مند مولوی کے نزدیک دہلی میں جہاد کی کوئی صورت نہ تھی، بلکہ ایک ہنگامہ فساد برپاتھا، وہ پھر کر اپنے وطن چلاگیا۔ (تاریخ عہد عروج انگلشیہ) 
               مگر یہ منشی جی کی غلط بیانی ہے، گرشتہ صفحات میں علماء کے جس فتویٰ کا ہم نے تذکرہ کیاہے، اس پر ایک دستخط محمد رحمت اللہ کے بھی ہیں، زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی ہی ہیں، اس لئے کہ اس دور میں اتنے بڑے علمی اجتماع میںآ پ سے زیادہ بہتر نمائندگی کرنے والا اور شہرت رکھنے والا اس نام کا اور کوئی عالم نہیں ملتا۔ 
               مولانا محمد میاں صاحب نے شاندار ماضی میں مولانا کیرانوی کے پڑپوتے مولانا عارف الاسلام کے مضمون کا ذکر کیا ہے، جس میں مولانا کی شرکت جہاد کی پوری تفصیل ذکر کی گئی ہے، خلاصہٴ مضمون یہ ہے کہ مولانا نے اپنی جدوجہد کا مرکز کیرانہ ہی کو بنایا اور وہیں سے جہادی کام کا آغاز کیا، دراصل ہندوستان کے مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی یہ ساری سرگرمیاں دہلی سے مربوط تھیں اور بادشاہ تیمور کی سرپرستی اور مولانا سرفراز علی اور جنرل بخت کی زیرنگرانی انجام پارہی تھیں، مگر چوں کہ اس وقت کے قانون کے مطابق یہ بغاوت تھی، اس لئے یہ تمام سرگرمیاں باہم مربوط ہونے کے باوجود منتشر دکھائی پڑتی ہیں، ان میں کچھ وسائل کی کمی کا بھی دخل تھا، سرکار کی ناتجربہ کاری اورناپختہ کاری کا بھی اور کچھ دشمنوں کی عیاری وچالاکی کا بھی اور غالباً اسی وجہ سے اتنی بڑی عظیم الشان تحریک چندماہ کے اندر ہی دم توڑ بیٹھی، تحریک کی ناکامی کے بعد جب گرفتاریاں شروع ہوئیں تو مولانا کے نام بھی وارنٹ جاری ہوا، مولانا بچتے بچاتے پنج سیٹھ کے مکھیاکے یہاں روپوش ہوئے، حکومت کو اطلاع ہوئی تو پوری فوج ادھر چل پڑی، مولانا مکھیا کے مشورہ پر کھرپا، لے کر گاؤں سے باہر کھیت میں گھاس کاٹنے بیٹھ گئے، فوج مولانا کے پاس سے گزری پورے گاؤں کا محاصرہ کرلیاگیا، مکھیا گرفتار ہوا، مگر آپ دستیاب نہ ہوسکے، آپ کو مفرور باغی قرار دے کر گرفتاری پر ایک ہزار روپے کے انعام کا اعلان ہوا۔ 
               مولانا نے اپنا نام مصلح الدین بدل کر پاپیادہ دہلی کے لئے روانہ ہوئے، پھر دہلی سے جے پور اور جودھ پور کے مہیب ریگستان کو پیدل عبور کرتے ہوئے بندرگاہ سورت پہنچے، اس زمانہ میں سورت بندرگاہ سے بھی جہاز کا سفر آسان نہ تھا، بادبانی جہاز سال بھر میں صرف ایک مرتبہ ہوا کی موافقت کے زمانے میں سورت سے روانہ ہوتا اور اسی طرح جدہ سے آتا تھا، مولانا کسی طرح جدہ اور پھر مکہ مکرمہ پہنچ گئے، آپ اورآپ کے خاندان کی ساری جائداد جو لاکھوں کی تھی، ضبط کرکے چند کوڑیوں میں نیلام کردی گئی، مولانا نے مکہ مکرمہ میں مدرسہ صولتیہ کی بنیادڈالی، جو آپ کی نہایت عظیم الشان یادگار ہے، فرحم اللہ رحمة واسعة۔ 

ڈاکٹر وزیر خاں

               آپ کے خاندانی حالات کا پتہ نہیں، صرف اس قدر معلوم ہے کہ وہ بہار کے رہنے والے تھے، یورپ کا سفر کیاتھا، انگریزی کے علاوہ یونانی اور عربی زبانوں میں بھی کافی درک رکھتے تھے، یورپ سے واپس آکر آگرہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی، تاج محل کے قریب محلہ کاغذیان میںآ پ کی سکونت تھی، یہیں حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی سے تعارف ہوااور ذہنی وفکری ہم آہنگی نے دونوں عظیم ہستیوں کو انگریزوں کے مدمقابل لاکھڑا کیا، رجب ۱۲۷۲ھ مطابق مارچ ۱۸۵۶/ کا مناظرہ کافی مشہور ہے، پورے ملک میں اس تاریخی مناظرہ کی دھوم مچی تھی، پادری فنڈر جو یورپ سے آیاتھا، کی بدترین شکست اسی مناظرہ میں ہوئی، جس کے بعد فنڈر کے لئے ہندوستان میں منہ دکھانا مشکل ہوگیا، وہ یہا ں سے فرار ہوکر قسطنطنیہ چلاگیا، فنڈر کو شکست دینے والے مولانا رحمت اللہ کیرانوی،اور آپ کے رفیق خاص یہی ڈاکٹر وزیر خان ہیں، اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جب فنڈر نے ترکی میں مسلمانوں کو چیلنج دیا، تو سلطان ترکی نے مکہ معظمہ سے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے جن شخصیتوں کاانتخاب کیا وہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور ڈاکٹر وزیر علی خان ہی تھے، جو اس سے قبل ہجرت کرکے مکہ معظمہ پہنچ چکے تھے۔ 
               ڈاکر وزیر خان ۱۸۵۷/ کے انقلاب میں دہلی میں تھے، بہادر شاہ ظفر اور جنرل بخت خاں کی طرف سے آپ کو جنگی خدمات بھی سپرد کی گئی تھی، جنرل بخت خاں نے آپ کو لارڈ آف آگرہ بھی بنادیا تھا، پھر جنرل بخت خاں کے ساتھ آپ لکھنوٴ تشریف لے گئے، پھر جب ہر طرف ناکامی ہوئی تو چھپتے چھپاتے آپ مکہ معظمہ پہنچ گئے،اور یہاں ڈاکٹری شروع کردی، جس میں آپ کی بڑی شہرت ہوئی، اوریہی آپ کی حفاظت کا ذریعہ بھی بنی، جس کی تفصیل مولانا محمد میاں صاحب نے شاندار ماضی میں اس طرح بیان کی ہے۔ 
               کسی بدوی شیخ کی بیوی بیمارہوئی، مرض لاعلاج تھا، اطباء مایوس ہوچکے تھے، بدوی رئیس نے سب سے مایوس ہوکر ڈاکٹر صاحب سے رجوع کیا، ڈاکٹر صاحب کے علاج سے اللہ تعالیٰ نے مریضہ کو شفا بخشی، یہ بدوی شیخ ڈاکٹر صاحب کا بہت ممنون ہوا، کچھ عرصہ بعد حکومتِ برطانیہ نے حکومت ترکیہ سے گفتگو کرکے ڈاکٹر صاحب کی حوالگی کی پروانہ حاصل کرلیا، جب بدوی سردار کو علم ہوا تو اس نے شریف مکہ کے پاس پیغام پہنچایا کہ ڈاکٹر وزیرخان میری امان میں ہیں، جب تک میرے قبیلے کے بیس ہزار (۲۰۰۰۰) افراد کٹ نہ جائیں گے، ڈاکٹر وزیر صاحب کو حوالہ نہیں کیا جاسکتا، شریف مکہ نے یہ رپورٹ حکومت ترکیہ کو پیش کردی، باب عالی (مرکزی حکومتِ ترکیہ) نے یہ پروانہ منسوخ کردیا۔ (ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی علماء، علماء ہند کا شاندار ماضی: ۴/۳۱۳) 

