یوم آزادی بھارت: بھارت کا یوم آزادی

یوم آزادی بھارت میں ہر سال 15 اگست کو قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔ سنہ 1947 میں اسی تاریخ کو ہندوستان نے ایک طویل جدوجہد کے بعد مملکت متحدہ کے استعمار سے آزادی حاصل کی تھی۔ برطانیہ نے قانون آزادی ہند 1947ء کا بل منظور کر کے قانون سازی کا اختیار مجلس دستور ساز کو سونپ دیا تھا۔ یہ آزادی تحریک آزادی ہند کا نتیجہ تھی جس کے تحت انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت میں پورے ہندوستان میں تحریک عدم تشدد اور سول نافرمانی میں عوام نے حصہ لیا اور اس جدوجہد میں ہر کس و ناکس نے اپنا تعاون پیش کیا۔ ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ساتھ تقسیم ہند کا واقعہ بھی پیش آیا اور برطانوی ہند کو مذہبی بنیادوں پر دو ڈومینین میں تقسیم کر دیا گیا؛ بھارت ڈومینین اور پاکستان ڈومنین۔ اس تقسیم کے نتیجہ میں دونوں طرف خطرناک مذہبی فسادات ہوئے جن میں تقریباً 1.5 کروڑ لوگ مارے گئے اور بے گھر ہوئے۔ 15 اگست سنہ 1947ی کو بھارت کے وزیر اعظم بھارت جواہر لعل نہرو نے دہلی میں واقع لال قلعہ کے لاہوری دروازہ پر بھارت کا نیا پرچم لہرایا۔ اسی دن ہر سال بھارت کا وزیر اعظم بھارتی پرچم لہراتا ہے اور ملک کو خطاب کرتا ہے۔ اس دن پورے ملک میں قومی تعطیل منائی جاتی ہے اور جگہ جگہ پرچم کشائی اور دیگر رسمی تقریبات کے ذریعہ جشن آزادی منایا جاتا ہے۔

بھارت کا یوم آزادی
The national flag of India hoisted on a wall adorned with domes and minarets.
بھارت کے قومی پرچم کی لال قلعہ میں پرچم کشائی
منانے والےیوم آزادی بھارت: تاریخ, جشن آزادی, سلامتی کے خطرات بھارت
قسمقومی
اہمیتبھارت کی آزادی کا جشن
تقریباتپرچم کشائی، پریڈ، آتش بازی، ملی نغمے اور جن گن من، وزیراعظم بھارت اور صدر بھارت کی تقریریں
تاریخ15 اگست
تکرارہر سال

تاریخ

17 ویں صدی میں یورپی تجار بر صغير میں آنا شروع ہوئے اور انھوں نے اپنی چوکیاں قائم کر لیں۔ دھیرے دھیرے انھوں نے فوج جمع کرنا شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک طاقتور فوج بنا لی اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے علاقائی راجاؤں کو اپنے زیر اثر لے لیا اور بالآخر اٹھارہویں صدی میں کمپنی راج قائم کر لیا اور یوں وہ ہندوستان کی غالب طاقت بن گئی۔ جب ہندوستانی علما اور بڑے رہنماؤں نے محسوس کیا کہ اگر ایسٹ انڈیا کمپنی کو روکا نہ گیا تو مستقبل میں یہ ہندوستان کی حکمران بن جائے گی، لہذا ملک گیر تحریک آزادی ہند کا آغاز ہوا اور جنگ آزادی ہند 1857ء کا واقعہ پیش آیا جس کے بعد حکومت ہندوستان ایکٹ 1858ء بنا جس کی رو سے تاج برطانیہ نے براہ راست ہندوستان کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔اس کے بعد ہندوستان بھر میں تدریجاْ منتعدد تنظیمیں ابھرنا شروع ہوئیں جن میں سب سے مشہور انڈین نیشنل کانگریس ہے جس کی بنیاد سنہ 1885ء میں رکھی گئی۔ :123 پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ میں بہت ساری اصلاحات کی گئیں جن میں مونٹیگو چیمسفرڈ اصلاحات قابل ذکر ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ رولٹ ایکٹ جیسا تکلیف دہ قانون بھی نافذ کیا گیا اور ہندوستانی سماجی کارکنوں نے خود کی حکمرانی کا مطالبہ کیا۔ ہندوستانی عوام کو برطانوی حکومت کا یہ رویہ ہرگز پسند نہیں آیا اور اس طرح موہن داس گاندھی کی قیادت میں ملک بھر میں عدم اعتماد اور سول نافرمانی تحریک کا آغاز ہوا اور پورے ملک میں عدم تشدد تحریک کی لہر دوڑ گئی۔ :167

