ببر شیر

ببر شیر

اضغط هنا للاطلاع على كيفية قراءة التصنيف
اضغط هنا للاطلاع على كيفية قراءة التصنيف

ببر شیر
 

صورت حال   ویکی ڈیٹا پر (P141) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
! colspan = 2 | حیثیت تحفظ
زدپذیر انواع
اسمیاتی درجہ نوع   ویکی ڈیٹا پر (P105) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت بندی  ویکی ڈیٹا پر (P171) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت  پستانیہ
ذیلی جماعت  تھیریا
طبقہ  گوشت خور جانور
خاندان  خاندان گربہ
سائنسی نام
Panthera leo  ویکی ڈیٹا پر (P225) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لنی اس   ، 1758  ویکی ڈیٹا پر (P225) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حمل کی مدت
ببر شیر
 
خريطة إنتشار الكائن

‏‏
ببر شیر  ویکی ڈیٹا پر (P935) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اضغط هنا للاطلاع على كيفية قراءة التصنيف
اضغط هنا للاطلاع على كيفية قراءة التصنيف
ببر شیر
دور: Pleistocene–Present
D
C
P
T
J
K
Pg
N
ببر شیر
اوکونجیمہ ،نمیبیا میں (نر) ببر شیر

اوکونجیمہ ،نمیبیا میں (مادہ) ببر شیرنی
اوکونجیمہ ،نمیبیا میں (مادہ) ببر شیرنی
اوکونجیمہ ،نمیبیا میں (مادہ) ببر شیرنی
صورت حال
! colspan = 2 | حیثیت تحفظ
ببر شیر
Vulnerable  (IUCN 3.1)
اسمیاتی درجہ نوع   ویکی ڈیٹا پر (P105) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت بندی  ویکی ڈیٹا پر (P171) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت  پستانیہ
ذیلی جماعت  تھیریا
طبقہ  گوشت خور جانور
خاندان  خاندان گربہ
سائنسی نام
Panthera leo  ویکی ڈیٹا پر (P225) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لنی اس   ، 1758  ویکی ڈیٹا پر (P225) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حمل کی مدت
Subspecies
ببر شیر
Historical and present distribution of lion in افریقا، ایشیا and یورپ

‏‏
ببر شیر  ویکی ڈیٹا پر (P935) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ببر شیر (Panthera Leo، پینتھرا لیو) جنس پینتھرا میں موجود پانچ بڑی بلیوں میں شامل خاندان گربہ کا رکن ہے۔ افریقی شیروں کی عام مستعمل اصطلاح سے مراد افریقہ کی ذیلی ببرشیروں کی انواع (species) ہیں۔ بعض شیروں کا وزن ڈھائی سو کلو گرام سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے اور اس لحاظ سے یہ شیرکے بعد دوسری بڑی بلی ہے۔ جنگلی افریقا کے نیم صحارا علاقوں اور ایشیا (جو بھارتی گیر فورسٹ نیشنل پارک میں پائی جاتی ہے اور اس علاقے میں یہ معدومی کے خطرے سے دوچار ہے) جبکہ ببر شیروں کی دیگر انواع شمالی افریقہ اور جنوب مغربی ایشیا سے بہت پہلے غائب ہو چکی ہیں۔ آج سے دس ہزار سال قبل پیلسٹوسین ادوار کے اواخر میں ہی انسان کے بعد سب سے زیادہ خشکی کے رقبے پر پھیلا ہوا ممالیہ تھا۔ اس زمانے میں یہ تقریباً تمام افریقا، تمام یوریشیا مغربی یورپ سے ہندوستان اور امریکا میں يوكون سے پیرو تک پایا جاتا تھا۔معدومی کے خطرے سے دوچار جانور ہے اور افریقی خطے میں بیسویں صدی کے دوسرے حصے میں اس کی آبادی میں 30 سے 50 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی۔شیروں کی آبادی قومی پارکوں اور غیر محفوظ علاقوں میں غیر مستحکم ثابت ہوتی ہے۔اگرچہ اس کے معدوم ہونے کی وجوہات مکمل طور پرسمجھی نہیں جاسکیں لیکن مسکن سے محروم ہونا اور انسان سے سامنا ہونا جیسے امور عہد حاضر میں خطرے کی اہم وجوہات میں سے ہیں۔ افریقہ میں مغربی افریقی ببر شیروں کی آبادی معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔

جنگلوں میں نر اکثر اوقات صرف دس تا چودہ سال جی سکتے ہیں کیونکہ حریف نر شیروں سے ان کا مقابلہ ہوتا رہتا ہے لہذا چوٹ لگنے سے ان کی طول عمری کی گنجائش کم ہی رہتی ہے۔جبکہ انسانی تحویل میں یہ 20 سال کی زندگی پا سکتے ہیں۔ عام طور پر یہ سوانا اور گھاس کے میدانوں میں رہتے ہیں جبکہ بعض اوقات یہ جنگل اور جھاڑیوں کو بھی مسکن بنا لیتے ہیں۔ عام حالات کے برعکس دوسری بلیوں کے مقابلے میں زیادہ سماجی رویہ دکھاتے ہیں۔ ایک کا خاندان (حرم) عام طور سے متعلقہ ببر شیرنیوں، اولادوں اور بچوں کی مختصر سی تعداد پر مشتمل ہوتا ہے۔ زیادہ تر ببر شیرنیوں کا گروہ ہی شکار میں حصہ لیتا ہے جن کے شکار میں کھروں والے جانور ہی زیادہ شامل ہوتے ہیں۔ سب سے اعلیٰ شکاری اور ماحول پر اثر کرنے والے شکاریوں میں سے ہے نیز وہ ایک ماہر مردار خور بھی ہے جو اپنی خوراک کا پچاس فیصد حصہ مردار گوشت کھا کر پورا کرتا ہے۔ عام حالات میں انسانوں پر حملہ نہیں کرتا لیکن کبھی کبھار وہ ایسا بھی کرتا ہے۔ دن بھر نیند لینے میں مشغول رہتا ہے اور اکثر رات کو شکار کیا کرتا ہے اگرچہ وہ دھند لکے میں بھی حملہ کیا کرتا ہے۔

اسے ممتاز کرنا نہایت آسان ہے، نر کو اس کے سر اور گردن کے گرد موجود بالوں(ایال) سے پہچانا جا سکتا ہے اور اس کا چہرہ دنیا بھر کے انسانی ثقافتوں میں سب سے معروف نشان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کی شبیہ بالائی پیلیو لیتھک (50 ہزار تا 1لاکھ سال قبل) دور سے موجود ہے۔ غاروں میں موجود انسان بھی اپنی قیام گاہ کی دیواروں پر ان کے نقش بناتے تھے۔ تمام قدیم اور قرون وسطیٰ کی ثقافتوں میں اس جانور کی مختلف حوالوں سے موجودگی ایک مسلم بات ہے۔ اس کے مجسمے، تصاویر، قومی جھنڈوں میں موجودگی، فلموں میں اور ادب میں موجودگی ایک عام بات ہے۔ رومی دور میں بھی اسے نمائش وکھیل کے لیے بادشاہان پالتے تھے اور اٹھارویں صدی سے اسے پوری دنیا میں چڑیا گھروں کی زینت بنایا جا رہا ہے۔ پوری دنیا میں چڑیا گھر ایشیائی شیروں کے ملاپ کے ذریعے اسے معدومی سے بچانے کے لیے مشترکہ کاوشیں کر رہے ہیں۔

وجہ تسمیہ

کا انگریزی نام دیگر کئی رومی زبانوں میں مستعمل ہے جو لاطینی زبان کے لیو اور قدیم یونانی کے لیون سے نکلا ہے۔عبرانی زبان کے لفظ لاوی کو بھی اسی سے مشترک کیا جاتا ہے۔جبکہ اردو میں مستعمل فارسی الاصل ہے۔ نیز ببر کی اصلاح عربی میں بھی موجود ہے۔ یہ ان انوع میں سے تھی جسے اٹھارویں صدی میں کارلس لینیوس نے اپنی کتاب Systema Naturae میں نام دیا تھا انھوں نے اسے فیلس لیو کا نام دیا۔

سائنسی درجہ بندی اور ارتقا

ببر شیروں کے دیگر قریبی رشتہ داروں میں جنس پینتھرا کے انواع جیسے شیر، جیگوار اور تیندوے شامل ہیں۔ ہولارکٹک خطوں میں پھیلنے سے قبل پی لیو افریقہ میں دس لاکھ سے آٹھ لاکھ سال قبل نمودار ہوا۔یورپ میں اس کے رکازیات سات لاکھ سال پرانے دریافت ہوئے ہیں جو اس کے ذیلی نوع پینتھرا لیو فوسیلیس کے ہیں اور یہ اطالیہ سے دریافت ہوئے ہیں ۔اسی نوع سے پھر غاروں والے زمانے کے ببر شیروں (پینتھرا لیو سپیلائی) کا ارتقا ہوا۔ یہ عمل تین لاکھ سال قبل ظہور میں آیا۔ شمالی یوریشیائی علاقوں میں دس ہزار سال پہلے برفانی میدان بننے کے آخری ادوار میں وہاں سے ببر شیروں کا خاتمہ ہوا اور شاید یہی پیلسٹوسین دور میں بڑے جانوروں کے ناپید ہونے کا دوسرا دور تھا۔

ذیلی نوع

ببر شیر 
20 ویں صدی کے اواخر میں عام طور سے قبول کیے جانے والے ذیلی انواع کا جغرافیائی پھیلاؤ
ببر شیر 
نر اور مادہ ایتوشا نیشنل پارک، نمیبیاء

روایتی طور پر موجودہ دور میں ببر شیروں کی بارہ انواع پہچانی گئی ہیں اور اس پہچان کی بنیاد ببر شیروں کے سر اور گردن کے بالوں کی ظاہریت، جسامت اور ان کے جغرافیائی پھیلاؤ کو دیکھ کر کی گئی ہے۔ اصلاََ یہ تمام خصوصیات نہایت غیر اہم ہیں اور انفرادی طور پر اس میں کافی تبدیلی بھی نظر آتی ہے لہذا ان میں سے اکثریت کا مختلف نوع ہونا درست نہیں۔آج صرف ان کی آٹھ انواع کو ہی قبول کیا جاتا ہے، اگرچہ ان میں سے بھی ایک کیپ جسے پہلے پینتھرا لیو میلنکیاٹا کہا جاتا تھا غالبا غیر حتمی ہے۔حتیٰ کہ باقی سات انواع بھی غیر یقینی ہو سکتے ہیں۔جبکہ ایشائی ببر شیروں کو بطور نوع قبول کیا جا سکتا ہے، افریقی ببرشیروں کے انتظامی تعلق کو اب بھی مکمل طور پر حل نہیں کیا جا سکا ہے۔ مائیٹو کونڈریائی فرق کی بنیاد کچھ جدید مطالعوں میں افریقی شیروں کے فرق کے لیے سب سے مستند حوالہ ہے، اس کے مطابق تما م ذیلی صحارا کے شیر بعض اوقات ایک ہی نوع تصور کیے جاتے ہیں، بہرحال ایک جدید تحقیق کے مطابق مغربی اور وسطی افریقہ کے شیر جنوبی اور مشرقی افریقی ببر شیروں سے جینیاتی طور پر مختلف ہیں۔اس مطالعہ کے مطابق مغربی افریقہ کے جنوبی اور مشرقی ببر شیروں کے مقابل ایشائی ببر شیروں کے زیادہ قریب ہیں۔امکان ہے کہ پیلسٹوسین کے آخری ادوار میں مغربی اور وسطی افریقہ میں افریقی ناپید ہو گئے ہوں اور ان کی جگہ بعد میں ایشیائی ببر شیروں نے لے لی ہو۔

پچھلے مطالعات جن میں زیادہ توجہ جنوبی اور مشرقی افریقی ببر شیروں کو دی گئی تھی کے بنیاد پر انھیں دو اہم قبیلوں میں بانٹا جا سکتا ہے : ایک کو گریٹ رفٹ ویلی اور دوسرے کو مشرقی علاقوں میں رکھا گیا ہے۔ مشرقی کینیا کے علاقے تساو میں موجود ٹرانسوال (جنوبی افریقہ) کے کے ببر شیروں سے جینیاتی طور پر قریب ہیں اور یہ قربت مغربی کینیا کے علاقے ایبرڈیر خطے کے ببر شیروں کے مقابلے میں بھی زیادہ ہے۔ایک اور تحقیق کے مطابق شیروں کی تیں اہم اقسام ہیں ایک شمال افریقی و ایشیائی، دوسری جنوبی افریقی اور تیسری وسطی افریقی۔ پر کرسچئینسن کہتے ہیں کہ انھوں نے ببر شیروں کی کھوپڑی کی ظاہریت کے مطابق ببر شیروں کے کئی انواع کا پتہ لگایا جن میں کروگری، نیوبیکا، پرسیکا اور سینیگالینیسس شامل تھے جبکہ بلیینبرگی کی سینیگالینیسس اور کروگری سے مماثلت تھی۔ ایشیائی سب سے زیادہ قابل امتیاز ہیں اور کیپ کی خصوصیات پی۔ایل۔ پرسیکا کے قریب ہیں بنسبت دیگر ذیلی صحارائی شیروں کے۔ انھوں نے ببر شیروں کے 58 کھوپڑیوں کا تین یورپی عجائب گھروں میں مطالعہ کیا۔ موجودہ جینیاتی مطالعات کی بنیاد پر آئی یو سی این ایس ایس کی کیٹ کلاسیفیکیشن ٹاسک فورس نے اپنی ماہرین کی مدد سے تمام ایشیائی ببر شیروں اور وسطی، شمالی افریقی ببر شیروں کو ذیلی نوع لیو لیو اور جنوبی مشرقی افریقہ میں پائے جانے والے ببر شیروں کو پینتھرا لیو میلنچیاٹا میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی کی آبی حیات اور جنگلی حیات کے سرکاری ادارے نے اس نئی درجہ بندی کو " سائنسی اور اقتصادی طور پر بہترین" کہہ کر ان دو ذیلی نوع کو معدومی کے خطرے سے دوچار جانوروں کی فہرست میں ڈالا ہے۔

چڑیا گھروں میں رکھے جانے والے ببر شیروں کی اکثریت دوغلی نوع کی ہیں۔ تقریباً ستتر فیصد انسانی تحویل میں موجود شیروں کی انواع عالمی نظام معلومات نوع کے مطابق نا معلوم ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کے مطابق ان میں سے بعض انواع جنگلی طور پر ناپید بھی ہو چکے ہیں اس لیے ان کے جینیاتی معلومات کو محفوظ رکھنا ببر شیروں کی جینیاتی اختلافات کو جاننے کے لیے اہم ہے۔اس بات پر غالبا یقین کیا جاتا ہے کہ 19 ویں صدی کے وسط سے قبل یورپ میں لائے گئے بربر کے تھے جو شمالی افریقہ سے تعلق رکھتے تھے یا کیپ کے علاقے کے تھے۔