حضرت حاجی امداد اللّٰہ ”مہاجر مکی“

               آپ کی ولادت تھانہ بھون میں ۲۳/صفر ۱۲۳۳ھ مطابق ۳/جنوری ۱۸۱۸/ میں ہوئی، تاریخ وفات ۱۳/جمادی الاول ۱۳۱۷ھ ہے، والدین نے آپ کانام ”امدادحسین“ رکھا تھا، ۲۷/سال کی عمر میں جب حج بیت اللہ کو تشریف لے گئے، تو حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب نے آپ کا نام بدل کر ”امداداللہ“ رکھ دیا۔ 
               حاجی امداداللہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک پورے عہد کا نام ہے، ۱۸۵۷/ کی اس تحریک میںآ پ کا زبردست حصہ ہے، جس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ انگریزوں کے مظالم کا سلسلہ تو پورے ملک میں برسوں سے جاری تھا، اور ہرجگہ انگریزوں کے خلاف ہرچھوٹی بڑی تحریک کو کچلا جارہا تھا، اسی دوران تھانہ بھون کے رئیس قاضی عنایت علی کے بھائی کا قصہ پیش آگیا، وہ ہاتھی خریدنے کے لئے سہارنپور تشریف لے گئے، کسی نے مخبری کردی اور مسٹر سپینکی (Spankie) مجسٹریٹ سہارنپور نے ان کو گرفتار کرکے پھانسی پر لٹکوادیا، قصہ طویل ہے تفصیل کتابوں میں مذکور ہے۔ (علماء ہند کا شاندار ماضی: ۴/۲۶۹-۲۷۰) 
               اس واقعہ سے پورے علاقے میں انگریزوں سے نفرت کی آگ جوپہلے سے دبی دبی سی تھی اچانک بھڑک اٹھی دہلی، میرٹھ اور دیگر علاقوں میں تحریک جہاد شروع ہوچکی تھی، اس مقامی واقعہ نے اس علاقہ میں بھی اس کے اسباب پیدا کردئیے، حضرت حاجی امداد اللہ کی تحریک جہاد بھی اسی کا ایک حصہ ہے، تھانہ بھون میں ایک اجتماع بلایاگیا، جس میں حضرت حاجی صاحب کے علاوہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی، حضرت مولانا حافظ ضامن شہید، حضرت مولانا منیر نانوتوی، حضرت مولانا شیخ محمد تھانوی،اور بہت سے علماء شریک ہوئے، مسئلہ زیر بحث یہ نہیں تھا کہ انگریزوں کے خلاف جہاد جائز ہے یا نہیں، بلکہ اصل مسئلہ یہ درپیش تھا کہ موجودہ حالات میں موجودہ وسائل کے ساتھ جہاد کیاجاسکتا ہے یا نہیں؟ اسلام کے مطابق شرائط جہاد موجود ہیں یا نہیں؟ اس سلسلے میں معلوم حد تک صرف حضرت مولانا محبوب علی اور حضرت مولانا شیخ محمد تھانوی کو تذبذب تھا، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور حضرت مولانا شیخ محمد تھانوی کامکالمہ دیوبند سے متعلق اکثر کتابوں میں مذکور ہے، حضرت شیخ محمد تھانوی جو حضرت حاجی امداد اللہ کے پیر بھائی تھے، ان کو بنیادی طورپر دو اعتراض تھے۔ 
               ایک تو یہ کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں، دوسرے ہمارے پاس امارت نہیں ہے، جس کی نگرانی میں یہ کام کیاجائے، حضرت مولانا نانوتوی نے دونوں باتوں کا جواب دیا، کہ کیا ہمارے پاس بدرسے بھی کم وسائل ہیں؟ اور جہاں تک امارت کا مسئلہ ہے تو حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے ہاتھ پر بیعت کرلی جائے، اور ایک علاقائی امارت قائم کرلی جائے،اس پر حضرت مولانا شیخ محمد تھانوی خاموش ہوگئے اور ایک امارت قائم ہوگئی، امارت قائم ہونے کے بعد پہلے حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی کو حالات کے جائزہ کے لئے بھیجا گیا، دہلی مرکز سے رابطہ کرنے کے لئے نواب شبیر علی مراد آبادی کو جو بادشاہ ظفر کے مقربین اور بے تکلف مصاحبین میں تھے، دہلی بھیجا گیا، ظاہر ہے کہ دہلی خبر کرنے کا مقصد اس کے سوا کیاہوسکتا ہے کہ اس مقامی امارت کو مرکز کے اتحاد سے جوڑا جائے، اس سلسلے میں حلقہٴ دیوبند کی مختلف کتابوں میں مختلف توجیہات کی گئی ہیں، لیکن ان حالات میں یہ بالکل واضح سی بات ہے کہ دہلی میں بادشاہ کی سرپرستی میں جو مرکزی امارت قائم ہوئی تھی، اس کا مقصد یہ تھا کہ اس مقامی امارت کو اس مرکزی امارت سے جوڑا جائے، تاکہ شرائط جہاد کی تکمیل ہوسکے، اور متحدہ قوت بنائی جائے، اورغالباً اسی چیز کی پیروی بعد کے ادوار میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی نے کی تھی،انھوں نے بھی اپنی تحریک آزادی کے لئے افغانستان اور ترکی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی، جس کا قصہ بہت مشہور ہے۔ 
               مقامی امارت کو دہلی کی مرکزی امارت سے مربوط کرنے کے بعد تھانہ بھون سے کارروائی کا آغاز کیاگیا، حضرت حاجی صاحب امیر، حضرت مولانا قاسم نانوتوی سپہ سالارِ افواج، حضرت مولانا گنگوہی کو قاضی اور دیگرحضرات کو بعض دیگر ذمہ داریاں دی گئیں،اور پھر انگریزوں کے خلاف باقاعدہ مہم شروع ہوئی، سہارن پور سے ایک انگریزی پلٹن شاملی آرہی تھی، جس میں توپخانہ اور جنگ کا بھاری سازوسامان تھا، حضرت مولانا گنگوہی کی قیادت میں ایک فوجی دستہ روانہ ہوا، اور انگریزی پلٹن پر کامیاب چھاپہ ماری کی گئی، اور سارا ساز وسامان ضبط کرلیاگیا، پھر شاملی کا قلعہ فتح کیاگیا، لیکن اس کے بعد دہلی کی ناکامی کے بعد یہاں کا محاذ بھی ٹوٹ گیا، سارا قافلہٴ جہاد منتشر ہوگیا،اور مجاہدین کے خلاف پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی، حضرت مولانا گنگوہی گرفتار ہوئے، اور چھ ماہ جیل کی تکلیف اٹھائی، باقی حضرات روپوش رہے، حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی تو امیر جماعت ہی تھے، آپ تھانہ بھون سے نکل کر مختلف مقامات پر روپوش رہے، کچھ دنوں پنجلاشہ ضلع انبالہ کے رئیس راؤ عبداللہ خان کے یہاں مقیم رہے،اس کے اصطبل کے ایک چھوٹے سے کمرہ میں قیام تھا، انگریزوں کو خبر ہوگئی، تلاشی ہوئی، مگر حضرت کی کرامت کہ آپ ان دشمنوں کی نگاہ سے محفوظ رہے، قصہ بہت مشہور ہے، کچھ دنوں گڑھی پختہ ضلع سہارنپور میں روپوش رہے، یہاں بھی کرامت کا واقعہ پیش آیا، آخر ۱۲۷۶ھ میں ہجرت فرمائی، اور سندھ کے راستے سے کراچی پہنچے اور بحری جہاز سے مکہ معظمہ کے لئے روانہ ہوگئے، اور پھر وہاں سے آپ نے وہ عظیم الشان کام انجام دئیے جن کے فیوض آج تک جاری ہیں۔ 

حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی

               حضرت نانوتوی اس انقلاب میں سب سے پیش پیش تھے، آپ کی شجاعت وبصیرت کے بہت سے واقعات مشہور ہیں، تحریک کی ناکامی کے بعد آپ کے نام بھی وارنٹ جاری ہوا، دوست احباب نے آپ کو روپوش ہوجانے کا مشورہ دیااور ایک علیحدہ جگہ آپ کو پہنچادیا، مگر تین روز کے بعد آپ باہر چلے آئے اور فرمایا کہ غارثور میں حضور … صرف تین دن ہی روپوش رہے تھے، اس سے سنت پوری ہوگئی، اس کے بعد آپ کبھی روپوش نہیں رہے، دوستوں نے لاکھ کہا، مگر آپ آزاد رہے،مگر خدائی حفاظت اورآپ کی حکمت عملی کی آپ دشمنوں کی دسترس سے ہمیشہ محفوظ رہے۔ 
               ایک بار چھتہ کی مسجد میں تھے کہ پولیس پہنچ گئی، آپ نے جوتیاں اٹھائیں اور باہر نکلنے لگے، کپتان پولیس نے خود آپ سے پوچھا، مولانا محمد قاسم کہاں ہیں؟ آپ ایک قدم اورآگے بڑھے اور پیچھے کی طرف اشارہ کرکے فرمایاابھی یہاں تھے، اوریہ کہہ کر مسجد شاہ عزالدین کی طرف چلے گئے، پولیس اندر گئی تو وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔ (سوانح قاسمی: ۲/۱۷۷) 
               حضرت خفیہ طور پر اپنے شیخ حضرت حاجی صاحب سے بھی ملتے رہے، حضرت نانوتوی اپنے شیخ کی طرح ہجرت کرنا چاہتے تھے مگر حضرت حاجی صاحب نے آپ کو روک دیا، نہیں، آپ کو ہندوستان ہی میں رہنا ہے، پھر اللہ نے آپ کے ذریعہ دارالعلوم دیوبند قائم کرایا، جس سے ہندوستان میں اشاعت علم دین کا بے مثال کام انجام پایا۔ 

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی

               حضرت گنگوہی بھی اس انقلاب کے اہم ترین رکن تھے، تحریک کی ناکامی کے بعد داروگیر کا بازار گرم ہوا، ملکہٴ وکٹوریہ کی طرف سے معافی کے اعلان عام کے ۹ ماہ بعد جبکہ حضرت گنگوہی اپنے تحفظ کی ہرممکن تدبیر فرمارہے تھے ایک گاؤں منہیاران جہاں آپ روپوش تھے، گرفتار کرلئے گئے، چھ ماہ جیل کی تکلیف اٹھائی، جمادی الثانیہ ۱۲۷۶ھ مطابق ۱۸۶۰/ میں آپ کی رہائی عمل میں آئی، رہائی کے بعد آپ نے حدیث وفقہ، اور تصوف وروحانیت کا وہ درس شروع فرمایا جس کے فیوض سے ایک عالم نے استفادہ کیا۔ 

مولانا محمد مظہر نانوتوی

               والد ماجد کانام حافظ لطف علی تھا، والد ماجد سے قرآن شریف حفظ کیا، مولانا مملوک علی، مولانا احمد علی صاحب محدث سہارنپوری اورحضرت شاہ عبدالغنی صاحب مجددی، وغیرہ سے علوم متداولہ کی تکمیل کی، بخاری شریف حضرت شاہ مولانا محمد اسحاق سے پڑھی، جہاد شاملی میں شریک رہے، پاؤں میں گولی لگی، علاج معالجہ کے بعد بھی پاؤں پر اس کا نشان باقی رہا، تحریک کی ناکامی کے بعد آپ مسلسل روپوش رہے، جب خطرات سے آزاد ہوئے تو منظر عام پر آئے اور سہارنپور میں مدرسہ مظاہرعلوم کا آغاز فرمایا، جو آپ کی زبردست علمی یادگار ہے۔ حضرت گنگوہی سے پانچ سال بڑے تھے۔ 
               ۲۴/ذی الحجہ ۱۳۰۲ھ مطابق ۱۸۸۶/ کی شب میں آٹھ بجے آپ نے انتقال فرمایا۔ (علماء ہند کا شاندار ماضی: ۴/۳۰۴-۳۰۵) 

مولانا محمد منیرنانوتوی

               مولانا مظہر نانوتوی کے چھوٹے بھائی ہیں، شاملی کی جنگ میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی حفاظت کی نگرانی بھی آپ کے ذمہ تھی، تحریک کی ناکامی کے بعد جب داروگیر کا بادل چھٹا تو آپ نے ۱۸۶۱/ میں بریلی کالج کی ملازمت اختیار کرلی اور وہاں مطیع صدیقی کے کام میں اپنے بھائی مولانا محمد احسن نانوتوی کے شریک ومعاون ہوگئے، آپ دارالعلوم دیوبند کے دو سال مہتمم بھی رہے۔ 

حافظ ضامن شہید

               آپ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے پیربھائی اوراس انقلاب کے خاص رکن تھے، شاملی کی جنگ میں انگریزوں کی گولیوں سے آپ کی شہادت ہوئی، آپ کی شہادت کے حادثہ کے ساتھ ہی دہلی، میرٹھ،اور مختلف علاقوں سے بری خبریں آنے لگیں۔ 
               حضرت مولانا محمد میاں صاحب تحریر فرماتے ہیں: 
               ”حضرت حافظ ضامن کا شہید ہونا تھا کہ معاملہ بالکل ٹھنڈا پڑگیا، ان کی شہادت سے پہلے روزانہ خبر آتی تھی کہ آج فلا ں مقام انگریزوں سے چھین لیاگیا، آج فلاں مقام پر ہندوستانیوں کا قبضہ ہوا، مگر حافظ صاحب کی شہادت کے بعد پہلے پہل خبر آئی کہ دہلی پرانگریزوں کا قبضہ ہوگیا، اور یہی حال ہرجگہ کی خبروں کا تھا، اس سے پہلے گورے فوجی چھپتے پھرتے تھے، ایک ایک سپاہی گوروں کی جماعت کو بھگائے پھرتا تھا، مگر بعد میں معاملہ برعکس ہوگیا، پہلے کسی کھیت میں گورا چھپا ہوا تھا تو کاشتکار عورت نے اسے کھرپے سے قتل کرڈالا، مگر بعد میں معاملات الٹ ہوگئے۔ 
               حضرت شیخ الہند فرماتے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ تمام معاملہ جوش و خروش، جنگ وجدال کا حضرت حافظ محمد ضامن کی شہادت کے لئے کیاگیا تھا۔ (علماء ہند کا شاندار ماضی: ۴/۲۸۰-۲۸۱) 

مولانا عبدالجلیل شہید

               آپ کے والد ماجد مولانا ریاض الدین (شارح قصیدہ بردہ) حضرت مولانا شاہ اسحاق صاحب دہلوی کے شاگرد رشید جامع مسجد علی گڑھ کے امام تھے، نہایت متقی اورپرہیزگار اور عوام میں مرکز عقیدت تھے، انگریز آپ سے ملنے کے آرزومند رہتے تھے، مگر آپ کو انگریزوں سے ایسی نفرت تھی کہ بہت کم ملاقات کی اجازت دیتے تھے۔ 
               انقلاب کے دوران علی گڑھ کی زمامِ قیادت آپ ہی کے ہاتھ میں رہی، وہیں سے آپ نے انگریزوں کے خلاف جنگیں لڑیں، اور علی گڑھ سے انگریزوں کو ماربھگایا، آخر مڈراک کی سڑک پر انگریزوں سے لڑتے ہوئے آپ شہید ہوگئے، اس دن آپ کے بہتر ساتھی شہید ہوئے، یہ تمام شہداء کو جامع مسجد لایاگیااور شمالی دروازہ کے قریب دفن کیاگیا، مولانا عبدالجلیل کی شہادت کے بعدانگریزوں نے علی گڑھ پر قبضہ کرلیا، اور قتل عام شروع کردیا، مولانا کے بچوں کو وہاں سے نکال کر علی گڑھ سے تین میل دور ایک گاؤں رسول پور میں چھپادیاگیا، ادھر انگریزوں نے مولانا شہید کے مکان اور جائداد کو مسمار کرڈالا، بعد میں مولانا کے بڑے صاحبزادے مولانا محمد اسماعیل، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے شاگرد ہوئے،اور بڑے علماء میں شمار کئے گئے۔ (شاندار ماضی:۴/۳۱۷) 