1930ء کی دہائی میں برطانوی اصلاحات قانونی شکل اختیار کرنے لگی تھیں؛ کانگریس نے انتخابات میں متعدد فتوحات حاصل کیں۔ :195–197 اگلی دہائی مکمل طور سیاسی گھماسان کی دہائی ہے: جیسے پہلی جنگ عظیم میں ہندوستانی شراکت داری، تحریک عدم اعتماد کے لیے کانگریس کی آخری کاوشیں اور آل انڈیا مسلم لیگ کی زیر قیادت اتحاد اسلامیت کا ہنگامہ۔ مگر یہ تمام بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگیاں 1947ء میں آزادی ملنے کے بعد محدود ہو گئیں۔ برصغیر کا جغرافیہ خونی تقسیم ہند کے ذریعہ بھارت و پاکستان میں منقسم کر دیا گیا۔:203

یوم آزادی ماقبل آزادی

19 دسمبر 1929ء کو لاہور میں ہوئے انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس میں مکمل حکومت اور آزادی ہند کا اعلان کر دیا اور اور 15 اگست کو یوم آزادی منانے کا بھی اعلان کیا گیا۔ کانگریس نے عوام کو خود کو سول نافرمانی کے لیے سونپ دینے کی گزارش کی اور ہدایت دی کہ وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے کانگریس کی ہدایات پر عمل کریں یہاں تک کہ ہمیں مکمل آزادی مل جائے۔

اس طرح یوم آزادی منانے کا مقصد ہندوستانی عوام میں آذادی کا شوق اور جذبہ قائم کرنا تھا اور برطانوی حکومت کو یہ پیغام دینا تھا کہ وہ جلد از جلد مکمل آزادی دینے پر غور کریں۔ :19 1930ء اور 1946ء کے دوران میں کانگریس نے 26 جنوری کو یوم آزادی منایا۔ جشن آزادی کے موقع پر متعدد جلسے ہوتے تھے جہاں حاضرین آزادی کا عہد کرتے تھے۔ :19–20

جواہر لعل نہرو نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے: “اس طرح کے جلوس مکمل خاموش، سنجیدہ اور اور پرامن ہوتے تھے جہاں تقریر و تحریر سے مکمل گریز کیا جاتا تھا۔ “ مہاتما گاندھی ان جلسوں میں پورا دن خالی بیٹھ کر گزارنے کی بجائے کوئی تعمیری کام کیا کرتے تھے مثلاً چرخا چلایا کرتے تھے، اچھوت لوگوں کی خدمت کیا کرتے تھے، ہندو اور مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوششیں کیا کرتے تھے یا پھر یہ تمام کام ایک ساتھ کیا کرتے تھے۔ 1947 میں حقیقی آزادی ملنے کے بعد 26 جنوری 1950 کو آئین ہند نافذ کیا گیا اور تب سے یہ دن یوم جمہوریہ بھارت کے طور پر منایا جانے لگا۔

فوری پس منظر

دوسری جنگ عظیم کے کے بعد برطانوی خزانہ خالی ہو گیا، تب 1946 میں برطانیہ میں لیبر پارٹی نے محسوس کیا کہ اس کو نا تو گھر میں رائے عامہ ہے، نہ ہی کوئی عالمی حمایت حاصل ہے اور نہ ہی ہندوستان کو بے چین اور خستہ حال کردینے کی وجہ سے برطانوی ہندی فوج کا بھروسا حاصل ہے۔ :203 20 فروری 1947ء کو وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی نے اعلان کیا کہ برطانوی ہند کو 1948ء تک مکمل آزادی اور حکومت کا اختیار سونپ دیا جائے گا۔