جدید

اس وقت ان آٹھ جدید(ہولوسین) ذیلی انواع کو تسلیم کیا جاتا ہے :

ببر شیروں کی ذیلی انواع
ذیلی انواع معلومات تصویر
بربری ببر شیر کو اٹلس ببر شیر یا شمالی افریقی ببر شیر بھی کہا جاتا ہے بربری کو اٹلس یا شمالی افریقی بھی کہا جاتا ہے یہ الجزائر، مراکش، تونس اور مصر میں پایا جاتا ہے یہ شمالی افریقہ سے ببر شیروں کی نامزد ذیلی نوع ہے۔ کثرت شکار سے شمالی افریقہ کے ویرانوں سے اسے ختم کیا جاچکا ہے جیسا کہ اس کا آخری شکار 1920ءمیں مراکش میں منظر عام پر آیا۔ یہ ببر شیروں کی سب سے بڑی نوع تھی، اس کے نر ببر شیروں کی لمبائی 3٫0–3٫3 میٹر (9٫8–10٫8 فٹ) اور وزن 200 kg (440 lb) ہوتا ہے۔ یہ نوع ذیلی صحارائی ببر شیروں کی نسبت ایشیائی ببر شیروں کے قریب نظر آتی ہے۔ بہت سے انسانی تحویل میں موجود اسی قسم سے ہیں۔، رباط کے چڑیا گھر میں کم و بیش اس کی تعداد 90 ہے۔

شمالی افریقہ: (الجزائر، مصر، لیبیاء، مراکش اور تونس)

ببر شیر 
ایشیائی ببر شیر، جسے ہندوستانی ببر شیر یا ایرانی ببر شیر بھی کہا جاتا ہے بھارتی گجرات کے گیر جنگلات میں پایا جاتا ہے۔ کبھی یہ تمام ترکی، جنوب مغربی ایشیا سے پاک و ہند تک پھیلے ہوئے تھے۔، گجرات کے گیر جنگلات میں اس کی تعداد 523 ہے۔ جینیاتی ثبوت بتاتے ہیں کہ اس کے اجداد ستر ہزار سے دو لاکھ سال قبل الگ ہوئے تھے۔

جنوبی یورپ: (البانیا، بلغاریہ، یونان، کوسوو، شمالی مقدونیہ، مونٹینیگرو اور سربیا)
مغربی ایشیاء: (آرمینیا، بلوچستان، جارجیا، ایران، عراق، اسرائیل، اردن، کویت، لبنان، بین النہرین، عمان، روس، سعودی عرب، شام، ترکی، متحدہ عرب امارات اور یمن)
جنوبی ایشیاء: (افغانستان، بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان)

ببر شیر 
مغربی افریقی ببر شیر جسے سینیگالی ببر شیر بھی کہتے ہیں مغربی افریقہ میں سینیگال سے وسطی افریقی جمہوریہ تک ملتا ہے۔۔ اسے 2015 میں شدید معدومی کے خطرے سے دوچار فہرست میں رکھا گیا ہے۔ یہ ذیلی صحارا کی ببر شیروں میں سب سے چھوٹی نوع ہے۔

مغربی افریقہ: (بینن، برکینا فاسو، گھانا، مالی، موریتانیہ، نائجیریا اور سینیگال)
وسطی افریقہ: (کیمیرون، چاڈ، وسطی افریقی جمہوریہ، نائجیریا اور نائیجر)

ببر شیر 
ماسائی ببر شیر (یا مشرقی افریقی ببر شیر یہ مشرقی افریقہ میں ایتھوپیا اور موزمبیق سے کینیا اور تنزانیہ تک پایا جاتا ہے اس کی ایک مقامی قسم تساوو کے نام سے بھی معروف ہے۔

مشرقی افریقہ: (جبوتی، ایتھوپیا، ارتریا، کینیا، صومالیہ، جنوبی سوڈان، سوڈان، تنزانیہ اور یوگینڈا)

ببر شیر 
کانگو ببر شیر (پی۔ایل۔ azاورica) یا شمال مشرقی کانگو ببر شیر

یہ کانگو کے شمال مشرقی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ فی الحال روانڈا وسطی افریقہ(وسطی افریقی جمہوریہ، جنوبی سوڈان ٌ) سے ناپید ہو چکا ہے۔

ببر شیر 
جنوب مغربی افریقی ببر شیر یا کٹالنگا یہ جنوب مغربی افریقہ اور جمہوریہ کانگو میں ملتا ہے۔یہ افریقی ذیلی ببرشیروں کے سب سے بڑی انواع میں سے ہے۔

جنوبی افریقا: (انگولا، بوٹسوانا، کانانگا (کانگو)، نمیبیا، زیمبیا، زمبابوے)

ببر شیر 
ٹرانسوال ببر شیر یا جنوب مشرقی افریقی ببر شیر یہ ٹرانسوال جو جنوب مشرقی افریقہ کا خطہ ہے میں پایا جاتا ہے، نیز یہ کروگر قومی پارک میں بھی ملتا ہے۔

جنوبی افریقا: (بوٹسوانا، موزمبیق، جنوبی افریقا، سوازی لینڈ، اورزمبابوے)

ببر شیر 
ایتھوپیائی ببر شیر یا ادیس ابابا ببر شیر ایک نئی بمشکل امتیاز کی جانے والی ایک ذیلی نوع ہے جو ایتھوپیا کے دار الحکومت ادیس ابابا میں انسانی تحویل میں موجود ہے۔ ماہرین نے تحویل میں موجود پندرہ ببر شیروں کے خرد سیارچوںکا موازنہ دیگر جنگلی ببر شیروں کے انواع سے کیا۔ انھوں نے انجام میں پایا کہ جینیاتی طور پر یہ نایاب ہیں "یقینا جن ویرانوں سے ان کے اجداد کا تعلق ہے وہ بھی نایاب ہے "ان ببر شیروں کے نروں کی جلد الگ طور سے گہری رنگت اور خوبصورت قسم کی ہے جو ایک نئی ذیلی نوع جو ایتھوپیا تک محدود ہے کا پتہ دیتی ہے۔ یہ ایتھوپیا کے بادشاہ ہیل سیلاسک اول کے پاس موجود تھے۔

شمال مشرقی افریقہ: (ایتھوپیا)

ببر شیر 

پلسٹوسین

کی چند وہ انواع جو ما قبل تاریخ وجود رکھتی تھیں۔

  • پی۔ایل۔فوسیلیس جسے وسطی پلسٹوسین یورپی غاروں والا ببر شیر کہتے ہیں پانچ لاکھ سال قبل وجود رکھتا تھا اس کے باقیات اٹلی میں دریافت ہوئے ہیں۔ اس کی جسامت موجودہ افریقی ببر شیروں سے بڑی تھی اور یہ جسامت میں امریکی غاروں کے دور کے ببر شیروں کے برابر تھے جبکہ بالائی پیلسٹوسین یورپی غاروں والے ببر شیروں سے تھوڑے بڑے تھے۔
ببر شیر 
غاروں کے دور کا ببر شیرکیوٹ غار، فرانس
  • پی۔ایل۔سپیلائی جسے یورپی غار کا ببر شیر کہتے ہیں یا یوریشین غار کا یا بالائی پیلیسٹوسین غار کا تین لاکھ سے دس ہزار سال قبل یوریشیائی علاقوں میں ملا کرتا تھا۔ اس نوع کی نشانیاں غاروں سے ملنے والے مٹی کے مجسموں اور ان کی دیواروں پر موجود تصویروں کے طور پر ملی ہیں جس سے پتا لگتا ہے کہ ان کے کان آگے کو نکلے ہوئے تھے، دم کے سرے پر گچھا، غالبا بنگالی شیر کی طرح ہلکی دھار اور شاید بعض کے پاس گردن کے گرد ہلکے سے بال ہوتے تھے جو نر کی نشانی تھی۔
  • پی۔ایل۔اٹروکس جو امریکی ببر شیر یا امریکی غاروں والا ببر شیر کے نام سے معروف ہے، پیلسٹوسین ادوار میں کینیڈا سے جنوب میں پیرو تک پایا جاتا تھا اور یہ دس ہزار سال پہلے تک وہاں موجود تھا۔ یہ قسم پی۔ایل۔سپیلائی کے نہایت قریب رشتہ داروں میں سے تھے، یہ شاید اس وقت ان سے الگ ہوئے تھے جب دس لاکھ سال قبل شمالی امریکا کے پی۔ایل۔سپیلائی دس لاکھ سال قبل ان سے الگ ہوئے۔ ببر شیروں کی سب سے بڑی ذیلی نوع میں سے تھی، اندازہً اس کے جسم کی لمبائی 1.6–2.5 میٹر (5.2–8.2 فٹ)۔ تک تھی۔

مشکوک

  • پیتھرا یونگیپی۔ ایل۔ یونگی ساڑھے تین لاکھ سال قبل وجود رکھتا تھا۔ اس کا موجودہ ببر شیروں سے تعلق نامعلوم ہے اور شاید یہ الگ نوع تھی۔
  • پی۔ ایل۔ sinhaleyus سری لنکنی 39000 سال قبل ناپید ہوا۔ کرویٹا کے علاقے سے ملنے والے دو دانتوں سے ہی اس کا اشارہ ملا ہے۔ اس بنیاد پر پی۔ دیرانییاگلا نے 1949ء میں اسے ایک الگ نوع قرار دیا۔
  • پی۔ایل۔ ورشچاگینی بریگینین غاروں والا روس الاس کا اور کینیڈا کے علاقوں میں ملتا تھا اسے پی۔ ایل۔ سپیلائی سے الگ ذیلی نوع سمجھی جاتی ہے جس کی وجہ اس کے ظاہری خصوصیات ہیں۔ اگرچہ یورپ اور الاس کا سے ملنے والے مائٹو کونڈیائی ڈی این اے سے اس کی الگ پہچان کرنا ممکن نہ ہو سکی۔
ببر شیر 
800 ق م کا ایک ایرانی سیل جس میں کے شکار کو دکھایاگیا ہے۔ان ببر شیروں کے شکم تلے بال نظر آ رہے ہیں۔
  • بین النہرینی ببر شیر نیو اسارین دور (600 سے 1000 ق م) میں پایا جاتا تھا۔ یہ بین النہرین کے میدانوں میں ملتا تھا اور شاید یہ ایک الگ ذیلی نوع تھی۔ تقریباً تمام نر ببر شیروں کے پیٹ کے نیچے بال ہوتے تھے اور یہ اب صرف بربری شیروں اور ایشیائی ٹھنڈے خطوں میں رکھے جانے والے تحویلی ببر شیروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ قدیم ثبوتوں سے یہ بات واضح ہے کہ ان خطوں کے آس پاس ایسی کوئی ذیلی نوع نہ تھی لہذا اس بنیاد پر اسے ایک الگ معدوم نوع خیال کیا گیا ہے۔ اس بات کے ثبوت اس دور کے مجسموں اور تصاویر سے ملے ہیں جو اس کے شکار سے متعلق ہیں نیز یہ بات بھی واضح ہے کہ قدیم دنیا میں اس کے زیادہ شکار ہونے کے سبب اس نوع نے اپنا وجود کھویا۔
  • یورپی پینتھرا لیو پرسیکا سے مشابہ تھی۔ یہ 100 قبل از میلاد میں ناپید ہوئی جس کی وجہ بہت زیادہ شکار ہونا تھی۔ یہ بلقان، اطالیہ، جنوبی فرانس اور جزیرہ نما آئبیریا میں ملتا تھا۔ یہ قدیم یونان اور روم میں شکار کے لیے بہترین سمجھا جاتا تھا۔
  • پی ایل مکولیٹس یا ماروزی یا داغدار کو بعض اوقات ایک الگ نوع کہا جاتا ہے یا ہو سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا بالغ ہو جس نے اپنی دھبہ دار جلد برقرار رکھی ہو۔ اگر اسے اس خیال کی بجائے ایک الگ نوع تسلیم کیا جائے تو کی یہ نوع 1931ء میں ناپید ہو چکی تھی۔ لیکن بعض اوقات اسے تیندوے اور کے جنسی اختلاط سے پیدا ہونے والا لیوپیون ہی سمجھا جاتا ہے۔

دوغلی نسل

ایک ببر شیرنی اپنے بچوں کے ہمراہ، جنوبی افریقہ

ببر شیروں کا شیروں کے ساتھ ملاپ کروایا جاتا ہے (بالخصوص بنگالی اور سائبیریائی شیروں سے ) اس سے ایک دوغلی نسل کا شیر لائگر اور ٹگلیون پیدا ہوتا ہے۔ اسے تیندوے سے بھی ملاپ کروایا جاتا ہے جس سے لیوپون پیدا ہوتے ہیں اور جیگوار سے ان کی ملاپ جیگلیون پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ مارزوی مشہور کیا گیا دھبہ دار ہے یا ایک قدرتی طور پر لیوپون ہے، جبکہ کونگولیس دھبہ والا ایک پیچیدہ طور پر ببر شیر-جیگوار اور تیندوے کا باہمی ملاپ ہے جسے لیجیگولیپ کہتے ہیں۔ کبھی چڑیا گھروں میں ایسی دوغلی نسلیں پیدا کرنے کا رواج عام تھا لیکن اب اس بات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے تاکہ نوع اور ذیلی انواع کا تحفظ کیا جاسکے۔ آج بھی پرائیوٹ طور پر اور چین کے چڑیا گھروں میں ایسا کیا جاتا ہے۔

لائگر اور شیرنی کے ملاپ کا نتیجہ ہے۔ چونکہ اس کی ماں میں نشو و نما کو روکنے والی جین نہیں ہوتی اور اس پر نر اپنے جین کے نشو و نما کو بڑھانے والی خصوصیات بچے میں منتقل کرتا ہے لہذا لائگر اپنے والدین کے نسبت کافی بڑا جسامت والا ہوتا ہے۔ وہ اپنے والدین کے طبعی اور ظاہری برتاؤ کے دونوں خصوصیات کا مالک ہوتا ہے۔ (اس کی جلد بھوری ہوتی ہے جس پر شیر کی مانند دھاریں ہوتی ہیں)۔نر لائگر اکثر نسل بڑھانے سے قاصر ہوتے ہیں جبکہ مادہ اکثر ایسا کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ نر کے سر اور داڑھی کے بال آنے کے 50 فیصد امکان ہوتے ہیں لیکن ایسا ہونے کی صورت میں ان کی داڑھی اصل کے مقابلے میں 50 فیصد چھوٹی ہوتی ہے۔

لائگر عام ببر شیروں کے مقابلے میں کافی بڑے ہوتے ہیں اور ان کی جسامت 12 فٹ تک ہوتی ہے جبکہ وزن 500 کلو تک کے ہوتا ہے۔

کم طور پر معروف دوغلی ملاپ کا ایک طریقہ شیر اور ببر شیرنی کے ملاپ کا ہے۔ لائگر کے بنسبت ٹگلیون اپنے والدین کے مقابلے میں چھوٹی جسامت کے ہوتے ہیں جس کی وجہ جینیاتی خصوصیات لائگر والی صورت سے الٹ ہونا ہے۔