مولانا فیض احمد بدایونی

               آپ کے والد ماجد کا نام حکیم غلام احمد تھا، بدایوں میں ۱۲۲۳ھ مطابق ۱۸۰۸/ میں پیدا ہوئے، تین سال کے تھے کہ والد ماجد کا انتقال ہوگیا، والدہ نے تربیت کا کام انجام دیا، غضب کی ذکاوت و ذہانت کے حامل تھے، صرف چودہ سال کی عمر میں تمام علوم منقول ومعقول حاصل کرلئے تھے، تھوڑی عمرہی میں زبردست شہرت حاصل کرلی تھی، آپ اپنے نانا حضرت مولانا شاہ عبدالحمید صاحب سے بیعت ہوئے، اور مسند رشد وہدایت تک پہنچے، پادری فنڈرسے مناظرہ میں مولانا رحمت اللہ اور ڈاکٹر وزیرخان کے ساتھ آپ بھی شریک تھے۔ 
               ۱۸۵۷/ کے انقلاب میں آپ نے اہم رول ادا کیا، جنرل بخت خاں نے آپ کو خصوصی ذمہ داری دی، تحریک کی ناکامی کے بعد جب جنرل بخت خاں دہلی سے لکھنوٴ روانہ ہوا تو مولانا بھی آپ کے ساتھ تھے، لکھنوٴ میں مولانا شاہ احمد اللہ صاحب دادشجاعت دے رہے تھے، آپ ان کے ساتھ شامل ہوگئے، بدایوں اور ککرالہ کے معرکوں میں بھی آپ نے اپنی بہادری کا سکہ جمایا، مولانا شاہ احمداللہ صاحب کی شہادت کے بعد ایسے روپوش ہوئے کہ آپ کے ماموں مولانا فضل رسول نے آپ کی تلاش میں قسطنطنیہ تک سفر کیا مگر کہیں سراغ نہ لگ سکا۔ 

منشی ذوالفقار الدین

               والد کانام وہاب الدین ہے، بدایوں کے مقوی خاندان سے ہیں، صاحب حیثیت تھے، انگریزوں سے خاص تعلق تھا، مگر جب اس انقلاب کی ہواچلی تو آپ نے بھرپور حصہ لیا، بعد میں جب آپ گرفتار ہوئے تو جس انگریز کے یہاں آپ منشی کا کام کرتے تھے اس نے بہت اصرار کیا کہ منشی جی اپنے جرم سے انکار کردیں، تو رہا کردئیے جائیں گے، مگر مولانا نے جان دے دی مگر جھوٹ نہیں بولے۔ (شاندار ماضی: ۴/۳۶۳) 

مولوی رضی الدین

               بدایوں کے صدیقی شیخ تھے، انقلاب کے بعد گرفتار ہوئے، جج نے کہا کہ اگر شرکت کا انکار کردو چھوڑ دیاجائے گا، اور کئی دن تک اس نے یہی کہہ کر مہلت دی، مگر آپ نے جان دے دی لیکن آخر وقت تک صداقت پر قائم رہے۔ 

مولوی تفضّل حسین

               قاضی ٹولہ بدایوں کے تحصیلدار تھے، جرم بغاوت میں آپ کو گولی مارکر شہید کردیاگیا۔ 

حکیم تفضّل حسین

               مولوی ٹولہ بدایوں کے رہنے والے تھے، مقدمہ چلا اور رہائی پائی۔ 

چودھری تفضّل حسین

               محلہ چودھری سرائے بدایوں کے رہنے والے تھے، والد کا نام چودھری محمد عظیم فاروقی ہے، انگریزی تسلط کے بعد عام معافی تک روپوش رہے، گھر جائداد سب ضبط کرلی گئی۔ ۱۸۹۲/ میں انتقال کیا۔ 

شیخ مسیح الدین

               والد کا نام شیخ غلام محمد ہے، ہنگامہٴ انقلاب سے قبل مختاری کرتے تھے، الزام بغاوت میں گرفتار ہوئے، ساٹھ بید لگے، آخری ضرب بید پر اللہ اللہ کہا، اس پر ظالم نے دس بید اور لگوائے، بے ہوش ہوگئے، ۱۹۲۲/ میں انتقال کیا۔ (شاندارماضی: ۴/۳۶۵) 

جنرل نیاز محمد خان

               نہایت دلیر اور بہادر تھے، انقلاب ختم ہونے کے بعد بھاگ کر مکہ معظمہ چلے گئے تھے، پھر کسی ضرورت سے بمبئی آئے اور گرفتار کرلئے گئے، بدایوں میں مقدمہ چلا،اور سزائے موت کا فیصلہ ہوا، پھر آپ کی اپیل پر اس سزا کو حبس دوام بعبور دریائے شور میں بدل دیاگیا۔ 

بدرالاسلام عباسی

               بدایوں کے رہنے والے تھے، ۱۸۵۷/ کے انقلاب میں آپ نے اپنی شاعری سے لوگوں میں جذبہٴ جہاد جگایا، آپ نے ایک نظم لکھی تھی، جس کا ایک مصرعہ تھا: 

ع سرکمپنی کا کٹ کے بِکا پاؤ آنہ میں

اس جرم میں سزائے موت دی گئی۔

نواب مجوخان

               اصل نام مجدالدین عرف مجوخان والد کا نام محمد الدین احمد خان تھا، آپ کے جدامجد قاضی عصمت اللہ فاروقی عہد عالمگیری میں امیر تھے، اور مختلف صوبوں کے حاکم رہے، نواب صاحب مراد آباد کے عمائدین میں تھے، آپ کے گھر پر اصحاب علم وفن کا اجتماع رہتا تھا، مرزا غالب مراد آباد گئے تو انہی کے یہاں قیام رہا، انقلاب کے بعد آپ کو گرفتار کیاگیا اور موت کی سزا تجویز ہوئی، کہاجاتا ہے کہ ان کو چولے کی بھٹی میں جلادیاگیا، ساری جائداد ضبط کرلی گئی۔ 

چودھری عبدالقادر عرب

               نواب مجو خاں کے دوست تھے، آپ کی کُشتی کی شہرت دور دورتک تھی، انقلاب کے بعد آپ کو بھی موت کی سزا دی گئی۔ 