نئے گورنر جنرل ہند لوئس ماؤنٹ بیٹن نے یہ سوچتے ہوئے آزادی کی تاریخ آگے بڑھادی کہ کانگریس اور مسلم لیگ کے مابین مسلسل تنازعات کی وجہ سے عبوری حکومت گر سکتی ہے۔ انھوں نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے ہتھیار ڈالنے کی دوسری سالگرہ کی تاریخ، 15 اگست کو منتقلی حکومت کے لیے مناسب سمجھا۔ 03 جون 1947ء کو حکومت برحانیہ نے اعلان کیا کہ تقسیم ہند کامشورہ منظور کر لیا گیا ہے اور ملک کو دو ریاستوں میں تقسیم کریا جائے گا، دونوں حکومتوں کو ڈومینین کا درجہ دیا جائے گا اور یوں دولت مشترکہ ممالک میں شامل ہونے کی اہلیت دونوں کو حاصل ہو جائے گی۔ قانون آزادی ہند 1947ء کے تحت عظیم برطانوی ہندوستان کو دو آزاد ڈومینین میں تقسیم کر دیا گیا اور 15 اگست 1947ء سے یہ قانون نافذ ہو گیا۔ اور اس طرح دونوں نئے قانون ساز اسمبلیوں کو مکمل قانونی اختیار حاصل ہو گیا۔ 18 جولائی 1947ء کو اس پر شاہی مہر بھی لگ گئی۔

تقسیم اور آزادی

صبح 0830 بجے - گورنر ہاوس پر گورنر جنرل اور وزرا کی حلف برداری

صبح 0940 بجے- وزرا کا قانون ساز اسمبلی کی طرف کوچ
صبح 0950 بجے- قانون ساز اسمبلی تک سٹیٹ ڈرائیو
صبح 0955 بجے- گورنر جنرل کو شاہی سلامی
صبح 1030 بجے- قانون ساز اسمبلی میں پرچم کشائی
صبح 1035 بجے- گورمنٹ ہاوس تک سٹیٹ ڈرائیو
شام 0600 بجے - انڈیا گیٹ پر پرچم کشائی
شام 0700 بجے- روشنی
شام 0745 بجے- آتش بازی
شام 0845 بجے- گورنر ہاوس پر رسمی عشائیہ

رات 1000 بجے- گورنر ہاوس پر استقبالیہ

ترتیب وار سرگرمیاں، 15 اگست 1947ء:7 :7

آزادی کے ساتھ ساتھ تقسیم کا اعلان ہونا تھا کہ لاکھوں مسلم، سکھ اور مسیحی پناہ گزیں ریڈکلف لائن کے آس پاس کئی دنوں تک بھٹکتے رہے۔ ان کو پکڑا جاتا اور مارا جاتا تھا۔ خطۂ پنجاب کی تقسیم نے سکھ کے علاقوں کو دو حصوں میں منقسم کر دیا اور وسیع پیمانہ پر قتل عام ہوا، لیکن بنگال اور بہار میں چونکہ مہاتما گاندھی خود موجود تھے لہذا ان علاقوں میں فسادات نسبتاً کم ہوئے۔ مجموعی طور پر سرحد کے دونوں جانب ڈھائی لاکھ سے 10 لاکھ افراد فسادات میں ہلاک ہوئے۔ جس وقت پورا ملک جشن آزادی میں مشغول تھا، مہاتما گاندھی کلکتہ میں قتل عام کو روکنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ 14 اگست 1947ء کو یوم آزادی پاکستان کا اعلان کیا گیا اور اسی دن محمد علی جناح نے کراچی میں پہلے گورنر جنرل پاکستان کے طور پر حلف لیا۔ دوستور ساز اسمبلی ہند کا پانچواں اجلاس 14 اگست کو 11 بجے صبح نئی دہلی کے کونسٹی ٹیوشن ہال میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت راجندر پرساد نے کی۔اس موقع پر جواہر لعل نہرو نے بھارت کی آزادی کا اعلان کرتے ہوئے ایک تقریر کی جسے تقدیر سے وعدہ ملاقات کا نام دیا گیا تھا۔