خصوصیات

خاندان گربہ میں شیر کے بعد جسامت اور وزن کے لحاظ سے سب سے بڑے ہیں۔ اس کی کھوپڑی شیر کی کھوپڑی سے حد درجہ مماثلت رکھتی ہے، اگرچہ سامنے کا حصہ قدرے پچکا اور ہموار ہوتا ہے اور نتھنے بمقابل شیر کے تھوڑے چوڑے ہوتے ہیں۔ چونکہ ان میں مماثلت زیادہ ہوتی ہے لیکن نچلے جبڑوں کے ذریعہ ہی ان میں مستند طور پر فرق کیا جا سکتا ہے۔ ببر شیروں کے رنگ پیلے، ہلکے سرخ یا گہرے بھورے رنگ کے ہوتے ہیں۔ پورے جسم کا رنگ عام طور سے ہلکا جبکہ دم کا رنگ کالا ہوتا ہے۔ ببر شیروں کے بچے بھورے دھبوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں یہ مشابہت تیندوے سے ملتی ہے۔ یہ دھبے اگرچہ بالغ ہونے پر مٹ جاتے ہیں لیکن ہلکے دھبے ٹانگوں کے نچلے حصوں پر دیکھے جا سکتے ہیں بالخصوص ببر شیرنی کے جسم پر۔ بلیوں کے خاندان کے واحد فرد ہیں جو جنسی فرق نمایاں طور پر رکھتے ہیں (یعنی نر اور مادہ کی پہچان باآسانی ممکن ہے)۔نیز ان کے خاندانی ارکان میں ہر رکن کا ایک خاص کردار ہوتا ہے۔ مثلا ببر شیرنی کی داڑھی نہیں ہوتی۔ نر کی داڑھی کا رنگ سنہرے سے کالا ہوتا ہے اور بوڑھے ہونے کے ساتھ ساتھ رنگ گہرا ہوتا جاتا ہے۔ سب خاص نر اور مادہ میں مشترک چیز دم کے آخر میں بالوں کے گھچے کا ہونا ہے۔ بعض نر ببر شیروں میں اس گھچے کی بجائے سخت قسم کی پانچ ملی میٹر لمبی ہڈی جیسی چیز ہوتی ہے۔ نیز یہ واحد فیلیڈ ہے جس کی دم گھچا نما ہوتی ہے اس گھچے والی دم کے افعال نا معلوم ہیں۔ یہ بالوں کا گھچا پیدائش کے وقت نہیں ہوتا جبکہ 5 ماہ کے قریب یہ ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے اور 7 ماہ تک اسے باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔

زمبابوے کے بالغ ببر شیروں کی جسامت اپنے علاقوں کے نسبت مختلف ہواکرتی ہے، کالاہاری اور کروگر پارک کے ببر شیروں کا وزن اوسطا 189 کلو سے 126 کلو تک ہوتا ہے جبکہ ببر شیرنیوں کا وزن اوسطا 174 کلو سے 119 کلو تک ہوا کرتا ہے۔ ببر شیروں کی لمبائی میں سر اور جسم کی لمبائی شامل ہوتی ہے جو 170 تا 250 سینٹی میٹر ہوتی ہے، دم کی لمبائی 90 تا 105 سینٹی میٹر ہوا کرتی ہے۔ ببر شیرنیوں کی سر دھڑ کی لمبائی 140 تا 175 تک ہوتی ہے جبکہ دم کی لمبائی 70-100 سینٹی میٹر ہوتی ہے، 250 سینٹی میٹر لمبائی بالعموم جو کہی جاتی وہ اصلا امریکی ناپید ہونے والی ببر شیروں کی ہے آج بھی بہت بڑے ببر شیروں کی لمبائی 250 سینٹی میٹر کی لمبائی سے کئی سینٹی میٹر کم ہوتی ہے۔ اب تک سامنے آنے والی سب سے بڑی لمبائی 6۔ 3 میٹر (12 فٹ) ہے جو انگولا میں اکتوبر 1973ء میں ایک شکار سے معلوم ہوئی ایک اور کا وزن جس کا وزن 313 کلو تھا جسے 1936ء میں ٹرانسوال، جنوبی افریقا میں شکار سے ماراگیا۔ ایک اور زیادہ وزن والا جس کا وزن 272 کلو تھا کو کوہ کینیا میں مارا گیا۔

ايال

ببر شیر 
دیگر ببر شیروں سے جارحانہ سامنا ہونے پر اپنے یال بڑے دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

بڑی بلیوں میں کی داڑھی اور گردن کے بال سب سے نمایاں خصوصیت ہیں۔بہت کم حالات میں ببر شیرنی کے بھی ایسے بال آسکتے ہیں۔ ان بالوں کا ہونا یا نا ہونا، رنگت اور اس کا سائز سب جینیاتی خصوصیات، جنسی بالیدگی، آب وہوا، نر ہارمونز پر منحصر ہوتے ہیں جتنی بڑی داڑھی اور سر کے بال ہوں گے اتنا ہی صحت مند ہوگا۔ ببر شیرنیاں بھی جنسی تعلقات میں انھیں ببر شیروں کو ترجیح دیتی ہیں جن کے بال گھنے اور گہرے ہوتے ہیں۔ تنزانیہ میں ہونے والے تحقیق سے پتا چلا کہ ان بالوں کی لمبائی ہی نر ببر شیروں کی آپس میں لڑائی کا سبب بنتا ہے۔ جتنے گہرے یہ بال ہوں گے اتنے ہی ان کی تولیدی نظام زیادہ عرصے کار آمد رہتا ہے نیز ان کے بچوں کے بچنے کے بھی امکان زیادہ رہتے ہیں لیکن ان بالوں کی وجہ سے انھیں گرمیوں کے ایام بڑے سخت گزارنے پڑتے ہیں۔

ببر شیر 
بنا یال ایک ببر شیر۔

سائنسدان کبھی اس بات پر یقین کرتے تھے کے گردن کے گرد بالوں کے سائز اور ظاہری صورت کی بنیاد پر ذیلی انواع کی درجہ بندی کی جا سکتی ہے۔ ظاہری صورت کی بنیاد پر بربری ببر شیروں اور کیپ ببر شیروں کے ذیلی انواع کو بھی پہچانا گیا۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ درجہ حرارت کا فرق ان بالوں کی جسامت اور رنگت میں فرق کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ مثلا یورپی اور امریکی چڑیا گھروں میں بالوں کے گھنے ہونے کی وجہ وہاں کا ٹھنڈا موسم ہو سکتا ہے لہذا ان بالوں کی بنیاد پر کی گئی انواع کی درجہ بندی غلط اور غیر مستند قرار دی جاتی ہے۔ بہرحال ایشیائی شیروں کی انواع کے بالوں کا بکھرے ہوئے ہونا انھیں افریقی شیروں سے ممتاز کرتا ہے۔

پند جاری نیشنل پارک میں موجود گردن کے گرد بالوں سے محروم ہیں یا یہ بال بہت کم ہیں۔ بنا بالوں کے ببر شیروں کی موجودگی کی اطلاع کینیا، سوڈان اور سینیگال کے علاقوں سے بھی ملتی ہیں اور فطری طور پر سفید جو تمباواتی سے تھے ان کے گردن کے گرد بال بھی نہ تھے۔ ٹسیٹیرون نامی نروں کے ہارمونز کو ان بالوں کی جسامت سے جوڑا جاتا ہے، اسی لیے خصی کیے گئے ببر شیروں کی گردن کے گرد بال کم ہی ہوتے ہیں کیونکہ خصیتین کے نکالنے سے ان کے ہارمونز کی پیداوار رک جاتی ہے۔

یورپ میں موجود غاروں میں بنائی گئی قدیم تصویروں میں ببر شیروں کی گردن کے بال نہیں بنائے گئے ہیں، اس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ ان ببر شیروں کے یہ بال نہیں ہوتے تھے، یا یہ تصاویر ان ببر شیرنیوں کی ہے جو شکار میں نظر آتی تھیں۔

سفید ببر شیر

ببر شیر 
سفید ببر شیر

سفید ببر شیرکسی قسم کی نوع نہیں ہیں بلکہ یہ ایک خاص جینیاتی صورت ہوتی ہے جسے لیوسیزم کہتے ہیں ، جو ببر شیروں کی بالوں اور جلد کی رنگت سفید کر دیتی ہے جیسا کہ یہ سفید ببر شیروں میں ہوتا ہے یہ صورت میلنزم سے میل کھاتی ہے جو کالے تیندوں میں ظاہر ہوتی ہے۔یہ البائنو نہیں ہوتے ( یعنی ان کی آنکھوں اور جلد میں عام رنگت موجودہوتے ہیں) سفید ٹرانسوال سے کبھی کبھی کروگر نیشنل پارک اور ملحقہ تمبواتی پرایویٹ گیم ریسرو، مشرقی جنوبی افریقہ میں سامنا ہوجاتا ہے، لیکن عموما یہ انسانی تحویل میں ہی ملتے ہیں اور ملاپ کروانے والے انھیں جان بوجھ کر منتخب کرتے ہیں۔ان کی جلد کی کریمی رنگت، رسیو الیلی کی وجہ سے ہے۔ ایسی خبریں ہیں کہ جنوبی افریقہ میں ان کی کیمپوں میں افزائش نسل کی جاتی ہے پھر انھیں کینڈ ہنٹ ( ایک قسم کا شکار) میں شکار کیا جاتا ہے۔

برتاؤ

ببر شیر 
اکڑ نکالتے ہوئے

دن بھر آرام کرتے ہیں اور دن میں تقریباً 20 گھنٹے غیر فعال رہتے ہیں۔ اگرچہ کسی بھی وقت فعال ہو سکتے ہیں لیکن ان کی فعالیت شام کے بعد سے اپنے جوبن پر ہوتی ہے شامیں یہ ا پنے سماجی تعلقات، رفع حاجت اور سماجی افعال انجام دینے میں بتاتے ہیں۔ بہت زیادہ طور پر مشغول رہنا پوری رات تک چلتا رہنا ہوتا ہے جبکہ علی الصبح اکثر شکار ہوا کرتا ہے۔ وہ دن میں اوسطا دو گھنٹے چلتے ہیں اور 50 منٹ تک اپنی خوراک کھاتے ہیں۔

گروہی تنظیم

ببر شیر 
دو ببر شیرنیاں اور ایک ببر شیر۔
ببر شیر 
دو اور ایک ببر شیرنی۔

تمام فیلڈ فطری طور پر غیر سماجی ہوتے ہیں لیکن ان سب کے برعکس سب سے زیادہ سماجی رویہ دیکھاتے ہیں۔ ایک شکاری گوشت خور ہے جو دو طرح کے سماجی گروہ میں رہتا ہے۔ کچھ مکین ہوتے ہیں جو اپنے متعلقہ ببر شیرنیوں اور چند بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ انھیں حرم(pride) کہتے ہیں۔ مادائیں اس حرم میں سماجی اکائی کی حیثیت سے مستقل رہتی ہیں اور کسی غیر مادہ کو اس میں پسند نہیں کرتی۔ اراکین صرف ماداؤں کی وفات اور پیدائش کی صورت میں ہی بدلتے ہیں، اگرچہ بعض اوقات مادائیں حرم کو چھوڑ کر علیحدگی اختیار کرتی ہیں اور اکیلے ہی جیتی ہیں۔ اب ایک ایسے بھی حرم مشاہدے میں آئی ہیں جن میں ارکان کی تعداد تیس کے قریب دیکھی گئی ہیں، اوسطا ایک حرم میں پانچ یا چھ مادائیں ہوا کرتی ہیں، اس میں دونوں جنس کے بچے اور دو ہوا کرتے ہیں(ایک سے زائد ہونے کی صورت میں اسے اشتراک کہتے ہیں) جو بالغ ببر شیرنیوں سے مباشرت کرتے ہیں۔ اشتراک کی صورت میں نر کی تعداد دو ہی ہوا کرتی ہے لیکن یہ تعداد چار تک بھی جا سکتی جس کے بعد تعداد پھر سے کم ہونا شروع ہوتی ہیں۔ تنہا فرق صرف تساوو ببر شیروں میں ہے جس کے حرم میں صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ نر بچے اپنے نگہبان خاندان سے 2یا 3 سال میں الگ ہو جاتا ہے جب وہ بالیدگی حاصل کر لیتا ہے۔ اس گروہ کی دوسری صورت یہ ہے کہ جوڑے کی شکل میں یا اکیلے ہی زندگی گزاری جاتی ہے یہ لوگ ایک بڑے رقبے میں گھومتے رہتے ہیں۔ جوڑے دار اکثر ان نر ببر شیروں کی ہوتی ہے جو نئے نئے بلوغت کے سبب اپنے خاندان سے نکال دئے جاتے ہیں۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک تنہا زندگی گزارنے والا سماجی زندگی اپنا لے یا اس کے برعکس کا انتخاب کرے۔نر قواعد کے مطابق اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ تنہا گزارتا ہے اور پھر یہ کسی خاندان میں جاگھستا ہے جبکہ بعض شیر زندگی بھر ایسا کرنے سے محروم ہی رہتے ہیں۔ایک تنہا رہنے والی ببر شیرنی کو دوسرے حرم میں داخل ہونے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ حرم کے دیگر ببر شیرنیاں اس نئے غیر مادہ کی سخت مخالفت کیا کرتی ہیں۔

ببر شیر 
سرنگیٹی میں ایک درخت پر بیٹھا ببر شیروں کا جھنڈ

وہ علاقہ جس پر ایک حرم کا قبضہ ہو علاقہ حرم کہلاتا ہے جبکہ تنہا رہنے والے علاقے کو بدووں(nomad) کا خطہ کہتے ہیں۔حرم کے نر اپنے علاقوں کی سرحدوں پر گشت لگا کر اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ببر شیرنیوں میں دیگر بلیوں کے انواع کے مقابل اس قدر سماجی برتاؤ کیونکر پیدا ہوا بحث کا ایک اہم موضوع ہے۔اس کی وجوہات یہ ہو سکتی ہیں کہ گروہ میں رہنے سے شکار کی کامیابی کا زیادہ امکان رہتا ہے، لیکن مشاہدات یہ بھی بتاتے ہیں وہ ارکان جو شکار میں حصہ نہیں لیتے، خوراک میں برابر حصہ دار ہوتے ہیں، اگرچہ بعض ان بچوں کے پاس ہی رہتی ہیں جنھوں نے بالغ ہونے پر اسے چھوڑ دینا ہوتا ہے۔حرم کے اراکین شکار کا کھیل باقاعدگی سے کھیل کر اپنے ہنر کو بہتر کرتے رہتے ہیں۔حرم کے بچاو کی یہی تدبیر ہے کہ اس کے شکاری اراکین کی صحت بہتر ہو لہذا یہی شکاری شکار میں سب سے پہلے حصہ لیتے ہیں۔دوسرا مفید پہلو یہ بھی ہے کہ بجائے غیروں سے کھانا بانٹنے کے اپنے متعلقہ اراکین سے ہی اشتراک کرنے میں بچوں کے حفاظت، علاقے کی برقراری اور انفرادی طور پر چوٹ اور بھوک سے نجات کی ضمانت ہوتی ہے۔

