جذام جس کو عام زبان میں کوڑھ بھی کہا جاتا ہے ایک متعدی یا چھوت کا یا ایک سے دوسرے کو لگنے والا مرض (infectious disease) ہے جو ایک جراثیم، جس کو مائیکوبیکٹیریم جذام (Mycobacterium leprae) کہتے ہیں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ کوڑھ کے مرض میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے‘ جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے۔کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے‘ کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں‘ ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں۔ جذام کا جراثیم عدوی پیدا کرکے جاندار کے جسم کی جلد، چہرے اور دیگر حصوں پر بدنمائی اور خراب شکلی کا موجب بنتا ہے جو جذام کا انسانی ذھن پر سب سے زیادہ خوف پیدا کرنے والا پہلو ہے۔ جذام کا موجب بننے والے جراثیم کا انکشاف سب سے پہلے Gerhard Armauer Hansen نے کیا اور اسی کی مناسبت سے جذام کو ہانسین بیماری بھی کہا جاتا ہے۔
لاتعلقیت: اس مضمون میں مرض سے متعلق معلومات اور ادویات کی وضاحت صرف علمی معلومات مہیا کرنے کی خاطر دی گئی ہیں انکا مقصد نا تو علاج میں کسی قسم کی مداخلت کرنا ہے اور نا ہی معاونت کرنا یا کوئی مشورہ فراھم کرنا، یہ کام اس طبیب کا ہے جسکے زیر اثر مریض ہو۔ کسی طبیب کے مشورے کے بغیر ادویات کا استعمال یا خود علاج کی کوشش شدید نقصان کا باعث ہوسکتی ہے۔ مزید یہ کہ طب ایک تیزرفتاری سے تبدیل ہوتے رہنے والا شعبۂ علم ہے اور اس صفحہ کی معلومات مستقبل میں ہونے والی تحقیق کی وجہ سے تبدیل ہوسکتی ہیں، انہیں مستقل تادمِ تاریخ کرتے رہنے کی ضرورت ہوگی۔ |
1950-60 کی دہائ میں پاکستان خاص کر کراچی میں جذام یا کوڑھ کا مرض پھیلنا شروع ہو گیا تھا۔یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا۔ مذہبی طبقے نے بھی اسے اللہ کا عذاب قرار دے دیا۔چنانچہ جس انسان کو کوڑھ کا مرض لاحق ہو جاتا ، اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا ۔۔اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔ پاکستان میں 1960ء تک ہزاروں لوگ اس موذی مرض میں مبتلا ہو چکے تھے۔یہ مرض تیزی سے پھیل رہا تھا۔ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں‘ یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں‘ لوگ آنکھ‘ منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے‘ لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے۔ملک کے تقریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے بن چکے تھے‘ پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا ،چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے‘ سسک سسک کر آہستہ آہستہ جان دے دے یا پھر خود کشی کر لے ان حالات میں ڈاکٹر روتھ فاؤ کو ایک ٹی وی پروگرام کے ذریعے اس بھیانک بیماری کا پتہ چلا تو انھوں نے انتہائ عجیب اور مشکل فیصلہ کر ڈالا جی ہاں تیس سال کی انتہائی جاذب نظر اور توانائی سے بھر پور خاتون نے یورپ کی پرسکون اور پر آسائش زندگی کو چھوڑ کر پاکستان کا رخ کر لیا۔۔ زندگی کی خوبصورتیاں ، رعنائیوں او آسائشوں کو ٹھوکر مار کر ایک جدوجہد والی زندگی کا انتخاب کرنا ایک بہت بڑا فیصلہ تھا۔۔ لیکن روتھ فاؤ نے تن تنہا اس فیصلے پر عمل درآمد کیا اور پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خلاف جہاد شروع کر دیا۔۔ اس کے بعد وہ مستقل طور پر واپس اپنے وطن نہیں گئیں‘ انھوں نے پاکستان کے کوڑھیوں کے لیے اپنا ملک‘ اپنی جوانی‘ اپنا خاندان اور اپنی زندگی قربان کر دی۔انھوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا۔کوڑھ کے مریضوں اور ان کے لواحقین نے اس فرشتہ صفت خاتون کو حیرت سے دیکھا کیونکہ اس وقت تک کوڑھ کو عذاب سمجھا جاتا تھا‘ لوگوں کا خیال تھا یہ گناہوں اور جرائم کی سزا ہے۔ یہ عظیم خاتون اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتی تھی اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھی۔جن کو ان کے سگے بھی چھوڑ گئے تھے۔ان کا جذبہ نیک اور نیت صاف تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ میں شفا دے دی۔وہ مریضوں کا علاج کرتیں اور کوڑھیوں کا کوڑھ ختم ہو جاتا۔اس دوران ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انھیں جوائن کر لیا‘ ان دونوں نے کراچی میں 1963ء میں میری لپریسی سینٹر بنایا اور مریضوں کی خدمت شروع کردی۔ان دونوں نے پاکستانی ڈاکٹروں‘ سوشل ورکرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ٹریننگ کا آغاز بھی کر دیا۔یوں یہ سینٹر 1965ء تک ہسپتال کی شکل اختیار کر گیا‘انھوں نے جزام کے خلاف آگاہی کے لیے سوشل ایکشن پروگرام شروع کیا،ڈاکٹر کے دوستوں نے چندہ دیا لیکن اس کے باوجود ستر لاکھ روپے کم ہو گئے،وہ واپس جرمنی گئیں اور جھولی پھیلا کر کھڑی ہو گئیں۔جرمنی کے شہریوں نے ستر لاکھ روپے دے دیے اور یوں پاکستان میں جزام کے خلاف انقلاب آ گیا۔وہ پاکستان میں جزام کے سینٹر بناتی چلی گئیں یہاں تک کہ ان سینٹر کی تعداد 156 تک پہنچ گئی‘ ڈاکٹر نے اس دوران 60 ہزار سے زائد مریضوں کو زندگی دی۔یہ لوگ نہ صرف کوڑھ کے مرض سے صحت یاب ہو گئے بلکہ یہ لوگ عام انسانوں کی طرح زندگی بھی گزارنے لگے۔ ان کی کوششوں سے سندھ‘ پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے جزام ختم ہو گیا اور عالمی ادارہ صحت نے 1996ء میں پاکستان کو ’’لپریسی کنٹرولڈ‘‘ ملک قرار دے دیا۔ حکومت نے 1988ء میں ان کو پاکستان کی شہریت دے دی۔انھیں ہلال پاکستان‘ ستارہ قائد اعظم‘ ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور نشان قائد اعظم سے بھی نوازا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے انھیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔جرمنی کی حکومت نے بھی انھیں آرڈر آف میرٹ سے نوازا۔
ویکی ذخائر پر جذام سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
This article uses material from the Wikipedia اردو article جذام, which is released under the Creative Commons Attribution-ShareAlike 3.0 license ("CC BY-SA 3.0"); additional terms may apply (view authors). تمام مواد CC BY-SA 4.0 کے تحت میسر ہے، جب تک اس کی مخالفت مذکور نہ ہو۔ Images, videos and audio are available under their respective licenses.
®Wikipedia is a registered trademark of the Wiki Foundation, Inc. Wiki اردو (DUHOCTRUNGQUOC.VN) is an independent company and has no affiliation with Wiki Foundation.