کئی برس قبل ہم نے تقدیر سے وعدہ ملاقات کا عہد کیا تھا اور اب وہ وقت آگیا ہے جب ہمیں اس کا پھل ملنے والا ہے، مکمل نہیں بلکہ کافی اور وافر مقدار میں۔ رات کے اس نصف پہر میں جب کہ پوری دنیا سو رہی ہے، بھارت ایک نئی زندگی اور آزادی کی صبح میں سانس لے گا۔ وہ لمحہ آگیا ہے جو تاریخ میں بہت کم آتا ہے، جب ہم پرانا سے نیا کی طرف قدم رکھ رہے ہیں، جب ایک عہد کا خاتمہ ہورہا ہے، جب ایک قوم کی روح برسوں دبائے جانے بعد اب آزاد ہوگی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس پر امن موقع پر یہ عہد کریں کہ ہم بھارت کی خدمت کریں گے، اس کی عوام کی خدمت کریں گے اور پوری انسانیت کی خدمت کریں گے۔

تقریر کامیابی کا عہد، جواہر لعل نہرو، 15 اگست 1947ء

بھارت ڈومینین کے آزاد ہونے کے بعد نئی دہلی میں سرکاری جشن منایا گیا۔ نہرو نے بھارت کے پہلے وزیر اعظم کے طور پر حلف لیا اور لوئس ماؤنٹ بیٹن بدستور گورنر جنرل ہند کے عہدہ پر برقرار رہے۔ :6

جشن آزادی

یوم آزادی بھارت میں عام تعطیلات میں سے ایک ہے- باقی دو قومی تعطیلات یوم جمہوریہ بھارت 26 جنوری اور گاندھی جینتی 02 اکتوبر کو منائی جاتی ہیں۔ یوم آزادی سرکاری طور پر بھارت کے تمام صوبوں اور متحدہ عملداریوں میں منایا جاتا ہے۔ یوم آزادی سے پہلی شام کو صدر بھارت قوم کے نام خطاب کرتا ہے۔ 15 اگست کو وزیر اعظم تاریخی لال قلعہ پر پرچم بھارت لہراتا ہے۔ اس قابل فخر موقع پر 21 توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔ اپنی تقریر میں وزیر اعظم سرکار کی گذشتہ سال کی کامیابیوں کو عوام سے سامنے رکھتا ہے، اہم مسائل پرروشنی ڈالتا ہے اور مزید ترقی کا وعدہ کرتا ہے۔ وہ تحریک آزادی ہند کے مجاہدین کو سلامی پیش کرتا ہے۔ بھارت کا قومی گیت جن گن من گایا جاتا ہے۔ تقریر کے بعد بھارتی مسلح افواج اور پیرا ملٹری افواج کا مارچ ہوتا ہے۔ بھارت کی وسیع تہذیب و ثقافت اور آزادی کی جدوجہد سے متعلق تصاویر اور اشیاء کی نمائش کی جاتی ہے۔ اسی طرح کی تقریبات تمام صوبہ جات میں کی جاتی ہے جہاں متعلق صوبہ کا وزیر اعلیٰ پرچم کشائی کرتا ہے اس کے بعد افواج کی پریڈ ہوتی ہے اور پھر نمائش کی جاتی ہے۔ سنہ 1973ء تک صوبہ کا گورنر ہی پرچم کشائی کیا کرتا تھا مگر فروری 1974ء میں تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کروناندھی نے وزیر اعظم اندرا گاندھی سامنے اس مسئلہ کو اٹھایا کہ یوم آزادی کے موقع پر جیسے وزیر اعظم لال قلعہ پر پرچم کشائی کرتا ہے ویسے صوبوں میں وزیر اعلیٰ کو پرچم کشائی کی اجازت ہونی چاہیے۔ ملک بھر میں سرکاری و غیر سرکاری اداروں، اسکولوں اور کالجوں میں تقریب پرچم کشائی اور دیگر ثقافتی تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ بڑی سرکاری عمارتوں میں قمقہ بازی اور روشنی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دہلی اور دوسرے شہروں میں اس موقع پر پتنگ بازی خوب جم کر ہوتی ہے۔ اور اس موقع پر کافی تعداد میں مختلف ناپ کے جھنڈے یوم آزادی کی رونق کو دوبالا کردیتے ہیں۔ بھارتی شہری اچھے لباس پہنتے ہیں، کلائیوں میں ترنگا دھاگا باندھتے ہیں اور گھروں اور کاروں کو جھنڈہ کے رنگ سے سجاتے ہیں۔