جنگلی ببر شیرنیوں کی ایک ویڈیو

حرم میں زیادہ تر ببر شیرنیاں ہی شکار میں حصہ لیتی ہیں۔اس لیے کہ وہ پھرتیلی، ہلکی اور چاک و چوبند ہوتی ہیں جبکہ ببر شیروں کو وزن زیادہ ہوتا ہے اور ان کے گردن کے بالوں کے سبب دوڑتے ہوئے وہ گرمی سے نڈھال ہوجاتے ہیں۔وہ بہر حال شکار کے دوران میں اشتراک کرتے ہیں اور شکار کے عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے صحیح جگہ پر گھیر گھار کر نشانہ بناتے ہیں۔اکثر چھوٹے شکار اسی مقام پر ان شکاریوں کا نوالہ بنتے ہیں جبکہ بڑے شکار کو گھسیٹ کر حرم کے مقام پر لا کر سب کھاتے ہیں۔ اگرچہ تمام ارکان کھاتے ہوئے ایک دوسرے سے جارحانہ برتاو دکھاتے ہیں کیونکہ ہر ایک زیادہ سے زیادہ خوراک لینے کی کوشش کرتا ہے۔ ببر شیرنیوں کے شکار کے اختتام پر اس شکار پر تسلط جماتے ہوئے نظر آتا ہے۔ وہ اسے شیرنیوں کی بجائے بچوں کے ساتھ مل بانٹ کر کھانے کو ترجیح دیتا ہے لیکن خود سے کیے شکار میں وہ کم ہی دوسروں کو شریک کرتا ہے۔

اور ببر شیرنیاں دونوں ہی کسی غیر کی جارحیت کے خلاف اپنی حرم کی حفاظت کرتے ہیں لیکن یہ کام زیادہ کو مناسب لگتا ہے کیونکہ وہ زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ کچھ ارکان مستقل جارحین کے خلاف دفاع کرتے ہیں جبکہ کچھ پیچھے رہتے ہیں۔ حرم میں ایک خاص کردار ادا کرتا ہے۔ وہ جو پیچھے رہتے ہیں حرم کے لیے قابل قدر خدمات بھی بہم پہنچا سکتے ہیں۔ ایک مفروضہ ہے کہ جو جارحیت کے خلاف سامنے آتے ہیں ان کا حرم میں ایک خاص مقام ہوتا ہے اور ببر شیرنیوں کے مقام کا اسی دفاع سے کردار بڑھتا ہے۔ نر جو حرم سے منسلک ہوتا ہے اپنے اور ماداؤوں کے تعلقات برقرار رکھنے کے لیے بیرونی حملہ آور سے ضرور مقابلہ کرتا ہے۔

شکار اور خوراک

ببر شیر 
کے دانت گوشت خوری کے لیے بنے ہوتے ہیں۔
ہیرون پرندہ شکار کرتے ہوئے

موقع کی مناسبت سے مردارخوری کو بھی ترجیح دیتے ہیں، جو اس کی خوراک کا 50 فیصد پورا کرتا ہے۔ مردار جانور یا تو قدرتی طور پر مرے ہوتے ہیں یا وہ کسی دوسرے جانور کا شکار ہوئے ہوتے ہیں نیز ان پر منڈلانے والے گدھ بھی ان کی موت کا پتہ دیتے ہیں۔ مزید بر آں اکثر مردار جانور جن سے اور لگڑ بگھڑ دونوں ہی حصہ لیتے ہیں، لگڑبگھوں کے شکار ہوئے ہوتے ہیں۔

حرم کے لیے شکار زیادہ تر ببر شیرنیاں ہی کرتی ہیں۔اس دوران میں بچوں کی نگرانی کرتا ہے۔بالعموم یہ جانور شکار کے جھنڈ کو گھیر لیتے ہیں اور جب یہ شکار کے نہایت قریب پہنچتے ہیں تب حملہ آور ہوجاتے ہیں۔یہ حملہ زوردار اور مختصر سا ہوتا ہے اور وہ شکار جلد دبوچنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ عموما شکار کے گردان کو دبوچ کر اس کا دم گھوٹ دیتے ہیں جن سے اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ نیز وہ جانور کے نتھنے جبڑے اور منہ کے دھانے کو بھی بند کر دیتے جس سے اس کی موت واقع ہوتی ہے۔

شکار میں اشتراک کرتے ہیں اور شکار کو چنتے ہیں۔لیکن انھیں ان کی قوت کے لیے نہیں جانا جاتا جیسے ببر شیرنی کا دل اس کے کل وزن کا 0.57% فیصد ہوتا جبکہ کا دل اس کے مجموعی وزن کا 0.45% حالانکہ لگڑ بگھڑ کا دل اس کے مجموعی وزن کا ایک فیصد ہوا کرتا ہے۔ پس وہ مختصر وقت کے لیے ہی زبردست رفتار پکڑ سکتے ہیں اور شکار پر حملہ کرنے کے لیے انھیں اس کے بے حد نزدیک ہونا پڑتا ہے۔ وہ اپنے ماحول میں گھل مل کر نظر کم آتے ہیں اور اس بات فائدہ اٹھا کر وہ اکثر شکار کر لیتے ہیں بالخصوص رات کو۔ وہ شکار پر اس وقت تک حملہ نہیں کرتے جب تک وہ ان کے تقریباً 30 میٹر کے قریب نہ ہوں۔

ببر شیر 
ببر شیرنی شکار کی جانب اپنی مکمل رفتار میں۔

افریقہ میں ان کے شکار میں ہرن، جنگلی درندے، زیبرا، بھینس اور جنگلی سور ہوا کرتے ہیں۔ جبکہ بھارت میں یہ شکار نیل گائے، جنگلی سور اور ہرنوں پر مشتمل ہے۔ ان کے شکار ہونے والے جانور موقع محل کی مناسبت سے مختلف ہیں جن میں زیادہ تر سموں والے کالے جانور ہیں جن کا وزن 50 سے 300 کلو تک ہوتا ہے۔ کبھی کبھار وہ چھوٹے جانور جیسے تھامسن غزال وغیرہ پر بھی گزارا کر لیتے ہیں۔اپنے علاقوں میں گروہ کی صورت میں کیے گئے شکار میں زیادہ کامیابی سمیٹتے ہیں اور وہ بہت بڑے جانور جیسے زرافہ پر کم ہی حملہ کرتے ہیں کیونکہ اس میں زخمی ہونے کا زیادہ ہی خطرہ رہتا ہے۔زرافہ اور بھینسیں شکار کے لیے بہت مشکل ثابت ہوا کرتی ہیں۔بھارت میں گھریلو مویشیوں پر بھی حملہ کرتے ہیں اور اس طرح اپنی خوراک کا ایک اہم حصہ پورا کرتے ہیں۔دیگر شکاریوں جیسے تیندوے، چیتے، لگڑ بگھڑ اور جنگلی کتوں کو بھی مار دیتے ہیں لیکن وہ حریفوں کو قتل کے بعد کم ہی کھاتے ہیں۔ایک وقت میں تیس کلو تک گوشت کھا سکتا ہے۔ وہ اگر اپنی تمام خوراک نہ کھاسکے تو مزید کھانے سے قبل تھوڑا آرام کر لیتا ہے۔ گرم دنوں میں حرم کے ارکان کو سایہ دینے کی خاطر اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک بالغ ببر شیرنی کو دن میں اوسطا 5 کلو جبکہ کو 7 کلو گوشت خوراک کے لیے درکار ہوتی ہے۔

مطالعات بتاتے ہیں کہ ان ممالیہ جانوروں کا بالعموم شکار کر دیتے ہے جن کا وزن 126 کلو تک ہوتا ہے اور ان کے شکار کا اوسطا وزن 300 کلو تک ہوتا ہے۔ افریقہ میں جنگلی مادہ بھینسوں کو شکار کے لیے سب سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں (اور سرنگیٹی کے علاقوں میں کے شکار کا تقریباً نصف یہی جانور ہے) اس کے بعدشکار ہونے والا جانور زیبرا ہے۔ مکمل بالغ ہاتھی، دریائی گھوڑے، گینڈے اور چھٹے غزال، امپالا اور دیگر اس نوع کی پھرتیلے جانوروں پر حملہ نہیں کرتے۔ لیکن بعض خطوں میں بھینسوں اور زرافوں پر بھی مستقل حملے ہوتے ہیں۔ جیسے کروگور نیشنل پارک میں زارفوں پر مستقل حملے ہوتے رہتے ہیں۔ منیارا پارک میں تو بھنسیں ببر شیروں کی شکار کا 62 فیصد ہیں، کیونکہ وہاں بھینسوں کی بہت بڑی تعداد رہتی ہے۔ کبھی کبھی دریائی گھوڑے بھی ان کے شکار میں آجاتے ہے لیکن گینڈوں سے وہ دور ہی رہتے ہیں۔ جنگلی سور کو وہ موقع کی مناسبت سے شکار کرتے ہیں۔ سواتی کے ببر شیروں میں خشک گرمیوں کے موسم میں نابالغ ہاتھی کے شکار کرنے کی لت دیکھی گئی ہے اور اس کام میں 30 ببر شیرنیوں کو مشغول دیکھا گیا ہے۔ کالاہاری صحرا، جنوبی افریقہ میں کالے یال والے ببر شیروں کو ببون کا شکار کرتے بھی دیکھا جاتا ہے وہ درختوں پر چڑھے ببون کا انتظار کرتے ہیں اور جب وہ فرار ہونا چاہیں تو ان پر حملہ کردیتے ہیں۔

ببر شیر 
ببر شیروں نے ببون کو درخت پر پھانس رکھا ہے
ببر شیر 
ببر شیرنیوں کے جانب سے بھینس کا شکار۔

چونکہ ببر شیرنیاں کھلے جگہوں میں شکار کرتی ہیں لہذا انھیں شکار کی جانب سے دیکھ لینے کا امکان ہوتا ہے ؛اس لیے وہ اس معاملے میں اشتراک سے کام لیتی ہیں جس سے کامیابی کا زیادہ امکان رہتا ہے خاص کر بڑے شکار کے معاملے میں یہ زیادہ درست ثابت ہوتا ہے۔ ان کے کیے گئے شکار پر کئی میل دور گدھوں کی توجہ مرکوز ہوجاتی ہے اور وہ اپنے باہمی اشتراک کے بدولت اپنے شکار کا زیادہ بہتر دفاع کر تے ہیں۔ عموما شکارمیں حصہ نہیں لیتے لیکن بڑے شکار جیسے بھینسے یا زرافے کی صورت میں وہ اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اپنی ماداؤوں کی طرح شکار میں کامیاب رہتے ہیں وہ اپنے شکار کو جھاڑیوں میں چھپ کر پھانس لیتے ہیں۔ جوان ببر شیریں تین ماہ میں شکار کرنے کا برتاو دکھاتے ہیں لیکن وہ شکار میں حصہ نہیں لیتے جب ان کی عمر 1 سال ہوتی ہے تو وہ اس میں حصہ لینا شروع کردیتے ہیں لیکن 2 سال کی عمر میں وہ نمایاں طورسے اس میں حصہ لینا شروع کردیتے ہیں۔

شکار پر مقابلہ

ببر شیر 
ایک نیم بالغ اور لگڑ بگڑ

اور لگڑ بگڑ ایک ہی ماحولیاتی نچ میں رہتے ہیں یعنی وہ ایک یہی علاقے میں رہنے کے سبب ایک ہی شکار حاصل کرنے کے لیے مقابلہ کرتے ہیں۔ تحقیق کرنے سے پتا چلا کہ 58 فیصد شکار میں ان دونوں کا آمنا سامنا ہوتا ہے۔ بالعموم لگڑ بگڑ کو اس وقت تک نظر انداز کرتے ہیں جب تک وہ انھیں جانی نقصان یا تنگ نہ کریں جبکہ لگڑبگڑ شیروں کی موجودگی پر رد عمل دکھاتے ہیں بھلے ہی خوراک کا جھگڑا ہو یا نہ ہو۔ نگورنگورو گڑھے کے علاقے میں اکثر لگڑ بگھوں سے ان کا شکار ہتھیا لیتے ہیں اس طرح لگڑبگھوں کو اپنے شکار کرنے کی تعداد بڑھانی پڑتی ہے۔ اس کے برعکس بوٹسوانا کوبی قومی پارک میں لگڑ بگڑ شیروں کی طاقت کو چیلنج کرتے ہیں وہاں لگڑ بگڑ اپنی خوراک کا 63 فیصد ببر شیروں کی خوراک سے چراتے ہیں۔ ایسے مواقع پر لگڑ بگڑ ببر شیروں سے 30 تا 100 میٹر کے فاصلے پر ببرشیر کو شکار کے ختم کرنے تک دیکھتے ہوئے کھڑے رہتے ہیں، لیکن وہ ہوشیاری اس دعوت میں بھی حصہ نکال لیتے ہیں اور بعض اوقات وہ شیروں کو بھی شکار سے بھگا دیتے ہیں۔ یہ دونوں نوع ایک دوسرے پر بھی بنا کسی ظاہری وجہ کے حملہ کر سکتے ہیں۔ ایٹوشا میں لگڑبگڑ کی موت کا 71 فیصد کا سبب ہیں۔ لگڑ بگڑ نے اپنے علاقوں میں ببر شیروں کی موجودگی کی وجہ سے خود میں تبدیلیاں قبول کر لی ہیں اور جب نمودار ہوتے ہیں تو یہ گروہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ایک تجربے میں پہلے تحویل میں موجود دھبہ دار لگڑ بگڑ کا سامنا سے پہلی بار کروایا تو اس نے خاص رد عمل نہیں دکھایا لیکن بعد میں وہ کی بو سے ہی بے چین نظر آنے لگا۔ کے بڑے یال کو دیکھ کے ہی لگڑ بگڑ ان کا سامنا کم ہی کرتے ہیں نیز کے بڑے پنجوں کے سبب کا پلڑا بھاری رہتا ہے۔

اپنے سے چھوٹی بلیوں جیسے چیتا، تیندوں پر تسلط جماتا ہے اور ان کے بچوں حتیٰ کے بالغوں کو بھی موقع ملنے پر مار دیتا ہے نیز وہ ان کے شکار بھی ہتھیا لیتا ہے۔چیتا بالعموم اپنے شکار کو دوسرے جانوروں کے سبب کھونے کا امکان 50 فیصد رکھتا ہے۔ چیتا مقابلے بازی سے کتراتا ہے اور دن کے مختلف اوقات میں شکار کرتا ہے وہ اپنے بچوں کو گھنی جھاڑیوں میں چھپا دیتا ہے۔ تیندوا بھی ایسے حربے استعمال کرتا ہے لیکن وہ ببر شیروں اور چیتوں کے بنسبت چھوٹے شکار پر گزارا کر کے فائدے میں رہتا ہے۔ تیندوا چیتے کے مقابلے میں درخت پر چڑھ لیتا ہے اور اپنے بچوں اور شکار کو کی پہنچ سے دور رکھتا ہے اگرچہ بعض اوقات ببر شیرنیاں بھی درخت پر چڑھ کر اس کے شکار کو ہتھیا لیتے ہیں۔ اسی طرح افریقہ کے جنگلی کتوں پر بھی تسلط رکھتا ہے اور وہ ا س کا شکار ہتھیا لیتے ہیں نیز وہ ان کے جوان اور چھوٹے بچوں کو بھی مار دیتا ہے۔ جہاں ہوں وہاں جنگلی کتوں کی آبادی کم دیکھی جاتی ہے۔ اگرچہ ایک آدھ موقع پر ایسی خبریں سامنے آئی ہیں جس میں جنگلی کتوں نے بوڑھے اور زخمی کو مار دیا۔