مولانا کفایت علی صاحب کافی شہید

               مرادآباد کے خانوادئہ سادات کے رکن تھے، بڑے عالم، فاضل، طبیب اور قادر الکلام شاعر تھے، حضرت شاہ ابوسعید مجددی سے علم حدیث کی تکمیل کی، حدیث اور سیرت پاک سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا، کئی کتابوں کے مصنف ہیں، ۱۸۵۷/ کی جنگ مرادآباد میں شروع ہوئی، تو آپ صف اول کے مجاہدین میں تھے، انقلاب کے دوران مرادآباد میں نواب مجوخاں کی حکومت قائم ہوئی تو آپ کو صدرالشریعہ کا عہدہ دیاگیاتھا، آپ نے انگریزوں کے خلاف فتویٰ جہاد مرتب کیااور اس کی نقلیں مختلف مقامات پر بھجوائیں، بلکہ بعض مقامات پر آپ خود تشریف لے گئے، آنولہ ضلع بریلی میں خاص اسی مقصد کے لئے ایک ہفتہ سے زیادہ قیام فرمایا، جنرل بخت خان اور مولانا سرفراز علی صاحب سے آپ کی خصوصی مشاورت رہتی تھی، ۲۵/اپریل ۱۸۵۸/ کو مراد آباد پر انگریزوں کا دوبارہ قبضہ ہوا، مولانا کافی کچھ دنوں محفوظ رہے، ۳۰/اپریل ۱۸۵۸/ مطابق ۱۶/رمضان المبارک ۱۲۷۴ھ کو مولانا گرفتار ہوئے، مولانا پر مختلف الزامات عائد کرکے ضابطہ کی کارروائی کی گئی، پھانسی کا حکم صادرکیاگیا، مولانا کافی کو جب پھانسی کے لئے لیجایا گیا تو آپ کی زبان پر ایک تازہ نظم تھی، جو بڑے ترنم سے بلند آواز سے پڑھ رہے تھے، نظم یہ ہے: 

کوئی گل باقی رہے گا نے چمن رہ جائے گا

پر رسول اللہ کا دینِ حسن رہ جائے گا

ہم صغیر و باغ میں ہے کوئی دم کا چہچہا

بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا

اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو

اس تنِ بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا

نامِ شاہان جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں

حشر تک نام ونشانِ پنجتن رہ جائے گا

جو پڑھے گا صاحب لولاک کے اوپر درود

آگ سے محفوظ اس کا تن بدن رہ جائے گا

سب فنا ہوجائیں گے کافی ولیکن حشر تک

نعت حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا

               مولانا کافی کو مراد آباد کے پاس مجمع عام کے سامنے پھانسی دی گئی اور وہیں تدفین عمل میں آئی۔ (شاندار ماضی: ۴/۳۷۷-۳۳۹) 

مولانا وہاج الدین مرادآبادی

               والد ماجد کا نام مولوی جمیل الدین ہے، نہایت فیاض، مہمان نواز، زاہد، شب زندہ دار، اور بااثر رئیس تھے، عربی،فارسی، اردو، انگریزی چاروں زبانوں میں مہارت تھی، آپ کے یہاں روزانہ شہر کے شرفاء اور اہل علم جمع ہوا کرتے تھے، علماء میں قابل ذکر نام یہ ہیں۔ 
               مولانا کافی صاحب، مولانا سرفراز علی صاحب، سیداکبر علی صاحب، سید گلزار علی صاحب، اور مولوی وزیر علی صاحب وغیرہ۔ 
               ۱۸۵۷/ کی جنگ میںآ پ کا کردار نمایاں رہا، مراد آباد کے علاقہ میں آپ نے قائدانہ خدمات انجام دی، انقلاب کے خاتمہ پر جب داروگیر کا سلسلہ شروع ہوا، تو مولانا وہاج الدین کی قیام گاہ کا ایک ان کے اپنے دسترحوان کے نمک خوار کی مخبری پر محاصرہ کیاگیا، مولانا تنہا تھے، مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے، مولانا کی ساری جائیداد ضبط کرلی گئی۔ (شاندار ماضی: ۴/۳۸۳-۳۸۵) 

شاہ غلام بہولن سیوہاروی

               مراد آباد کے مشہور قادری بزرگ ہیں، آپ کا مولد و مسکن سیوہارہ ضلع بجنور تھا، آپ کا لنگرخانہ سفرئہ ہرخاص و عام تھا، آپ سب کی مدد کرتے تھے، اس انقلاب میں آپ کی خدمات بھی بڑی اہم ہیں، ایک نمک خوار معتقد کی مخبری پر آپ کو گرفتار کیاگیا، اور جزیرئہ انڈمان بھیج دیاگیا،اور وہیں ۲/ربیع الاول ۱۲۷۶ھ کو انتقال فرمایا۔ (انوارالعارفین: ۵۴۷، مطبوعہ مطبع صدیقی دہلی، شاندار ماضی: ۴/۴۰۴-۴۰۶) 

مولانا احمد اللّٰہ شاہ شہید

               مولانا سید احمدمیاں نے آپ کا خوبصورت تذکرہ اس انداز میں شروع کیا ہے: 
               ”عزم وہمت، حمیت ملی اور غیرت وطن کا وہ شعلہٴ جوالہ، جو ”چنیاپٹن“ سے اٹھا، دہلی اور آگرہ میں چمکا، سرزمین اودھ میں چٹخا، روہیل کھنڈ میں شعلہ افشاں ہوا، پھر اسی کے ایک گوشہ میں محوسکون ہوگیا، اس کو ۱۸۵۷/ کی جان مضطرب کہا جائے یا شہدا، ۱۸۵۷/ کا سرتاج، دونوں درست۔ (شاندار ماضی: ۴/۴۱۰) 
               مولانا احمداللہ شاہ کے والد کا نام سیدمحمد علی نواب چنیاپٹن ہے، جو سلطان ٹیپو کے مصاحب تھے، اصل نام احمد علی ہے، مگر احمداللہ شاہ سے شہرت ہوئی تعلیم و تربیت کے بعد روحانی طور پر حضرت قربان علی شاہ سے بیعت ہوئے، پھر گوالیار میں ایک بزرگ محراب شاہ قلندر سے مرید ہوئے، جنھوں نے جہاد کی شرط لگائی، جس کو انھوں نے بسروچشم قبول کیا، روحانی مدارج طے کرنے کے بعد سیاسی طور پر ملک کے حالات کی طرف توجہ کی، اور دہلی کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، دہلی کے بعد آگرہ، اور آگرہ کے بعد کانپور اور پھر لکھنوٴ آپ کی سرگرمیوں کا مرکز رہے، آپ کو بڑی عوامی مقبولیت حاصل ہوئی،انگریز آپ کی مخالفانہ سرگرمیوں سے واقف تھے، مگر عوامی مقبولیت کی بنا پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے تھے، بالآخر آپ کے مصاحبین کو رشوت و بدعنوانی اور دیگر مقدمات لگاکر پراگندہ کردیاگیا، پھر ایک مقابلے میں آپ کو زخمی حالات میں جیل بھیج دیاگیا، مئی ۱۸۵۷/ کی تحریک شروع ہوئی، تو آپ فیض آباد جیل میں تھے، مولانا سکندر شاہ فیض آباد میں مجاہدین کے قائد تھے، انھوں نے فیض آباد جیل پر دھاوا بول کر مولانا احمد اللہ شاہ کو رہا کرایا، لیکن خود گرفتار ہوگئے، مولانا احمد اللہ شاہ نے وہاں سے نکل کر پورے ملک میںآ گ لگادی، اور فدایان وطن کو ساتھ لے کر لکھنوٴ کا رخ کیا، لکھنوٴ میں سخت معرکے ہوئے، یہاں کی ناکامی کے بعد شاہ جہاں پور آئے، پھر وہاں سے قصبہ محمدی میں اپنی حکومت قائم کی،اور اپنا سکہ جاری کیا، کابینہ کے ارکان درج ذیل تھے: 
               جنرل بخت خاں          وزیر جنگ 
               مولانا سرفراز علی        قاضی القضاة 
               نانا راؤ پیشوا                (دیوان وزیر مالی) 
               مولانا لیاقت علی صاحب الٰہ آبادی، ڈاکٹر وزیر خاں صاحب اکبر آبادی،مولانا فیض اللہ صاحب بدایونی، شاہزادہ فیروز شاہ، ارکان حکومت، لیکن ابھی حکومت پوری طرح جمنے بھی نہ پائی تھی کہ انگریزوں نے قصبہ محمدی پر حملہ کردیا، شاہ صاحب وہاں سے نکلے اور پوائیں کے راجہ کا رخ کیا، مگر اس نے غداری کی اور گفتگو کے نام پر اپنی گڈھی، میں بلواکر گولیوں کی بوچھار کرادی، شہید ہوئے، صبح آپ کا سرکاٹ کر انگریز کلکٹر شاہ جہاں پور کو بھیج دیا، جو عرصہ تک کوتوالی پر لٹکا رہا، نعش کو آگ میں جھونک دیاگیا، سرکار برطانیہ کی طرف سے راجہ کو اس کے انعام میں پچاس ہزار روپے نقد اور خلعت فاخرہ کاانعام ملا، مولانا احمد اللہ شاہ کی شہادت ۵/جون ۱۸۵۸/ مطابق ۱۳/ذیقعدہ ۱۲۷۵ھ کو ہوئی، آپ کے ساتھ بہت سے علماء اوراصحاب کمال نے جام شہادت نوش کیا، یا انڈمان بھیجے گئے، ان کے نام یہ ہیں: 
               امیر احمد، شاہ آفاق، قطب شہید، رستم علی، اسماعیل خان، غلام محمد خان، کفایت اللہ تلہری، فرقان علی، محمد شاہ خان سعد اللہ خان شہید،نوراحمد، احمد یار خاں تحصیلدار، نواب غلام قادر خان بٹول، عبدالرؤف خان، مولوی شیخ اعتقاد علی بیگ صاحب، مولوی امام بخش، سید باقر علی، مولوی نورالحسن صاحب، سیدمراتب علی، خواجہ تراب علی، سید حسن علی، رحمت علی، مفتی ریاض الدین، مولوی غلام جیلانی، غلام مرتضی، شیخ محمد شفیع، مولوی عبدالصمد، مولوی منصب علی، مولوی محمدعظیم الدین حسن، رسول بخش، باسط علی صاحب، مومن علی صاحب، مولانا محمد قاسم صاحب داناپوری، معین الدین صاحب، مولوی کریم اللہ خان صاحب، صدرالصدور وقاضی محمدکاظم صاحب، تاج الدین صاحب، طفیل احمد صاحب خیرآبادی، مولانا غلام امام شہید، مفتی عبدالوہاب گویا مئوی، ڈاکٹر وزیر خان، مولوی فیض احمد بدایونی، مفتی انعام الدین وغیرہ۔ (شاندار ماضی: ۴/۴۱۰-۴۳۴) 