دنیا بھر میں موجود بھارت کے باشندے جشن آزادی مناتے ہیں، پریڈ کرتے ہیں اور جن گن من گاتے ہیں۔ نیو یارک شہر اور امریکا کے دیگر کچھ شہروں میں 15 اگست یوم بھارت کے طور پر منایا جاتا ہے جس میں علاقائی باشندے بھی شامل ہوتے ہیں۔

سلامتی کے خطرات

آزادی کے تین برسوں کے بعد ناگا نیشنل کونسل نے شمال مشرقی بھارت میں یوم آزادی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ 1980 کی دہائی میں اس علاقہ میں علیحدگی پسند احتجاجات نے کافی زور پکڑا ہے؛ باغی تنظیموں نے یوم آزادی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور دہشت گردانہ حملوں کی دھمکیاں بھی دی ہیں۔ ان میں آزاد آسام اور نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈولینڈ شامل ہیں۔ 1980ء کی دہائی سے جموں و کشمیر میں بغاوت نے زور پکڑنا شروع کیا، علیحدگی پسند جماعتوں نے احتجاج کرنا اور یوم آزادی کا بائیکاٹ شروع کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ وہ لوگ ہڑتال کرنے لگے، کالے جھنڈے لہرائے گئے اور حتیٰ کہ بھارت کے پرچم کو جلایا بھی گیا۔ لشکر طیبہ، حزب المجاہدین اور جیش محمد جیسی فعال تنظیموں نے متعدد مرتبہ یوم آزادی کے موقع حملہ کی دھمکیاں دی ہیں اور اور کئی مرتبہ تو حملے بھی کردئے ہیں۔ باغی نکسلیوں اور ماؤویوں نے بھی جشن کا آزادی کا بائیکاٹ کیا ہے۔ ان خطرات کی وجہ سے اور حملوں کی دھمکیوں اور چند حملوں کے پیش نظر حفاظت کے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں۔ اہم شہروں جیسے دہلی اور بمبئی اور پریشان حالات سے دوچار علاقہ جیسے جموں و کشمیر میں حفاظت کے سخت انتظامات ہوتے ہیں۔ لال قلعہ کے ارد گرد کسی پرواز کی اجازی نہیں ہوتی۔ دیگر شہروں میں مزید پولس تعیینات کر دی جاتی ہے۔

ثقافت عامہ میں

یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقع پر ٹی وی اور ریڈیو پر مخلتلف زبانوں میں وطن پرستی سے معموم نغمے نشر کیے جاتے ہیں۔ یہ نغمے پرچم کشائی کی تقریب میں بھی گائے جاتے ہیں۔ تحریک جنگ آزادی اور بھارتیت پر مبنی فلمیں بھی نشر کی جاتی ہیں۔ مگر گذشتہ کچھ دہائیوں سے، دی ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق، ان فلموں کی تکرار کی وجہ ان کے مشاہدہ در میں کمی آئی ہے۔ نئی نسل کے نوجوان آج کے دنوں میں جشن آزادی کو وطن پرستی کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔اور یہ وطن پرستی ترنگے کپڑوں اور ایسے لباسوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں جن سے وطن پرستی، قومی تہذہب و ثقافت اور مختلف روایات کی صاف عکاسی ہوتی ہے۔ دکانیں یوم آزادی کے موقع پر قومی پرچم کے رنگ سے سجا دی جاتی ہیں اور آزادی سیل بھی لگاتے ہیں۔ کچھ خبروں نے یوم آزادی کی تجارتی منافع کے لیے استعمال کی نفی کی ہے۔ بھارتی ڈاک نے 15 اگست کے موقع تحریک آزادی کی یاد میں مجاہدین آزادی، وطن پرست تھیم اور دفاعی تھیم پر متعدد ڈاک ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ آزادی اور تقسیم کے موضوع پر وسیع پیمانے پر فلمیں بنیں، کتابیں، ناول افسانے لکھے گئے۔ اور شاعروں نے اپنے ردیف و قافیے آزادی کے واقعات، وطن پرست جذبات اور تقسیم کے تلخ حقائق سے بھر دئے۔ سلمان رشدی کا ناول مڈنائٹ چلڈرن (1980)، جس کو مین بکر پرائز سے نوازا گیا، اس ناول میں مصنف نے 14-15 اگست 1947ء کی رات میں پیدا ہوئے بچوں کے واقعات کو بڑے ہی ساحرانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ 99 فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی، محمد علی جوہر اور حسرت موہانی جیسے شاعروں نے آزادی سے متعلق اچھی شاعری کی ہے۔ فیض احمد فیض کی نظم