نیل مگرمچھ انسان کے بعد واحد جانور ہیں جو ببرشیروں کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اور مگرمچھ کے وزن کو جسامت کے مطابق یہ دونوں ہی اپنے شکار کو ایک دوسرے سے مقابلے میں گنوا سکتے ہیں۔ یہ ایک معلوم بات ہے کہ ببر شیروں نے مگرمچھ کو خشکی پر مارا ہو جبکہ دوسری صورت یعنی پانی میں ہی مار کھا سکتا ہے اور مگر مچھ کے پیٹ سے کئی دفعہ کے جبڑے ملے ہیں۔

آدم خوری

اگرچہ عام حالات میں انسانوں کا شکار کرتے ہیں لیکن بعض بالخصوص نروں کو کبھی اس کی لت پڑ جاتی ہے۔ اس متعلق مشہور شائع ہونے والا ایک واقعہ 1898ء میں ظہور پزیر ہوا جس میں دو ببر شیروں نے کینیا یوگینڈا ریلوے لائن پر کام کرنے والے مزدوروں پر حملے کیے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق نے 28 افراد نو ماہ کے تعمیراتی دور میں ہلاک کیے۔ جس شکاری نے ان کا شکار کیا اس نے ان آدم خور ببر شیروں کی خصوصیات بڑی تفصیل سے لکھی ہیں وہ لکھتا ہے کہ ان کے بال نہ تھے اور وہ عام ببر شیروں سے جسامت میں کافی بڑے تھے اور بعض دانت بھی ٹوٹے ہوئے تھی کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹوٹے دانت کو آدم خوری پر مجبور کرتے ہیں لیکن یہ بات ماہرین کے نزدیک درست نہیں ان کے نزدیک انسانی آبادی کا شیروں کے علاقوں میں آباد ہونا ہی اس کی صحیح وجہ ہے۔

تساو اور عام آدم خور ببر شیروں کے مطالعہ کرنے والے ماہر لکھتے ہیں کہ بیمار یا زخمی ببر شیروں کے آدم خوری کی جانب مائل ہونے کے زیادہ امکانات رہتے ہیں۔ لیکن یہ رویہ کوئی غیر معمولی یا حقائق سے ہٹ کر نہیں ہے جہاں کو پالتو مویشی یا انسانی آبادی پر حملے کا موقع ملتا ہے وہ ایسا کرتا ہے اس کے ثبوت پرائمیٹ اور پینتھرائن خاندان کے رکازیاتی علوم سے ملتے ہیں۔

ببر شیر 
تساوو کے آدم خوروں کی تصویر، شکاگو

ببر شیروں کی آدم خوری کی عادت کے بارے میں کافی سائنسی تحقیقات ہو چکی ہیں۔ امریکی اور تنزانیائی سائنسدانوں کے اعدادوشمار کے مطابق تنزانیہ کے دیہی علاقوں میں 1990ء سے 2005ء تک کے عرصے میں آدم خوری کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اب تک کم ازکم 563 دیہاتی ببر شیروں کا لقمہ بن چکے ہیں۔ آدم خوری کا سب سے مشہور واقعی تقریباً ایک صدی قبل رونما ہوا۔ یہ واقعات سیلوس نیشنل پارک موزمبیق کے سرحد کے پاس پیش آئے۔ اگرچہ دیہاتیوں کا ان جنگلی علاقوں میں رہنا آدم خوری کا بنیادی سبب ہیں لیکن مصنف کے نزدیک ببر شیروں کی بقاء سے متعلق بنائے گئے اقدامات بھی انسانی جانی نقصان میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ لینڈی ایسے واقعات بھی منظر عام پر لائے ہیں جن میں مرکزی دیہاتوں پر حملہ کر کے انسانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔۔ ایک اور مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کے جنوبی تنزانیہ میں 1988ء سے 2009ء تک ایک ہزار لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے یہ واقعات زیادہ تر چاند کی راتوں کے علاوہ راتوں میں یعنی جب اندھیرا زیادہ ہوتا ہے تب پیش آتے تھے۔ مصنف رابرٹ آر فرمپ لکھتے ہیں کہ موزمبیقی مہاجرین جو رات کو کروگر پارک کو جنوبی افریقہ جانے کی خاطر پار کرتے ہیں زیادہ تر ببر شیروں کا شکار بنتے ہیں اس پارک کے حکام نے بھی ان واقعات کے بارے میں کہا کہ پارک کے مسائل میں ایک مسئلہ آدم خوری کا بھی ہے۔ فرمپ کا کہنا ہے کہ اپارتھائیڈ کی جانب پارک بند کیے جانے اور مہاجرین کو اسے رات کے اوقات میں پار کرنے پر مجبور کرنے سے اب تک تقریباً ہزاروں لوگ مر چکے ہیں تقریباً سو سال قبل جب یہ پارک سیل نا ہوا تھا تب موزمبیقی لوگ دن کے اوقات میں اسے پار کرتے تھے اور انھیں کم خطرہ لاحق ہوتا تھا۔

پیکر نے اندازہ لگایا کہ ہر سال تنزانیہ میں ببر شیر، مگر مچھ، ہاتھی، دریائی گھوڑے اور سانپ دو سو لوگوں کو موت کی نیند سلاتے ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ ہوتے ہیں جو اوسطا سالانہ 70 لوگوں کو مار ڈالتے ہیں۔ پیکر نے کہا کہ 1990ء سے 2004ء تک تنزانیہ میں 815 لوگوں پر حملے ہوئے جن میں 563 لوگ ہلاک ہوئے۔ پیکر اور اکنڈا ان لوگوں میں سے ہیں جو چاہتے ہیں کہ مغربی ادارے ببر شیروں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی جان کی حفاظت کو بھی یقینی بنائے۔

ایک آدم خور کو جنوبی تنزانیہ کی ساحلی پٹی پر سکاوٹ والوں نے مار ڈالا تھا کہا جاتا تھا کہ یہ آدم خور اس علاقے میں مختلف واقعات کے دوران میں 35 کے قریب لوگوں کے موت کا سبب بنا تھا۔ ڈاکٹر رولف ڈی بالڈس جو جٰی ٹی زیٹ جنگلی حیات کے منصوبے کے منتظم ہیں کہتے ہیں کہ مذکورہ شیر کے دانت میں شگاف پڑا تھا اور اس کے منہ میں پیپ سے بھرے دانے تھے۔ انھوں نے مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ یقینا اس کو خوراک چبانے میں سخت تکلیف ہوتی ہوگی۔ جی ٹی زیٹ منصوبہ جرمن حکومت کی جانب سے تنزانیہ میں ببر شیروں کی بقاء میں دو عشروں سے معاون ہے۔ اور پچھلے آدم خور ببر شیروں کی طرح مذکورہ کے بھی خراب دانت، یہ بنا یال کے تھا نیز یہ ان کی طرح بڑے جسامت کا بھی تھا۔

تمام افریقی آدم خور تساوو خیال نہیں کیے جاتے لیکن 1930ء تا 1940ء تک ٹینگانیکا (اب تنزانیہ) میں ایسے واقعات پیش آتے رہے۔ جارج رشبی نے ایک دفعہ ایسے حرم کا پتہ لگایا جو تین عشروں سے آدم خوری کی لت میں مبتلا تھا اور اس نے 1500 سے 2000 لوگوں کو ہلاک کیا تھا اور یہ واقعات نجومبے علاقہ میں پیش آئے تھے۔

تولید اور زندگی

اکثر ببر شیرنیاں چار سال کی عمر میں تولید کے لیے تیار ہوجاتی ہیں۔ اور یہ سال میں کسی مخصوص وقت میں مباشرت نہیں کرتے۔ دوسرے بلیوں کے عضو تناسل کی طرح ان کے آلہ تولید میں بھی سخت کانٹے سے ہوتے ہیں جو پیچھے کی جانب مڑے ہوتے ہیں۔ مباشرت کے دوران میں آلہ تولید واپس نکلتے ہوئے یہ کانٹے سے مادہ کے رحم کی دیواروں کے رگڑ کھاتے ہیں اور یہ حمل کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایک ببر شیرنی اپنے بیضے بننے کے ایام میں ایک سے زائد شیروں سے ملاپ کرسکتی ہے۔

ان میں حمل کا دورانیہ 110 دن تک کا ہوتا ہے، اور ببر شیرنی ایک سے چار بچے دیتی ہے وہ یہ بچے کسی غار، کھو یا جھاڑیوں میں اپنے حرم سے باہر دیتی ہے اور یہ ببر شیرنی اپنے بچوں کو تنہا چھوڑ کر شکار میں بھی برابر حصہ لیتی ہیں۔ نومولود بچہ پیدائش کے وقت بے یارومددگار ہوتا یہ یہ اس وقت نابینا ہوتا ہے اور پیدائش کے ایک ہفتے تک اس کی آنکھیں نہیں کھلتی۔ اس کا وزن اس وقت ایک یا دو کلو کا ہوتا ہے اور ایک دو دن میں یہ رینگنا سیکھ لیتا ہے جبکہ تین ہفتوں میں یہ چلنا پھرنا شروع کردیتا ہے۔ ببر شیرنیاں اپنے بچوں کو پیدائش کے ایک مہینے تک مختلف مقامات میں منتقل کرتی رہتی ہیں تاکہ انھیں دوسرے شکاریوں سے بچایا جاسکے۔

عموما ایک ماں یا اس کا بچہ چھ سے آٹھ ہفتوں تک حرم میں نہیں آتا۔ لیکن بعض اوقات اس سے بھی قبل یہ حرم میں داخل ہوجاتے ہیں اس وقت جب دوسری ببر شیرنیاں بھی بچے دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر حرم کی ببر شیرنیاں اپنی تولیدی چکر کو ایک وقت میں شروع کیا کرتی ہیں تاکہ وہ ملکر ان بچوں کی پرورش کر سکیں ( جب بچہ اپنے ماں سے جڑے ابتدائی تعلق کو گزار لیتا ہے)، پھر یہ بچے حرم کی تمام شیرنیوں کا دودھ پی سکتے ہیں۔ تولیدی ایام کو ایک ہی وقت میں شروع کرنے سے تمام بچے ایک ساتھ ہی بڑے ہوتے ہیں یوں ان کے بچنے کا زیادہ امکان رہتا ہے جو اس کی دوسری افادیت ہے۔ اگر کسی ببر شیرنی کے بچے جنم دینے کے کچھ ماہ بعد ایک اور ببر شیرنی بچے جنم دے دیتی ہے تو پہلی ببر شیرنی کے بچے زیادہ جلدی بڑے ہوجاتے ہیں اس طرح وہ بعد میں پیدا ہونے والے چھوٹے بچوں کی نسبت زیادہ خوراک کسب کرتے ہیں یوں بعد والے بہت چھوٹے بچے بھوک سے مرجاتے ہیں۔

بھوک کے علاوہ ان چھوٹے بچوں کی زندگی کو لگربگڑ، لومڑیوں، سانپوں، تیندوں اور عقابوں سے بھی خطرہ رہتا ہے۔ حتی کہ اگر جنگلی بھینسوں کو بھی ان نوزائیدہ بچوں کی بو کسی جھاڑی سے آئے تو وہ وہاں ببر شیرنی کے آنے سے قبل زبرست بھگدڑ مچا کر ان بچوں کو کچلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نیز اگر کوئی غیر حرم میں داخل ہوکر پہلے سے موجود کوہلاک کر کے اس حرم پر قبضہ جماتا ہے تو وہ بھی ان بچوں کو ہلاک کردیتا ہے کیونکہ بچوں کو ہلاک کیے بنا مادائیں اپنی زرخیزی دوبارہ نہیں لاسکتیں اور نا ہی وہ نئے کی جانب رغبت دکھاتی ہیں۔ بہر حال تمام نومولود بچوں میں سے محض 20 فیصد ہی دوسال کی عمر تک پہنچ پاتے ہیں۔

جب ان بچوں کو نئے نئے طور پر حرم میں لایا جاتا ہے تو وہ اوائل میں اپنی ماں کے سوا کسی کا سامنا کرتے ہوئے گبھراتے ہیں۔ لیکن وہ جلد ہی حرم میں گھل مل جاتے ہیں اور وہ کھیل کود میں بالغوں سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جن ببر شیرنیوں کی اولاد ہوتی ہیں وہ بے اولاد ببر شیرنیوں کی نسبت دیگر ببر شیرنیوں کے بچوں کو زیادہ برداشت کرتی ہیں۔ کس حد تک بچوں کو برداشت کرتے ہیں یہ بات مختلف ہوتی ہیں بعض ان بچوں کو اپنے یال اور دم سے کھیلنے دیتے ہیں جبکہ بعض انھیں دور کر دیتے ہیں۔

ببر شیر 
نر غالبا دوسروں کے کیے شکار میں اپنے ماداوں کی بجائے بچوں کا شامل کرنا پسند کرتے ہیں جبکہ اپنے شکار میں وہ کسی کو شامل کرنے کے قائل نہیں ہوتے۔

بچے چھ سے سات ماہ میں دودھ پینا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور یہ بچے 3 تا 4 سال میں دوسرے کسی حرم کے ببر شیروں کو وہاں سے نکالنے کی صلاحیت پا لیتے ہیں۔ وہ اگر اپنے حرم کا دفاع کرتے ہوئے سخت زخمی نا ہوں تو دس سے 15 سال کی عمر میں بوڑھے ہونے لگتے ہیں۔ ایک دفعہ اگر حرم کوئی ہتھیا لے تو وہ پھر نئے حرم کو حاصل نہیں کر پاتا۔ اس صورت میں ان کے بچوں کی جانب سے حرم پر قبضہ کرنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر وہ نئے بچے پیدا کرنے میں میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو انھیں یہاں سے بے دخل ہونے سے پہلے بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے جو بلوغت تک پہنچتی ہے۔ مادائیں نئے ببر شیروں کے سامنے اپنے بچوں کا دفاع کرتی ہیں لیکن وہ اس میں کم ہی کامیاب ہوتی ہیں۔ وہ عام طور پر دو سال سے چھوٹے تمام بچوں کو مارڈالتا ہے۔ چونکہ مادائیں نروں کے مقابلے میں ہلکی اور کمزور ہوتی ہیں لہذا تین مادائیں مل کر ہی کے مقابلے میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔

عام خیالات کے برعکس صرف ببر شیروں کو ہی حرم سے بے دخل نہیں کیا جاتا بلکہ مادہ بچوں کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے لیکن اکثر مادائیں پیدائش والے حرم میں ہی رہتی ہیں۔جب کبھی نیا کسی حرم پر قبضہ کرتا ہے تو نیم بالغ مادائیں یا نر بھی اس سے بے دخل کیے جا سکتے ہیں تنہا زندگی گزارنا ماداوں کے لیے سخت ترین ہوتا ہے۔ تنہا مادائیں اپنے بچوں کو بلوغت تک پہنچانے میں اکثر ناکام ہوتی ہیں کیونکہ انھیں حرم کا تحفظ میسر نہیں ہوتا۔

کینیڈا کے محقق بروس بیگ مہیل نے یہ بات دیکھی ہے کہ دونوں نر اور مادہ ببر شیرنیاں ہم جنسی میں بھی مبتلا ہو سکتی ہیں۔ اجتماعی طور پر بھی ہم جنسی اور اس طرح کے افعال کرتے دیکھے گئے ہیں۔ نر آپس میں ملاپ سے قبل ایک دوسرے کے سر رگڑتے اور ایک دوسرے کے گرد گھومتے ہیں۔

صحت

اگرچہ قدرتی طور پر ببرشیروں کا کوئی شکاری وجود نہیں رکھتا لیکن انسان اور دیگر اس کے موت کا زیادہ سبب بنتے ہیں۔ اپنے ہی نوع سے کی گئی لڑائی میں زبردست زخم کھاتے ہیں اور یہ لڑائی علاقوں پر یا حرم کے اپنے ارکان کے مابین بھی ہوتی ہے۔ کے رینگنے والے بچے ہاتھیوں، لگڑبگڑ اور بھینسوں کا شکار بنتے ہیں۔

ببر شیر 
مکھیوں سے پناہ کی تلاش میں درختوں پر بیٹھے ببر شیر

بہت سے ببر شیروں کے کان اور گردن پر خون چوسنے والے کیڑے چپکے رہتے ہیں۔ ٹیم ورم کے کیڑے اکثر اوقات کی آنتوں میں ملتے ہیں جو کے جسم میں اینٹی لوپ کا گوشت کھانے سے داخل ہوتے ہیں۔ نگورنگورو پارک میں موجود 1962ء میں ایک قسم کی مکھیوں سے بے حد پریشان رہے یہ مکھیاں ان کی جلد پر بیٹھ کر خون چوستی ہیں جس سے ان کی کھال کمزور سی ہوجاتی ہے اور خون کے دھبے سے بن جاتے ہیں۔ اس وقت کے ان سے بچنے کے لیے درختوں پر چڑھتے تھے یا لگڑ بگڑ کے بلوں میں گھس بیٹھتے تھے اس طرح بہت سے یا ہلاک ہوئے یا انھوں نے ہجرت کر لی اور وہاں کی آبادی 70 سے 15 تک رہ گئی۔ 2001 میں اس طرح کے مکھیوں کے نمودار ہونے کی وجہ سے چھ ببر شیروں کی اموات ہوئی۔ تحویل میں موجود ببر شیروں کو کینین ڈسٹمپر وائرس، ایف آئی وی اور ایف آئی پی جیسے وائرسوں سے زیادہ خطرات ہوتے ہیں۔ سی ڈی وائرس کتوں اور دیگر گوشت خوروں سے پھیلتی ہے۔ اس بیماری سے عصبیاتی بیماریاں ظاہر ہوتی ہیں 1994ء میں ایسی وبا سرینگیٹی نیشنل پارک میں سامنے آئی جس سے کئی نمونیا کی ایک خاص بیماری سے مر گئے۔ ایف آئی وی اور ایڈز ایک جیسے ہیں لیکن یہ ببر شیروں پر سخت اثر نہیں کرتے لیکن یہ بیماری ان سے پالتو بلیوں میں منتقل ہو سکتی ہیں۔ یہ بیماری خاص علاقے کے ببر شیروں کو ہی متاثر کرتی ہے جبکہ یہ ایشیائی اور نمیبیائی نوع میں نہیں ملتی۔

روابط

آرام کے وقت ببر شیروں کے سماجی افعال زیادہ دیکھے جاتے ہیں اور وہ مختلف حرکتوں سے اس کا اظہار کرتے ہیں۔ سب سے پر امن طریقہ سر سے سر ملانے کا ہے یا وہ دوسروں کو زبان سے چاٹتے ہیں۔ زبان سے سر گردن اور چہروں کو چاٹنا ایک طرح کی تسلیمات میں سے ہے یہ اس وقت دیکھا جاتا ہے جب بچھڑا جانور یا لڑائی پر آنے والے جانور کا سامنا ہوتاہے۔ نر ایک دوسرے سے جبکہ ببر شیرنیا ں اور بچے ایک دوسرے سے سر رگڑتے ہیں۔ سر اور گردن جیسی جگہوں کو چاٹنا شاید ایک بہت خوشگوار اثر چھوڑتا ہے کیونکہ انفرادی طور سے ایسا نہیں کرسکتے۔

ببر شیر 
سروں کو رگڑنا یا چاٹنا ایک عام سماجی برتاؤہے۔

کے چہروں اور جسمانی اعضاء پر ہلکے احساسات ظاہری اشاروں کے طور پر نظر آتے ہیں۔ کی دھاڑ بھی رابطوں میں اہمیت رکھتی ہے اور اس آواز کی اونچائی اور ہلکی آواز کے خاص اشارے ہوتے ہیں۔ ببر شیروں کی آوازوں میں دھاڑ، کھانسنا، غرانا سرسراہٹ شامل ہیں۔ کی دھاڑ خاص تناسب میں ہوتی ہیں وہ لمبے دھاڑ سے مختصر دھاڑ کی طرف جاتے ہیں۔ وہ زیادہ تر رات کو دھاڑتے ہیں اور ان کی آواز 8 کلومیٹر تک سنائی دیتی ہے جو جانور کی موجودگی کی خبر دیتے ہیں۔ کی دھاڑ تمام بڑے بلیوں میں سب سے بلند ہوتی ہے۔

تحویل میں موجود ایک کی دھاڑ

چلنے میں مسئلہ ہو رہا ہے؟ دیکھیے میڈیا معاونت۔

پھیلاؤ اور مسکن

ببر شیر 
دو ایشیائی ببر شیر، یہ معدومی کے خطرے سے دوچار نوع ہے جو صرف بھارت کے گیر جنگلات تک رہ گئی ہے۔

افریقہ میں سوانا اور گھاس کے میدانوں میں رہتے ہیں جہاں کہیں کہیں اکیشیا کے درخت سائے کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔ بھارت میں وہ خشک سوانا کے جنگلات اور بہت خشک جنگلات کو مسکن بناتے ہیں۔ ببر شیروں کا اصل مسکن یوریشیا کے جنوبی علاقے جو یونان سے بھارت تک پھیلے ہوئے تھے اور تمام افریقی علاقے بشمول صحارا کے علاقے سوائے وسطی بارانی جنگلات کے پر مشتمل تھا۔ ہیرودوت نے یونان میں 480 ق م میں ان کی موجودگی کا لکھا ہے۔ ایرانی شہنشاہ خشایارشا اول کے سامان بردار اونٹوں پر ایک دفعہ انھوں نے دھاوا بول دیا تھا جب وہ فارس کے کسی علاقے سے گذر رہے تھے۔ ارسطو نے 300 ق م میں انھیں نایاب لکھا ہے اور 100ء تک یہ ناپید ہو گئے تھے۔ ایشیائی قفقاز کے علاقوں میں دسویں صدی تک باقی رہے۔

فلسطین کے علاقوں میں ببر شیروں کی موجودگی قرون وسطی میں ختم ہو گئی اور باقی ایشیا میں اٹھارویں صدی میں آتشی اسلحہ نے ان کے خاتمے کے لیے ایک اہم کردار ادا کیا۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں انھیں شمالی افریقہ اور جنوب مغربی ایشیا سے ختم کر دیا گیا۔ انیسویں صدی کے شروع ہوتے ہی ترکی سے اپنا وجود کھو بیٹھے اور اسی دوران میں شمالی ہندوستان سے بھی وہ غائب ہو گئے، جبکہ ایرانی ایشیائی 1941ء میں(شیراز اور جہرم کے درمیان) دیکھا گیا، اگرچہ ببر شیرنی کا مردہ جسم کارون دریا کے کنارے 1944ء میں دیکھا گیا۔ اس کے بعد سے ایران میں موجودگی کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ اب یہ ذیلی نوع شمال مغربی بھارت میں گیر جنگلات تک محدود ہیں۔ تقریباً 500 1412 مربع کلومیٹر کے علاقے میں رہتے ہیں اور یہی جنگلات کا زیادہ تر رقبہ ہے۔ان کی تعداد 180 سے 523 تک بڑھی ہے جس کی وجہ ان کے قدرتی شکار کو دوبارہ منظر پر لانے میں کامیابی ہے۔

آبادی اور حفاظتی حالت

ببر شیر 
ایشیائی ببر شیر، جو کبھی بحیرہ روم سے برصغیر تک پھیلے ہوئے تھے آج صرف 500 سے کچھ زائد تعداد میں بھارتی گجرات کے گیر جنگلات تک محدود ہیں۔

آج افریقا کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں پائے جانے ببر شیروں کی آبادی بیسویں صدی کے وسط سے 50 فیصد کم ہو چکی ہے۔ 2002–2004 کے کیے گئے سروے میں وہاں ان کی تعداد 16500 سے 47000 کے قریب تھی جبکہ 1950ء میں ان کی آبادی ایک لاکھ سے چار لاکھ ہوا کرتی تھی۔ اس کمی کی بنیادی وجہ انسانی مداخلت اور بیماریاں ہیں۔ مسکن سے علیحدگی اور انسان سے سامنا ہونا ان کی کمی کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ہیں۔ باقی ماندہ انواع جغرافیائی طور سے الگ تھلگ ہیں جس کے سبب اختلاط نا ہونے سے جینیاتی تنوع کم ہوتی ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت نے اسے خطرے سے دوچار فہرست میں ڈالا ہے جبکہ ایشیائی ببر شیروں کو انھوں نے اس سے زیادہ خطرے والے زمرے میں رکھا ہے۔ مغربی افریقی اور وسطی افریقی نوع جغرافیائی طور پر الگ الگ ہیں جس کی وجہ سے ان میں انفرادی طور پر اختلاط کا امکان کم ہی رہتا ہے۔ مغربی افریقہ میں 2002ء-2004ء والے سروے میں ببر شیروں کی تعداد 850-1160 بتائی گئی۔ مغربی افریقی ببر شیروں کی الگ الگ سب سے بڑی آبادی کے معاملے پر اختلاف ہے ؛ برکینا فاسو ارلئ سنگو کے ماحولیاتی نظام میں ان کی تعداد 100 سے 400 بتائی جاتی ہے۔ ایک سروے شمالی مغربی افریقہ کے وازا نیشنل پارک کے بارے میں ان کی تعداد 14 تا 21 بتاتا ہے۔

ببر شیر 
شکار شدہ کالے یال والا ببر شیر، سوٹک پلین، مئی 1910 کینیا

دونوں افریقی اور ایشیائی ببر شیروں کی تحفظ کے لیے مزید بہتر اقدامات کی ضرورت ہے جن میں نیشنل پارکوں میں بہتری جیسی چیزیں شامل ہیں۔ ان بہترین محفوظ پناہ گاہوں میں نمیبیا کا ایٹوشا نیشنل پارک، تنزانیہ کا سرنگیٹی نیشنل پارک اور جنوبی افریقا کا کروگر نیشنل پارک مشہور ہیں۔ اسی طرح ایساو ببر شیروں کی بقا کے لیے سمبرو نیشنل ریسرو، بفیلو نیشنل ریسرو اور سہبا نیشنل ریسرو شمالی کینیا میں فعال ہیں۔ ان علاقوں کے علاوہ دیگر مقامات میں ببر شیروں اور انسانی آبادیوں میں سامنا ہونے کی اطلاعات ہیں جس سے ببر شیروں کی آبادی کو خطرات ہیں۔ بھارت میں ایشیائی ببر شیروں کی آخری پناہ گاہ گیر فارسٹ نیشنل پارک ہے جہاں 1974ء میں محض 180 تھے لیکن 2010ء میں یہ تعداد بڑھ کر 400 تک جا پہنچی۔ افریقا میں انسانی آبادی ببر شیروں کے علاقوں کے آس پاس ہی رہی ہیں لہذا انھیں جان و مال کا خطرہ ضرور رہتا ہے۔ ایشیائی ببر شیروں کو مدھیا پردیش کے کونو سینکیوری میں دوبارہ متعارف کروانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ اس منصوبہ کے لیے ضروری ہے کہ ان ببر شیروں کو دیگر انواع سے اختلاط نا دیا جائے تاکہ کہ ان کی الگ نسلی پہچان قائم رہے۔

بربری ببر شیروں کو ایام رفتہ میں چڑیا گھر والا جانور کہا جاتا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ چڑیا گھروں کے اکثر ان کی نسل میں سے تھے۔ کینٹ کے علاقے میں موجود برطانوی چڑیا گھر کے کبھی مراکشی سلطان کی تحویل میں ہوتے تھے۔ ادیس ابابا کی چڑیا گھر کے گیارہ بھی اسی نسل کے ہیں جو وہاں کے بادشاہ کی تحویل سے لیے گئے تھے۔ جامعہ آکسفورڈ ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہی ہے جس سے ان بربری ببر شیروں کی نسل بڑھا کر وہ دوبارہ ان کے قدرتی ماحول میں چھوڑ دیے جائیں گے یہ انھیں مراکش کی اٹلس پہاڑیوں میں چھوڑیں گے۔

ببر شیروں کی تعداد میں کمی کی دریافت کے بعد بہت ساری تنظیمیں انھیں بچانے کے لیے مشترکہ اور مربوط کام کر رہی ہیں۔ یہ نوع ان انواع میں شامل ہیں جنھیں سپیشیس سروائیول اینڈ ایکویریم کے منصوبہ بقاء کے لیے چنا گیا ہے۔ یہ منصوبہ 1982ء میں ایشیائی ببر شیروں کے لیے شروع کیا تھا لیکن اس میں اس وقت رکاوٹ آئی جب انھیں معلوم ہوا کہ امریکی چڑیا گھروں کے حقیقتا خالص ایشیائی نہیں ہیں بلکہ ان کی افریقی ببر شیروں سے اختلاط ہو چکی ہے۔افریقی ببر شیروں کے لیے یہ منصوبہ 1993ء میں شروع ہوا لیکن اس میں کئی مشکلات حائل ہیں جیسا کہ بہت سے ببر شیروں کی نسل میں خالصیت نہ ہونا ہے۔