مولانا مفتی عنایت احمدکاکوری

               والد ماجد کا نام مفتی محمد بخش ہے، آپ کا خاندان بغداد سے دیوہ آکر آباد ہوا، پھر سسرالی نسبت سے آپ کے دادا کاکوری چلے آئے، مفتی صاحب ۹/شوال ۱۲۲۸ھ کو دیوہ میں پیداہوئے، ابتدائی تعلیم کاکوری میں حاصل کی، پھر رام پور گئے اور علوم کی تکمیل کی، دہلی جاکر شاہ اسحاق صاحب محدث دہلوی سے کتب حدیث سبقاً سبقاً پڑھیں اور سند حدیث حاصل کی، مفتی صاحب بلند مناصب پر فائز رہے، مفتی، قاضی، صدرامین، صدراعلیٰ کے مناصب حاصل ہوئے اور ان کے ساتھ درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رہا، بے شمار شاگرد ہوئے، بہت سی کتابیں لکھیں۔ 
               ۱۸۵۷/ کی جنگ شروع ہوئی، تو روہیل کھنڈ کے علاقے میں آپ نے بھرپور حصہ لیا، تحریک کے خاتمہ پر مفتی صاحب پر مقدمہ چلا اور عبور دریائے شور کی سزا تجویز ہوئی، جزیرئہ انڈمان میں بھی تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رہا، ایک انگریز کی فرمائش پرکتاب تقویم البلدان کا ترجمہ کیا، جو دو برس میں مکمل ہوا، اور وہی سبب رہائی بنا، رہا ہونے کے بعد کانپور آکر مدرسہ فیض عام قائم کیا، مفتی صاحب اپنے مصارف سے بہت سے طلبہ کی کفالت کرتے تھے، مفتی صاحب حج کے لئے جارہے تھے کہ جدہ کے قریب جہاز پہاڑ سے ٹکراکر ڈوب گیا، مفتی صاحب بحالتِ نماز احرام باندھے ہوئے غریق وشہیدہوئے، یہ واقعہ ۷/شوال ۱۲۷۹ھ کا ہے، صرف ۵۲/برس کی عمر میں انتقال فرمایا۔ 

علامہ فضل حق خیرآبادی

               والد ماجد کا نام مولانا فضل امام ہے، ۱۲۱۲ھ مطابق ۱۷۹۷/ میں خیرآباد میں پیداہوئے، آپ کے والد مولانا فضل امام دہلی میں صدرالصدور تھے، آپ ہی کے زیرسایہ علوم کی تکمیل کی، حضرت مولانا شاہ عبدالقادر اور حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز سے علم حدیث حاصل کیا، تیرہ سال کی عمر میں تمام عقلی ونقلی علوم کی تکمیل کرلی، چار ماہ اور چند روز میں قرآن مجید حفظ کرلیا، والد ماجد کے انتقال کے وقت علامہ کی عمر اٹھائیس سال تھی، علامہ بے پناہ علم وفضل اور شہرت و عظمت کے مالک تھے، لکھنوٴ میں صدرالصدور تھے، ۱۸۵۷/ میں تحریک میں شروع میں تامل کیا، مگر مولانا احمداللہ شاہ کی ملاقات کے بعد صدرالصدور سے استعفیٰ دے کر تحریک میں شامل ہوگئے،اور قائدانہ حصہ لیا، تحریک کے خاتمے پر روپوش رہے، پھرملکہ وکٹوریہ کی عام معافی کے بعد مولانا اپنے وطن خیرآباد پہنچ گئے،مگر دوروز کے بعد ہی ایک مخبر کی مخبری پر گرفتار کئے گئے،اور عبوردریائے شور کی سزا تجویز کی گئی اور تمام مال و اسباب حتی کہ کتابیں بھی ضبط کرلی گئیں، مولانا کو جیل میں بدترین اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا، جس کی دردناک تفصیل انھوں نے اپنی کتاب ”الشورة الندیہ“ (باغی ہندوستان) میں لکھی ہے، آخر میں رہائی کاپروانہ آگیاتھا، مگر پروانہ پہنچنے سے قبل ہی داعیٴ اجل کو لبیک کہا، ۱۲/صفر ۱۲۷۸ھ مطابق ۲۰/اگست ۱۸۶۱/ کو انتقال ہوا۔ 

جنرل بخت خاں

               سلطان پور کا رہنے والا تھا، تحریک کا سب سے زبردست نقیب یہی جنرل بخت خان تھا، اس نے آخری دم تک ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے کی کوشش کی، یہی وہ شخص ہے جس نے پورے ملک کے لوگوں میں انقلاب کی آگ جلائی اور بڑی حد تک اس انقلاب کو منظم کرنے کی کوشش کی، اللہ اسے کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ 

مولانا شاہ عبداللّٰہ

               آپ میرے پڑدادا حضرت مولانا عبدالشکور آہ مظفرپوری کے جدامجد ہیں، مولانا عبدالشکور آہ مظفرپوری حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کے اخص تلامذہ میں تھے، مولانا عبداللہ کے لائق فرزند مولانا نصیرالدین کاشمار بہار کے مشہور ممتاز علماء و شعراء میں ہوتا ہے، مولانا عبداللہ صاحب کے بارے میں ہمارے خاندان میں یہ روایت مشہور ہے کہ وہ دہلی کے مضافات میں رہتے تھے، اور بڑے صاحب علم وکمال تھے، ان کا خاندان برسوں قبل سمرقند سے ہجرت کرکے دہلی میں آکر آباد ہوا تھا، ۱۸۵۷/ کے انقلاب کے بعدجب افراتفری مچی اور سلسلہ داروگیر شروع ہوا، تو آپ چھپتے چھپاتے بہار پہنچے اور وہاں مظفرپور میں اقامت اختیار کی، آپ کے خاندان کے کچھ لوگ اب بھی مظفرپور میں آباد ہیں، لیکن خاندان کا وہ حصہ جو حضرت مولانا احمدحسن مورداوی فرزند حضرت مولانا عبدالشکور آہ مظفرپوری سے چلا وہ اب بہار کے ضلع سمستی پور کے منوروا شریف گاؤں میں آباد ہے، اور ان کی دینی خدمات کاسلسلہ جاری ہے، ساتھ ہی حضرت منوروی کا روحانی سلسلہ آپ کے خلف صالح اور جانشین حضرت مولانا محفوظ الرحمن صاحب کے ذریعہ جاری وساری ہے، اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کو قائم رکھے۔ 