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر، وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

خاص و عوام میں کافی مقبول ہے۔

پروفیسر گوپی چند نارنگ اپنی کتاب ہندوستان کی تاریخ آزادی اور اردو شاعری میں رقمطراز ہیں:

آزادی کی دیوی نمودار تو ہوئی لیکن خون میں ڈوبی ہوئی۔ زمین سے آسمان تک فرقہ واریت کا زہر بھر گیا۔ تعصب اور تنگ نظری کی آگ اتی بھڑک چکی تھی کہ صدیوں کا تہذیبی سرمایہ اس میں فنا ہوتا نظر آتا تھا۔ ہندو مسلمان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے اور درندگی، سفاکی اور بربریت کی وحشتی قوتیں بے لگام ہوگئیں۔ ہندوستان کی ترقی اور سربلندی کا خواب دیکھنے والوں کو ان حالات سے سخت صدمہ پہونچا۔ اس وقت ملک میں جو بجھی بجھی فضا اور درد کی لہر تھی وہ فیض کی نظم ‘‘صبح آزادی‘‘ کے مصرعوں میں ہمیشہ کے لیے مجسم ہو گئی ہے۔

لیری کولنز اور ڈومینق لیپیر نے ایک کتاب ‘‘فریڈم ایٹ مڈنائٹ (1975) لکھی جس میں پہلے یوم آزادی کے موقع ہوئی تقریبات کو پیش کیا ہے۔ کچھ فلموں میں بھی آزادی کی جدوجہد کو دکھایا گیا ہے۔

حوالہ جات

Tags:

یوم آزادی بھارت تاریخیوم آزادی بھارت جشن آزادییوم آزادی بھارت سلامتی کے خطراتیوم آزادی بھارت ثقافت عامہ میںیوم آزادی بھارت حوالہ جاتیوم آزادی بھارتانڈین نیشنل کانگریسبھارتبھارت ڈومینینتحریک آزادی ہندتقسیم ہندجواہر لعل نہرودہلیسول نافرمانیقانون آزادی ہند 1947ءقانون سازیلال قلعہلاہوری دروازہمجلس دستور سازمملکت متحدہوزیر اعظموزیر اعظم بھارتپاکستان ڈومنینپرچم بھارتڈومینین

🔥 Trending searches on Wiki اردو:

عمار بن یاسرغزوہ خیبرمعاشرہاسم صفتعشرحدیث ثقلینمستنصر حسين تارڑاردو ادب کا دکنی دورپہلی جنگ عظیماسلام میں زنا کی سزاسورہ الاحزابعام الفیلوزارت امور خارجہ (پاکستان)قصیدہانڈین نیشنل کانگریسسجاد حیدر یلدرممسلم سائنس دانوں کی فہرستموہن جو دڑوسورہ القصصجنگلتحریک پاکستانمغلیہ سلطنت کے حکمرانوں کی فہرستموسیٰ اور خضرہامان (وزیر فرعون)تصوف لغوی مباحثمستدرک حاکماقبال کا تصور تعلیمعاصم بن محمد بن زید عمرییاجوج اور ماجوجفرحت عباس شاہصالحصلیبی جنگیںفرعوننظریہ پاکستاناحد چیمہثقافتنماز مغربقریشمریم بنت عمرانافریقی اتحادلوط (اسلام)حقوقیونسپاکستان کے رموز ڈاکصفحۂ اولاسلام میں حیضاجزائے جملہیسوع مسیحموطأ امام مالکجنتکمپیوٹرغزوہ خندقغزوہ احدنہرو رپورٹہاروت و ماروتاجوائنخارجیزین العابدینخدیجہ بنت خویلداسلام میں طلاقلعل شہباز قلندرفہرست وزرائے اعلیٰ پنجاب، پاکستاناقبال کا تصور عقل و عشقاصحاب الایکہشاہد آفریدیتاریخعبد اللہ بن عبد المطلبفاطمہ جناحفاعل-مفعول-فعلمحمود غزنویسیرت النبی (کتاب)اردو نظمتمغائے امتیازبیعت الرضوانجمع (قواعد)انس بن مالکگرین ہاؤس🡆 More