تحویل میں

ببر شیر 
کلفٹن زولوجیکل گارڈن، انگلینڈ میں کے بچے، 1854

چڑیا گھروں میں ایک خاص مقام رکھنے والے جانوروں میں شامل ہیں جن میں ہاتھی، گینڈے اور دیگر گربہ کبری شامل ہیں لہذا چڑیا گھروں کی انتظامیاں انھیں اپنی چڑیا گھر میں رکھنے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر کے چڑیا گھروں میں 1000 کے قریب افریقی اور 100 کے قریب ایشیائی موجود ہیں ۔ انھیں ایک سفارتی نوع کے طور پر تعلیم، سیاحت اور حفاظت کے لیے رکھا جاتا ہے۔ تحویل میں موجود 20 سال تک جی لیتے ہیں ہوئی کے چڑیا گھر میں ایک نے 22 سال کی عمر میں 2007ء میں وفات پائی۔ 1986 میں پیدا ہونے والی اس کی بہنیں بھی 2007ء تک زندہ رہیں۔ ملاپ کرواتے وقت دیگر نوع کی جانوروں سے اجتناب برتنا چاہیے تاکہ انھیں ان کی اصل حالت میں برقرار رکھا جاسکے۔ بہرحال ایشیائی اور افریقی ببر شیروں کا ملاپ کیا جانا ایک مشاہدے کی بات ہے۔

قدیم مصر میں لیونٹوپولس اور تل بستہ شہر کے مندروں میں سے ایک مندر سخمت ببر شیرنی دیوتا اور باستت مندر کے بیٹے کے نام سے منسوب تھا، ماحس جو کا شہزادہ تھا کے مندر میں زندہ شیررکھے جاتے تھے جنھیں وہاں گھومنے کی آزادی تھی۔ یونانیوں نے بھی اس شہر کا تاریخی طور پر ذکر کیا ہے اور اسے دیار لکھا ہے۔ اشوریہ 850ق م میں بھی انھیں پالتے تھے اور سکندر اعظم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انھیں شمالی ہندستان کے راجا نے سدھائے ہوئے تحفے میں دئے تھے۔ اور رومی دور میں باشاہان انھیں پہلوانوں سے لڑائی یا لوگوں کو سزا دینے کے لیے رکھتے تھے۔ روم کے نامور بادشاہ جیسے پومپی اور جولیس سیزر نے ببر شیروں کے قتل عام کا حکم بھی صادر کیا تھا۔ مشرق میں ہندوستان کے لوگ ببر شیروں کو سدھاتے تھے جبکہ مارکو پولو کے مطابق قبلائی خان اپنے پاس انھیں رکھتا تھا۔ 13 سترہویں صدی میں یورپیوں کے ہاں سب سے پہلے نوابوں اور حکمرانوں کے لیے چڑیا گھر ہوتے تھے جنھیں سترہویں صدی میں سراگلیوس کہا جانے لگا۔ نشاۃ ثانیہ کے دور میں یہ چیز فرانس، اطالیہ اور پھر سارے یورپ میں پھیل گئی۔ اگرچہ انگلستان میں ایسی روایت سامنے نہیں آئی لیکن باداشاہ کنگ جوہن نے تیرہویں صدی میں اسے ٹاور آف لندن میں پال رکھا تھا، غالبا انگلستان میں رکھنا 1125ء میں ہنری اول نے شروع کیا تھا اور اس کے لیے جگہ آکسفرڈ کے مقام پر تھی۔

سرگیلو اس دور میں وہاں طاقت اور دولت کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔ اسی دور میں ان تماشوں میں بڑی بلیوں کو دیگر بڑے جانور جیسے ہاتھی اور گھریلو پالتو جانوروں وغیرہ سے جنگ کروائی جاتی تھی۔ ان نمائشوں کو انسان کا قدرت پر فتح کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ سنہ 1682ء میں ایک دفعہ "قدرت" کو ایک گائے کے ہاتھوں شکست ہوئی جس نے تماشائیوں کو حیران کر دیا۔ یہ رسم انیسویں صدی تک جاری رہی پھر اس کو برا سمجھا جانے لگا۔

ببر شیر 
البرت دورر 1520ء کی بنائی ایک تصویر

ٹور آف لندن میں موجود وہاں کے بادشاہ پالتے تھے یا انھیں یہ کسی کی جانب سے ہدیہ کیے جاتے تھے۔ ریکارڈ بتاتے ہیں کہ سترہویں صدی میں انھیں وہاں بری حالت میں رکھا جاتا تھا جبکہ فلورنس میں ان دنوں ان کے لیے زیادہ بہتری تھی۔ اٹھارویں صدی میں چڑیا گھر کی یہ ابتدائی قسم عام لوگوں کے لیے بھی کھول دی گئی اور اس میں داخل ہونے کا کرایہ 3 پینس رکھا گیا یا لوگ اس کے بدلے کتے یا بلی دیتے تھے جو چڑیا گھر والے کو کھلاتے۔ اسے اس وقت مینگری کہتے تھے اور انیسویں صدی میں اس کے مقابل ایک اور نمائش ایکشٹر اکسچین شروع ہوئی۔ ٹاور مینگری ولیم چہارم، مملکت متحدہ نے بند کردی اور اس کے ببر شیروں کو انھوں نے 27 اپریل 1828ء میں چڑیا گھر منتقل کر دیا۔

انیسویں صدی کے نوآبادیاتی دور میں جانوروں کی تجارت بھی شروع ہوئی۔ اس دور میں عام اور سستے شمار ہوتے تھے۔ البتہ شیروں کے مقابلے میں انھیں زیادہ بہتر چیز سے بدلا جا سکتا تھا اور بڑے ہونے کے باوجود سستے تھے اور دیگر بڑے جانور جیسے زرافے اور گینڈوں کے مقابلے انھیں سفر میں لے جانا آسان کام تھا۔ دوسرے جانوروں کی طرح انھیں بھی سامان تجارت سمجھ کر استعمال کیاجاتا رہا اور سفر میں ان سے بے رحمانہ سلوک کیا جاتا جن سے انھیں سخت نقصان پہنچتا۔ اس دور میں ان ببر شکاریوں کو بڑے بہادر کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ سیاح اور شکاری اس دور میں ایک فلسفہ مانویت کا پرچار کیا کرتے جس سے وہ جانوروں کو اچھے اور برے زمرے میں بانٹا کرتے اور اپنی مہم کی کہانیوں میں خود کو ایک ہیرو کی طرح پیش کرتے۔ اس طرح بڑی بلیاں آدم خور ہونے کے ناطے زیادہ نفرت کے نتائج کو بھگتی تھیں۔

ببر شیر 
میلبورن کے ایک چڑیا گھر میں موجود ببر شیر

ببر شیروں کو لندن کے چڑیا گھر میں 1870ء تک انتہائی بری حالت میں رکھا جاتا تھا لیکن اس کے بعد ان کے لیے الگ کمرے بنائے جانے لگے۔ پھر اس میں بہتری بیسویں صدی میں آنے لگی جب کارل ہجن بک نے پنجروں کی بجائے چڑیا گھروں میں قدرتی ماحول سے مماثلت رکھنے والے مسکن بنائے۔ نیز انھوں نے سڈنی اور میلبورن چڑیا گھروں میں بھی بیسویں صدی کے اوائل میں اسی طرح کی تبدیلی کی۔ ان کی پیش کی گئی تبدیلی 1960ی تک بہت سارے چڑیا گھروں میں موجود رہی۔ بعد کے عشروں میں چڑیا گھروں کی صورتیں بالکل بدل گئی اب یہ چڑیا گھر اصل قدرتی ماحول کے نہایت قریب ہو گئے ہیں نیز تماشائی بھی بنا کسی خطرے کے بڑے جانوروں کے بہت پاس جا سکتے ہیں جو پہلے کبھی ممکن نہ ہو سکا تھا۔۔اب ببر شیروں کے تحویلی جگہوں کو قدرتی رنگ دیا گیا ہے جہاں دھوپ ہوا، آرام اور سہولت اور ان کی ضروریات کا حد درجہ خیال رکھا جاتا ہے جہاں گھومنے کے لیے ایک وسیع جگہ مختص ہوتی ہے۔ اب ان ببر شیروں کو ذاتی طور پر رکھنا بھی ایک عام بات ہو چکی ہے اس حوالے سے ایک جوڑا جارج ایڈم سن اور ان کی اہلیہ جوئے ایڈمسن جن کی پالتو شیرنی ایلسا نے ان کے خاندانی فرد کی حیثیت لے لی تھی کافی مشہور ہوا۔ ان کی اہلیہ نے اس بارے میں کافی کتابیں اور فلمیں بنائی ہیں۔

کھیل(سرکس) اور سدھانا

ببر شیر 
19ویں صدی کا ایک شعبدہ باز ببر شیروں کے ساتھ کرتب دکھاتا ہوا

کا دیگر جانور مثلاً کتا وغیرہ کے ساتھ مقابلہ کروایا جاتا تھا۔ یہ خونی کھیل زمانہ قدیم سے ہی چلے آئے ہیں۔اس پر 1800ء میں ویانا اور 1835ء میں انگلستان میں مکمل قدغن لگائی گئی۔

ببر شیروں کو سدھانے سے مراد انھیں لطف طبع کے لیے سرکس یا انفرادی طور پر چیزیں سکھانا ہیں یورپ میں اس حوالے سے سیگفرائڈ اور روئے مشہور تھے۔ دیگر بڑی بلیوں جیسے چیتے، تیندوئے وغیرہ کے ساتھ بھی ایسا کیا جاتا ہے۔ یورپ میں اس کی ابتدا انیسویں صدی میں فرانسیسی شخص ہنری مارٹن اور امریکی آئزک وان امبرگ کے ہاتھوں ہوئی جو اس کام کے لیے کئی جگہوں کا دورہ کیا کرتے تھے۔ وان ایمبرگ نے انگلستان میں اپنے دورے پر 1838ء میں ملکہ برطانیہ کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ مارٹن نے اپنے سرکس کا نام لیس لائن ڈی میسور رکھا (شیر میسور) اسی سے امبرگ نے بھی اسی سے آئیڈیا لیا۔ ان سرکسوں میں سب سے خاص بات ان درندوں کی سواری تھی جو انسان کی حیوان پر فوقیت کو ظاہر کرتی تھی لیکن اس نے بیسویں صدی کے ابتدا میں سینیما کے ذریعے حقیقتا لوگوں کی توجہ کھینچ لی۔ سدھانے والے شخص کے کمال کی معراج یہ تھی کہ وہ اپنا سرکے منہ میں ڈال دیتا تھا۔ جنگلی جانوروں کو پکڑ کر سرکس کے لیے استعمال کیا جانا تقریباً ہر ملک میں ممنوع ہے اس کے باوجود آج بھی ایسے واقعات سامنے آمنے آتے ہیں جیسے جنوبی امریکی ممالک کولمبیا میں سنہ 2013ء اور پیرو میں سنہ 2011ء میں جنگلی جانوروں کے استعمال پر عائد پابندیوں کے نتیجے میں اپریل 2016ء میں سرکسوں سے بازیاب کروائے گئے ان میں ایک سرکس نے ببرشیر خود فراہم کیے تھے جبکہ دیگر چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران میں تحویل میں لیے گئے۔ جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی امریکی تنظیم اینیمل ڈیفنڈرز انٹرنیشنل (اے ڈی آئی) نے یہ اقدام اٹھایا تھا۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ تقریباً تمام شیر دانت اور پنجوں کے ناخن سے محروم ہیں۔ یہ شیر جنگل میں زیادہ عرصہ زندہ نہیں سکتے۔ 9 ببرشیروں کو کارگو طیارے کے ذریعے کولمبیا کے دار الحکومت بوگوٹا سے پیرو کے دار الحکومت لیما پہنچایا گیا جہاں سے مزید 24 شیروں کو لے کر جوہانسبرگ پہنچایا گیا ہے۔ یہ 31 ببرشیر جنوبی افریقا پہنچ گئے ہیں جہاں انھیں ایمویا بگ کیٹ سینچوری میں منتقل کیا جائے گا۔ جو 5000 ہیکٹر پر پھیلی ہوئی نجی زمین پر واقع ایک محفوظ پناہ گاہ ہے اور وہاں پہلے سے بازیاب کروائے گئے چھ دیگر ببرشیر اور دو چیتے رہ رہے ہیں، جہاں انھیں سہولیات میسر ہوں گی۔

انسانوں سے تعلق

اگرچہ اب تک انسان سے تعلق کے صلے میں نے اپنے علاقے سے منتقلی یا فقظ اکثر اپنی جان ہی گنوائی ہے۔ لیکن ایک واقعہ جو 9 جون، 2005ء کو پیش آیا ذرا مختلف زاویہ رکھتا ہے ہوا یوں کہ ایتھوپیامیں ایک 12 سالہ بچی کو تین ببر شیروں نے بنا کوئی نقصان پہنچائے اس کی مدد اور حفاظت کی۔ یہ واقعہ جو مقامی پولیس افسر نے بتایا اسے بعد میں وہاں کے اعلیٰ سرکاری اہلکار نے بھی بیان کیا۔ اس خبر کے مطابق اس بچی (جس کا نام معلوم نہ ہوا) کو تین لڑکے اغوا کر کے جنگل لے گئے تھے جس کی وجہ اس بچی کو شادی پر رضامند کرنا تھا (ایسی رسم ایتھوپیا میں موجود ہے) لیکن بچی اس پر رضامند نہ تھی پھر کہا جاتا ہے کہ تین ببر شیروں نے ان اغواکاروں کو وہاں سے بھگا دیا اور حکام کے اس بچی تک پہنچنے تک اس بچی کی حفاظت کی۔ اہلکاروں نے اس بچی کو ادیس ابابا سے 350 کلومیٹر دور بیٹا گینٹ کے علاقے میں پایا۔یہ بات نامعلوم ہے کہ کیوں ببر شیروں نے ایسا کیا کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ شاید بچی کی چیخیں ببر شیروں کے بچوں کی آواز سے مماثلت رکھتی تھیں جس کے سبب انھوں نے مدد کی۔ بہرحال یہ واقعی جنگلی حیات کے ماہرین کے نزدیک ایک متنازع فیہ ہے۔

ثقافتی اہمیت

ہزاروں سال سے یورپ، ایشیا اور افریقا میں مستعمل انسانی ثقافتوں میں ایک معروف ترین نشان کے طور پر ابھرا ہے۔ باوجود کی آدم خوری کے چرچے عام ہونے کے اس کے متعلق انسانوں میں مثبت تاثر بھی اس کی طاقت اور بہادری کے حوالے سے موجود ہے۔ اسے عام طور پر "جنگل کا بادشاہ" یا "درندوں کا سردار" کہا جاتا ہے پس اس کی وجہ شہرت بہادری، وقار اور شاہانہ انداز کے حوالے سے قائم و دائم ہے۔ قدیم یونانی لکھاری ایسپ نے چھٹی صدی ق م میں بھی اس سے متعلق کہانیاں لکھی ہیں۔