شاہزادہ فیروز شاہ

               یہ صاحب عالم مرزا ناظم بخت کافرزند ارجمند تھا، جس نے بابر کی یاد تازہ کردی، اپنے والد کے زیرنگرانی علوم مروجہ کی تکمیل کی، اور فوجی تربیت حاصل کی، اسے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی، جب ہندوستان واپس پہنچا تو یہاں جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے، اس نے بھرپور حصہ لیا، اور مجاہدین کی قیادت کی، دہلی میں ناکامی کے بعد، لکھنوٴ میں مقابلہ کیا، لکھنوٴ خالی ہوا تو اپریل ۱۸۵۸/ میں مولانا احمد اللہ شاہ صاحب کے پاس شاہجہاں پور پہنچا،اور ان کے ساتھ جنگ میں شریک ہوا، غرض اس نے ہر طرح سے اس ملک کو بچانے کی کوشش کی، اور کسی موڑ پر بزدلی کا مظاہرہ نہیں کیا، جب ہر طرف سے ناکامی ہوئی، تو بڑی تکلیفیں اٹھانے کے بعد روس ہوتے ہوئے حجاز مقدس چلاگیا، اور مکہ معظمہ میں اقامت اختیار کی، ۱۸۹۵/ میں انتقال کیا۔ (شاندار ماضی: ۴/۴۶۲-۴۶۶) 
               یہ تو گنتی کے چند نام ہیں، جن کا تذکرہ اس مختصر سے مقالہ میں کیاگیا، ورنہ نامعلوم کتنے گمنام مجاہدین ہیں، جنھوں نے اس انقلاب میں حصہ لیا،اور اپنا آخری قطرئہ خون بھی ملک وملت کے لئے نچھاور کردیا، جن کو رب العالمین کے سوا کوئی نہیں جانتا، لیکن ان کی قربانیوں اور خونِ شہادت کی لکیروں نے تاریخیں بنائیں، اور قریب ایک صدی تک یہ تحریک آزادی کسی نہ کسی درجہ میں جاری رہی، جس کے نتیجہ میں ۱۹۴۷/ میں اس ملک کو آزادی ملی،اوریہاں کے لوگوں کو آزادی کی شام و سحر نصیب ہوئی، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے بزرگوں نے کسی دنیوی مفاد کے لئے نہیں کیا، بلکہ محض اللہ کی رضا کے لئے عبادت سمجھ کر کیا۔ 

سوبار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو

تاریخ بتائے گی تم کو کیا ہم نے دیا ہے عالم کو



مآخذ:

(۱) ۱۸۵۷/ میں پہلی جنگ آزادی میاں محمد شفیع۔

(۲) تحریک آزادی ہندو اور مسلمان محمد احمد صدیقی۔

(۳) تاریخی منظر نامہ عطاء الرحمن وجدی۔

(۴) شبیر احمد عرفان حبیب اخبار خبر دار جدید۔

(۵) فروزبخت احمد راشٹریہ سہارا اردو، دہلی۔

________ حواشی:

(۱) رسالہ اسباب بغاوت ہند،ص:۳۔

(۲) ایضاً،ص:۱۱-۱۲۔

(۳) ملاحظہ ہو: Topics for Indian statesemn Bruce Norton جس میں اس پہلو پر کافی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

(۴) احسن الاخبار،ص:۹۵-۹۶۔

(۵) تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو Civel Disturbances during the british Rule in India (1765-1857) S.B. Chaudiri

(۶) فتاویٰ عزیزیہ، ج:۱، ص:۱۷۔

(۷) شاہ صاحب کے تدبر اور بصیرت کی اس سے زیادہ روشن اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ اگر ایک طرف انھوں نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا تو دوسری طرف انگریزی تعلیم کی موافقت میں رائے ظاہر کی۔ ملاحظہ ہو رسالہ اسباب بغاوت ہند،ص:۲۰۔

(۸) ”مسلمانوں کے تنزل سے دنیا کو کیانقصان پہنچا“ مولانا ابوالحسن علی ندوی،ص:۲۷۳-۲۷۴۔ جماعت مجاہدین، مولانا مہر (جلد۳،ص:۱۳-۱۴)

(۹) منصب امامت ص:۹۸۔

(۱۰) سید احمد شہید جلد اول ص:۲۵۰-۲۶۱۔

(۱۱) حکیم مومن خاں مومن سید صاحب کے مرید تھے اور ان کے دامن تربیت سے وابستہ تھے۔ لوگوں کو تحریک میں شرکت کی دعوت اس طرح دیتے ہیں۔#

جو داخل سپاہِ خدا میں ہوا

فدا جی سے راہ خدا میں ہوا

حبیب حبیب خداوند ہے

خداوند اس سے رضامند ہے

امام زمانہ کی یاری کرو

خدا کے لیے جاں نثاری کرو

(۱۲) آثار الصنادید،ص:۱۰۳ (پہلا ایڈیشن)

(۱۳) ہمارے ہندوستانی مسلمان، ص:۷۱۔

(۱۴) پروفیسر موجم دار کی یہ رائے کہ ۱۸۵۷/ کی تحریک میں ”وہابیوں“ نے حصہ نہیں لیا تھا قطعاً غلط ہے۔ (The Sepay Mutiny p.37) تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ ”وہابی“ اس تحریک میں پیش پیش تھے۔ محض یہ بات کہ انگریزوں نے اپنا تسلط قائم ہوجانے کے بعد ”وہابیوں“ کو سخت سزائیں دی تھیں اور اس مکتب خیال کے لوگوں کو پسپا کیا تھا، تحریک میں ان کا حصہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

(۱۵) The Trial of Bahadur Shah II p.282.

(۱۶) ہمارے ہندوستانی مسلمان ص:۱۰۸۔

(۱۷) ۱۸۵۷/ کے ہیرو ص:۷۳۔

(۱۸) The Trial of Bahadur Shah II P. 282

(۱۹) ۱۸۵۷/ کے ہیرو، ص:۸۱۔

(۲۰) یہی رائے حکیم احسن اللہ خاں کی تھی۔ ملاحظہ ہو The Trial of Bahadur Shah II P. 282

(۲۱) مختصرحالات کے لیے ملاحظہ ہو، غدر کے چند علماء ص:۱۲۸-۱۳۱؛ ۱۸۵۷/ کے مجاہد ص:۱۳۸-۱۴۴۔

(۲۲) سید احمد شہید جلددوم،ص:۲۵۸-۲۶۰۔

(۲۳) سیداحمد شہید جلد چہارم ص:۲۹۱-۲۹۵۔

(۲۴) The Personal Adventures and Experiences of a Magistrate during the Rise, progress and suppression of the Indian Mutiny P.P. 2-3

(۲۵) سرسیداحمد خاں بھی اس کا اصلی سبب متعین نہ کرسکے تھے، لیکن اُنھوں نے لکھا تھا۔ کہ ”اس زمانہ میں تمام ہندوستان میں وبا کی بیماری تھی اور خیال میں آتا ہے کہ اُس کے دفع کرنے کو بطور ٹوٹکہ یہ کام ہوا ہو کیونکہ جاہل ہندوستانی اس قسم کے ٹوٹکے بہت کیا کرتے ہیں۔ (رسالہ اسباب بغاوت ہند،ص:۳)

(۲۶) ۱۸۵۷/ ڈاکٹرسین ص:۶۔

(۲۷) The Mutiny in the Bengal Army P.4

(۲۸) The Mutiny in the Bengal Army P.4

(۲۹) Eighteen fifty seven p 25

(۳۰) سرہنری لارنس کے سوانح نگار نے اس کا ایک حظ نقل کیا ہے جس میں کینگ کو لکھا ہے کہ ایک معمولی فوجی نے گفتگو میں اس سے کہا کہ دس سال سے حکومت برطانیہ جبریہ طریقہ پر اور دھوکہ بازی کے ساتھ تمام ہندوستانیوں کا مذہب تبدیل کرانے کی جدوجہد کررہی ہے۔Edwardes and Merivale II P.322-323

(۳۱) رسالہ اسباب بغاوت ہند، ص:۱۸۔

(۳۲) ایضاً، ص:۱۶-۱۷۔

(۳۳) سرسید کی اس عبارت کو ”بہ تدبیر“ کی تشریح سمجھنا چاہیے: ”رعایائے ہندوستان ہماری گورنمنٹ کو میٹھے زہر اور شہد کی چھری اور ٹھنڈی آنچ کی مثال دیا کرتی تھی اور پھر اس کو اپنے دل میں سچ سمجھتی تھی اور یہ جانتی تھی کہ اگر ہم آج گورنمنٹ کے ہاتھ سے بچے ہوئے ہیں توکل نہیں اورکل ہیں تو پرسوں نہیں۔“ رسالہ اسباب بغاوت ہند ص۱۴۔

(۳۴) رسالہ اسباب بغاوت ہند۔ص:۳۶۔

(۳۵) مسلمانوں کا روشن مستقبل ص:۸۰۔

(۳۶) سرسید کا خیال تھا کہ : ”بلاشبہ جو ہیئت بادشاہ دلی کی سرکار نے بنارکھی تھی وہ ہمیشہ نامناسب اور قابل اعتراض کے تھی اور جناب لارڈ الن برا صاحب بہادر نے جو تجویز کی تھی وہ بیشک لائق منظوری کے تھی بلکہ اس سے زیادہ عمل درآمد کرنا واجب تھا، بیشک دلی کا بادشاہ بھوبل میں کی ایک چنگاری تھا جس نے ہوا کے زور سے اُڑکر تمام ہندوستان کو جلادیا۔“ رسالہ اسباب بغاوت ہند ص:۱۱

(۳۷) رسالہ اسباب بغاوت ہند ص:۹۔

(۳۸) Twilight of the Mughals P. 73

(۳۹) احسن الاخبار ص:۱۲۲۔ ستر سال سے زیادہ کی عمر میں شادیوں کا سلسلہ جاری تھا۔

(۴۰) احسن الاخبار، ص:۷۸ و ۷۹، ۱۰۷، ۱۲۳، ۱۳۹، ۱۶۰۔

(۴۱) ایضاً ،ص:۹۴-۹۵۔

(۴۲) ایضاً، ص:۱۱۱۔

(۴۳) ایضاً، ص:۷۸۔

(۴۴) ایضاً،ص:۸۷۔

(۴۵) احسن الاخبار میں اُن کی ہنگامہ آرائی کے متعدد واقعات درج ہیں۔ ایک مرتبہ بہادر شاہ نے تنبیہ کا ایک فرمان بھی اُن کے نام جاری کیا تھا۔ لیکن اُن کی حالت قطعاً ناقابل اصلاح تھی۔ ان کی ہمتیں یہاں تک بڑھ گئی تھیں کہ ”حضور کو اطلاع دی گئی کہ بعض سلاطین کا ارادہ ہے کہ جس وقت روپیہ خزانہٴ انگریزی سے خزانہ شاہی میںآ ئے تو جبراً روپیہ پر قبضہ کرلیں۔ حضور انور نے یہ خبر سنی تو صاحب کلاں بہادر کے نام شقہ جاری فرمایا کہ روپیہ قلعہ میں نہ بھیجا جائے بلکہ ہاتھی سواروں کا ایک دستہ خزانہ کے ساتھ متعین کرکے قطب صاحب کے متصل جو حویلی ہے وہاں روانہ کردیا جائے (ص:۹۵-۹۶)

(۴۶) خود بہادر شاہ نے ۱۸۴۸/ میں ان کی تعداد ۲۱۰۴ بتائی تھی۔ ملاحظہ ہو۔

Punjab Governament Records, vol I (Delhi Residency and Agency) P. 431.

(۴۷) سرسید احمد خاں نے اکبر شاہ ثانی کے عہد کا حال لکھا ہے: ”شاہزادوں کو جو قلعے کے نومحلے میں رہتے تھے ماہواری روپیہ نہیں ملتا تھا اور چھتوں پر چڑھ کر چلاتے تھے کہ بھوکے مرتے ہیں، بھوکے مرتے ہیں۔“ سیرت فریدیہ۔ ص:۲۳-۲۴۔

(۴۸) Twilight of the Mugals PP. 62-66.

(۴۹) اردو ترجمہ احسن الاخبار ص:۱۰۔

(۵۰) ۸/مئی ۱۸۴۸/ کے احسن الاخبار کی خبر ہے: ”آغا حیدر ناظر کے نام ایک شقہ جاری کیاگیا کہ سلاطین کو سمجھادیا جائے کہ قرض لینے سے ہاتھ روکیں۔ کیونکہ جب قرض خواہ عدالت انگریزی میں دعویٰ کرتے ہیں اور تمہیں کچہری میں گھسٹنا پڑتا ہے تو خاندان تیموریہ کی بدنامی ہوتی ہے“ (ص:۶۶) لیکن جب بادشاہ خود اس مرض میں مبتلا تھے تو شہزادوں پر ان نصیحتوں کا کیا اثر ہوسکتا تھا!

(۵۱) رسالہ اسباب بغاوت ہند،ص:۱۰۔

(۵۲) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ iege of Delhi, C.G. Griffths S

(۵۳) انگریز عید کے موقع پر کس طرح ہندومسلم فساد کے متمنی تھے ۔ دیکھئے:

Delhi 1857, its Siege Assault and Capturs, Col. K. Yoang PP. 152,158,160.

$ $ $

___________________________

Tags:

🔥 Trending searches on Wiki شاہ مکھی پنجابی (Shāhmukhī Pañjābī):

میک او ایس کیٹالینامقرن بن عبدالعزیز آل سعودمسالامحمد تقی عثمانیابوبکر صدیق (بنگالی شاعر)میا خلیفہشہاب الدین غوریکرنٹاحمد رضا خانناوارامیثاق مدینہسعد الدین تفتازانیرحمان بابامیرا جیعشرت ہاشمی1205جہانگیراکبر دا مقبرہابن سینامجاز مرسلفتح مکہاحمد خان کھرلشاہجہانمیر تقی میر2013کوئلافغانستانمکی ماؤس24 اپریلگرگٹستراپون(جنسی پوزیشن)عالمی صحت تنظیمغزوہ خندقدسمبرسلجوقی سلطنتقسمت بیگخدا بخش اورئینٹل پبلک لائبریریانڈونیشیابہادر شاہ ظفرربڑریمبکری19721433سمندری جہازپریانکا چوپڑاابراہام لنکنفتح جنگتیجی فرانسیسی جمہوریہترکمانستانابن انشاءسویڈنہسپانیہرائے احمد خان کھرلٹائٹینکفینکس1212عبد الرحمان جامی3 فروریلگژری کار1915ءامام موسیٰ کاظمیوناہکرشنتیندواانگریزطہ حسینضلع سین تے ماغنےعلیترکیمحمد خیر محمد الحجازیمحمد شوکانی1214مرزا محمد ہادی رسوامصادر یہودیت🡆 More