کی تصاویر بالائی پیلیولیتھک دور سے نظر آ رہی ہیں۔ انسانی دھڑ کے ساتھ کے سر کی ایک نہایت قدیم تصویر جرمنی کے ایک غار میں ملی ہے جو ملک کے جنوب مغربی علاقے سوبین الب میں موجود ہے۔ اوریگناشئین ثقافتوں سے ملنے والے مجسمے 32 ہزار سال قدیمی ہیں لیکن اس کے متعلق امکان ہے کہ یہ 40 ہزار سال پرانے ہو سکتے ہیں۔ یہ مجسمہ انسانی خصوصیات کو اس نوع کے ساتھ مشترک دیکھاتا ہے جو کسی دیوتا کی بھی ہو سکتی ہے۔ 15 ہزار سال قبل دور کے ایک غار کی دیواروں پر ببر شیروں کو جنسی اختلاط کرتے دیکھا یا گیا ہے۔ 1994ء میں ایک غار کاویٹ سے ایسی 32 ہزار سال پرانی دیوار پر کندہ تصاویر دیکھی گئی ہیں۔۔

ببر شیر 
دارا اول (550–330 ق م) کے محل میں موجود تصویر

افریقا میں مختلف خطوں کے لوگوں میں کے متعلق خیالات مختلف ہیں۔ کچھ ثقافتوں میں ببر شیروں کو طاقت اور بادشاہت کی نشانی سمجھا جاتا ہے اور وہاں کے حکمرانوں کے عرفیت میں کا نام داخل ہوتا ہے۔ مثلاً سلطنت مالی کے ایک حکمران کو شیر مالی کانام دیا گیا۔ نجے جس نے مملکت وآلو (1287–1855) کی بنیاد رکھی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انھیں ببرشیروں نے تعلیم دی تھی اور وہ جب اپنے لوگوں میں لوٹے تو اس تعلیم سے انھوں نے لوگوں کو متحد کیا۔ مغربی افریقی سماج میں کو بڑی اہمیت حاصل ہے وہاں کے لوگ اپنا شجرہ نسب جانوروں سے جوڑتے ہیں جن میں سب سے اوپر کو رکھا جاتا ہے۔ مغربی و مشرقی افریقی علاقوں کے بعض حصوں میں کو ایک روحانی طاقت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس سے صحت یاب ہونے کا عمل جوڑا جاتا ہے۔ جبکہ مشرقی حصوں کے بعض ثقافتوں میں کو سُستی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اور بہت سی لوک کہانیوں میں اسے ایک ایسے جانور کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جسے دیگر جانور چکمہ دے جاتے ہیں۔

قدیم مصر میں ببر شیرنی ان کی جنگی دیوی شمار ہوتی تھی اور ان دیویوں میں باستت، مافدت، منهیت، پکهت، سخمت، تفنوت اور ابوالہول شامل تھیں۔ نیمیائی قدیم روم و یونان میں علوم فلکیات کی علامت تھی زوڈیک (آسمان کا ایک خطہ) کی علامت بھی تھی اور دیومالائی داستانوں میں ہرو ہیراکلیس اس کی کھال اٹھائے رکھتا تھا۔

قدیم بین النہرین میں (نیز سمیری اور بابل تک) ببر کو بادشاہت کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ قدیم بابلی موٹف کو بابل کے گلی کوچے کی دیواروں پر بنایا جاتا تھا اسے وہاں کا چالاک چال ڈھال والا ببر شیرکہا جاتا ہے۔ اسی میں ہی دانیال علیہ السلام کو ببر شیروں کے زندان میں ڈالا گیا تھا۔

ببر شیر 
نادہ بھارت میں موجود کھنڈر میں ایک کا مجسمہ یہ کھنڈر عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہیں
ببر شیر 
حضرت دانیال کو ببر شیروں کے زندان میں ڈالے جانے والاقصہ انجیل کا ایک باب ہے

عرب علاقوں میں بھی کو ثقافتی طور پر بہادری کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور پرانے زمانوں میں اس کے شکاری کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا نیز وہ اپنے بہادر پہلوانوں کو شیر کے ناموں کے القاب دیا کرتے جیسے خلیفہ چہارم علی بن ابی طالب کو اسد اللہ یعنی شیرِِ خدا کے نام کی وجہ سے جانا جاتا جس کی وجہ جنگوں میں ان کی بہادری تھی۔ علامہ دمیری جو اپنے دور کے ایک عرب ماہر حیوانات تھے نے ایک کتاب حیاۃ الحیوان لکھی جس میں کئی جانوروں کے عادات خصائل اور ان کے طبی فوائد لکھے ہیں اس میں انھوں نے کے متعلق لکھا ہے کہ عربی میں کے لیے 6 سو کے قریب نام ہیں نیز انھوں نے ایک غلط لیکن عجیب بات لکھی ہے کہ اپنی نسل منہ سے گوشت کا لوتھڑا باہر زمین پر پھینکتا ہے جس سے وہ لوتھڑا ایک نئے کے بچے میں بدل جاتا ہے اس کے ساتھ ہی انھوں نے کے گوشت و خون کے طبی فوائد بتائے ہیں۔ تلمود کی کتاب کولین میں ایک پادری جیشوا بن ہانیا کا لکھا ہے جس نے شہنشاہ ہڈرین کو ایک ایسے دیوہیکل کا بتا یا جس کے دونوں کانوں کے درمیان میں موجود فاصلہ 9 کیوبٹ (تقریباً 18 فٹ) تھا۔ کہتے ہیں کہ بادشاہ نے پادری سے اسے بلانے کا کہا۔ پادری نے کئی حیلوں کے بعد رضامندی ظاہر کی۔ روم سے 400 گز کے فاصلے پر جب یہ دھاڑا تو کہتے ہیں کہ وہاں کی تمام حاملہ خواتین اپنے حمل گرا بیٹھیں نیز روم کی دیواریں گر گئیں۔ جب یہ 300 گز کے فاصلے سے دھاڑا تو رومی مردوں کے اگلے دانت گر گئے اور بادشاہ سلامت بھی اپنے تخت سے گر گئے۔ اب اس نے پادری سے التجا کی کہ وہ اسے دوبارہ لوٹا دے پادری نے دعا کی اور وہ واپس لوٹ گیا۔

ہندو مت کی کتاب پُران میں ایک مخلوق ناراسمہا کا ذکر ہے جو آدھا انسان اور آدھا ہے جو وشنو کے اوتار میں سے ہے اسے ان کے مرید لائق عبادت خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے ایک مرید پراہلا ڈا کو ان کے جابر والد سے بچایا تھا جو ایک شیطانی بادشاہ ہرنیاکشیہو تھا۔ لفظ سنگھ ایک قدیم مستعمل ویدک سنسکرت نام ہے جس کے معانی ببرشیر کے ہیں اس کا استعمال 2000 سال پرانا ہے۔ یہ لفظ ہندو راجپوت عسکری قبیلے استعمال کیا کرتے تھے۔ 1699ء میں جب سکھ مت کا آغاز ہوا تو سکھوں نے اپنے روحانی پیشوا گرو گوبند سنگھ کی فرمائش پر اسے اپنا لیا۔ بہت سارے ہندو راجپوتوں کے ساتھ ساتھ آج دنیا بھر میں دو کروڑ سکھ لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے کئی ممالک بشمول ایشیا یورپی ممالک کے قومی نشان میں شامل ہیں۔ بھارت کا قومی نشان بھی ہے۔ ہندوستان کے مزید جنوب میں جانے پر وہاں کی اکثریتی سنہالی آبادی جو سری لنکا میں غالب اکثریت میں ہیں کا نشان بھی ہے۔ لفظ سنہالی کے معنی ہی والے لوگ ہیں "یا وہ لوگ جن کی رگوں میں کا خون ہے " نیز سری لنکا کے جھنڈے میں ایک تلوار ہاتھوں میں اٹھائے کی تصویر موجود ہے۔،

ایشیائی کا نشان چینی فنون میں ایک عام چیز ہے۔ وہاں فنوں میں یہ علامت پانچویں یا چھٹی صدی ق م میں استعمال ہونا شروع ہوئی لیکن اس نے شہرت اس وقت حاصل کی جب ہان حکمرانوں نے اپنے محلات کے دروازوں پر ببر شیروں کے مجسموں کو حفاظت کے لیے نصب کرنا شروع کیا۔ چونکہ چین میں قدرتی طور پر کبھی نہیں پائے گئے اس لیے اس دور میں بنائے جانے والے کسی حد تک غیر حقیقی تھے لیکن بعد میں جب بدھ مت کے فنون نے چین کا رخ کیا تو تقریباً چھٹی صدی میں ان روایات میں تبدیلی آئی۔ والا رقص چینی ثقافت کا ایک اہم جز ہے جس میں ناچنے والا کا بھیس بدلتا ہے اور ڈھول شور پر رقص کیا کرتا ہے۔ یہ رقص خاص کر نئے چینی سال پر کیے جاتے ہیں۔

ببر شیر 
ایک چینی محافظ مندر کے دروازے پر، بیجنگ

جزیرہ ملک سنگا پور کا نام دو مالے زبان کے حروف سنگا (ببر شیر) اور پورا (شہر یا قلعہ) سے نکلا ہے جو تمل -سنسکرت சிங்க سنگا पुर புர پورا سے بنے ہیں نیز اس لفظ کے یونانی لفظ πόλις، پولیس کی ابتدا ایک ہی ہے۔ مالے کے مورخین کے مطابق یہ نام چودہویں صدی کے سماٹرا کے شہزادے نے اس جزیرے کو دیے تھے جنھوں نے طوفان کے بعد اس علاقے میں ساحل پر ایک مخلوق کو دیکھا تھا جو شاید تھا۔

مصر، سوڈان اور ارتریا میں بسنے والے بدو قبیلے ہڈنڈوا لوگوں کے نام میں بھی کا نام ضرور شامل ہوتا ہے۔

ببر شیر 
ایک میوزیم کے باہر کا مجسمہ

بہت سارے قرون وسطی کے جنگجوں کی عرفیت میں شامل تھی جیسے رچرڈ اول شیر دل، ہنری دا لائن، ولیم دی لائین اور ہندوستان کے میسور کے حکمران سلطان ٹیپو جنہیں شیر میسور کہتے ہیں۔ ببر شیروں کو قومی علامات میں بے حد شامل کیا جاتا ہے جبکہ ببر شیرنی کی علامتوں کا استعال مختلف نظر آتا ہے۔ ببر شیروں کے نشان کو کھیلوں کی ٹیموں کو سپورٹ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، ان ٹیموں میں انگلستان، اسکاٹ لینڈ اور سنگاپور کی مشہور کلبیں شامل ہیں ان میں انگلش پریمیر لیگ کی چیلسی اور اسٹون ویلا معروف ہیں۔ of

آج کے ادب میں بھی موجود ہے ان میں مشہور کتابیں اسلان ان دی لائن، دی وچ اینڈ دی وارڈروب اور یہ سلسلہ وار کتابیں جیسے دی کرونیکل آد نارنیا جو سی ایس نارنیا نے لکھی ہیں شامل ہیں، نیز مزاحیہ ادب میں کورڈلی لائن ان دی ونڈر فل وزرڈ آف اوز جیسی کتابیں مشہور ہیں۔ متحرک فلموں میں بھی نے اپنی حیثیت منوائی ہے ان میں سب سے مشہور لیو دی لائن ہیں جس نے ایم جی ایم میں 1920ء سے اپنی موجود گی برقرار رکھی ہوئی ہے۔ 1960 میں کینیائی ببر شیرنی نیلسا، بورن فری نامی فلم میں نمودار ہوئی غالبا وہ اب تک ہونے والی سب سے مشہور نی ہے یہ فلم ایک حقیقی زندگی کے گرد گھومتی ہے اور یہ کہانی جس کتاب سے لی گئی اس کا عنوان بھی اسی فلم کا نام ہے۔ کارٹونوں میں کو بطور درندوں کے سردار کے طور پر پیش کیا جانا پرانی بات ہے، جاپان کی سب سے پہلا کارٹون ٹی وی پروگرام جو 1950ء میں شروع ہوا کا نام کمبا ویتھ دی وائٹ لائین ہے دیگر مشہور کارٹون میں کنگ لینارڈو اینڈ ہز شورٹ سبجیکٹ (1960ء) اور ڈزنی کی 1994ء میں بننے والی دا لائن کنگ جس میں مشہور گیت دی لائن سلیپ ٹو نائٹ بھی شامل ہے پر مشتمل ہے۔ جنوبی افریقی رانڈ کے 50 والے نوٹ پر کی تصویر موجود ہے۔

ببر شیر 
والی میسور ٹیپو سلطان اپنے والے تخت پر

اہم علامات میں

مزید دیکھیے

  • شیر بمقابلہ ببر شیر

حوالہ جات

حوالہ جاتی تحریر

بیرونی روابط

سانچہ:ویکی انواع

(مراجع)

(مراجع)

Tags:

ببر شیر وجہ تسمیہببر شیر سائنسی درجہ بندی اور ارتقاببر شیر خصوصیاتببر شیر برتاؤببر شیر پھیلاؤ اور مسکنببر شیر آبادی اور حفاظتی حالتببر شیر ثقافتی اہمیتببر شیر اہم علامات میںببر شیر مزید دیکھیےببر شیر حوالہ جاتببر شیر بیرونی روابطببر شیر

🔥 Trending searches on Wiki اردو:

محمد تقی عثمانیفلسطینحرفبیلسٹک میزائلابوبکر صدیقذو القرنینتہران میں اہل سنت کی مساجدسربجیت سنگھسب رسعاصم منیریمنفتح اندلسلی گرینڈ، آئیوواخالد بن ولیدلنڈ (بلوچ قبیلہ)یاجوج اور ماجوجقیامتتاریخ پاکستانعلم بدیعاشعریقافیہاورنگزیب عالمگیراسپغولبکرمی تقویمخلافتجعفر صادقسوکنجوہری طاقتیںمشت زنی اور اسلاممڈل سیکس کاؤنٹی کرکٹ کلبایران میں سنیت سے شیعت کی صفوی تبدیلیملکہ سباچوسرداستان گوئیآئین ہندعبد القادر جیلانیروزہ (اسلام)غزوہ موتہیہوداسلام اور یہودیتدریائے نیلدہنی جماعلغوی معنیپنجاب کی زمینی پیمائشمحمد رضا زاہدیارطغرلحجامہبناوٹ کے لحاظ سے فعل کی اقسامچینتاریخقیامت کی علاماتنوح (اسلام)زینب بنت محمددبری جماعایشیائی ممالک کی فہرست بلحاظ رقبہایشیاجنگ عظیم سوممیزائلاردوروساذانبارشعلی گڑھ تحریکغزوہ خیبرمحمد بن ادریس شافعیصدور پاکستان کی فہرستانسانی حقوقعلم عروضکاؤنٹی چیمپئن شپ 2024ءپہلی جنگ عظیم کی وجوہاتزمینراجپوتمال غنیمتحدیث ثقلینہندوستان میں مسلم حکمرانیفہرست پاکستانی میزائلیوم آزادی پاکستانلکھنؤ🡆 More